New Age Islam
Fri Oct 11 2024, 11:28 PM

Urdu Section ( 27 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Place Of Martyrdom In Islam اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کا مقام


کوئی بھی مسلمان شہادت کی اہمیت و حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا لیکن طالبان کی نگاہ میں شہادت خوکش حملوں کی ہم رتبہ ہے جبکہ حقیقت میں خود کش حملہ یا خودکشی اسلام میں ممنوع اور کفر ہے۔ خودکش حملے ایک سیاسی ہتھیار ہیں جس کا استعمال طا لبان ، القاعدہ اور بوکو حرام جیسی دہشت گرد تنظیمیں اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے کرتی ہیں۔ اور اس کے لئے انہیں   غریب اور بے گھر کنبوں سے تعلق رکھنے والے معصوم اور کم فہم نوجوانوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کو وہ انسانی بم کی حیثیت  سے مسلمان حکومتوں کے خلاف استعمال کر سکیں اور انہیں بلیک میل کر سکیں۔ لہذا، یہ مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح جہادی تنظیمیں بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کو یہ باور کراتی ہیں کہ خدا کی راہ میں نیک مقصد کے لئے شہادت حاصل کرنا اور خود کش دھماکے کرکے خو د کوہلاک کرلینا ایک جیسا عمل ہے اور جو ثواب خدا کی راہ میں نیک مقصد کے لئے شہید ہونے کا ہے  وہی خود کش حملوں میں ہلاک ہونے کا ہے۔ یہ مضمون ظاہر کرتا ہے کہ کہ وہ کس طرح اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لئے قرآن اور حدیث کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:

‘‘اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ، اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ’’(البقرہ: 42)

مگر افسوس کا مقام ہے کہ وہ یہی کررہے ہیں۔ انہوں نے خود کش دھماکوں کو جواز دینے کے لئے ایک نئی اصطلاح ‘استتشہادہ’ وضع کی ہے جبکہ کسی حرام چیز کا نام بدل دینے سے وہ حلال نییں ہو جا تی۔

ہم ذیل میں طالبان کے ترجمان رسالے نوائے افغان جہاد شمارہ مئی میں شائع شدہ مضمون بعنوان‘ اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کا مقام’ پیش کررہے ہیں جس میں مضمون نگار نے شہادت کے لئے  اللہ کی طرف سے انعاما ت کی تفصیل پیش کی ہے اور  بڑی چالاکی سے  خود کش دھماکوں  یا خودکشی کو شہادت  سے جوڑنے کی کوشش کی ہے کیونکہ طالبان کی نظر میں  خودکشی اور  نیک مقصد کے لئے اللہ کی راہ میں مارے جانے کے درمیان کوئی فر ق نہیں ہے جبکہ معصوم نوجوانوں کا  خود کو دھماکوں میں اڑالینا اور اپنے ساتھ معصوم  مسلمانوں اور غیر مسلموں  کو ہلاک کردینا  کفر ہے۔۔۔ نیو ایج اسلام ایڈٹ  ڈیسک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

مئی ، 2013

الحمد اللہ رب العالمین و العاقبۃ للمتقین، و لا عدوان الا علی الظالمین ، و الصلٰوۃ و السلام علیٰ سیّد الأ نبیاء و المر سلین و خاتم النبین محمد و علیٰ الٰہ و صحبہ و تابعیھم أ جمعین ، اما بعد!

حضرات ! اسلام میں شہادت فی سبیل اللہ کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا ۔ اسلام کےمثالی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان شہد ا کی جاں نثاری و جانبازی کا فیض تھا جنہوں نے اللہ رب العزت کی خوشنودی او رکلمۂ اسلام کی سر بندی کے لیے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کو سیراب کیا۔ شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدۂ عالم پر ثبت رہتا ہے ، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھند لا سکتا ، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دنیا تک  قائم و دائم رہتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں شہادت اور شہید کے اس قدر فضائل بیان ہوئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور شک و شبہ کی ادنیٰ گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّ اللّہ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسہمْ وَأَمْوَالہم بِأَنَّ لہمُ الْجَنّۃ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللّہِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَوَعْدًا عَلَيہِ حَقًّا فِي التَّوْرَاة وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَی بِعَہدِه مِنَ اللّہِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِہ وَذَٰلِكَ ھوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبۃ : 111)

‘‘ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی، وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑتے  ہیں ، جس میں قتل کرتےہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، اس پر سچّا وعدہ کیا گیا ہے تو رات میں اور انجیل میں اور قرآن میں ، اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد  کو کون پورا کرنے والا ہے؟ تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کامعاملہ تم نے ٹھہرایا ہے، خوشی مناؤ، اور یہ  ہی بڑی کامیابی ہے’’۔

سبحان اللہ ! شہادت اور جہاد کی اس سے بہتر ترغیب ہوسکتی ہے؟ اللہ رَ بّ العزت خود بنفس نفیس بندوں کی جان مال کا خریدار ہے، جن کا وہ خود مالک و رزّاق ہے، اور اس کی قیمت کتنی اونچی اور کتنی گراں رکھی گئی؟ جنت ! پھر فرمایا گیا کہ یہ سودا کچا نہیں کہ اس میں فسخ کااحتمال ہو، بلکہ اتنا پکا اور قطعی ہے کہ تورات و انجیل اور قرآن ، تمام آسمانی صحیفوں اور خدائی دستاویزوں میں یہ عہد و پیمان درج ہے، اور اس پر تمام انبیاء و رُسل اور ان کی عظیم الشان اُمتوں  کی گواہی ثبت ہے، پھر اس مضمون کو مزید پختہ کرنے کے لیے کہ خدائی وعدوں میں وعدہ خلافی کا کوئی احتمال نہیں ، فرمایا گیا ہے، : وَ مَن ْ اَوْفٰی بِعَھَدِ ہِ مِنَ اللہ یعنی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اپنے وعدہ او رعہد و پیمان کی لاج رکھنے والا کون ہوسکتا ہے؟ کیا مخلوق میں کوئی ایسا ہے، جو خالق کے ایفا ئے عہد کی ریس کرسکتے؟ نہیں! مرتبہ شہادت کی بلندی اور شہید کی فضیلت ومنقبت کے سلسلے میں قرآن مجید کی یہی ایک آیت کافی و افی ہے۔ امام طبری رحمۃ اللہ علیہ ، عبد بن حمید اور ابنِ ابی حاتم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے مسجد میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ایک انصار ی صحابی بول اُٹھے: ‘‘ واہ  واہ! کیسی عمدہ بیع اور کیسا سودمند سودا ہے ، وا للہ ! ہم اسےکبھی فسخ نہیں کریں گے ، نہ فتح ہونے دیں گے ’’ ۔ نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَن يُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَيھم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشّھَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا ( النساء :69)

‘‘ اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کےساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نےانعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء اور صدیقین  اور شہد ا اور صلحا اور یہ حضرات بہت  اچھے رفیق ہیں’’ ۔

اس آیت کریمہ میں راہِ خدا کے جاں باز شہیدوں کو انبیا ء و صدیقین کے بعد تیسرا مرتبہ عطا کیا گیا ہے، نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللّہِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ( البقرۃ، 154)

‘‘ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کردیے جائیں ان کو مردہ مت کہو ،بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم کو احساس نہیں ’’۔

نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّہ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبّھمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاھُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِھم مِّنْ خَلْفھمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيھمْ وَلَا ھمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّہَ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّہَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ ( آل عمران : 169)

‘‘ او رجو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دیے گئے ان کو مردہ مت خیال کرو، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، اپنے پروردگار کے مقّرب ہیں، ان کو رزق بھی ملتا ہے ، وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عطا فرمائی اور جو لوگ ان کے پاس پہنچے ، ان سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کی بھی اس حالت پر خوش ہوتے ہیں کہ ان پر کسی طرح  کا خوف واقع ہونے والا نہیں  ، نہ وہ مغموم ہوں گے، وہ خوش ہوتے ہیں، بوجہ نعمت  وفضلِ خداوندی  کے اور بوجہ اس کے  کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا اجر ضائع نہیں فرماتے’’۔

ان دونوں آیتوں میں اعلان فرمایا گیا کہ شہدا کی موت کو عام مسلمانوں کی سی موت سمجھنا غلط ہے،شہید  مرتے نہیں بلکہ مر کر جیتے ہیں، شہادت کے بعد انہیں ایک خاص نوعیت کی بر زخی حیات سے مشرف کیا جاتا ہے:

کشتگان خنجر تسلیم را

ہر زماں از غیب  جانے دیگر است

یہ شہید انِ راہ ِ خدا ، بار گاہِ الٰہی  میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں اور اس کے صلے میں حق جل شانہ کی طرف سےان کی عزت و تکریم اور قدر ومنزلت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ ان کی رُوحوں کو سبز پرندوں کی شکل میں سواریاں عطا کی جاتی ہیں، عرشِ الہٰی سےمعلق قندیلیں  ان کی قرار گاہ پاتی ہیں اور انہیں  اِذنِ عام ہوتا ہے کہ جنت میں  جہاں چاہیں جائیں، جہاں چاہیں  سیر و تفریح کریں اور جنت کی جس نعمت سے چاہیں  لطف اندوز ہوں۔ شہید  اور شہادت کی فضیلت  میں بڑی  کثرت سے احادیث وار  د ہوئی ہیں، اس سمندر کے چند قطرے یہاں پیش خدمت ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی  اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

‘‘ اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ میری اُمت کو مشقت لا حق ہوگی تو میں کسی مجاہد دستے سے پیچھے نہ رہتا ، اور میری دلی آرزو یہ ہے کہ میں راہِ خدا میں قتل کیا جاؤں  پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں ’’ ۔ ( صحیح بخاری)

غور فرمائیے! نبوت اور پھر ختم ِ نبوّت وہ بلند و بالا  منصب ہے کہ عقل و فہم اور وہم و خیال کی پرواز بھی اس کی رفعت و بلندی کی حدوں کو نہیں  چھو سکتی ، اور یہ انسانی شرف ومجد  کا وہ آخری نقطۂ عروج ہے اور غا یۃ الغایات ہے جس سے اُوپر کسی مرتبے و منزلت کا تصوّر تک نہیں  کیا جاسکتا ، لیکن  اللہ رے مرتبہ ٔ شہادت کی بلندی و بر تری ! کہ حضرت ختمی مآب صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف مرتبۂ شہادت کی تمنا رکھتے ہیں، بلکہ بار بار دُنیا میں تشریف لانے اور ہر محبوب حقیقی کی خاطر خاک و خون میں لوٹنے  کی خواہش  کرتے ہیں:

بناکر دند خوش رسمے بخاک و خوں  غلطید ن

خدا رحمت کنداین عاشقان پاک طینت را

صرف اسی ایک حدیث سےمعلوم کیا جاسکتا ہے کہ مرتبہ ٔ شہادت کس قدر اعلیٰ و ارفع ہے۔ حضرت انس رضی اللہ  عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

‘‘ کوئی شخص  جو جنت میں داخل ہوجائے، یہ نہیں چاہتا کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور اسے زمین کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت مل جائے، البتہ  شہید یہ تمنا  ضرور رکھتا ہے کہ وہ دس مرتبہ دنیا میں جائے پھر راہِ خدا میں شہید  ہوجائے، کیونکہ  وہ شہادت پر ملنے والے انعامات اورنوازشو ں کو دیکھتا ہے’’۔ ( صحیح بخاری)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

‘‘ ( میں بعض دفعہ جہاد کے لیے اس وجہ سے نہیں جاتا کہ ) بعض ( نادار اور ) مخلص مسلمانوں کا جی اس بات پر راضی نہیں کہ ( میں تو جہاد کے لیے جاؤں اور) وہ مجھ سےپیچھے  بیٹھ جائیں ( مگر ان کے پاس جہاد کے لیے سواری اور سامان نہیں) اور میرے پاس ( بھی ) سواری نہیں کہ ان کو جہاد کے لیے تیار کرسکوں، اگر یہ عذر نہ ہوتا تو اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! میں کسی مجاہد دستے سے ، جو جہاد فی سبیل اللہ  کے لیے جائے ، پیچھے نہ رہا کروں۔ او راس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ، میری تمنا یہ ہے کہ میں راہِ خدا میں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں ، پھر قتل کیا جاؤں ’’۔(بخاری)

حضرت عبدا للہ بن  ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

‘‘ جان لو! کہ جنت تلوار وں کے سائے  میں ہے’’ ۔(بخاری)

حضرت مسروق تابعی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ہم نے حضرت عبدا للہ بن  مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی:

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّہ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبّھمْ يُرْزَقُونَ ( ال عمران :169)

تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تفسیر دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

‘‘ شہیدوں کی رُوحیں سبز پرندوں کے جوف میں سوار ی کرتی ہیں، ان کی قرار گاہ قندیلیں  ہیں، جو عرش الہٰی سے آویزاں  ہیں، وہ جنت میں جہاں چاہیں سیر و تفریح  کرتی ہیں، پھر لوٹ کر انہی قندیلوں میں قرار پکڑتی ہیں، ایک بار ان کے پروردگار نے ان سےبالمشافہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا : کیا تم کیسی چیز  کی خواہش رکھتے ہو؟ عرض کیا : ساری جنت ہمارے لیے مباح  کردی گئی ہے، ہم جہاں چاہیں آ ئیں جائیں ، اس کے   بعد اب کیا خواہش باقی رہ سکتی ہے؟ حق تعالیٰ نے تین بار اصرار فرمایا ( کہ اپنی کوئی چاہت تو ضرور بیان کرو) ، جب انہوں نے دیکھا کہ کوئی نہ کوئی خواہش  عرض کرنی ہی پڑے گی تو عرض کیا : اے پرور دگار ! ہم  یہ چاہتے ہیں کہ ہماری رُوحیں  ہمارے جسموں  میں دو بار ہ لوٹا دی جائیں، تاکہ ہم تیرے  راستے میں ایک  بار پھر جام شہادت نوش کریں ۔ اللہ تعالیٰ  کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ اب  ان کی کوئی خواہش  باقی نہیں ، چنانچہ جب یہ ظاہر ہوگیا تو ان کو چھوڑ دیا گیا’’۔( مسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

‘‘ جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے۔ وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا  ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستو ری کی’’۔( بخاری)حضرت مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

‘‘اللہ تعالیٰ کے ہاں شہید کے لیے چھ انعام ہیں:

اوّل وہلہ  میں اس کی بخشش ہوجاتی ہے۔

(موت کے وقت) جنت میں اپنا ٹھکانا دیکھ لیتا ہے۔

عذاب قبر سے محفوظ اور قیامت کے فزع  اکبر سے مآمون ہوتا ہے۔

 اس کے سرپر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے، جس کا ایک نگینہ  دُنیا اور دُنیا کی ساری چیزوں سے بہتر ہے۔

جنت کی بہتر حوروں سے اس کا بیاہ ہوتا ہے۔

اور اس کے ستر عزیزوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے’’۔ ( تر مذی ، ابن ماجہ)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

‘‘ شہید کو قتل کی اتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی کہ تم میں سےکسی کو چیونٹی  کے کاٹنے سے تکلیف ہوتی ہے’’۔ ( ترمذی ،نسائی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ  عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

‘‘ جب لوگ حساب کتاب کے لیے کھڑے ہوں گے تو کچھ لوگ اپنی گردن پر تلوار یں رکھے ہوئے آئیں گے جن سے خون ٹپک رہاہوگا، یہ لوگ جنت کے دروازے  پر جمع ہو جائیں گے ، لوگ دریافت کریں گے کہ : یہ کون لوگ ہیں ( جن کا حساب کتاب بھی نہیں ہوا ، سیدھے جنت میں آگئے ) ؟ انہیں بتایا جائے گا کہ یہ شہید ہیں جو زندہ تھے، جنہیں رزق ملتا تھا’’ ( طبرانی)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

‘‘ جس شخص کے لیے اللہ کے ہاں خیر ہو جب وہ مرے تو کبھی دنیا میں واپس آنا پسند نہیں کرتا، البتہ  شہید اس سے مستثنیٰ ہے،کیونکہ  اس کی بہترین خواہش  یہ ہوتی ہے کہ اسے دنیامیں  واپس بھیجا جائے تاکہ وہ ایک بار پھر شہید  ہوجائے، اس لیے  کہ وہ مرتبہ شہادت کی فضیلت دیکھ چکا ہے’’۔ (مسلم)

ابنِ مندہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت  کیا ہے: عبد اللہ  بن عمر و بن حرام رضی اللہ عنہ ( جو شہید ہوگئے تھے) کی قبر  کے پاس لیٹ گیا، میں نے قبر سے ایسی قرأت سنی کہ اس سے اچھی قرأت کبھی نہیں سنی تھی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ قاری عبداللہ (شہید) تھے، تمہیں معلوم  نہیں؟ اللہ تعالیٰ ان کی رُوحوں کو قبض کر کے زبر جد اور یاقوت کی قندیلوں میں رکھتے ہیں اور انہیں جنت کے درمیان ( عرش پر) آویزاں کردیتے ہیں، رات کا وقت ہوتا ہے تو ان کی رُوحیں ان کے اجسام میں واپس کردی جاتی ہیں اور صبح ہوتی ہے تو پھر انہیں قندیلوں میں آجاتی ہیں’’۔

 یہ حدیث حضرت قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے تفسیر مظہری میں ذکر کی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وفات کے بعد بھی شہد ا کے لیے طاعات کے درجات لکھے جاتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اُحد کے قریب سے نہر نکلوائی ، تو وہاں شہد ائے اُحد کو ہٹانے کی ضرورت ہوئی، ہم نے ان کو نکالا تو ان کے جسم بالکل  تروتازہ تھے، محمد بن عمر و کے اساتذہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ( جو اُحد میں شہید  ہوئے تھے ) نکالا گیا تو ان کا ہاتھ زخم پررکھا تھا، وہاں سےہٹا یا گیا تو خون کا فوارہ پھوٹ نکلا، زخم پر ہاتھ دوبارہ رکھا گیا تو خون بند ہوگیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد ماجد کو ان کی قبر میں دیکھا تو ایسا لگتا تھا کہ گویا سورہے ہیں ، جس چادر میں ان کو کفن دیا گیا تھا وہ جوں کی توں تھی، اور پاؤں پر جو گھاس رکھی گئی تھی وہ بھی بدستور اصل حالت میں تھی، اس وقت ان کو شہید ہوئے چھیا لیس سال کا عرصہ ہوچکا تھا ۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس واقعے کو کھلی آنکھوں دیکھ لینے کے بعد اب کسی کو انکار کی گنجائش نہیں کہ شہدا کی قبریں جب کھودی جاتیں تو جو نہی تھوڑی  سی مٹی گرتی اس سے کستوری کی خوشبو مہکتی تھی۔’’

 یہ واقعہ امام بیہقی رحمۃ اللہ  نے متعدد سندوں سے اور ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ  نے ذکر کیا ہے، جیسا کہ تفسیر مظہری میں نقل کیا ہے، مندرجہ بالا جواہر ِ نبوّت کا خلاصہ مندرجہ ذیل اُمور ہیں:

اوّل : شہادت ایسا اعلیٰ وارفع مرتبہ ہے کہ انبیا ئے کرام علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے ہیں۔ دوم: مرنے والے کو اگر موت کے بعد عزت و کرامت اور راحت و سکون نصیب ہوتو دنیا میں واپس آنے کی خواہش ہر گز نہیں کرتا، البتہ شہید کے سامنے جب شہادت کے فضائل و انعامات کھلتے ہیں تو اسے خواہش ہوتی ہے کہ بار بار دنیا میں آئے اور جامِ شہادت نوش کرے۔ سوم: حق تعالیٰ شہید کو ایک خاص نوعیت کی برزخی  حیات عطا فرماتے ہیں ، شہدا کی ارواح کو جنت میں پرواز کی قدرت ہوتی ہے اور انہیں اِذنِ عام ہوتا ہے کہ جہاں چاہیں آئیں جائیں ، ان  کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں ، اور صبح و شام رزق  سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔ چہارم : حق تعالیٰ  نے جس طرح ان کو برزخی حیات سے ممتاز فرمایا ہے، اسی طرح ان کے اجسام بھی محفوظ رہتے ہیں ، گویا ان کی ارواح کو جسمانی نوعیت اور ان کے اجسام کو رُوح کی خاصیّت  حاصل ہوتی ہے۔ پنجم : موت کے شہید کے اعمال ختم ہوتے،نہ اس کی ترقی درجات میں فرق آتاہے، بلکہ موت کے بعد قیامت تک اس کےدرجات برابر بلند ہوتے رہتے ہیں۔ ششم : حق تعالیٰ ،ارواحِ شہدا کو خصوصی مسکن عطا کر تے ہیں، جو یا قوت و زبر جد اور سونے کی قندیلوں کی شکل میں عرشِ اعظم  سے آویزاں رہتے ہیں، اور جنت میں چمکتے ستاروں کی طرح نظر آتے ہیں۔

بہت سے عارفین نے جن میں عارف باللہ حضرت شیخ  شہید مظہر جانِ جاناں  رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، ذکر کیا ہے کہ شہید  چونکہ اپنے نفس ،اپنی جان اور اپنی شخصیت کی قربانی بار گاہِ الُوہیت میں پیش کرتا ہے اس لیے اس کی جز ااور صلے میں اسے حق تعالیٰ شانہ کی تجلئی  ذات سے سرفراز کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں کونین کی ہر نعمت ہیچ ہے۔

مئی ،  2013  بشکریہ : نوائے افغان جہاد

URL for English article:

https://newageislam.com/islamic-ideology/the-place-martyrdom-islam/d/11742

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-place-martyrdom-islam-/d/11757

 

Loading..

Loading..