مولانا وحید الدین خان
16 ستمبر ، 2013
قرآن ہمیں بتاتا ہے : ‘‘اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے’’( 41:34 ) ۔
اس آیت پر غور فکر کرنے کے بعد ، مجھے یقین ہے ، بہت سے مسلمان جس بات کو مسلسل دہراتے ہیں اس کے برعکس اسلام کا ایسا کوئی دشمن ہے ۔ میں ' دشمن اسلام ' کے وجود کےاصول کو تسلیم نہیں کرتا ۔ ہاں ایک دشمن ہے، اور وہ مسلم معاشرے کا دشمن ہے مذہب اسلام کا نہیں ۔ دین اسلام ایک دین فطرت ہے ۔ یہ ہر مرد اور عورت کی آواز ہے۔ لہٰذا کس طرح کوئی شخص اپنی ہی فطرت کا دشمن ہو سکتا ہے؟ میں نے اپنی کتاب ‘‘اسلام انسانی فطرت کی آواز’’ میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اس تعلق سے لکھا ہے۔
اگر کوئی ' دشمن اسلام ' نہیں ہے تو بھر کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ کیوں مسلمان اس جملے کا استعمال کرتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ' اسلام کے دشمنوں ' سے گھرے ہوئے ہیں ؟ میرے تجزیہ کے مطابق مسلمانوں نے خود اپنی غلط پالیسیوں کے ذریعے اپنا دشمن پیدا کر لیا ہے۔ یہ دشمن مسلمانوں کی منفی سرگرمیوں کے رد عمل کی پیداوار ہیں۔ مسلمان یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے دشمن ' اسلام کے دشمن ' ہیں, لہٰذا وہ اس سلسلے میں غلط طریقے سے اسلام کا نام لے کر صرف اپنی ہی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اس معنی میں جسے ' اسلام فوبیا ' کا نام دیا جاتا ہے وہ بڑی حد تک مسلمانوں کے ذریعہ خود ان کے رویوں اور سرگرمیوں کے نتیجہ میں پیدا کردہ ایک رجحان ہے۔ مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ ' اسلام فوبیا ' جیسی کسی چیز کا وجود نہیں ہے ۔ در اصل جس چیز کا وجود ہے وہ ہے مسلم فوبیا، اور مسلم فوبیاصرف دوسروں کی جانب سے خود مسلمانوں کی سرگرمیوں کے تئیں ایک رد عمل ہے ، جو کہ اکثر غلط طریقے سے اسلام کے نام پر انجام دئے جاتے ہیں ۔ اگر دیگر مذاہب کے کچھ لوگ اسلام سے رنجیدہ ہوتے ہیں ، تو وہ در اصل مسلمانوں سے رنجیدہ ہیں جس کی وجہ خود ان کی سر گرمیاں ہیں جو وہ اکثر اسلام کے نام پرانجام دیتے ہیں۔ لہٰذا ، اسے ' مسلم فوبیا' کہا جانا چاہئے ، ‘‘اسلام فوبیا ’’ نہیں ،اور ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ خود مسلمانوں ہی کے ذریعہ تخلیق کردہ ہے۔ لہٰذا اب ایسی صورت میں ضرورت خود مسلمانوں کو اپنی اصلاح کرنے کی ہے اور جب ایسا ہو جائے گا تو مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں دوسروں کے منفی تاثرات سمیت تمام چیزیں معمول پر آ جائیں گیں۔ یہ ایک دو نکاتی فارمولہ ہے: سب سے پہلے مسلمانوں کو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ رجحان ' مسلم فوبیا' ہے ' اسلام فوبیا ' نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ انہیں خود اپنی اصلاح کرنی ضروری ہے۔ صحیح فکر رکھنے والے مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسرے مسلمانوں کو تعلیم دیں ۔
مسلمانوں کی تفوق پسند ذہنیت کے پیچھے دو عوامل ہیں جن کی وجہ سے دیگر مذاہب کے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی خیالات اور ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ پہلا تاریخی ہے، اور دوسرا معاصر ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ آٹھویں صدی کے مسلمان اپنے زمانے کی ایک بڑی ' سپر پاور ' کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے ۔ یہ ان کی غلط ذہنیت کی شروعات تھی۔ اموی دور سے ترک اور مغل کے ادوار تک تمام مسلم حکومتیں صرف مسلم خاندانی حکومتیں تھیں ۔ لیکن مسلمانوں نے غلطی کی اور خاص مسلم خاندانوں کی حکمرانی کے بجائے ان سب کو' اسلامی ' اور ' اسلامی حکومت ' کی نمائندگی کرنے والا سمجھنا شروع کر دیا ۔ ایسا تقریبا ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ لہٰذا انیسویں صدی کے آخر میں جب وہ مسلم شاہی خاندان تنزلی کا شکار ہوئے ، تو مسلمانوں نے دانستہ یا نادانستہ پر یہ سمجھا کہ اسلام کی عمارت خودبخود منہدم ہو گئی ۔ جب کہ معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ مذہب اسلام نہیں بلکہ مسلم سیاسی طاقت کا زوال تھا ۔
اسلام اور مسلمانوں کا یہ اختلاط تاریخ کی ایک غلط تشریح کا نتیجہ تھا ۔ اس طرح کی تشریح نے مسلمانوں کے درمیان ایک غلط ذہنیت کو فروغ دیا جس کی بنیاد اس تصور پر تھی کہ اسلام مبینہ طور پر خطرے میں ہے یا محاصرے میں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک نظریہ کے طور پر ابھی تک محفوظ تھا جس کی حفاظت خود خدا کے ذریعہ کی جارہی تھی ۔ غیر محفوظ صرف مسلم معاشرہ تھا۔ لیکن بہت سے مسلمانوں نے خود سے اسلام کوایک خطرے کے تحت دیکھنا شروع کر دیا۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپی استعماریت میں اضافے کے ساتھہی نو ابادیاتی طاقتوں نے کامیابی کے ساتھ تقریبا تمام مسلم حکومتوں پر غلبہ حاصل کر لیا ۔ لہٰذا اسلام نہیں بلکہ مسلمان سیاسی طور پر شکست خوردہ ہو گئے ۔ لیکن اپنی پرانی ذہنیت کی وجہ سے مسلمانوں نے یہ سوچا کہ اسلام کا پرچم زمین بوس ہو گیا تھا ۔
اسلام اور مسلمانوں کے غلط اختلاط کے تاریخ کے دوسرے باب کا آغاز اس وقت ہوا جب بیسویں صدی میں دو مسلمان دانشوروں نے اسلام کی ایک سیاسی تشریح پیش کرنے کی کوشش کی جن میں سے ایک کا تعلق عرب سے تھا، اور دوسرے کا تعلق بر صغیر ہندوستان سے تھا اور پہلے کا نام سید قطب اور دوسرے کا نام سید ابو الاعلی مودودی تھا۔ وہ اور دیگر کئی مسلم رہنما مسلم سلطنت کو بحال کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے تنظیموں کے قیام کے ذریعہ ایک مہم کا آغاز کیا۔ دراصل وہ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کی تجدید کے لئے کوشش کر رہے تھے ، لیکن انہوں نے اسے ' اسلامی احیا ' کا نام دے دیا ۔ اور اس کے لئے انہوں نے اسلام کی ایک سیاسی تشریح پیش کی ۔ یہ تشریح مکمل طور پر غلط تھی ، لیکن مسلمانوں کی مروجہ نفسیات کی وجہ سے یہ بہت جلد عرب اور غیر عرب مسلمانوں کے درمیان مقبول ہو گئی ۔ اس کی مقبولیت کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کی تشریح صحیح تھی بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ یہ تشریح مسلمانوں کی ذہنیت پر کھری اتر گئی تھی۔ لیکن اس قسم کی تحریک کی نہ تو کوئی نظریاتی بنیاد تھی اور نہ مادی بنیاد تھی ۔ یہی وجہ ہےکہ اگرچہ یہ تحریک مسلمانوں میں پھیل گئی ، لیکن اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میں یہ ہر جگہ ناکام ہی رہی ۔
شروع میں اس تحریک میں مسلمان شامل ہوئے اور بنیادی طور پر پرنٹنگ پریس کے استعمال کے ذریعہ اس کو پھیلانے کی کوشش کی۔ تاہم، اس میں وہ ناکام رہے۔ پھر انہوں نے اس کی ایجاد کی جسے ' اسلام کے نام پر حزب اختلاف کی سیاست ' کہا جا سکتا ہے ۔ اس سے بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ۔ اب ان کا اگلا قدم جہاد کے نام پر بندوق کی ثقافت کا آغاز تھا ۔ اور سب سے آخر اور حال ہی میں انہونے' خودکش بم دھماکوں ' کا طریقہ اختیار کیا ۔ مسلم علماء نے اس قسم کے خود کش بم حملوں پر خاموشی اختیار کی یا کچھ علماء کے معاملے انہوں نے اس غیر اسلامی عمل کے حق میں فتاوے جاری کئے اور یہ کہا کہ یہ خودکشی نہیں استشہاد ' شہادت حاصل کرنا ' ہے ۔
وقت کے اس موڑ پر دنیا بھر میں مسلمان منفیت کے حامل ہو گئےہیں ۔ اب مسلمانوں کے درمیان منفیت اتنی عام ہے کہ آپ بمشکل ہی کسی مسلمان کو ایسا پائیں گے جو غیر مسلموں کے حوالے سے اس طرح کی سوچ سے آزاد ہو ۔ اور اسی مقام پر انہوں نے ' اسلام فوبیا ' کی اصطلاح تیار کی ہے ۔ انہوں نے اس کے لئے غیر مسلم طاقتوں پر الزام عائد کرنے کی کوشش کی، اور اس بات کا دعوی کیا کہ غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں کے مقابلے میں جو کر رہی تھیں اس کی کوئی جائز وجہ نہیں تھی بلکہ جو انہوں نے کہا تھا اس کی وجہ سے اسلام کے خلاف یہ ان کی دشمنی تھی ۔ ' اسلام فوبیا ' کی اصطلاح صرف دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے مسلمانوں کی غلطیوں کا جواز پیش کرنے کا آلہ ہے ۔
وہ منفی رویے جو آج بہت سے مسلمان دوسروں کے تئیں رکھتے ہیں وہ وثوق کے ساتھ اسلامی معمولات کے بر خلاف مسلم طرز عمل کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔ یہ ایک زوال پذیر معاشرے کے معمولات ہیں ۔ وہ زوال کا ایک مظہر ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ کے ایسے بہت سے اقوال ہیں جن سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمان ایک زوال پذیر معاشرے کی صورت میں سمٹ جائیں گے ۔ اسی طرح کی ایک حدیث یہ ہے : لا یبقی من الاسلام الااسمہ ( اسلام کے نام کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا) ( شعب الایمان )۔ ایک اور حدیث ایسی ہے جس کے مطابق اخیر زمانے میں مسلمان بڑی تعداد میں موجود ہوں گے لیکن وہ سمندر کی سطح پر جھاگ کی طرح ہوں گے (مسلم) ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی کی تھی کہ بعد کے زمانے میں مسلمان پہلے کے زمانے کے زوال پذیر معاشروں کی پیروی کریں گے ‘‘ لتتبعون سنن من کان قبلکم شرباً بشربِ’’(بخاری ) مثال کے طور پر مسلمانوں کا خود کو دوسروں سے برتر سمجھنا بالکل وہی رجحان ہے جسے یہودی ‘تفوق پسندی ’ کہا جاتا ہے ۔
مسئلے کا لب لباب یہ ہے کہ دور حاضرکے مسلمان اسلام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں۔ وہ لوگ جو آج خود کو مسلمان کہتے ہیں وہ خیر امت یا وہ ' سب سے بہترین معاشرہ ' نہیں ہیں جن کی بات قرآن کرتا ہے بلکہ قوم مسلم آج ایک زوال پذیر معاشرہ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق، اس وقت عملی اسلام موجود نہیں ہے ۔ مسلمان صرف یہ دعوی کرنے کے لئے کہ وہ ‘سچے ’ مسلم ہیں ‘اسلام ’ کا نام لے رہے ہیں جبکہ صورت حال ایسی نہیں ہے ۔ اگرچہ دنیا بھر میں ایک ارب مسلمان ہیں ، لیکن ان کی مثال ' سمندر کی سطح پر جھاگ ' کی ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/‘islamophobia’-‘muslim-phobia’/d/13514
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/‘islamophobia’-‘muslim-phobia’-/d/13615