New Age Islam
Mon May 29 2023, 06:07 PM

Urdu Section ( 22 March 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Revival of Islam اسلام کی تجدید

 

مولانا وحید الدین خان

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام )

تعارف

تجدید دین ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا ماخذ حدیث ہے،اور اس  سے مراد "مذہب کی تجدید" ہے۔ "تجدید" کا لغوی معنی ‘‘ احیاء نو ’’ ہے۔ ایک اصول کے طور پر، اس تصور کو قرآن کی اصطلاح "احیا ء"، سےمنسلک کر سکتے ہیں  ،جس کا مطلب "تجدید کرنا" ہے ۔ قرآن مجید کی اس آیت میں، موسمی حالات کے بعد جنہیں خشک اور بنجر پیش کیا گیا ہے ، بارش کے  ذریعہ زمین کا احیاء  مراد لیا گیا ہے ۔

حدیث کے مطابق

ہر سو سال میں ، خدا ایک انسان (مجدد ) کو پیدا کرے گا  جو لوگوں کے ایمان کی تجدید کرے گا  (ابو داؤد)

قرآن میں ہے

جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے۔ ہم نے اپنی نشانیاں تم سے کھول کھول کر بیان کردی ہیں تاکہ تم سمجھو (17 :57)

اس آیت میں  یہ وضاحت ہے کہ  زمین کے خشک اور بنجر ہو جانے کے  بعد ، پانی کے ذریعہ اس  کی زندگی کو بحال کیا جاتا ہے ۔ یہ قیاس کمیونٹیز کی ابتری کا مظہر ہے ، جیسا کہ  ہوتا ہے، کہ جسے تجدید یا احیاء کی ضرورت ہے۔  ایک حدیث کے مطابق،

تمہیں  [مسلمانوں] کو ایسا ہی  کرنا ہوگا جیسا  کہ تم سے پہلے کے معاشروں نے کیا  (بخاری)۔

اس حدیث میں اس بات  کا اعادہ کیا گیا ہے کہ عالمی قانون  اور انصاف کس قدر پست ہے، جس نے  پچھلے تمام معاشروں میں خلل اندازی کی ،بعد کے مسلمانوں کے ساتھ بھی  ایسا ہی ہو گا ۔یہاں مجھے  ابن خلدون (متوفی 1406) کی ایک  مشہور بات کی یاد دہانی کرائی گئی ہے ،جنہوں نے کہا کہ صرف ایک فرد کی طرح جس کی ایک عمر ہوتی ہے ، معاشروں کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔

دوسرے الفاظ میں، ایک فرد کے معاملے میں ،موت کسی بھی واپسی کے اختتام کی نشان دہی کرتی  ہے۔ تاہم، کمیونٹیز کی صورت میں،وہ بھی  اس وقت جب اس میں تنزلی  کا آغاز ہو ، معاشرے کی تجدید کے لئے کوشش کی جا سکتی  ہے۔ موجودہ دور کے مسلمانوں کے معاملے میں ، جو کہ آج صحیح راستے سے زیادہ منحرف ہو گئے ہیں ۔

جزوی تجدید

تجدید اور احیاء کا بیڑا اٹھانے  میں یہ علماء کی بڑے پیمانے پر ناکامی تھی  جس نے اس کے  اطلاق کو محدود کر دیا ہے ۔ مثال کے طور پر، برطانوی دور حکومت میں ، یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں نے ایک بیوہ سے شادی کرنے  کو غلط سمجھنا  شروع کر دیا ۔ اصل معمول کی تجدید کرنے کے لئے، کچھ علماء نے خود بیوہ سے شادیاں کیں۔ ایک حدیث کے مطابق، اگر کسی نے میری اس ایک سنت کو زندہ کر دیا ،جسے لوگ بھول بیٹھے تھے ، تو اسے سو شہیدوں  کے برابر اجر ملے گا۔

تاہم یہ تجدید، صرف ایک  'جزوی' تجدید تھی۔ اس لئے یہ بہت مفید ثابت نہیں ہوئی ،  کیونکہ معاشرتی  سطح پر تجدید جزوی کوششوں کے ذریعے نہیں ہو سکتی ہے۔

سائنسی مذہب

ایک برطانوی فلسفی بریڈلی (متوفی 1924 ء) نے ایک کتاب لکھی ، جس کا نام ، اظہار، اور حقیقت تھا۔ اس میں ایک باب، ‘سائنسی مذہب’، کا تھا ، جس میں  اس نے یہ  خیال پیش کیا ہے کہ ، انسان  ایک ایسا مذہب چاہتا ہے، جو سائنسی ہو ، روایتی نہ ہو ، اور جدید سائنسی اصول و ضوابط کے معیار کے مطابق ہو ۔

میری رائے میں'سائنسی مذہب' اصطلاح گمراہ کن ہے۔ اسے ‘ قدرتی دین ’ کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔ انسان کو ایک ایسے مذہب کی ضرورت ہے ،جو خدا کے تخلیقی منصوبہ کے مطابق ہو  ۔ اس موقع پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ 'سائنس' انسان کے ذریعہ بنایا گیا نظم و ضبط نہیں ہے۔حقیقت میں یہ ، فطرت کے خفیہ قوانین کو دریافت کرنے کا ایک دوسرا  نام ہے۔  اسی لئے سائنس محض ان چیزوں کو دریافت کرتی ہے،  جو پہلے سے ہی فطرت میں موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر، خدا نے ایسا پانی بنایا ہے کہ  اگر اسے  ایک خاص درجہ حرارت تک گرم کر دیا جائے تو اس کے  عناصر بھاپ بن جاتے ہیں ۔ سائنس نے یہ  اور اس قسم کے  بے شمار  حقائق کو دریافت کیا ۔ لہذا، سائنس ایسے دریافت کا مظہر ہے  جو پہلے ہی خدا کے ذریعہ بنائے ہوئی، فطرت میں موجود ہیں۔

ساتویں صدی میں ، توہم پرستی کی عروج پر  تھی۔ ان دنوں میں، قرآن نے ایک ایسا  قدرتی دین پیش کیا جس کے اصول فطرت کے قوانین پر مبنی تھے ۔ لیکن بدقسمتی سے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بعد، اس کا انحطاط  شروع ہو گیا ، اور آہستہ آہستہ رسومات پر مبنی معمولات استحکام حاصل کرتے گئے ۔

لہذا، تجدید، اسلام کے صحیح چہرے کا احیاء ہے ، جو کہ ایک قدرتی دین ہونے  کی ضروریات کے مطابق ہوتا ہے ، جسے  بریڈلی نے  سائنسی مذہب کے طور پر پیش کیا ہے۔

کچھ تشریحی  مثالیں

قرآن کی ایک آیت میں ہے:

جو اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں۔ (42:38)

مندرجہ بالا آیت میں اس بات کی  طرف اشارہ ہے کہ لوگوں  کے درمیان معاملات کا تصفیہ جمہوری طرز عمل کے ذریعے کیا جانا چاہئے۔ جبکہ اسلام نے تاریخ میں جمہوریت کو اس وقت متعارف کروایا تھا، جب دنیا بادشاہت کی باگ ڈور میں تھی۔ دوسرے الفاظ میں، اس وقت جب کہ فوری صورت حال سازگار  نہیں تھے، خدا نے ایک ایسا اصول متعارف کرایا ، جو  بدلتے ہوئے  تناظر میں بھی قابل انطباق تھا ۔

جدید دنیا میں، جمہوریت ایک دستور حکومت  ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت ساتویں صدی میں  جمہوریت کا  خیال لوگوں کے لئے نا قابل تصور ہو ، لیکن  اس جدید دور کے انسان کے لئے، یہ ایک ایسا تصور ہے، جو مکمل طور پر قابل فہم ہے ۔ میں نے اکثر سنا ہے کہ لوگ کہتے ہیں  کہ آج قرآن کو دوبارہ نازل کئے جانے  کی ضرورت ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ مناسب تو یہ  کہنا ہوگا  کہ آج قرآن کی دوبارہ تفسیر کی  جانے کی ضرورت ہے ۔

قرآن مجید کی ایک اور آیت کے مطابق

اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا۔ جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لئے اس میں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں (45:13)

ساتویں صدی میں مبینہ  پیمانے توہم پرستی کو دیکھتے ہوئے، یہ ایک منفرد بیان ظاہر ہوتا ہے۔

 سر جیمز جینس (1930) نے اپنی کتاب ‘The Mysterious Universe’ میں یہ لکھا کہ :

ایسا لگتا ہے کہ اس سیارے زمین، پر انسان بھٹک گیا ہے ، جسے  اتفاقی طور پر ،اس کے لئے نہیں بنایا گیا ہے ۔

لیکن حالیہ تحقیق نے ثابت کر دیا ہے، کہ اس کائنات کو  باضابطہ طور پر ،انسان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے  بنا یا  گیا  ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات،انسان کی ضروریات کی حمایت کے لئے بنائی گئی  ہے۔ اب مندرجہ بالا قرآنی آیت کو جدید سائنسی انکشافات  کی روشنی میں اچھے طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے۔

مجھے ایک اور مثال کے ذریعہ اس بات کی  وضاحت کرنے دیں کہ ،کس طرح قرآنی تعلیمات، جدید، سائنسی اصول  اور فطرت کے قوانین کے مطابق ہیں ۔ یونانی فلسفیوں کے اثر و رسوخ کے تحت مسلم فلسفیوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا  کہ تخلیق ہمیشہ سے  ہے۔ یہ ذہنیت قرآنی نظریہ کے خلاف تھی ، جسے مندرجہ ذیل آیت میں بیان کیا گیا  تھا:

اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو (مخلوقات) ان میں ہے سب کو چھ دن میں بنا دیا۔ اور ہم کو ذرا تکان نہیں ہوئی [ادوار] (50:38)

بگ بینگ تھیوری سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات کچھ اربوں سال پہلے وجود میں آئی، اور اسی لئے  یہ ہمیشہ سے موجود نہیں ہے۔ اس طرح اسلام کی اصل تعلیم آج سائنسی دریافتوں کے مطابق ہیں ۔

دنیا میں اس طرح کے انقلابی خیالات متعارف کرانے کے باوجود، اسلام کو  فرسودہ اور دقیانوسی مذہب  سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، جدید سائنسی تحقیق نے مذہب کے طور پر ان سے اس کے تعلق کا دوبارہ اعادہ کیا ، جو  کہ بریڈلی نے دریافت کیا  ۔ اس لئے آج ،جدید دریافتوں کی روشنی میں اسلامی اصولوں کو دوبارہ لاگو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے  کہ جو مذہب، زمانے کے  متعلق نہیں لگتا وہ اسلام مسلمانوں کے ذریعہ بنایا گیا  ہے ، وہ خدا کے ذریعہ بنا یا گیا  اسلام نہیں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں تجدید، مسلم ساختہ اسلام کو ہٹانا ہے  اور خدا کے بنائے ہوئے اسلام کا احیاء ہے ۔

دماغ پر مبنی روحانیت

اسلام ، صوفیوں کے ذریعہ تشہیر  کردہ ، دل پر مبنی  روحانیت (تزکیہ) کے خلاف ، دماغ پر مبنی روحانیت (تزکیہ ) کی تشہیر کرتا ہے ۔ دل پر مبنی روحانیت توہم پرستی سے اور ایسے تصورات سے متأثر ہے جو کہ لوگوں کو اس بات کا  یقین دلاتے ہیں کہ دل تزکیہ یا روحانیت کا مرکز یا مصدر ہے ۔ اس کے برعکس قرآن کی تعلیمات انسان کو غور فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔ قرآن میں ایک آیت ہے :

تو کیا تم سمجھتے نہیں تھے؟ (36:62)

اسی لئے،قرآن نے انسانوں پر زور دیاکہ  وہ تزکیہ حاصل کرنے کے لئے، اس کی تعلیمات پر غور وفکر  کریں ۔ ہزاروں سال سے، انسان یہ سوچتا تھا، کہ  دل روحانیت کا مرکز تھا لیکن جدید سائنسی دریافت نے  اس تصور کی تردید کر دی  ہے، اس لئے کہ  اس نے  ثابت کیا ہے کہ  دل خون جاری کرنے کے آلہ کے علاوہ  اور کچھ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے آج تک مسلمانوں کو اسلام میں، دماغ پر مبنی روحانیت کی اہمیت کا احساس نہیں ہوا۔  ایک حدیث کے مطابق،

ان تمام  چیزوں میں جسے  خدا نے پیدا کیا ہے ، دماغ سب سے زیادہ قابل قدر ہے (المغنی، 13483)

سائنسی دریافت یہ ثابتے کرتے ہیں  کہ، جذبات اور سوچ دونوں انسانی دماغ کا ہی  ایک کام ہے۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق مطابق ہے، لیکن مسلمان مروجہ توہم پرستی سے اس قدر متاثر ہیں  کہ انہوں  نے  آہستہ آہستہ، دل کے روحانیت کا ذریعہ ہونے کے بارے میں ایک گہرا تصور تیار کر لیا  ہے۔

احیاء  (تجدید)

احیاء کا  مطلب مذہب میں نظرثانی نہیں ہے، بلکہ  اس کا مطلب ، اس کی اصل تعلیمات کی تجدید کرنا ہے۔ ایک کتاب جس کا نام ہے:

اسلام کےلئے  جدید ہدف  اسلام پر نظر ثانی کرنے اور اس کی اصلاح کی ضرورت کے بارے میں ہے ۔ جب میں نے اسے پڑھا، میں نے محسوس کیا کہ ضرورت دراصل ،مصنوعی اسلام کو ترک کرنے اور خدا کے نازل کردہ  اسلام کا احیاء کرنے کی ہے  اس طرح اسلام کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرنے ہے۔

شعور پر مبنی  دلیل

میں ایک کتاب ‘ شعور کا دور ’ پڑھی ۔ پہلے کے دور میں، دلائل  قیاس پر مبنی تھے لیکن موجودہ دنیا میں، دلائل صرف شعور  اور حقیقت پر مبنی کئے  جا سکتے ہیں ۔ مشہور  برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل نے قیاس پر مبنی سوچ کو واضح کرنے کے لئے  جو  کہ پرانے دنوں میں مروج  تھیں ،یونانی فلسفی ارسطو کی مثال کا  حوالہ دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ارسطو کی تحریروں میں خواتین کو ہمیشہ ثانوی حیثیت دی گئی تھی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ خود فطرت نے  عورت کو ثانوی  حیثیت دی ہے ، جس کی  توثیق  مرد کے  مقابلے میں ان کی دانت کی کم تعداد کے ذریعہ کی گئی ہے ۔ رسل مزید لکھتے ہیں  کہ ارسطو نے ایک سے زائد مرتبہ شادی کی تھی اور وہ  اس کی بیوی کے منہ میں دانتوں کی تعداد کی گنتی کے ذریعہ  آسانی سے اس کے قیاس کی حقیقت کی توثیق کر سکا ہو گا ۔ ایسا کرنے اسے اس کے قضیہ کا بطلان واضح ہوتا  ہے ۔

اسی طرح، آج کے مسلمانوں میں ، شعور پر مبنی  دلیل کی کمی ہے ، جبکہ قرآن شعور اور  سمجھداری کو خاص  اہمیت دیتا ہے۔ تاریخ میں ایک طویل وقت کے لئے،  شعور کی کمی نے  قیاس کو  دلائل کے طور پر باقی  رہنے کی اجازت دی ہے۔ مثال کے طور پر، اپنی کتاب

السارم المسلول علیٰ شاطم الرسورل (ان لوگوں کے  خلاف ننگی تلوار جو رسول کی توہین کرتے ہیں )،میں ، ابن تیمیہ لکھتے ہیں ، جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا ہے، اسے قتل کر دیا جانا چاہئے۔ یہ نوٹ کرنا ایک طنزیہ ہے کہ ابن تیمیہ کے جیسے  ایک مشہور شخص  بھی اپنے اس قول کے  حق میں ایک منطقی دلیل فراہم نہیں کر سکے ۔

یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ فقہ کا کوئی بھی قانون یا حکم قرآن یا حدیث سے حاصل کرنا ضروری ہے۔ صرف اسی صورت میں وہ قابل قبول ہے، دوسری صورت میں وہ ایک ذاتی بیان ہے۔ مندرجہ بالا کتاب کے معاملے میں، ابن تیمیہ نے ایک حدیث سے صرف ایک حوالہ بیان کیا ہے ، جس کی صداقت خود مشکوک ہے ۔ ، تو پھر اس  طرح کی ایک مشکوک حدیث پر مبنی کو ئی قول ، کس  طرح واجب ہو سکتا ہے ؟

مزید برآں، علماء کا متفقہ طور پر یہ خیال ہے کہ اگر ابن تیمیہ یہ حدیث نہیں جانتے ہو ں ، تو اس حدیث کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ قرآن کا کہنا ہے کہ،

  اگر سچے ہو تو دلیل پیش کرو (2:111)

مندرجہ بالا آیت، ایک دلیل کو  حقائق اور علامات پر مبنی کرنے کے، سائنسی اصولوں کے مکمل مطابق ہے۔ اگرچہ اسلام نے عقلی دلیل کے اصول کو متعارف کیا ، کیوں کہ نظیر کی کمی اور توہم پرست  ثقافت کے  غلبے کی وجہ سے، مسلمانوں نے بحث کے مقبول طریقہ پر عمل کرنا  شروع کردیا ۔ سینکڑوں سالوں سے جو کتابیں شائع ہو رہی تھیں اس میں دلیل پیش کرنے کے غیر  سائنسی طریقہ کا استعمال کیا گیا تھا ۔ اس کے نتیجے کے طور پر، مسلم ادب بہت متاثر ہو گیا ۔ جب سائنسی مذہب کی ضرورت کا احساس ہوا، بریڈلی اور اس جیسے دوسرے، حقیقی اسلام کو نہیں دیکھ سکے ، جو کہ سائنس اور فطرت کے ساتھ موافقت  میں ہے ۔

پرامن فعالیت

زندگی میں پرامن فعالیت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، قرآن کا کہنا ہے ،

صلح  بہترین چیز ہے  (4:128)

اس کا مطلب یہ ہے کہ پرامن فعالیت  سب سے بہترین سرگرمی ہے۔ اس کے برعکس مسلمان، تشدد اور مسلح جدوجہد (مسلح جہاد) میں مصروف ہیں۔ اس کی وجہ تنزلی  ہے، جو اصل تعلیمات میں حلول کر گئی اور مسلم ذہنیت مشروط کر دیا ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حدیبیہ امن معاہدہ کے عملی مظاہرہ کے ہوتے ہوئے ، موجودہ دور کے مسلم اسلام کے نام پر، ان کے غلط کا موں میں ثابت قدم ہیں ۔

آج، دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان ، بندوق اور بم کی ثقافت میں مصروف ہیں کیونکہ وہ ان کی، موجودہ صورت حال سے، خود کو الگ کرنا نہیں کر سکتے، اور مسئلے کے حل کے بارے میں سوچ نہیں سکتے ۔ جب تک وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو وہ امن پر مبنی فعالیت  کی اہمیت نہیں سمجھ سکتے ، جو اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ انسانی کوششیں ترقیاتی کاموں میں لگائی گئی ہیں   ، نہ کہ  خود کی تباہی میں ۔

خلاصہ

اسلام دماغ پر  مبنی  روحانیت یا تزکیہ  کی توثیق کرتا ہے ، جو کہ  دوبارہ دماغ سازی پر  مرکوز ہوتا  ہے۔ مسلمانوں کو  دل پر مبنی روحانیت کے  تصور کو چھوڑ  دینا چاہئے جس نے  انہیں اپنی  گرفت میں لے لیا  ہے۔ مثال کے طور پر، شاہ ولی اللہ کے والد ایک صوفی سنت تھے۔ ایک مرتبہ نوجوان شاہ ایک باغ میں گئے اور بہت دیر میں  لوٹے۔ ان کے والد نے انہیں  ڈانٹا اور کہا کہ ،باغ میں وقت برباد کر نے کے بجائے انہیں  مراقبہ  میں وقت گذارنا چاہئے ۔ اس کی وجہ یہ  تھی  کہ  ان کے والد غور و  فکر کی اہمیت نہیں جانتے تھے۔ انہوں نے یہ مان  لیا  کہ آنکھیں بند کرنا اور خود کو ایک کمرے میں بند کرنا  روحانی بننے کا راستہ تھا۔

ایک بار اپنی  بالکنی میں بیٹھے ہوئے ، میں اپنے  ارد گرد کی دنیا میں مستغرق ہو گیا ۔ جب میں نے سوچنا شروع کیا، میں نے محسوس کیا کہ زمین کےپاس انسان کی بقا کو یقینی بنانے کے لئے ایک مکمل نظام ہے۔ درخت کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کرسکتے ہیں  ،اور آکسیجن پیدا کر سکتے ہیں۔ انسان اس درخت کے ذریعہ  تیار کردہ  آکسیجن میں سانس لیتا ہے  اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا  ہے ۔ اس عمل اور اس کے کام کاج کے کارساز  کے بارے میں سوچتے ہوئے ، تزکیہ کا  جذبہ پیدا  ہوتا ہے۔ یہ اس لئے ہے کیونکہ جب انسان  کائنات میں ہر ذرہ کی اہمیت کے بارے میں سوچتا ہے ، تو تزکیہ پیدا ہوتا ہے ۔ لہذا، اسلامی تزکیہ غور فکر ، اور ہماری سوچ کے عمل کی سرگرمی  پر مبنی ہے۔

URL for English article:

https://newageislam.com/islamic-ideology/revival-islam-(tajdeed-e-deen)/d/3736

URL for this article:

 https://newageislam.com/urdu-section/revival-islam-/d/10855

 

Loading..

Loading..