مولانا وحید الدین خان
2013 نومبر 22
بہت سارے غیر مسلموں کے درمیان اسلام مخالف جذبات پائے جانے کی ایک سب سے بڑی وجہ وہ انداز ہے جس میں مسلمان اسلام کو سمجھتے ہیں ، اس کی تشریح کرتے ہیں اور اس کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں، جس کی ایک مثا ل ان کا انتہائی تفوق پرست ، سخت رسمی اور کبھی کبھی تشدد پر مبنی رویہ ہے ۔لیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ تینوں مظاہر مسلم تہذیب و ثقافت کا حصہ ہیں اسلام کا نہیں ۔مسلمانوں کو ان سے پرہیز کرنا چاہئے اور اسلام کی صحیح تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے ۔ اسلام برتری نہیں بلکہ مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو معنویتوں اور اہمیتوں کا حامل ہے جس میں ظاہری نام و نمود کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اسلام مسلمانوں کو تشددپسند طریقہ کار کے بجائے پرامن طرزعمل اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
غیر مسلموں کی بدگمانیوں کے بارے مذکورہ بالا مسائل کے تعلق سے کچھ مسلمان یہ راگ الاپتے ہیں کہ کچھ غیر مسلم اسلام کے خلاف متعصب ذہنیت کے حامل ہیں ، اس طرح وہ الزام لگاتے ہیں ، کیوں کہ اس قسم کے لوگ جبلی طور پر سچائی اور خدا کے خلاف ہیں ۔ لیکن یہ الزامات یکسر بے بنیاد اور غلط ہیں ۔ صرف ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کوئی اچھا نہیں ہو سکتا ۔ اور اسی طرح صرف کسی غیر مسلم کھرانے میں پیدا ہونے کی بنیاد پر کوئی بھی فطری طور پر حق و صداقت کا دشمن نہیں ہو سکتا۔ اسلام مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے لئے تحقیق اور انتخاب کا مسئلہ ہے ۔ یہ وراثت میں حاصل کی جانے والی کوئی چیز نہیں ہے ۔
آج دنیا کے بہت سے حصوں میں جہاد کے نام پر پرتشدد تحریکیں لڑی جا رہی ہیں ۔اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس نے بہت سارے غیر مسلموں کے درمیان اسلام مخالف جذبات اور ایک پرتشدد مذہب کے طور پر اسلام کی غلط شبیہ کو فروغ دینے میں بڑا اہم کردارادا کیا ہے ۔ لہٰذا اب اس کا حل کیا ہے ؟
اس کا صحیح حل یہ ہے کہ ان تمام غیر حکومتی تنظیموں کو غیرمسلح کیا جائے جو پرتشدد سرگرمیوں میں مشغول ہیں ۔ اسلام کے مطابق صرف ایک حکومت کو ہی ہتھیار رکھنے اور مسلح کاروائی کرنے کا حق ہے ۔ غیر حکومتی عناصر یا غیر حکومتی تنظیموں کو ہتھیار رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ غیر حکومتی تنظیموں کو صرف پر امن سرگرمیوں کا آغاز کرنے کا اختیار حاصل ہے۔کسی بھی عذر کے تحت غیر حکومتی عناصرکا ہتھیار اٹھانا قانوناً جائز نہیں ہو سکتا ۔اس بات کو یقینی بنانا مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ فوج کے علاوہ اسلحوں تک کسی اور کی رسائی نہیں ہوگی ۔ انتہائی مؤثر انداز میں مسلم حکومتوں کو اس قانون کا نفاذ کرنا چاہئے ۔
کچھ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بنیاد پرستی کا مسئلہ بنیادی طور پر اقتصادی اور سیاسی ہے ۔ اور ان مسائل کا سامنا کرنے کے بعد ہی عسکریت پسندی کا کوئی حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔بلکہ اس کی وجہ اسلام کا غلط تصور ہے جس کا جنم سیاسی اسلام کے بطن سے ہوا ہے ۔ یہ اسلام کی سیاسی تعبیر و تشریح ہی ہے جس نے ایک اسلامی نظام قائم کرنے کے نام پر مسلح کاروئیوں کو روا کر رکھا ہے۔ اس عسکریت پسندی سے مقابلہ کرنےکا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ تمام مسلم لیڈران عسکریت پسندوں کے اس معمول سے واضح طور پر برأت کا اظہار کردیں ۔
اس تعلق سے تمام علماء کو متفقہ طور پر ایک فتویٰ جاری کرنا چاہئے اور پر زور انداز میں یہ بیان جاری کرنا چاہئے کہ اسلام میں دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ مسلم مفکرین کو بھی اس معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہو گا ۔انہیں تمام قسم کی دہشت گردی سے دستبرداری کا اعلان کرنا چاہئے اور کھلے طور پر ان سرگرمیوں کے خلاف بولنا اور لکھنا چاہئے۔ فی الحال مسلمانوں کے درمیان یہ جس پیمانے پر ہونا چاہئے نہیں ہو رہا ہے ۔ شاید اس کی وجہ ان کے ذہن و دماغ میں خوف ہے ۔ وہ ایک مسلم معاشرے میں بود و باش اختیار کئے ہوئے ہیں لہٰذا ان کے دماغ میں یہ خوف پروان پا چکا ہے کہ اگر وہ ان کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے تو ان کی برادری کے لوگ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا رویہ اپنائیں گے ۔
اس معاملے میں مسلمانوں کو درج ذیل آیت میں مذکور حکم کی تعمیل کرنی چاہئے ۔‘‘ اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو!’’(24:31)۔ لہٰذا سلام کے نام پر کی جا رہی دہشت گردی کی تمام مسلمانوں کو اجتماعی طور پر مذمت کرنی چاہئے ۔
مسلم میڈیا کو بھی اسلام کے نام پر دہشت گردی کے خلاف جد و جہد میں اپنا ایک اہم کردار ادا کرنا ہے ۔ فی الحال مسلم میڈیا دوسروں کی منافقت اور ظلم و استبدادیت سے پردپردہ اٹھا رہا ہے ۔ اس قسم کی خبریں مسلمانوں کو مزید بھڑکاتی ہیں ۔ لہٰذا اسی لئے مسلم میڈیا کو بلا توقف و تردد اس قسم کی خبروں پر مکمل طور پر پابندی لگا دینی چاہئے ۔ مثال کے طور پر بہت سارے مسلمان عراق پر بمباری کے لئے امریکہ کی مذمت کرتے ہیں لیکن بمشکل ہی کوئی مسلمان اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ امریکہ نے ہی دور جدید میں ذرائع ابلاغ کا راستہ دکھایا ہے ۔ مسلمان بڑے پیمانے پر مغرب کی ایجاد کردہ جدید ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ حاصل کرتے ہیں پھر بھی انہیں تسلیم نہیں کرتے اور ان کا شکریہ ادا نہیں کرتے ۔لہٰذا مسلم میڈیا کو منفی خبروں کی اشاعت سے مکمل طور پر باز آ جانا چاہئے اور اس کے بجائے مثبت خبروں کو منظر عام پر لانے کا بیڑ ا اٹھا لینا چاہئے ۔
جہاں تک مسلم عوام الناس کی بات ہے ، تو انہیں سیاست میں بالکل ہی شرکت نہیں کرنی چاہئے اور انہیں صرف اپنا ذریعہ معاش مہیا کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ عوام کو سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے ۔
یہ چند ایسی تدابیر ہیں جن کے ذریعہ اسلام کے نام پر دہشت کردی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔
یقیناً اسلام کے نام پر غلط طریقے سے دہشت گردی نے کچھ مسلمانوں کے شعور و ادراک اور خود اعتمادی کو متأثر کیا ہے ۔چند روز قبل مجھ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ، ‘‘ مختلف ممالک میں خود ساختہ اسلامی جماعتوں کے ذریعہ دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر کچھ مسلمان دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اپنی اسلامی شناخت ظاہر کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔جب کہ غیر مسلموں کی صحبت میں وہ اپنی مسلم پہچان کو چھپاتے ہیں ۔یہاں تک کہ کچھ لوگوں کے اندر خود سے نفرت کا احساس بھی پیدا ہو جاتا ہے ۔جن میں سے کچھ کی تو اسلام سے دلچسپی بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ ایسے لوگوں کے لئے آپ کی کیا رائے ہے ؟’’
میں نے اس شخص کو یہ جواب دیا کہ ‘‘ایسی صورت حال میں اس قسم کے مسلمانوں کے لئے ایک بہترین موقع موجود ہے ، اور وہ یہ ہے کہ وہ اس موقع پر اسلام کے نام پر کی گئی دہشت گردی سے مکمل طور پر بیزاری کا اظہار کر سکتے ہیں اور غیر مسلموں کی مجلس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کر سکتے ہیں ۔ دلچسپی کی بات ہے کہ میں یہی کام کر رہا ہوں ۔ انہیں لوگوں کو یہ بتانا چاہئے کہ انہیں اسلام اور مسلمانوں کے درمیان فرق پیدا کرنے اور مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پرکھنے کی ضرورت ہے اور اس کا بر عکس نہیں۔ اس قسم کی صورت حال مسلمانوں کے لئے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ گفتگو اور دعوت و تبلیغ کا آغاز کرنے کا ایک بہترین موقع ثابت ہو سکتی ہے ، جو کہ لوگوں کو راہ خدا کی طرف بلانا ہے ۔ جب لوگ منفی انداز میں بھی اسلا م کے بارے میں باتیں کریں تو انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں’’ ۔
اگر مسلمان اسلام کی ان غلط تعبیر و تشریحات پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں جن کا استعمال دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے کے لئے کیا گیا ہے ، (تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ) وہ غیر مسلموں کو اسلام کے بارے غلط تصور قائم کرنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں ۔لہٰذا اس کے خلاف اوآز بلند کرنا اور اسلام کی اس غلط شبیہ کو درست کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
قدامت پسند اسلام اسلام کی سیاسی تھیوری کی پیدا وار ہے ۔ جو لوگ اسلام کی اس تشریح سے متأثر ہیں ان کے سامنے بھی اس بات کی توضیح پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اسلام کی صحیح تعبیر و تشریح نہیں ہے ۔ ایک مرتبہ اگر وہ مطمئن ہو گئے تو پھر وہ عسکریت پسند سرگرمیوں سے اپنے آپ کو خود ہی بچائیں گے ، اس معاملے میں میرا ذاتی تجربہ بڑا ہی مثبت رہا ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/perceptions-islam-needs-be-done/d/34537
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/perceptions-islam-needs-be-done/d/34696