New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 04:46 PM

Urdu Section ( 30 Dec 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

For The Muslims It's Time for Reassessment مسلمانوں کے لئے ایک حقیقی فکری انقلاب کی ضرورت

 

 

مولانا وحید الدین خان

28 دسمبر  2014

مسلمانوں کے لیے موجودہ دور ایک جدوجہد کا دور ہے۔ یہ دور  1799 میں اس وقت شروع ہو جب میسور میں (غیر منقسم) ہندوستان کے سلطان ٹیپو کو برطانوی فوج نے ہلاک کر دیا تھا۔ اسی دور سے مسلمانوں نے زبردست اور مسلسل جدوجہد کا آغاز کیا۔ جبکہ اس طرح کی سخت کوشش کے 200 سے زائد سالوں کے بعد بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس طویل، مشکل اور اور زبردست جدوجہد میں پوری امت شامل رہی ہے، کچھ لوگ خاموشی سے اور کچھ لوگوں نے اس میں فعال شرکت کی ہے۔ لیکن زندگی اور وسائل کی ایک یادگار قربانی کے بعد بھی یہ جدوجہد مطلوبہ نتائج پرآمد کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اب اس موڑ پر تنازعہ کے اس طرز عمل کو جاری رکھنے کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ اب بالآخر مسلمانوں کے لیے اپنی حکمت عملی کی دوبارہ منصوبہ بندی کرنے کا وقت  آ گیا ہے۔

ہمیں متشدد جدوجہد کی جگہ پرامن جدوجہد کو اپنانا ہوگا۔ خوش قسمتی سے موجودہ دور مکمل طور پر ہمارے حق میں ہے۔ ہر قسم کے مواقع تمام لوگوں کے لیے دستیاب ہیں۔ عصر حاضر میں صرف ایک ہی چیز ممنوع اور مذموم مانی جاتی ہے اور وہ تشدد ہے۔ اگر ہم اس دور کی نوعیت اور ماہیت کو سمجھ لیں اور تشدد کو ترک کر دیں تو ہم یہ پائیں گے کہ عالمی مواقع مسلمانوں کو بھی دستیاب ہیں۔

پرامن جدوجہد کا طرز عمل کیا ہے؟ پرامن جدوجہد کا طرز عمل وہی ہے جو حدیبیہ ماڈل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ حدیبیہ ماڈل کو قرآن مجید میں فتح مبین کہا گیا ہے (48:1)۔ باالفاظ دیگر حدیبیہ ماڈل فتح کی ضمانت دلانے والا طرز عمل ہے جو کہ نہ صرف ساتویں صدی میں بلکہ اکیسویں صدی میں بھی ایک درست اور نتیجہ خیز طرز عمل ہے۔

اسلام کے ابتدائی ادوار میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ نے جو حدیبیہ ماڈل اپنایا تھا وہ کیا ہے؟ حدیبیہ ماڈل پر تشدد طرز عمل کو ایک پرامن طرز عمل سے بدل دینا ہے۔ یہ طرز عمل انتہائی کامیاب ثابت ہوا اور اس کا نتیجہ 630 عیسوی میں مکہ کی فتح کی شکل میں ظاہر ہوا۔

عملی طور پر موجودہ دور مسلمانوں کے لیے حدیبیہ کا دور ہے۔ اس تبدیلی کے لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قیمت ادا کی وہ یہ ہےکہ انہوں نے فریق ثانی کے تمام شرائط کو غیر مشروط طور پر قبول کر لیا تھا۔ اس دور میں مکی اور مدنی قیادت کے درمیان ایک کوئی جنگی معاہدے کیے بغیرعارضی طور پر ایک مقامی سطح پر جو حاصل کیا گیا تھا وہ کسی بھی قیمت کے بغیر عالمگیر سطح پر ایک انسانی حقوق کی شکل میں حاصل کیا گیا ہے۔ عصر حاضر میں پرامن ترقی کوبے مثال اہمیت حاصل ہے، مثال کے طور پر صنعت، معیاری تعلیم اور شاندار بنیادی ڈھانچے۔ یہ سماجی بنادیں ہیں۔ اور ایک مضبوط سماجی بنیاد ہی موجودہ دور میں سب کچھ ہے۔

پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں اس وقت تک محض مسائل کا سامنا کرنا ہی ہے جب تک کہ عسکریت پسندی کی نظریاتی بنیاوں اور معاشرے میں عسکریت پسندوں کی رسائی پر حملہ نہیں کیا جاتا۔ (18 دسمبر 2014)

آج کے مسلمان جہاد کے نام پر پر تشدد نظریات کے عادی ہو چکے ہیں۔ اسی لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ  ہم اس کی جگہ پر امن نظریا کو اختیار کریں جسے دین اسلام میں دعوت کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں عصر حاضر کے مسلم دانشوروں کے لئے یہ دانشورانہ جد و جہد شروع کرنے کا وقت ہے۔

ہر تبدیلی پہلے ایک ماقبل تبدیلی کے دور سے گزرتی ہے۔ اب امت مسلمہ کو ایک ماقبل تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور انہیں سوچ و فکر کے طریقوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اتنا عظیم ہے کہ اگر اسے ایک دانشورانہ انقلاب کہا جائے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ مسلم دانشوروں کو ان کا یہ کردار قبول کرنا ہی ہوگا اس لیے کہ عقلی اور فکری جد و جہد کے ذریعہ ہی سوچ و فکر میں ایک تبدیلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ سوچ و فکر میں اس تبدیلی کے نتیجے میں ایک مثبت اور پرامن جدوجہد کا آغاز ہو گا اور یقینی طور اس کا انجام فتح مبین یا واضح فتح کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

مولانا وحید الدین خان ایک اسلامی عالم دین اور سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹلی انٹرنیشنل، نئی دہلی کے بانی ہیں۔

URL for English article: 

https://newageislam.com/islam-politics/for-muslims-time-reassessment-veritable/d/100727

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/for-muslims-time-reassessment-/d/100767

 

Loading..

Loading..