مولانا وحید الدین خان, نیو ایج اسلام کے لئے
30 جولائی 2016
2003 میں ایک امریکی قیادتوالےاتحاد نےعراق کے خلاف جنگ کا آغازجو 2009 تک جاری رہی،اس کے بعد امریکہ نے جنگ تو جیت لی، لیکن اس کے بعد خود ساختہ داعش کاایک بہت بڑا مسئلہ پیداہو گیا۔
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئرنے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیاتھا۔"عراق جنگ نے اسلامی ریاست کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے"کی سرخی کے ساتھ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق انہوں نے اس بات کا اعتراف کیاتھا کہ وہ جنگ غلط تھی۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے عراق جنگ کے دوران کی گئی غلطیوں کے لئے معافی مانگی اور یہ کہا کہ'سچائی پر مبنی ایسے عناصر'ہیں جن کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی ریاست کے عروج کی بنیادی وجہ2003 کا امریکی حملہ تھا۔
اس سلسلے میں،یہ کہنا زیادہ مناسب ہےکہ عراق پر جنگ کا فیصلہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ اس جنگ میں 4000 سے زائد امریکی اور برطانوی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔اس جنگ میں تقریباً 3 ٹریلین ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ لیکن نتیجہتوقع کے خلاف تھا، اور اس نتیجے میں مشرق وسطیکا مسئلہ پہلےسے کہیںزیادہ سنگین ہو گیا۔
حقیقتیہ ہے کہ جنگ کا خاتمہ ایک فریق کے ذریعہ دوسرے فریق کی شکست پر نہیں ہو سکتا۔ عملی طور پر ہوتا یہ ہے کہ شکست خوردہ فریق اپنی شکست کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کے بجا ئے ان پربدلہ لینےکی پیاس غالب ہو جاتی ہے۔یہ منفی ردعمل اتنا شدیدہو جاتا ہے کہ اگر شکست خوردہ جماعت کے اندر باقاعدہ جنگ میں مشغول ہونےکی طاقت نہیں ہوتی تو وہ خودکش بم حملوں کا سہارا لیتے ہیں اور خود بھی تباہ ہوتے ہیں اور دوسری جماعت کو بھی تباہ کرتے ہیں۔
جنگ بالکل ہی کوئی حل نہیں ہے۔ اس کے بجائےایک جنگ جیسی صورتحال سے پرامن انداز میں نمٹنے کی کوشش کرنا اس کا صحیح حل ہے۔اس صورت حال میں لوگوں کو اس انداز میں مثبت بنیادوں پر خود کو مضبوط بنانے کی کوشش کرنےچاہیے کہ مثبت سوچ ہی اسکی فتح کے لئے کافی ہو۔
URL for English article:
https://newageislam.com/spiritual-meditations/war-no-choice-all/d/108127
URL: https://newageislam.com/urdu-section/war-no-choice-all-/d/108365