مولانا وحید الدین خان: نیو ایج اسلام
09 جولائی 2016
سوال: تقریباً تمام 'جدید' اسکولوں میں مادی 'کامیابی' کے لئے طالب علموں کو تیار کیا جاتا ہے، اور ان اداروں میں انہیں بہتر، خدا شناس، عابد و زاہداور زیادہ مشفق و مہربان انسان بننے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ عام طور پر ان جدید تعلیمی اداروں میں روحانیت کے لئے بہت کم یا بالکل ہی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ جزوی طور پر اس غلط نظام تعلیم کے نتیجہ میں بہت سے طالب علموں کے دماغ میں یہ خیال گھر کر جاتا ہے کہ مادی کامیابی حاصل کرنا ہی اِس زندگی کا مقصد ہے۔ ان میں سے صرف کچھ طالب علموں کو ہی مذہب یا روحانیت یا آخرت کی پرواہ ہوتی ہےاور اس کےلیے جس تعلیمی نظام سے وہ گزرتے ہیں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔
اس کے لیے آپ کا جواب کیا ہوگا؟ ان لوگوں کے لیے آپ کی کیا تجاویز ہیں جو اپنے بچوں کی روحانی تربیت کرنا چاہتے ہیں جس پر موجودہ 'جدید' تعلیمی نظام میں کم یا بالکل ہی کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے؟
جواب: دراصل موجودہ صورت حال بالکل وہی ہے جس کی آپ نے نشاندہی کی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ قانون فطرت کے مطابق مادی کامیابیوں کے حصول کے بعد بھی انسان کو ذہنی سکون حاصل نہیں ہوتا۔ جن لوگوں نے اس کا تجربہ کیا اور اس کے بعد ہماری تحریروں کو پڑھا انہوں نے اپنے نظام زندگی پر نظر ثانی کی اور انہوں نے مادی کامیابیوں پر روحانی کامیابیوں کو ترجیح دینا شروع کر دیا۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے اندر روحانیت کو فروغ حاصل ہو۔ تاہم، میں انہیں صحیح معنوں میں مخلص نہیں پاتا۔ اگر وہ واقعی مخلص ہوتے تو وہ اپنے بچوں کو مادہ پرستی کا شکار بنے سے جزوی طور پر یا مکمل طور پر ضرور روکتے۔
جو والدین اپنے بچوں کے اندر روحانیت کے پہلو کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے میرے پاس ایک دو نکاتی فارمولا ہے۔ پہلا فارمولا یہ ہے کہ گھر کا ماحول مکمل طور پر والدین کے کنٹرول میں ہونا چاہئے۔ والدین کو اپنے گھروں کو روحانی مقامات میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مثال کے طور پرانہیں خوراک، کپڑے، فرنیچر اور اس طرح کی دیگر مادی چیزوں پر بات چیت کرنے کے بجائے روحانی معاملات پر گفتگو کرنا چاہیے۔ مسلم گھرانوں میں اکثر بہت ساری منفی باتیں کی جاتی ہیں۔ اگر والدین صحیح معنوں میں اپنے بچوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اپنے گھروں کے ماحول کو تبدیل کرنے کی حقیقی معنوں میں کوشش کرنی چاہئے۔
دوئم، والدین کو نہ صرف یہ کہ بچوں کے لیے خیر خواہ ہونا چاہئے بلکہ انہیں ان کا ایک اچھا معلم بھی ہونا چاہئے۔ والدین کو گہری تحقیق کرنی چاہیے اوراسی تحقیق کی بنیاد پر انہیں اپنے بچوں کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ لوگوں کا ذہن ایک معقول رہنمائی کو قبول کرتا ہے۔
اگر والدین اس دو نکاتی اصول کو اپناتے ہیں تو ان کا اپنے بچوں کی روحانی پرورش میں کامیاب ہونا بالکل یقینی ہے۔
سوال: اس بات کے پیش نظر کہ موجود جدید تعلیمی نظام میں روحانیت کے لیے شاید ہی کوئی گنجائش ہے، کیا آپ اسکول کا کوئی متبادل تعلیمی نظام تجویز کریں گے یا آپ موجودہ نظام کے اندر ہی اصلاحات تجویز کریں گے؟
جواب: میں تعلیمی نظام میں اصلاحات پر یقین نہیں رکھتا۔ آج کے تعلیمی نظام کا مقصد پیشہ ور ماہرین پیدا کرنا ہے۔ اور صرف موجودہ تعلیمی نظام کے تحت ہی پیشہ ورانہ مہارت کا حصول ممکن ہے۔ اگر موجودہ نصاب میں روحانیت کو شامل کر دیا جائے تو اس سے نہ تو روحانیت میں ترقی ہوگی اور نہ ہی پیشہ ورانہ مہارت حاصل ہوگی۔ اگر آپ اس طرح کا کوئی طریقہ کار تلاش کرنے کی کوشش کریں گے پھر یہ کہاوت صادق آئے گی ' دو خرگوش کے پیچھے بھاگنے والے کو ایک بھی حاصل نہیں ہوگا'!
پیشہ ورانہ تعلیم کے معاملے میں ہمیں اپنے ملک میں اپنے معیار کو بہتر بنانے اور اسے امریکی معیار سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جہاں تک روحانی اقدار کی تعلیم کا تعلق ہے تو یہ غیر رسمی تعلیم کا موضوع ہے۔ اس طرح کی تعلیم کالج یا یونیورسٹی کیمپس سے باہر حاصل ہوتی ہے، مثال کے طور پر، سیمینار، کانفرنس، لائبریری، تعمیری صحافت، میگزین، بات چیت، اور باہمی مکالمہ اس کے لیے بہترین ذرائع ہیں۔ میں بھی اس طرح کے غیر رسمی تعلیمی امور میں مشغول ہوں۔
سوال: ایسے 'اسلامی اداروں' کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جو طالب علموں کو عام اور اسلامی تعلیم دونوں فراہم کرتے ہیں؟ ایک طرف تو وہ دینی تعلیم اور ایک مذہبی ماحول فراہم کرتے ہیں جسے ان کے والدین اہمیت دیتے ہیں۔ اور دوسری طرف چونکہ اس طرح کے اسکولوں میں صرف مسلمان بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ ان طالب علموں کو مذہبی طور پر متنوع معاشروں میں دوسرے مسلمانوں سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں مسلمان بچوں کے لئے آپ کون سے اسکولی تعلیمی نظام کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ وہ عام تعلیم کے علاوہ مذہبی تعلیم بھی حاصل کر سکیں، اور ساتھ ہی ساتھ دوسری کمیونٹیز کے طالب علموں کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے اور ان کے ساتھ دوستی کرنے کے مواقع سے بھی لطف اندوز ہو سکیں؟
جواب: میں آج مسلمانوں کے درمیان رائج ایسے اسلامی اسکولوں کا حامی نہیں ہوں۔ یہ مسلمانوں کو ایک اقلیت اور علیحدگی پسند کمیونٹی بنا دے گا۔ صحیح طریقہ وہ ہے جس کو عیسائیوں نے اپنایا ہےاس لیے کہ وہ اپنی مذہبی تعلیم کے لئے خاص مذہبی ادارے بناتے ہیں اور عام تعلیم کے لئے انہوں نے سیکولر اسکولوں کا قیام کیا ہے۔ مسلمانوں کو بھی تعلیم کے لئے یہ طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس سے مسلمانوں کے درمیان علیحدگی پسندی کا رجحان کم ہوگا۔
URL for English article: https://newageislam.com/interview/spirituality-‘modern’-education/d/107954
URL for this article: