نیو ایج اسلام کے لیے مولانا وحید الدین خان
7 مئی 2016
تقریباً ہر دن ہمیں اپنی زندگی میں چھوٹے یا بڑے برے تجربات ہوتے رہتے ہیں جو کہناگزیر ہے۔اس صورت میں ہمارے پاس دو راستے ہوتے ہیں: یا تو ہم اسے نظر انداز کرتے ہیں یا اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پہلا راستہ عفو در گزر کا ہے جبکہ دوسرا راستہ بدلہ اور انتقام لینےکا ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کون سا راستہ بہتر ہے؟اس کے لیے ہمیں اس کے نتائج پر غور کرنا چاہیےکیوں یہی ایک فیصلہ کن عنصر ثابت ہوگا۔
عفو در گزر کا راستہ بہتر راستہ ہےاس لیے کہ یہ خود کو اور بدترین تجربہ سے بچانے کے ایک ثابت شدہ اصول پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ عفو در گزرکا راستہ آپ کوفضول کے انتشار کے بچاتا ہے، آپ کا قیمتی وقت بچاتا ہے اور مزید مسائل پیدا کرنے سے بھی آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔یہ کسی بھی مسئلے کا ایک فوری حل ہے۔ اس کے بر عکس بدلہ اور انتقام کا راستہ پریشانیوں میں اضافے کا باعث ہےاور اس کا مطلب معاملات کو بد سے بدترین بنانا ہے۔ عفو درگزر سے آپ کا قیمتی وقت محفوظ ہوتا ہے ، جبکہ بدلہ اور انتقام سے صرف وقت ضائع ہوتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔
ایسی صورت میں، لوگ عام طور پر مشکل حالات کا سارا قصور مکمل طور پر دوسروں کے سر پر ڈالنے کے عادی ہیں۔ لیکن یہ ایک غیر دانشمندانہ ردعمل ہے۔بلکہ بہتر طریقہ اس معاملے میں اپنے ہی کردار کا محاسبہ کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یو کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ کو کسی ناگوار حالات کا سامنا ہے تو فریق ثانی پر توجہ مرکوز نہ کریں۔اس صورت میں آپ خود اپنے بارے میں سوچیں اور ایسا قدم اٹھائیں جو خود آپ کے لیے بہتر ہو۔ہماری زندگی میں کئی مرتبہ ایسے مواقع پیش آتے ہیں جن میں ہمارے سامنے دو طرح کے راستے ہوتے ہیں ؛ یا تو ہم دوسروں کے خلاف سوچتے ہیں یاوہ راستہ اختیار کرتے ہیں جو خود ہمارے حق میں بہتر ہو۔دوسروں کے خلاف سوچ ہمیں اخلاقی طور پر اتنا گرا دیتی ہے کہ ہم حیوانیت پر اتر آتے ہیں، جبکہ جب ہم اپنے بارے میں بہتر سوچتے ہیں تو ہم انسانی اخلاق و کردار کےاعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو جاتے ہیں۔
عفو در گزر کامطلب ایک ناپسندیدہ صورت حالکا سد باب کرنا جبکہ بدلہ اور انتقام کا مطلب پریشانیوں میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کرنا ہے۔ بخشش اور عفو در گزر آپ کے مثبت سوچ کو برقرار رکھتا ہےجبکہ بدلہ اور انتقام منفی سوچ کو پروان چڑھاتی ہے۔ اور منفی سوچ آپ سے تمام قسم کے برے اعمالانجام دلا سکتی ہے۔
کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بخشش اور عفو در گزرہمیشہ کار آمد نہیں ہوتا اور ’’جیسے کو تیسا‘‘ کی پالیسی اختیار کرنا بہتر ہے۔ لیکن’’جیسے کو تیسا‘‘ کی پالیسی کوئی حقیقی حل نہیں ہے؛یہ پریشانیوں کو ختم نہیں کرتی اس سے صرف عمل اوررد عمل کا ایک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔ بخشش اور عفو درگزرایک ہی بار میں مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے جبکہ بدلہ اور انتقام کی پالیسی مسئلے کو صرف سنگین کرتی ہے اور اسے طول دیتی ہے۔کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بخشش اور عفو درگزر کی پالیسی صرف ہمارے خلاف مزید ظلم میں ملوث ہونے پردوسروں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ لیکن یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔
نفسیاتی علوم کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان ایک انا اور ایک شعور کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔اگر آپ بدلہ اور انتقام کی پالیسی پر عمل کریں گے تواس سے دوسرے فریق کی انا بھڑک اٹھے گی جبکہ اگرآپ بخشش اور عفو درگزر کی پالیسی پر عمل کریں گے تو اس سے دوسرے شخص کا شعور بیدار ہو جائے گا ۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ متنازعہ معاملات میںشعور ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتا ہے۔
بخشش اور عفو درگزراور انتقام دو مختلف اخلاقی ثقافتیں ہیں۔بخشش اور عفو درگزرکی ثقافت ایک ایسے بہتر معاشرے کی تعمیر میں معاون ہوتی ہےجس میں مثبت اقدار پنپتے ہیں، باہمی تعاون کا جذبہ غالب آتا ہے اور جس میں منتشرجماعتیں اور گروہ متحد ہوکر ایک پرامن معاشرے میں خود کو تبدیل کرتے ہیں۔جبکہ کینہ پروریکا نتیجہ بالکل برعکس ہے۔ بدلہ اور انتقام کی ثقافت بداعتمادی کی فضا قائم کرتی ہے جس میں ہر شخص دوسروں کواپنا حریف مانتا ہے۔یہ ایک صحت مند معاشرے کی ترقی کے لیے روکاوٹ۔
دیر یا سویر ہر انسان سے کچھ نہ کچھ غلطی ہو جاتی ہے۔ایسی صورتحال میں یہ مقولہ ذہن میں پیدا ہونا چاہئے کہ ’’انسان خطاؤں کا پتلا ہے‘‘۔بدلہ اور انتقام لینےکا مطلب نہ صرف یہ کہ ایکاور غلطی کا ارتکاب کرنا ہےبلکہ غلطی پر غلطی کرنا ہے۔ اس کے برعکس بخشش اور عفو درگزر کا مطلب نیکی کے ذریعہ بدی کا خاتمہ کرنا ہے۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/spiritual-meditations/maulana-wahiduddin-khan-for-new-age-islam/practise-forgiveness-instead-of-revenge/d/107223
URL for this article: