مولانا وحید الدین خان، نیو ایج اسلام
12 اکتوبر 2016
سوال: حالیہ برسوں کے دوران کئی ملکوں میں مسلم مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مغرب میں مسلمانوں کو ریستوراں سے روکے جانے، انہیں جسمانی اور زبانی طور پر اذیت دیئے جانے کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ غلط شک و شبہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو ہوائی جہاز سے اترنے کے لیے کہاگیا۔ مسلم خواتین کو نقاب پہننے کی وجہ سے ان کی ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے۔ علاقائی غیر مسلم اپنے علاقوں میں مسجد کی تعمیر کی تجویز کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
آپ کو کیا لگتا ہے کہ ان بڑھتے ہوئے مسلم مخالف جذبات کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب: اس کا جواب قرآن مقدس کی اس آیت کے مطالعہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس آیت میں قرآن کا فرمان ہے: "اور اس فتنہ سے ڈرو جو خاص طور پر صرف ان لوگوں ہی کو نہیں پہنچے گا جو تم میں سے ظالم ہیں۔"
اگر ہم اس آیت کا مطالعہ کریں اور اس کا انطباق مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر کریں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہو گا کہ آج دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ "مسلم مخالف" جذبات کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے، بلکہ یہ خود مسلمانوں کی منفی سرگرمیوں کا رد عمل ہے۔
مسلمانوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ دہشت گردانہ سرگرمیان صرف چند مسلمان انجام دے رہے ہیں اور اس میں پوری امت مسلمہ ملوث نہیں ہے۔ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہو سکتا ہے کہ درست ہو لیکن اس مسئلہ کا دوسرا سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ آج کے دن تک مسلمانوں نے کھل کر واضح الفاظ میں دہشت گردی سے اپنی دست برداری کا اعلان نہیں کیا ہے۔ میں نے پوری مسلم دنیا میں کسی ایک مسلمان کو بھی مسلمانوں کی ان منفی سرگرمیوں کی کھل کر مذمت کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ اگر کوئی اس موضوع پر کچھ بولتا بھی ہے تو اس کی باتیں غیر واضح اور مبہم ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر وہ یہ کہتے ہیں کہ "ہاں یہ درست ہے کہ مسلمان دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں لیکن ان کی یہ سرگرمیاں ایک عمل کا رد عمل ہیں، اور وہ اپنے خلاف ایک امتیازی رویہ کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں"۔ یقیناً اس قسم کی مذمت کوئی مذمت نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو بلواسطہ طور پر مسلمانوں کی پرتشدد سرگرمیوں کو جواز فراہم کرنا ہے۔
اگر حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ جو مثالیں ابھی آپ نے پیش کی ہیں وہ امتیازی سلوک کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ بلکہ یہ حالات خود مسلمانوں کے مشکوک رویوں کا نتیجہ ہیں۔ اس امتیازی سلوک کے ذمہ دار خود مسلمان ہی ہیں۔ایک حدیث کے مطابق بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "خود کو مشکوک ہونے سے بچاؤ"۔ چونکہ مسلمان غلط سرگرمیوں میں ملوث مسلمانوں کی کھل کر تردید نہیں کرتے ہیں اسی لیے اس کمیونٹی کے دوسرے افراد کو بھی اس "امتیازی سلوک" کا سامنا کرنا ہوگا۔ اگر مسلمان غلط سرگرمیوں میں ملوث مسلمانوں کی کھل کر تردید کرتے تو اس "امتیازی سلوک" کا سامناصرف انہیں مسلمانوں کو کرنا پڑتا جو ان غلط سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
سوال: ہو سکتا ہے کہ کچھ مسلمان مسلم مخالف جذبات کا جواب اس کے خلاف مظارہ کر کے اور اس امتیازی سلوک کی مذمت کر کے دیں۔مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ وہ اس ریستوراں کے بائیکاٹ کی تحریک چھیڑ دیں جن سے انہیں روکا گیا ہے۔ یا وہ اس بات کا مطالبہ کر سکتے ہیں کہ جس ایئر لائن کمپنی کے ملازم نے مسلم مسافر کو غلط شک و شبہ کی بنیاد پر دہشت گرد سمجھ کر جہاز سے اتار دیا تھا وہ معافی کا اعلان کرے۔ یا وہ اس بات کا بھی مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ممالک مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کو روکنے کے لیے سخت قوانی بنائیں۔
مسلم مخالف جذبات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس طریقہ کار کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: یہ تمام مسائل قانون فطرت کی وجہ سے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ممالک مسلمانوں کے تئیں امتیازی سلوک کے خلاف قوانین وضع کریں۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کے پاس صرف دو ہی راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا اعلان کریں کہ وہ ایک واحد کمیونٹی نہیں ہیں۔ بلکہ ہر ایک مسلمان کا معاملہ الگ اور جدا ہے۔ اور اس طرح اگر کسی ایک مسلمان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو مسلمان اجتماعی طور پر اسے اپنا مسئلہ نہیں مانیں گے بلکہ اسے صرف کسی ایک خاص مسلمان کا مسئلہ مانیں گے۔ اور اگر مسلمان ایسا نہیں کر سکتے اور وہ خود کو ایک امت واحدہ تصور کرتے ہیں تو انہیں ان لوگوں کی کھل کر واضح لفظوں میں مذمت کرنی ہوگی جو منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔اگر وہ ان لوگوں کی مذمت نہیں کرتے ہیں تو یقیناً ان لوگوں کی منفی سرگرمیوں سے پوری دنیا یہ نتیجہ اخذ کرے گی کہ پوری امت مسلمہ اس کے لیے ذمہ دار ہے، اس لیے کہ خود مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم تمام مسلمان ایک امت واحدہ کے افراد ہیں۔
اپنے سوال میں امتیازی سلوک کی جو مثالیں آپ نے پیش کی ہیں وہ روزمرہ کی زندگی میں سیکولر افراد کے ساتھ بھی پیش آتی ہیں، لیکن پوری سیکولر دنیا اسے "سیکولر کمیونٹی" کا مسئلہ نہیں مانتی ہے۔سیکولر دنیا میں ہر انسان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اور چونکہ "سیکولر امت" کا کوئی تصور نہیں ہے اسی لیے جب ایسا کوئی مسئلہ سیکولر افراد کے ساتھ کے ساتھ پیش آتا ہے تو سیکولر افراد کے جذبات کو ٹیس نہیں پہونچتی ہے، اس لیے کہ سیکولر افراد خود کو ایک واحد کمیونٹی نہیں ماتے ہیں۔ وہ اسے اس فرد واحد کا مسئلہ تصورکرتے ہیں جس کے ساتھ یہ پیش آیا ہے۔لیکن جب اس طرح کے معاملات مسلمانوں کے ساتھ پیش آتے ہیں تو پوری مسلم برادری کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں۔ جو کچھ ایک مسلمان کے ساتھ بیتتی ہے اس کے اثرات پوری مسلم کمیونٹی پر مرتب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی ایک مسلمان کوئی غلط عمل انجام دیتا ہے تو پوری دنیا دوسرے مسلمان پر بھی شک کی نظر ڈالنا شروع کر دیتی ہے۔ اس سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو اپنے درمیان موجود غلط کاموں میں ملوث انفرادی مسلمانوں کی شدید مذمت کرنی چاہیے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو انہیں ایک امت واحدہ کے تصور کو ترک کر دینا چاہئے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کا مسئلہ اس کا اپنا مسئلہ اور جو کچھ وہ کرتا ہے اس سے دوسرے مسلمانوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوال: آپ کو کیا لگتا ہے کہ اسلامو فوبیا کے خلاف احتجاج کا طریقہ جس کی حمایت بہت سے مسلمان کرتے ہیں، مسلمانوں کے خلاف منفی آراء رکھنے والوگوں کے دل و دماغ کو تبدیل کرنے میں کس قدر موثر ہو سکتا ہے؟
جواب: مسلمانوں کا یہ طریقہ مسلمانوں کے بارے میں دوسروں کے خیالات کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان خود اپنی اصلاح کریں۔ دوسروں سے تبدیل ہونے کا مطالبہ کرنا اس سلسلے میں بالکل ہی کوئی فائدہ مند نہیں ہو سکتا۔
سوال: اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ یہ طریقہ کار اس سلسلے میں مؤثر نہیں ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ اس کا متبادل طریقہ کار کیا ہے جو مسلمانوں کو اختیار کرنا چاہیے اور جو مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں اپنی رائے کو تبدیل کرنے میں دوسروں کے لیے معاون ہو؟
جواب: اس معاملے میں نقطہ آغاز یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو مسلمانوں کے نمائندے ہیں کھل کر مسلمانوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے برات کا اظہار کریں۔ انہیں دہشت گردی میں ملوث ہونے سے مسلمانوں کو روکنا چاہیے، اور اگر ان کے لئے یہ ممکن نہ ہو تو انہیں مسلمانوں کی ان سرگرمیوں کی واضح طور پر مذمت کرنی چاہئے۔
سوال: مسلم مخالف جذبات کے خلاف شکایت کرنے اور ان کی مذمت کرنے سے ایک خاص نقطہ نظر کی نمائندگی ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش ہے۔ یہ ایک منفی نقطہ نظر ہے اور یہ کسی چیز کے خلاف بھی ہے۔ بلکہ اس مسئلے میں ایک دوسرا اور مثبت نقطہ نظر بھی ہے اور وہ ان کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنے کے باوجود دوسروں کے ساتھ نیکی کر کے، ان کی خدمت کر کے اور ان کے ساتھ بھلائی کر کے اسلام اور مسلمانوں کے تئیں دوسروں کے تصورات کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ پہلے کے برعکس ایک تعمیری نقطہ نظر ہے۔ یہ کسی منفی چیز کی مذمت کرنے کے بجائے کوئی مثبت قدم اٹھانا ہے۔
آپ ان دونوں نقطہ نظر میں سے مسلمانوں کو کون سا نقطہ نظر اپنانے کا مشورہ دینگے اور کیوں؟
جواب: اسلام اور مسلمانوں کے تئیں لوگوں کے منفی نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے نمائندے مسلمانوں کی غلط سرگرمیوں کی مذمت کریں۔ مثال کے طور پر، اجتماعی طور پر تمام علماء کو غیر مشروط طور پر مسلمانوں کی منفی سرگرمیوں کی مذمت میں ایک فتوی جاری کرنا چاہیے۔
URL for English article: https://newageislam.com/interview/maulana-wahiduddin-khan-anti-muslim/d/108836
URL for this article: