مولانا وحید الدین خان: نیو ایج اسلام
7 اکتوبر 2016
آج دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان پرتشدد سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ جب انہیں اس سے باز رہنے کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ:" ہم صرف وہی کر رہے ہیں جس کا حکم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا ہے"۔ اس سلسلے میں وہ ایک ایسی حدیث کا حوالہ دیتے جس سے مومنوں کے لیے غلط کاموں کو درست کرنے کا حکم ثابت ہوتا ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم میں جو شخص بھی کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھے تو پہلے اپنے ہاتھ کی طاقت سے اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے، اگر اس کے ہاتھ میں اس برائی کو روکنے کی طاقت نہ ہو تو وہ اسے اپنی زبان سے روکنے کی کوشش کرے، اور اگر اس کی زبان میں اس برائی کو روکنے کی طاقت نہ ہو تو اسے اپنے دل سے برا سمجھنا چاہیے، اور یہ ایمان کا سب سے ادنیٰ درجہ ہے"۔ (صحیح مسلم)
اس حدیث کا حوالہ تشدد کا جواز پیش کرنے کے لئے دیا جاتا ہے، اگرچہ حقیقۃً اس حدیث میں تشدد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس حدیث میں اصلاح یا کسی غلط کام کو درست کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کسی کے اندر اس غلطی کو اپنی قوت بازو سے دور کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو پھر اس حدیث کا فرمان ہے کہ انسان کو اس کے خلاف اپنی زبان کھولنی چاہیے۔ یقیناً اس حدیث میں ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے کہ کچھ غلط ہوتا ہوا دیکھ کر انسان کو لوگوں کے خلاف تشدد پر آمادہ ہو جانا چاہیے یا انہیں روکنے کے لیے خود کش بم حملوں کا سہارا لینا چاہئے۔ کوئی بھی انسان اس حدیث سے پرتشدد سرگرمیوں کا جواز حاصل نہیں کر سکتا۔
اس حدیث میں تغیر منکر کی بات کی گئی ہے جس کا مطلب کسی غلطی کو دور کرنا اور اس کا تدارک کرنا ہے۔ عربی لفظ تغیر کا مطلب 'متبادل' ہے۔ لہذا، مندرجہ بالا حدیث میں لفظ تغیر کا مطلب کسی برائی یا غلط بات کو اس چیز سے بدلنا ہے جو غلط یا بری نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر بات کی جائے تو یہ حدیث ایک مخصوص حالت کی اصلاح کرنے کا حکم دیتی ہے اور تنازعہ اور تباہ کاری میں ملوث ہونے کا حکم نہیں دیتی۔
ایک معروف عربی لغت لسان العرب میں لفظ تغیر کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی گئی ہے: 'تغیر کا مطلب کچھ تبدیل کرنا ہے۔ اور ایک ایسی تبدیلی پیدا کرنا ہے جواس سے پہلے نہ ہوئی ہو۔ (40/5)" گیارھویں صدی کے مفسر قرآن اور عربی زبان کے ماہر راغب اصفہانی رحمہ اللہ (متوفی۔1108) نے قرآنی اصطلاحات کی ایک لغت لکھی ہے جس کا نام المفردات فی غریب القرآن ہے جس میں انہوں نے لفظ تغیر کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے: " کہا جاتا ہے میں نے اپنے گھر کو تبدیل کر دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے گھر کی تعمیر کو تبدیل کر دیا اور نئے سرے سے اس کی تعمیر کی۔"
آج دنیا کے مختلف علاقوں میں جہاد کے نام پر تشدد اپنے پاؤں پسار رہا ہے۔ یہ نام نہاد 'مقدس تشدد' خود ساختہ مسلم رہنماؤں کی قیادت میں انجام دیا جا رہا ہے۔ اور اس میں تقریبا تمام مسلمان کسی نہ کسی طرح ملوث ہیں اس لیے کہ جو مسلمان براہ راست اس تشدد میں ملوث نہیں ہیں وہ اس پر خاموش ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے ان کی یہ خاموشی بالواسطہ طور پر ان کے تشدد میں ملوث ہونے کے مترادف ہے۔ لہذا، اسلامی اصولوں کے مطابق پوری امت مسلمہ کو اس تشدد میں ملوث تصور کیا جائے گا-کچھ لوگ براہ راست ہوں گے جبکہ کچھ بالواسطہ طور پر۔
حقائق ہمیں یہ بتاتے ہیں اس تشدد نے کوئی مثبت نتائج پیدا نہیں کا ہے۔ اس تشد کا صرف ایک ہی نتیجہ ظاہر ہوا ہے اور وہ بالکل ہی تعمیری نہیں بلکہ صرف تباہی و بربادی ہے۔ اس صورتحال میں کوئی بھی کسی بھی شک کے بغیر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ پر تشدد کارروائیاں یقینی طور پر تغیر منکر یا کسی بھی غلط چیز کی اصلاح نہیں ہیں۔ کسی غلط بات کی اصلاح کرنے کا مطلب کسی ناپسندیدہ صورت حال کو تبدیل کرنا اور اس کی جگہ ایک مطلوبہ اور پسندیدہ صورتحال پیدا کرنا ہے۔ اس کے برعکس جو کوئی بھی عمل اس کا الٹا نتیجہ پیش کرے وہ یقینی طور پر تباہی ہے اور کسی بھی طرح وہ ایک اسلامی اور پسندیدہ عمل نہیں ہے۔
ایک ناپسندیدہ صورت حال میں ایک منفی ردعمل تشدد اور تنازعات کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ تغیر منکر نہیں ہے یا کسی غلطی کا تدارک نہیں ہے۔ مکمل طور پر ایک مثبت عمل ہی کسی غلطی کا تدارک ہے۔ اس کا استعمال صورت حال کو مزید بدتر بنانے کے لئے نہیں بلکہ موجودہ صورت حال میں اصلاحات پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کسی صورتحال میں اصلاحات پیدا کرنے کے لیے ایک غیر جانبدار ذہن کے ساتھ اس کا تجزیہ کرنا اور پھر تعمیری منصوبہ بندی کے ذریعے اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ اس کے برعکس کر رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کوئی اصلاح نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ مزید تباہی و بربادی کا سامان پیدا کر رہے ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/enjoining-good-forbidding-wrong/d/108789
URL for this article: