نیو ایج اسلام کے لئے مولانا وحید الدین خان
16 فروری، 2015
ایک عالم نے بجا طور پر کہا ہے کہ "اگر کسی شخص کے گھر میں حدیث کا ایک مجموعہ موجود ہو تو یہ ایسا ہی ہے گویا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ہم کلام ہیں"۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ پوری سنجیدگی کے ساتھ حدیث کی کوئی کتاب کھولتے ہیں اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال پڑھتے ہیں تو آپ کو یہ محسوس ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست آپ سے گفتگو کر کے آپ کو اپنی رہنمائی عطا کر رہے ہیں۔
یہی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا ہے۔ اگر آپ کے اندر حقیقی روح زندہ ہے اور آپ خلوص دل کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو آج بھی آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا تجربہ کر سکتے۔
مثال کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ کبھی بھی اپنے دشمنوں سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ بلکہ آپ ان کے ساتھ عظیم اخلاقی کردار پیش کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہدایت کے لئے خدا سے التجا فرماتے تھے۔ لہٰذا، اگر آپ کا کوئی دشمن ہے اور آپ اس کے دشمنی کا سلول نہیں کرتے، بلکہ یہ سوچتے ہیں کہ : "مجھے اپنے دشمنوں کے ساتھ وہی برتاؤ کرنا چاہیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے ساتھ کرتے تھے" اور اگر آپ ان کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہیں تو اس وقت آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خصوصی لگاؤ محسوس ہوگا۔ اور آپ اپنے خیالات اور احساسات کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت محسوس کریں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لگاؤ کا یہ احساس اتنا زیادہ ہو جائے گا کہ آپ یہ محسوس کریں گے کہ وقت کا فاصلہ ختم ہو گیا ہے اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جس کا تجربہ کوئی بھی کہیں بھی کر سکتاہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین آپ کے ساتھ انتہائی نا مناسب انداز میں پیش آتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل اور جادوگر کہتے تھے۔ لیکن پھر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف کسی منفی رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ انہوں نے نہ تو ان کے خلاف شکایت کی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مظاہرہ کیا۔ اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے لئے خدا سے دعا کی۔
اگر آپ کو کبھی اس طرح کے منفی تجربات کا سامنا ہوتا ہے اور آپ اس سلسلے میں سچے دل کے ساتھ رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرتے ہیں تو اس وقت آپ کے دل میں ایک جذبہ بیدار ہوگا۔ آپ کو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خاص تعلق کا احساس ہوگا اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت محسوس کریں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی دو قسمیں کی جا سکتی ہیں۔ ایک جسمانی معیت ہے۔ دوسرا روحانی یا نفسیاتی معیت ہے۔ جو مومن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر تھے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی صحبت نصیب ہوئی۔ بعد کے ادوار کے مومنوں کو روحانی یا نفسیاتی صحبت کی نعمت حاصل ہو سکتی ہے، بشرطیکہ وہ اس کے لیے لازمی شرط کو پوری کرتے ہوں جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہری نفسیاتی مطابقت پیدا کرنا ہے۔
صحبت کے لیے جسمانی طور پر کسی کے ساتھ موجود ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس کا انحصار مکمل طور پر نفسیاتی مطابقت پر ہے۔ اسلام کے ابتدائی ادوار میں اسلام قبول کرنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفسیاتی مطابقت رکھتے تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے بڑا فائدہ حاصل کیا۔ اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفسیاتی مطابقت نہیں رکھتے تھے وہ جسمانی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کا فائدہ حاصل کرنے سے محروم رہ گئے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے صحابہ اور منافقوں کے درمیان واضح فرق کی بنیاد اسی پر تھی۔ نبی کے سچے صحابہ نفسیاتی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متفق تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فائدہ حاصل کرنے کے قابل تھے۔ دوسری طرف، منافق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نفسیاتی طور پر متفق نہیں تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہے وہ جسمانی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نزدیک ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے فائدے سے محروم رہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/companionship-prophet/d/101541
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/companionship-prophet-/d/101661