By Zeeshan Ahmad Misbahi
There is a reference of Dabbatul Arda as a sign of resurrection in holy Quran which says a little before the dooms day that an animal will appear with the power of conversation with human being and will declare the presence of God. Mualana Wahiduddin Khan in Al-Risala of May 2011 declares the meaning of Dabbatul Arda as the last Daee, meaning the person who will speak in a logical language. Whereas in the issue of June 2007 he had describe the meaning of Dabbatul Arda as the modern day multimedia, which is hilarious, whereas prior to this also he had taken the meaning of Dabbatul Arda as an animal in Tazkirul Quran with a note that the thing people did not accept said by a human Daee, will be declared an animal.
Source: Jaam-e-Noor Monthly, Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-wahiduddin-khan-his-claim/d/5365
مولانا وحید الدین خان کا
امام مہدی علیہ السلام ہونے کے دعویٰ سےا نکار
نام کتاب : مولانا وحید الدین
خان اور دعوائے مسیحیت و مہدیت
مصنف : غلام نبی کشافی ، صفحات:64،
قیمت :30روپے ،سال اشاعت :2011
ناشر: نعمانی اکیڈمی
31/114نظیر آباد لکھنؤ
مبصرین : ذیشان احمد مصباحی
اسلام ہر شے میں اعتدال کا
نام ہے۔ اس لئے اسے دین وسط اور دین فطرت کہا گیا ہے۔ گمراہی اسی اعتدال سے انحراف
کا نام ہے۔ خواہ وہ انحراف تقصیر اور کمی کے ذریعے ہو خواہ مبالغے اور اضافے کے ذریعہ
اس لئے سورۃ الفاتحہ میں صراط مستقیم کے لئے دعا کی گئی ہے اور مغضوبین اور ضالین کی
راہ سے پناہ مانگی گئی ہے۔
بیسوی صدی میں برپا ہونے والی
مولانا ابو الاعلی مودودی کی علمی وفکری تحریک جماعت اسلامی، اسلامی نظام/حکومت الہٰیہ
کے قیام کے ایجنڈا کے تحت قائم ہوئی۔ اس کی فکر ی غذا کے لئے مودودی صاحب اور ان کے
احباب نے لٹریچر کا انبار لگادیا ۔ اس لٹریچر میں بھی یہ اصول اپنا یا گیا تھا کہ جو بات کہی جائے ٹھونک
بجاکے غیر جانبداریت کے ساتھ کہی جائے۔ صرف تنقید ی فکری کے تحت نہ کہی جائے۔ یہ بات
اچھی تھی اگر اعتدال پر قائم رہتی لیکن اس کے برعکس ہر بات کو صحیح فریم میں دیکھنے
سے زیادہ جماعتی ارباب قلم کے اندر ایک دوسرا شوق پروان چڑھنے لگا اور وہ تھا ائمہ
اعلام سے لے کر اصحاب رسول تک کے قدناپنے کا شوق ۔بجائے اس کے کہ اسلام کو اصحاب ،تابعین
اور تبع تابعین کے توارث سے سمجھنے کی کوشش ہوتی اپنی مخصوص فکر کے تحت اصحاب ،تابعین
اور تبع تابعین کا احتساب شروع ہوگیا۔ اس طریق فکر نے درجنوں انحرافات جنم دیے جن میں
ایک نمایاں انحراف یہ تھا کی جماعت اسلامی کا پورا دماغ حکومت الہٰیہ کی تشکیل پر صرف
ہونے لگا اور اس کے لئے حرب وضرب کے مسائل پرغور کیا جانے لگا اور اسلام کے دوسرے احکام
خصوصاً اسلام کے تعبدی پہلو (خالق اور بندے کے درمیان رشتہ عبودیت) کو ثانوی درجہ دیا
جانے لگا۔
مولانا وحید الدین خان صاحب
جو جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں تقریباً پندرہ سالوں تک اس کے سرگرم رکن رہے ،انہیں
اس بات کا احساس ہوا اور انہوں نے جماعت اسلامی کے اس انحراف فکری کے حوالے سے اس کے
ارباب حل و عقد سے مراجعت و مراسلت کی اور جب کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا
تو آخر میں انہوں نے اپنا علمی اختلاف تعبیر کی غلطی کی شکل میں پیش کردیا۔ پھر اس
کے بعد غیر شعوری طور پر جماعت اسلامی کا تعاقب ،اعتدال کی دعوت اور مثبت طریق فکر
وعمل کی تحریک مولانا کی فکر وقلم پر گویا سوار ہوگئی ۔ اگر یہ بات یہیں تک محدود رہتی
توکیا اچھا ہوتا، مولانا کو جو قدرت کی طرف سے زرخیز دماغ اورغیر معمولی قوت تجزیہ
عطا ہوئی تھی، اس سے وہ ملت اسلامیہ کی فکری تشکیل جدید کا بڑا کام کرسکتے تھے لیکن
افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔مثبت مثبت کی رٹ لگاتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ نفسیاتی طور پر
منفی ذہنیت مولانا پر مسلط ہوگئی۔ اب انہیں اپنے علاوہ پوری تاریخ اسلام میں کہیں بھی
کوئی قابل قدر شخصیت یا تحریک نظر نہیں آتی۔
مثبت مثبت کی رٹ کے ساتھ تاریخ اسلام، شخصیات
اسلام اور ماضی اور حال کے مسلمانوں میں کیڑے نکالنا مولانا کا محبوب مشغلہ بن گیا۔
اس کا نتیجہ تھا کہ شروع شروع مولانا کی مثبت فکر کی دعوت نے بہتوں کو متاثر کیا اور
پھر رفتہ رفتہ ہر شخص ان سے بیزر ہوتا چلا گیا۔ مولانا کی شناخت مصلح امت کی بجائے
مسلمانوں کے خلاف غیر مسلموں کے وکیل کی بن گئی ۔2007کے الرسالہ میں انہوں نے ایک نیا
شوشہ چھوڑ ا اور موجودہ دنیا کے لئے محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ماڈل سے زیادہ مسیحی
ماڈل کو قابل انطباق بتایا۔ یہ بات بھی جماعت اسلامی سے فکری اختلاف کی آخری متشدد
انہ شکل تھی۔ کیو نکہ جماعت اسلامی کے لٹریچر میں جہاد پر زور دیا گیا تھا۔ خان صاحب
کو جہاد کی تاویل اور تشریح جدید کرتے کرتے جب جی نہیں بھرا تو آخر کار عصر حاضر کے
لئے محمدی طریق دعوت کو ہی ناقص اور ناقابل انطباق ٹھہرادیا جس میں دیگر تعلیمات کے
ساتھ واضح طور پر جہاد کے احکام بھی شامل ہیں۔
مولانا کا یہ فکری سفر
2010میں اپنے آخری پڑاؤ پر پہنچ گیا ۔ مولانا کا الرسالہ مئی 2010،قیامت کا الارم
بن کر سامنے آیا جس میں آثار قیامت پر گفتگو کرتے ہوئے اشاروں کی زبان میں خود کو
مسیح و مہدی بتاتے ہوئے مولانا نے جو کچھ کہا وہ ہی ساتھ ہی اس کے اگلے شمارے یعنی
جون 2010میں یہ بھی فرمادیا کہ حدیث میں بیان کردہ علامتیں بتاتی ہیں کہ قیامت اب بہت
قریب ہے اس اعتبار سے غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ دجال او رمہدی اور مسیح کا ظہور
ہوچکا ہے ۔ (الرسالہ جون 2010،ص:5)
جس مسیح او رمہدی کا ظہور
ہوچکا ہے اس کے اوصاف یہ ہیں:
ایسی حالت میں مہدی یا مسیح
کا پہلا کام یہ ہوگا کہ اسلام کی ایک غیر اسکری آئیڈ یا لوجی دریافت کریں گے۔ (الرسالہ
اگست 2010)،
دجال کے مقابلے میں جو واقعہ
پیش آئے گا وہ یہ ہے کہ مسیح اس کے دجل کا علمی تجزیہ کر کے اس کو ایکسپوز(Expose )کردیں گے۔ ،(الرسالہ
،مئی 2010،ص ،53)
مہدی اپنے احوال کے برعکس
استشنائی طور پر ایک ہدایت یاب انسان ہوگا.....مہدی نہ خود اپنے مہدی ہونے کا دعویٰ
کرے گا او رنہ آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ فلاں شخص مہدی ہے ، اس کو مانو اور اس
کی اتباع کرو۔ (الرسالہ ،مئی 2010،ص:36)
مہدی کے بارے میں حدیث میں
آیا ہے کے یو اظی اسمہ اسمی یعنی اس کا نام میری نام کےموافق ہوگا۔ یہاں نام سے مراد
صفت ہے۔ (ص:38)
مہدی کا کام سیاسی انقلاب
کے ہم معنی نہیں ہوگا بلکہ وہ افراد کے اندر ہی ذہنی سطح پر انقلاب پیدا کرنے کے ہم
معنی ہوگا۔ (ص:39)،
حدیثوں کے مطالعہ سے یہ سمجھ
میں آتا ہے کہ دجال یا دجالیت دراصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار
یہ ہوگا کہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے، وہ یہ تاثر دیں گے کہ حق
علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود
سائنسی دلائل کے ذریعہ اس دجالی فتنے کا خاتمہ کردے گا۔ (ص:18)۔
مہدی اور مسیح موعو د دونوں
ایک ہی شخصیت کے علامتی طور پر الگ الگ نام ہیں۔ (ص:41) کاغذ کے ان ٹکڑوں کو کوئی بھی
جوڑ کر دیکھ لے مولانا وحید الدین خان صاحب کی تصویر بالکل واضح طور پر دکھائی دے گی۔
مولانا نے واضح لفظوں میں کہیں نہیں لکھا کہ میں مہدی اور مسیح ہوں لیکن اس کے ساتھ
واضح لفظوں میں یہ ضرور لکھ دیا کہ مسیح اور مہدی خود دعوی نہیں کریں گے باقی جو کچھ
کہا اس میں اشاروں کی زبان میں سب کچھ کہہ دیا اور وہ بات ہوگئی جس کا شاعر کو خدشہ
تھا:
بے زبانی زباں نہ ہوجائے راز الفت عیاں نہ ہوجائے
زیر تبصرہ کتاب، مولانا وحید
الدین خان اور دعوائے مسیحیت و مہدیت ،جناب غلام نبی کشافی نے مولانا کے اسی قیامت
کا الارم ،کے جواب میں لکھی ہے۔ کشافی صاحب نے بہت محنت ،جان فشانی ،توازن ، حقیقت
پسندی اور غیر جانب دارانہ تجزیے کے ساتھ لکھا ہے۔ یہ کتاب اور اس کے ساتھ مدیر اعلیٰ
جام نور کے نام کشافی صاحب کا خط جب موصول ہوا تو دیر تک ہم سوچتے رہے کہ کیا یہ اسی
قلم کی سیاہی ہے جو پچھلے دس سالوں سے مولانا کے دفاع میں شعلے اگل رہا تھا اور اسے
عرب وعجم میں مولانا کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا تھا ۔ اور تو اور مولانا وحید الدین
خان صاحب کے بارے میں گزشتہ سالوں میں جب کبھی جام نور نے بھی کچھ لکھا کشافی صاحب
نے آستین چڑھالی اور دفاعی مورچہ سنبھال لیا۔ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا
کہ خان صاحب کا اتنا بڑا دفاعی ان کا مخالف کیوں کر ہوسکتا ہے۔
کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوا
کہ کشافی صاحب طبعا حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ خان صاحب کی موافقت اور دفاع میں
بھی اپنے طور پرمخلص تھے اور مخالفت میں بھی مخلص تھے۔ لکھتے ہیں:ان کی ہر تحریر کے
احسن پہلو کی تلاش میں اتباع کا جزبہ لئے ان کے الرسالہ مشن کے ساتھ جڑ گیا اور یہاں
سری نگر میں سیکڑوں افراد کو الرسالہ کا مستقل قاری اور مولانا کے فکر و نظر کا حامی
بنادیا ۔ اس سلسلے میں پچھلی دودہائیوں سے کام کرتا آیا ہوں، اور اس طویل عرصہ کے
دوران میں نے مولانا سے بہت سے معاملات ومسائل میں اختلاف بھی کیا اور درجنوں لمبی
تحریریں بھی لکھی ہیں اور اپنے اختلاف کو قرآن اور حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں
ان کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔ مگر افسوس کہ عام طور پر میں نے ان کو جواب دینے
کے معاملے میں قاصر ناکام اور راہ فرار اختیار کرتےہوئے پایا۔ اور میں اپنی سادہ لوحی
کی وجہ سے دعوت الی اللہ کے جزبے کے تئیں ان سے اپنے اختلاف کو نظر انداز کرتا رہا۔
اور ان کا برابر ساتھ دیتا رہا۔ لیکن پچھلے چند برسوں کے دوران ان کی نئی کاوشیں اور
نئے نظریات ،مسیحی ماڈل، اسوۂ حسنہ کی صورت میں سامنے آنے لگے تو شروع شروع میں میں نے قلم اٹھا کر ان کے نت نئے نظریات کو حق ثابت
کرنے کےلئے انہیں روش پر چل کر نہ صرف آمنا وصدقنا کہا بلکہ تاویل وتعبیر کا سہارا
اور نئے دلائل کو تلاش کر کے ان کے حق میں چند تائیدی تحریریں بھی لکھ ڈالیں۔ اور میرے
اس کام کو بڑی حوصلہ افزائی ملی اور الرسالہ کے خبر نامہ کے تحت میرا بھی ذکر آنے
لگا۔ مگر مجھے نہیں معلوم تھا کہ یاتو میں استعمال ہورہا تھا یا پھر میں غیر محسوس
طریقے سے گمراہی کی طرف سے برھنے لگا۔ لیکن جب پہلی بار محسوس ہونے لگا کے مولانا اب
فائنل طور پر خودہی مہدی ماڈل اور مسیحی ماڈل کے روپ میں جلوہ افروز ہونے کی تیاری
کررہے ہیں ۔ تو مجھے سخت بے اطمینانی وبے چینی ہونے لگی اور مجھے اب تک کے مولانا کی
حمایت و تائید کرنے کے معاملے میں شرمندگی کا احساس ہونے لگا ۔ اس طرح پھر میں نے مولانا
کے تمام نظریات کے حوالے سے نئے سرے سے سوچنا اور غور کرنا شروع کیا تو اس سلسلہ میں
الرسالہ مئی 2010کا شمارہ مولانا کے مغالطہ انگیز نظریات سے باہر آنے کےلئے بنیاد
بنا
الرسالہ مئی 2010کا مسودہ
اشاعت سے قبل مختلف اہل نظر کو ارسال کیا گیا تھا جن میں ایک خوش نصیب کشافی صاحب بھی
تھے۔ کشافی صاحب نے مولانا کے معتمد مولانا ذکو ان ندوی کو فون کر کے اپنا اختلاف اور
احتجاج درج کرایا اور اس کی اشاعت کو روکنے کا مشورہ دیا لیکن اس کے باوجود وہ مسودہ
مئی کے شمارے کے طور پر منظر عام پرآگیا تو کشافی صاحب نے اپنا دینی اور اخلاقی فریضہ
سمجھتے ہوئے اس کا تنقیدی تجزیہ تاویل سے تکبیس تک کے عنوان سے لکھ کر مولانا کے پتے
پر روانہ کردیا پھر مزید اضافے کے بعد نعمامی اکیڈمی لکھنؤ نے اسے کتابی شکل میں شائع
کیا جو اس وقت ہمارے پیش نظر ہے۔
زیر تبصرہ کتاب 64صفحات پر
مشتمل ہے جس میں اصلی گفتگو 50صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ کشافی صاحب نے بڑی عرق ریزی
کے ساتھ خاں صاحب کے زعم مہدیت و مسیحیت کا تجزیہ کیا ہے ۔ الفاظ و تعبیرات اور طرز
تحریر ایک حد تک خود مولانا کے نام کیا گیا ہے اس اعتراف کے ساتھ کہ میں نے معاصر علما
میں سب سے زیادہ استفادہ انہی کی تحریروں سے کیا،
کشافی صاحب نے دعوائے مہدیت
کا تجزیہ نسبتاً زیادہ مفصل انداز میں کیا ہے۔ دعوائے مہدیت کے ذیل میں پہلا عنوان ،غلط فہمی یا کچھ اور کے تحت لکھا ہے کہ روایات
میں جس مہدی اور مسیح کاذکر آیا ہےوہ دونوں ایک ہیں اور وہ کوئی اور نہیں ،وہ خود
ہیں، مولانا اپنے بارے میں اس قدر شدید غلط فہمی کا شکار ہوجائیں گے مجھے آج تک کبھی
اس کی امید نہیں تھی او رنہ میرے حاشیہ خیال میں اس طرح کا کوئی تصور تھا۔ (ص:14)
اس کتاب میں مثالوں کے ذریعہ
یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ مولانا زیر بحث مسئلے میں دور ازکار تاویل کرتے ہوئے تلبیس
کی حدیں کر اس کردیتے ہیں اور نقل روایت میں عموماً حدیث کا وہ ٹکڑا نقل کرتے ہیں جس
سے ان کا مقصد پورا ہوتا ہے اور دوسرے حصے کو جس سے ان کی خیالی عمارت زمین بوس ہوتی
ہوئی محسوس ہوتی ہے اس کو کلیۃ نظر انداز کردیتے ہیں ،مثال کے طور پر خاں صاحب نے ابن
ماجہ کی ایک حدیث نقل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ،دجال جب مسیح کو دیکھے گا تو وہ
اس طرح پگھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا
ہے اور وہاں سے بھاگنا شروع کردےگا ،مسیح کہیں گے کہ میرے پاس تیرے لئے ایک
ایسی ضرب ہے جس سے بچنا ہر گز تیرے لئے ممکن نہیں۔
خان صاحب نے اس حدیث کی تاویل
کرتے ہوئے کہا کہ یہ حدیث تمثیل کی زبان میں ہے اور دجال کو قتل کرنے کا مطلب اس کے
دجل کا علمی تجزیہ کرکے اس کو ایکسپوز کرنا
ہے۔ قطع نظر اس سے کہ یہ تاویل بہت بعید ہے اور ایسی تاویل شریعت اسلامی کو بازیچہ
اطفال بنادینے کے لئے کافی ہے مگر اس سے بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حدیث کا وہ ٹکڑا
جو ہر گز اس تاویل کا متحمل نہیں خاں صاحب نے اسے حزف کردیا کیو نکہ اس حدیث میں کہا
گیا ہےکہ دجال کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام لدشہرکے مشرقی دروازے پر قتل کریں گے ، خاں
صاحب نے اس کو حزف کردیا کیو نکہ شاید ان کے لئے اس واقعے کی تاویل ،علمی تجزیہ ، سے
ممکن نہیں تھی۔
اس طرح ابوداؤد کی ایک حدیث
جس میں کہا گیا ہے کہ نہر کے اس پار ایک شخص نکلے گا جس کانام حارث بن حراث ہوگا، اس
کے آگے ایک شخص ہوگا جس کا نام منصور ہوگا ، وہ آل محمد کو غالب کرے گا جس کہ قریش
نےرسول اللہ کو غالب کیاتھا اس کی مدد کرنا یا فرمایا اس کا حکم ماننا سب پر واجب ہے۔
خان صاحب نے اس حدیث کا صرف آخری فقرہ نقل کیا اور اسے مہدی پر چسپا کردیا ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں کہا
گیا ہے کہ مہدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نام ہوگا۔ خان صاحب نے اس کی تاویل
کرکے فرمایا کہ نام سے مراد نام نہیں صفت ہے اور اس معنی کی تائید میں ایک دوسری حدیث
کو پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی رسول اللہ کے اخلاس میں مشابہ ہوں گے اور صورت
میں نہیں۔ خاں صاحب نے مذکورہ دونوں حدیثوں کو ناقص نقل کر کے اپنا مطلب کھینچ نکالا
ہے ،کیو نکہ پہلی حدیث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ آل رسول ہوگا۔ خاں صاحب چونکہ
آل رسول نہیں ہیں اب یہ ٹکڑا ان کے آڑے آرہا تھا اس لئے انہوں نے اس کو نقل نہیں
کیا۔ اسی طرح دوسری حدیث میں جس سے انہوں نے ہم نامی کی تاویل فرمائی یہ بات بھی مذکور
ہے کہ وہ شخص حضرت حسن کی صلب سے ہوگا۔ اس حصے کو بھی خان صاحب نے حزف کردیا کیونکہ
اسے نقل کرنا ان کے مشن کے خلاف تھا۔
اسی طرح آثار قیامت کے حوالے سے قرآن میں دابۃ الارض کا ذکر ہے کہ ایک
جانور آخری زمانے میں ظاہر ہوگا اور وہ انسانوں سے باتیں کر کے حق کا اعلان کرے گا۔
خان صاحب نے دابۃ الارض کی تاویل کرتے ہوئے مئی 2010کے شمارے میں اس مر اد دور آخر
کا داعی لیا ہے، جو دلیل کی زبان میں لوگوں سے ہم کلام ہوگا۔ اس تاویل بعید کے ضعف
شدید سے قطع نظریہ بات مضحکہ خیز ہے کہ الرسالہ جون 2007کےشمارے میں دابۃ الارض سے
مراد موجود ہ زمانے کا ملٹی میڈیا قرار دیا ہے اور اس سے پہلے اپنی تفسیر تزکیر القرآن
میں دابۃ الارض سے مراد جانور ہی لیا ہے جور اس پر یہ نوٹ بھی لگایا ہے کہ انسانی داعیوں
کی زبان سے جو بات لوگوں نے نہیں مانی اس کا اعلان ایک غیر انسانی مخلوق کے ذریعہ کرایا
جائے گا۔ شاید انہی حالات کے لئے شاعر نے کہا ہے:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا
کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
جناب غلام نبی کشافی ملت کا
ترجمان ماہنامہ جام نور کی طرف سے بلکہ پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے قابل مبارک باد
ہیں کہ انہوں نے ایسے شخص کے خلاف حق کی حمایت
میں قلم اٹھایا ہے جس سے ا نہیں ہمدردی بھی ہے او رمحبت بھی ، صرف دین کے جزبے نے اظہار
حق کی جرائت بخشی ہے وہ عنداللہ اور عند الناس جزاواحسان کے مستحق ہیں۔ کتاب کی چند
باتیں نقل ہوئیں، پوری کتاب قابل مطالعہ و استفادہ ہے، مہدیت مسیحیت کے تعلق سے خاں
صاحب کے افکار کو سمجھنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری کیا جانا چاہئے۔ اس طرح مختلف
مسائل میں ان اختلاف رائے رکھتے ہوئے بعض مسائل میں ان کا مداح اور قدردان بھی ہے۔
مسلم گھروں میں ایسی فکر رسالہ اور قلم سیال کے مالک کم پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں
کا حق ہے کہ وہ امت کی علمی وفکری قیادت کریں اگر وہ دین کی راہ مستقیم پر قائم ہوں۔
لیکن اس کے برعکس ایسے افراد جو امت کی قیادت ورہنمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں اگر اس
صلاحیت کو امت کو توڑ نے اور عقائد ونظریات میں فساد برپا کرنے کےلئے صرف کریں تو یہ
کتنے افسوس کی بات ہوگی۔
میں اپنی علمی اور فکری کوتاہی
کے تمام تر اعترافات کے ساتھ الدین النصح لکل مسلم کے جزبے کے تحت مولانا وحید الدین
خاں صاحب سے گزارش کروں گا کی وہ بہت سے مسائل جن میں انہیں تفرد حاصل ہے، ہمارے ناقص
خیال میں دو مسئلے بہت ہی نازک اور بنیادی ہیں، جن کا تعلق ایک طرف دین اور تحریف ،امت
میں انتشار اور دنیا میں رسوائی ہے تو دوسری طرف خسران عاقبت سے ۔پہلا مسئلہ اسوۂ
محمدی کو اسوۂ ناقص ثابت کرنے کا ہے اور دوسرا مہدیت ومسیحیت کی تاویل وادعا کا مسئلہ
جس طریق محمدی کے مکمل ہونے کا خالق کائنات نے اکملت لکم دینکم فرما کرمنصوص فرمادیا
اسے لفظ حسنہ کے ذریعہ ناقص ثابت کرنا بے ایمانی کی حد تک علمی خیانت ہے۔ اس طرح مولانا
نے اپنی زندگی میں جو علمی کام کئے ہیں اس کو مزید آگے بڑھا نے کی بجائے اپنےمہدی
ومسیح ہونے کا خواب دیکھنا دنیا میں اس علمی کام کو بے قدر بنانا ہے اور آخرت کا معاملہ
تو دنیا سےبھی سخت ہوگا۔ میں کبھی بھی اس خیال کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ مولانا میرے
مشورے پر ان دومسائل پر نظر ثانی فرمائیں گے لیکن میں اللہ ورسول کا واسطہ دیکر ان
سے اس کی گزارش ضرور کرتا ہوں ۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو امت ایک بڑے فتنے سے محفوظ
رہ جائے گی اور ان کا جو واقعی کام ہے اس کی قدر وقیمت بھی قائم رہے گی۔ربنا لا تزع
قلو بنا بعد از ہدیتنا وہب لنا من الدنکار حمۃ انکا انت الوہاب(آمی)
بشکریہ: جام نور ماہنامہ،
دہل
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-wahiduddin-khan-his-claim/d/5365