مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
5 مارچ، 2022
ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ
وسلم خود بھی ایسی معنوی اور ظاہری خوبیوں، کمالات، خداداد صلاحیتوں، مجد وفضائل مکارم
اخلاق اور محاسن اعمال سے متصف تھے کہ دل خود بخود آپ کی جانب کھینچے جاتے تھے اور
جانیں قربان ہوا چاہتی تھیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جونہی کلمہ صادر
ہوتا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی بجا آوری کے لئے دوڑ پڑتے اور ہدایت و رہنمائی
کی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمادیتے اسے حرز جان بنانے کے لئے گویا ایک
دوسرے سے آگے نکلنے کی بازی لگ جاتی۔
اس طرح کی کوشش کی بدولت نبی
صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کے اندر ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے جو
تاریخ کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھرپور محاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل
کا ایسا باکمال اور شرف سے بھرپور معاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار
حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصے تک زمانے کی چکی میں پس کر او راتھاہ تاریکیوں
میں ہاتھ پاؤں مارکر تھک جاتے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا۔ ا س نئے معاشرے کے
عناصر ایسی بلند و بالا تعلیمات کے ذریعے مکمل ہوئے جس نے پوری پامردی کے ساتھ زمانے
کے ہر جھٹکے کامقابلہ کرکے اس کا رُخ پھیر دیا اور تاریخ کادھار ابدل دیا۔
یہود کے ساتھ معاہدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ہجرت کے بعد جب مسلمانوں کے درمیان عقیدے، سیاست او رنظام کی وحدت کے ذریعے ایک
نئے اسلامی معاشرے کی بنیادیں استوار کرلیں تو غیر مسلموں کے ساتھ اپنے تعلقات منظم
کرنے کی طرف توجہ فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یہ تھا کہ ساری ایسانیت امن
و سلامتی کی سعادتوں او ربرکتوں سے پہر ہورہاہو اور اس کے ساتھ ہی مدینہ اور اس کے
گرد وپیش کا علاقہ ایک وفاقی وحدت میں منظم ہوجائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
رواداری اور کشادہ دلی کے ایسے قوانین مسنون فرمائے جن کا اس تعصب اور غلو پسندی سے
بھری ہوئی دنیا میں کوئی تصور ہی نہ تھا۔جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں مدینے کے سب سے قریب
ترین پڑوسی یہود تھے۔ یہ لوگ اگر چہ در پردہ مسلمانوں سے عداوت رکھتے تھے لیکن انہوں
نے ابھی تک کسی محاذ آرائی او رجھگڑے کا اظہار نہیں کیا تھا اسلئے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے ان کے ساتھ ایک معاہدہ منعقد کیا جس میں انہیں دین او رمذہب اور جان و مال
کی مکمل آزادی دی گئی تھی اور جلاوطنی،ضبطئی جائداد یا جھگڑے کی سیاست کا کوئی رُخ
اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ معاہدہ اس معاہدے کے ضمن میں ہوا تھا جو خود مسلمانوں کے باہم
طے پایا تھا او رجس کاذکر قریب ہی گزر چکا ہے۔آگے اس معاہدے کی اہم دفعات پیش کی جارہی
ہیں۔
معاہدے کی دفعات:(1) بنو عوف
کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک ہی امّت ہونگے، یہود اپنے دین پر عمل کرینگے او
رمسلمان اپنے دین پر۔ خواہ انکا بھی یہی حق ہوگا، اور ان کے غلاموں اور متعلقین کابھی۔
اور بنو عوف کے علاوہ دورے یہود کے بھی یہی حقوق ہونگے۔ (2) یہود اپنے اخراجات کے ذمہ
دار ہونگے اورمسلمان اپنے اخراجات کے۔(3) او رجو طاقت اس معاہدے کے کسی فریق سے جنگ
کرے گی سب اس کے خلاف آپس میں تعاون کرینگے۔
اور اس معاہدے کے شرکاء کے
باہمی تعلقات، خیر خواہی،خیر اندیشی اور فائدہ رسانی کی بنیاد پر ہونگے، گناہ پر نہیں۔
کوئی آدمی اپنے حلیف کی وجہ سے مجرم نہیں ٹھہرے گا۔مظلوم کی مدد کی جائے گی۔ جب تک
جنگ برپا رہے گی یہود بھی مسلمانوں کے ساتھ خرچ برداشت کرینگے۔اس معاہدے کے سارے شرکاء
پر مدینے میں ہنگامہ آرائی اور گشت وخون حرام ہوگا۔ اس معاہدے کے فریقوں میں کوئی نئی
بات نہیں یا جھگڑا پیدا ہوجائے جس میں فساد کا اندیشہ ہوتو اس کا فیصلہ اللہ عزوجل
پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کرینگے۔قریش اور اس کے مددگاروں کو پناہ نہیں دی جائیگی۔
جو کوئی یثرب پر دھاوا بول دے اس سے لڑنے کے لئے سب باہم تعاون کرینگے اور ہر فریق
اپنے اپنے اطراف کا دفاع کرے گا۔ یہ معاہدہ کسی ظالم یا مجرم کے لئے آڑ نہ بنے گا۔
اس معاہدے کے طے ہوجانے سے
مدینہ اور اس کے اطراف ایک وفاقی حکومت بن گئے جس کا دارالحکومت مدینہ تھا اور جس کے
سربراہ رسول اللہ صلی اللہ صل علیہ وسلم تھے۔ جس میں کلمہ نافذہ اور غالب حکمرانی مسلمانوں
کی تھی، اور اس طرح مدینہ واقعتا اسلام کا دارالحکومت بن گیا۔
امن و سلامتی کے دائرے کو
مزید وسعت دینے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ دوسرے قبائل سے بھی حالات
کے مطابق اسی طرح کے معاہدے کئے جن میں سے بعض کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔
مسلح کشاکش:
ہجرت کے بعد مسلمانوں کے خلاف
قریش کی فتنہ خیز یاں اور عبداللہ بن أبی سے نامہ و پیام پچھلے صفحات میں بتا یا جاچکا
ہے کہ کفار مکہ نے مسلمانوں پر کیسے کیسے ظلم و ستم کے پہاڑ تورے تھے اور جب مسلمانوں
نے ہجرت شروع کی تو ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کی تھیں۔ جن کی اوپر وہ مستحق ہوچکے
تھے کہ ان کے اموال ضبط کرلیے جائیں او ران پر بزن بول دیا جائے۔مگر اب بھی ان کیا
حماقت کا سلسلہ بند نہ ہو اور وہ اپنی ستم رانیوں سیباز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر ان
کا جوش غضب اوربھڑک اٹھا کہ مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹ نکلے ہیں اور انہیں مدینے میں
ایک پرُ امن جائے قرار مل گئی ہے۔ چنانچہ انہوں نے عبداللہ بن اُبّی کو جو ابھی کھلم
کھلا مشرک تھا۔ اس کی اس حیثیت کی بنا پر ایک دھمکی آمیز خط لکھا کہ وہ انصار کا سردار
ہے۔
کیونکہ انصار اس کی سر براہی
پر متفق ہوچکے تھے او راگر اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری نہ
ہوئی ہوتی تو اس کو اپنا بادشاہ بھی بنا لیے ہوتے۔ مشرکین نے اپنے اس خط میں عبداللہ
بن ابی اور اس کے مشرک رفقاء کو مخاطب کرتے ہوئے دو ٹوک لفظوں میں لکھا: ”آپ لوگوں
نے ہمارے صاحب کو پناہ دے رکھی ہے۔اس لئے ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو
آپ لوگ اس سے لڑائی کیجئے یا اسے نکال دیجئے یا پھر ہم اپنی پوری جمعیت کے ساتھ آپ
لوگوں پر یورش کرکے آپ کے سارے مردانِ جنگی کو قتل کردینگے اور آپ کی عورتوں کی حرمت
پامال کرڈالیں گے“۔
اس خط کے پہنچتے ہی عبداللہ
بن اُبّی مکے کے اپنے ان مشرک بھائیوں کے حکم کی تعمیل کے لئے اٹھ پڑے اس لیے کہ وہ
پہلے ہی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف رنج و کینہ لیے بیٹھا تھا۔ کیونکہ اس کے
ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے اس سے بادشاہت چھینی
ہے۔چنانچہ جب یہ خط عبداللہ بن اُبی اور اس کے بُت پرست رفقا ء کو موصول ہوا تو وہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لئے جمع ہوگئے۔
5 مارچ،2022، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism