بلال احمد پرے ، نیو ایج اسلام
8 دسمبر 2021
گزشتہ سال (۲۰۲۰) کو عام الحزن سے تعبیر کیا
جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ پورے عالم میں علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کی
ایک بڑی تعداد اُمت مسلمہ کو یتیم کر کے دار البقا کی طرف رخصت ہو کر چلیں گئے ہیں
۔ مشہور قول کے مطابق " موت العالِم موت العالم " یعنی ایک عالم دین کی موت
پورے کائنات کی موت واقع ہونے کے مترادف ہے - علماء حق روئے زمین پر وہ روشن ستارے
ہیں جو عالم انسان کو راہ حق دکھاتے ہیں - اپنی داعیانہ صلاحیتوں سے بٹھکتی ہوئی انسانیت
کو راہ راست پر گامزن رکھنے کی جدوجہد کرتے ہیں - امت کی رہ نمائی و رہبری کے لئے اپنے
فرائض کی انجام دہی میں ہر لمحہ مصروف ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں -
چنانچہ 10 دسمبر 2020 ء بمطابق
۲۴ ربیع
الثانی ۱۴۴۲ھ
کی شب جمعہ ، ریاست جموں و کشمیر کا ایک روشن چراغ ،مشہور و معروف عالم دین، مبلغ،
مفکر، مصلح، مصنف، خطیب، ناظم، داعی دین امن و اتحاد کے سفیر حضرت مولانا نور الدین
ترالی ؒ کے صاحب زادے مولانا نور احمد صاحب ترالی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مختصر علالت کے بعد ایس ایم ایچ ایس شفاخانہ
سرینگر میں رات کے ساڑھے دس بجے اپنی آخری سانسں لی اور داعئ اجل کو لبیک کہہ دیا
- انا للہ و انا الیہ راجعون- آپ کی نماز جنازہ وادئ کشمیر کے مشہور و معروف عالم دین
مولانا رحمت اللہ میر قاسمی صاحب دامت برکاتہم عالیہ نے پڑھائی اور لوگوں کی ایک بڑی
تعداد کی موجودگی میں پرنم آنکھوں سے آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں ہی سپرد خاک کیا
گیا - بقول شورش کاشمیریؒ
اگر چہ قدرت کا ایک شاہکار
آخری نیند سو چکا ہے
مگر تری مرگِ ناگہاں کا مجھے
ابھی تک یقین نہیں ہے
مولانا مرحوم نور احمد ؒ کےفصیح
و بلیغ، اصلاحی خطابات، سامعین کے دلوں پر مثبت اثرات چھوڑ جاتے ، بڑے مؤثر و بے مثال
ہوتے تھے- ترال کے علاقے میں آپ کا وجود باغ و بہار، ایک تحریکی ادارہ گویا توحید کا
ایک مرکز تھا، اس کے مضافات میں اگر کوئی متنازعہ مسئلہ پیدا ہو جاتا تو فوراً آپ رحمتہ
اللہ علیہ کے پاس چلے جاتے تاکہ ایسے پیدا شدہ پیچیدہ مسائل میں آپ سے قرآن و حدیث
کی روشنی میں رہ نمائی حاصل کی جاتی - اور آپ کا حکیمانہ فیصلہ سب کو قابل قبول ہوتا
تھا - یہ دراصل آپ کے اوپر رب الزوجلال کا نہایت ہی احسان، فضل و کرم تھا - آپ کے قلم
میں شگفتگی، روانی، چاشنی، خلوص، محبت، اتحاد، بھائی چارگی اور درد دل کی آمیزش رواں
دواں تھی -
ابتدائی حیات کے شب و روز -
مولانا نور احمد صاحب ترالی
رحمتہ اللہ علیہ فروری 1942ء میں جنوبی کشمیر کے قصبہ ترال میں پیدا ہوئے - جو مشہور
و معروف عارف باللہ، ولی کامل، داعی دین، مبلغ، مفکرِ اسلام، مصلح سماج مولانا نور
الدین صاحب ترالی رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے فرزند اور چشم و چراغ تھے - آپ کے دادا جان
مولانا احمد اللہ صاحب ترالی رحمتہ اللہ علیہ بھی بڑے مشہور و معروف اپنے وقت کے عالم
دین، مفکر اسلام اور مصلح سماج تھے - مولانا
نور احمدؒ نے اپنی غیر معمولی صلاحیت، ذہانت، قابلیت، حکمت و دانائی سے اپنے دادا جان
اور والد بزرگ کے مشن کی خوب آبیاری کی - اور توحید کے سر سبز و شادب باغ کو خوب سینچا
- اللہ پاک ان سب بزرگان دین کی خدمات کو قبول فرمائے - آمین
آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم
و تربیت اپنے والد مولانا نور الدین صاحب ترالی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کی - پھر
1949ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام (MTI) ترال میں بنیادی تعلیم کی خاطر باضابطہ آپ کا داخلہ کرایا گیا جس
کی بنیاد 1942ء میں آپ کے والد بزرگ نے ہی رکھی تھی - جہاں آپؒ چھ سال زیر تعلیم رہے
اور 1955ء میں فارغ التحصیل ہوگئے اس کے بعد آپؒ سنہ1961ء میں مدینة العلوم ، حضرت
بل سرینگر چلے گئے اور وہاں مفکر اسلام مولوی عبد الکبیرؒ کی صحبت میں رہے - آپؒ نہایت
ہی شوق و لگن سے اُن سے علمی استفادہ کرتے رہے یہاں تک کہ مولوی فاضل کی سند حاصل کرلی
- پھر عصّری تعلیم کا رجحان پیدا ہوا - اس طرح آپؒ نے سنہ 1966ء میں میٹرک پاس کیا
- اس کے فوراً بعد سنہ 1968ء میں آپ ؒ کو جموں و کشمیر کے محکمہ تعلیم میں بحیثیت مدرس
ملازمت مل گئی - آپؒ کی ابتدائی پوسٹنگ ضلع رام بن کے علاقہ کھڑی بانہال میں ہوئی
-
آپؒ کے اندر ایمانداری، دینی
شوق و ذوق، اسلامی ذہن، فکر دین اور امانت و دیانت داری کے اوصاف موجود تھے جس سے آپؒ
کے علم و ہنر کے اثرات دور دور تک پھیلتے گئے - اور علاقہ بانہال کے لوگ آج بھی آپؒ
کا نام نہایت ہی ادب اور عزت و اکرام سے لیتے ہیں - چند سال کے بعد آپ ؒ کا تبادلہ قصبہ ترال کے مرکزی
اسکول میں ہوا جہاں آپؒ اپنے فرائض منصبی کو بخوبی انجام دیتے رہیں -
والد بزرگ مولانا نور الدینؒ
(جو ان دنوں مدرسہ تعلیم الاسلام ترال کے سربراہ تھے) کے اصرار پر آپؒ نے سنہ 1973ء
میں سرکاری ملازمت کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا - یہاں یہ بات قارئین کرام تک پہنچانا
اہم سمجھتا ہوں کہ مولانا نور احمدؒ ترالی کی اپنے والد بزرگ کے کس قدر فرمانبردار
تھے - آپ ؒ نے اپنے والد بزرگ کے فرمان پر بغیر چوں و چراں سرکاری نوکری کو قربان کر
دیا اور اپنے والد کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ تعلیم الاسلام ترال کی سرپرستی وترقی کے
لئے اپنی زندگی کو سپرد کر دیا - اس طرح اپنی غیر معمولی قائدانہ صلاحیت سے ادارہ کو
ایک قلیل مدّت میں شہرت و ترقی کے بام عروج تک پہنچا دیا - جس کے نتیجے میں علاقہ ترال
میں تعلیم کا رواج عام ہوتا ہوا نظر آگیا - اس ادارے نے کئی اہم علمی شخصیات کو جنم
دیا جو اس وقت ریاست کے مختلف شعبہ جات جیسے علمِ طب، انجینئرنگ، تعلیم، مال، عدلیہ،
پشو پالن، زراعت و باغبانی وغیرہ میں اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہیں ہیں-
مولانا کی تعلیمی خدمات -
تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ آپؒ
کا کردار مذہبی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی میدان میں بے مثال رہا ہے ۔ جس سے
کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے لئے علاقہ ترال کے لوگ ہمیشہ آپ کے احسان
مند ہیں - گاؤں وشہر کے عاطشان علم، اس تعلیمی ادارے کے شیرین چشمے سے اپنی علمی پیاس
بجھاتے ہیں - اور مستقبل میں بھی ان شاءاللہ تعالٰی بجھاتے رہیں گے - ہدایت و نصیحت
کی آخری کتاب قرآن الحکیم پر آپؒ کو خاصا عبور حاصل تھا - آپؒ سامعین کرام کے دلوں
کو بڑے ہی آسان، سادہ و دلکش الفاظ میں حکمت و دانائی سے محظوظ فرماتے تھے - آپؒ نے
اپنی پوری زندگی دین اسلام کی تبلیغ و ترویج اور اشاعت و نصّرت میں گزاری ہے ۔ تاکہ
حقیقی زندگی ملتے ہی " ﺍﮮ
ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ
ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
( آﺧﺮﯼ
) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ
ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ
" ( الفجر؛ 24 ) جیسی آرزو پیدا نہ ہو جائے -
آپؒ خیرکم من تعلم القرآن
و علمه ( ترمذی؛ 3154 ) جیسے فرمان خاتم النبیین سرور کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے
رنگ میں رنگے ہوئے جیتے جاگتے عمل پیرا شخصیت کے مالک تھے - آپؒ کی ذات گرامی دوسروں
کے لیے نفع بخش اور رساں آسانی تھیں - توحید، اتحاد و اتفاق، یگانیت اور بھائی چارے
کے علمبر دار تھے اور ان اوصاف میں آپؒ کی شخصیت موجودہ میں ایک زندہ مثال تھی -
مولانا نور احمدؒ کے نزدیک
ان دینی تعلیمی اداروں کو بڑی اہمیت سے دیکھا جاتا رہا - جس کی ہمہ جہت ترقی، فعالیت
اور وسعت کے لیے آپؒ مستقل طور پر عوام الناس کی توجہ اسکی طرف مبذول کرتے رہے - جس
سے آپؒ کا وسیع النظر ہونا ثابت ہوتا ہے - اور اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپؒ سماج
کی علمی و تعلیمی ترقی کے لئے کس قدر متفکر شخصیت کے مالک تھے - آپؒ طلباء کو اپنے
پیغام میں لکھتے ہیں کہ " ہم چاہتے ہیں کہ یہاں تعلیم کا ہر وہ شعبہ چلایا جائے
جو ہمارے بچوں کے لئے دین و دنیا دونوں اعتبار سے مفید ہوں - دینی تعلیم ( جس کے لئے
گرلز کالج وجود میں آیا ) سائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع مہیا کئے جائیں
اور دیگر مضامین اور مفاد عامہ کے لیے ادارے کھولیں جائیں-"
آپؒ نے ان تمام اداروں کو
اپنی ذاتی ملکیت گنوانے کے بجائے لوگوں کے اپنے ادارے قرار دیے ہیں - جو آپؒ کا خلوص
اور سماج کے تئیں بے پناہ محبت کی عکاسی کرتا ہے - یہ سب آپؒ کی غیر معمولی صلاحیت
اور آپ کے بزرگ والد مولانا نور الدینؒ و دیگر بزرگ ہستیوں کی بھر پور کاوشوں کا نتیجہ
ہے کہ جنہوں نے علاقہ ترال کے عوام الناس کو ظلمت و جہالت سے نکال کر علم حق کے چراغ
سے روشن کیا ہے جس سے یہاں کی عوام الناس مسلسل مستفید ہوتے آئیں ہیں اور ان شاءاللہ
تعالٰی مستقبل میں بھی آتے رہیں گے -
دارالعلوم نور الاسلام -
سنہ 2002 ء میں مولانا نے
اپنے والد بزرگ کی وفات کے کئی سال بعد دار العلوم نور الاسلام ترال کی بنیاد رکھی
اور آپ اس کے مہتمم مقرر ہوئے ۔ مولانا نے ترال پائین کے بس اسٹینڈ کے قریب ہی میں
دارالعلوم نور الاسلام کے احاطہ میں ایک بڑی جامع مسجد بھی تعمیر کی - جہاں آپؒ اپنے
پُر اثر تبلیغ سے عوام الناس کو آئے روز مسائل کا حل بتاتے اور دین حق کی ترجمانی کرتے
آئے ہیں - ۱۵
کمروں پر مشتمل تین منزلہ عمارت دارالعلوم نور الاسلام اور
مسجد ایک دوسرے کے متصل واقع ہے - جہاں صرف لڑکوں کو دین اسلام کے نور سے منور کیا
جاتا ہے - ساتھ میں ہی نماز عیدیں اور دارالعلوم کا سالانہ جلسہ منعقد کرنے کے لئے
ایک بڑے رقبہ پر خوبصورت پارک بنائی گئی ہے جس میں تقریباً دس ہزار لوگ نماز ادا کر
سکتے ہیں - آپؒ کی سرپرستی میں دارالعلوم نورالسلام ترال نے خوب ترقی کی جہاں اس وقت
ناظرہ، حفظ، مولوی عالم و مولوی فاضل کے مختلف کورسز چل رہے ہیں- یہ سارے کورسز کشمیر
یونیورسٹی، سرینگر سے تسلیم شدہ ہیں - یہاں ریاست کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے بچوں
کو مفت تعلیم دی جا رہی ہے - دینی علوم کے ساتھ ساتھ یہاں عصّری تعلیم میں انگریزی،
اردو، اسلامیات، ہوم سائنس اور ماحولیات کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں - جہاں زیر
تعلیم بچوں کے لئے تمام قسم کی سہولیات فراہم ہیں - جس میں ان کے پڑھنے، رہنے، سونے
اور کھانے پینے کے علاوہ رہائش و دیگر سہولیات بھی موجود ہیں - طلباء کے لیے ایک خاص
لائبریری کی سہولیت بھی رکھی گئی ہے جس میں تقریباً چار ہزار سے زائد کتابیں و جریدے
دستیاب ہیں -
مدرسہ تعلیم الاسلام برائے
طلباء و طالبات -
مدرسہ تعلیم الاسلام برائے
طلباء سنہ 1942ء میں وجود میں آیا - جس کی داغ بیل اس وقت قرآنی درس گاہ کے طور پر
مولانا نور الدین صاحب ترالی رحمتہ اللہ نے مرحوم خواجہ عبد الرزاق کار، مرحوم مولوی
غلام محمد کار اور مرحوم حاجی غلام محمد کانٹرو کی مشترکہ کوششوں سے ڈالی - اور بعد
میں پری نرسری سے دسویں جماعت کی عصری تعلیم کا نظام چلایا گیا جو آج کل ایک کامیاب
دینی وعصری ادارہ کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے -
اسی ادارہ کے طرز پر مولانا
نور احمد صاحب ترالی رحمتہ اللہ علیہ نے لڑکیوں کے لئے قصبہ ترال میں ہی الگ سے دسویں
جماعت تک کا ایک مدرسہ قائم کیا جو مدرسہ تعلیم الاسلام گرلز ونگ کے نام سے جانا جاتا
ہے - جہاں علاقہ ترال کے مختلف دیہات سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں زیر تعلیم ہیں - یہاں کی مدرسات خود خواتین ہیں -
بعد اذاں ان دونوں مدرسوں
کو مزید وسعت دے کر بارہویں جماعت تک کر دیا گیا ہے - لڑکوں کے لیے گورنمنٹ ڈگری کالج
کے قریب جدید طرز پر ایک نئی بلڈنگ تعمیر کی گئی ہے جو تقریباً 26 کنال اراضی کے رقبہ
پر مشتمل ہے - جہاں چھٹی سے بارہویں جماعت کے طلباء کا تعلیمی نظام جاری ہے - ان سب
علمی اداروں کا قیام آپؒ کے جہد مسلسل سے عمل میں آیا ہے ۔
اسلامک اورینٹل کالج برائے
خواتین ( البنات ) -
اسی طرح تعلیمی میدان میں
مولانا نور احمدؒ کے ساتھ ایک اور کڑی اس وقت جوڑ دی گئی جب سنہ 2008 ء میں اسلامیہ
اورینٹل کالج برائے خواتین کا قیام عمل میں لایا گیا - جس نے سماج کے مطالبات کو پورا
کیا اور عوام الناس کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا - یہ ادارہ ۲۲ کمروں
پر مشتمل، دو منزلہ عمارت پر قائم ہے - اس کے علاوہ طالبات کی سہولیات کے لیے ایک لائبریری
بھی ہے -
اس ادارے کی تدریسی شروعات
آپؒ کی زیر نگرانی میں ہی ہوئی ۔ جہاں دسویں جماعت سے فارغ شدہ طالبات کے لیے دو سالہ
عالمہ کورس جو بارہویں جماعت کے برابر ہے اور عالمہ کورس سے فارغ ہونے والوں کے لیے
تین سالہ فاضلہ کا کورس جو بی اے کی ڈگری کے برابر ہے پڑھایا جاتا ہے- اس وقت یہ ادارہ
ترقی کی راہ پر رواں دواں ہے - جہاں ریاست کے طول و عرض سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں
اپنی تعلیم مکمل کر چکی ہیں اور ایسی ہی ایک بڑی تعداد زیر تعلیم ہے- یہاں بھی زیر
تعلیم طالبات کی رہائش کے لیے معقول انتظامات بہم موجود ہے -
مولانا نور احمدؒ کی بصیرت
افروزی کے بدولت طلباء و طالبات کو دور دراز علاقوں سے بحفظ و امان لانے اور چھوڑنے
کے لئے بسوں کی سہولیات فراہم رکھی گئی ہیں - آپؒ کئی اہم کتابوں کے مؤلف بھی ہیں جن
میں ایمانِ مفصل، حقوق و فرائض، مسنون دعائیں،
طریقہ حج، پیر و مرید، تقسیمِ وراثت اور صلوٰۃ النبی ﷺ قابل ذکر ہیں - اس کے علاوہ
آپؒ کی سرپرستی میں دو ماہی دعوت حق کا رسالہ بھی شائع ہوتا رہتا تھا جس کی محرومی
کئی سالوں سے اب محسوس ہو رہی ہے-
الغرض تعلیمی اعتبار سے دونوں
باپ و بیٹے کا علاقہ ترال پر بے انتہا احسان ہے جن کی بدولت نور حق کا یہ چراغ روشن
ہوا اور مسلسل اپنی روشنی سے قصبہ کے دور دراز علاقوں کو روشن کر رہا ہے- آپؒ کے اس
دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اب ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کی دیکھ بھال
کریں اور انکی ترقی کے لئے تن، من و دھن لگا دیں - جو ہم سب کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے اور نسلِ جدید
کی دینی تربیت، اسلامی و عصری تعلیمی خدمات ہمارے لئے بطور صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت
ہے ۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی
کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی
کرے
اللہ تعالٰی مولانا نور احمد
ترالی رحمہ اللہ کی دینی و علمی خدمات جلیلہ کو شرف قبولیت بخشے - اس سب کو اُن کی
مغفرت کا ذریعہ، ذخیرہ آخرت، صدقہ جاریہ بنا دے، جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے - اُن
کے تمام پسماندگان و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ہمیں اُن کی اس مقدس مشن کو
آگے بڑھانے اور ترقی دینے کی توفیق عطا فرمائے - آمین یا رب العالمیین
-----------
( جناب بلال احمد پرے نیو ایج اسلام کے ایک مستقل کالم نگار ہیں ۔ آپ کا تعلق ریاست جموں و کشمیر کے جنوبی علاقہ ترال سے ہے ۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی سے اسلامیات میں ماسٹرس کیا ہے۔ آپ کے مضامین اکثر اسلامی سماجی مسائل پر ریاست کے متعدد روزناموں میں انگریزی و اردو زبان میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ )
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism