مولانا ندیم الواجدی
23اپریل،2012
اس دور میں علما کو جس قدر
برا بھلا کہا جارہا ہے شاید ہی کبھی کہا گیا ہو، ایک طرح سے اہل علم کو ہدف تنقید بنانا
اور ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنا فیشن سابن گیا ہے لیکن کسی محفل میں چند لوگ جمع ہوئے
بات ملکی یا بین الاقوامی سیاسیاست کی چلی، گفتگو کا رخ امت مسلمہ کی پسماندگی کی طرف
مزا اور تان علما پرٹوٹی ، گویا مسلمانوں کے انحطاط کی تمام تر ذمہ داری انہی بے چارے
مولویوں پر ہے، عام طورپر ایسا کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں جو کچھ خرابیاں پھیلی ہوئی ہیں اور قوم میں جو کچھ فتنہ
وفساد برپا ہے وہ طبقہ علما کی وجہ سے ہے، اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو پوری امت سکون سے
ہوتی اور پورا معاشرہ برائیوں سے پاک نظر آتا ،اس خیال کو اب بعض حلقوں کی طرف سے
پروپیگنڈے کی شکل دی جارہی ہے اور علما کو منصوبہ بند طریقے سے بدنام کیا جارہا ہے
تاکہ عوام ان سے دور ہوجائیں، اور مسلمانوں پرعلما کے جو اثرات ہیں وہ ختم ہوجائیں
، یہی وجہ ہے کہ بعض اخبارات میں اس طرح کے مضامین او ر مراسلات برابر شائع کئے جاتے
ہیں جن میں علما کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے ،انہیں مطعون کیا جاتا ہے ،کبھی داڑھی ، ٹوپی
اور کرتے کے حوالے سے ان کی خشکی اڑائی جاتی ہے ، کبھی ان کی تعلیمی لیاقت کی بنیا
د پر انہیں پس ماندہ، بنیاد پرست اوررجعت پسند قرار دیا جاتا ہے، دہلی سے شائع ہونے
والے بعض اردو اخبار ات کے ایک کالم نویس تو کوئی مضمون اس طرح کا لکھنے پر قادر ہی نہیں ہیں جس میں علما پر سب وشتم نہ کی گئی ہو
مدرسے انہیں زہر لگتے ہیں ، داڑھیاں انہیں بری لگتی ہیں، کرتے پاجاموں سے انہیں چڑہے
بات چاہے عراق پر امریکی حملے کی ہو، یا ہند امریکہ ایٹمی توانائی معاہدے کی گفتگو
پاکستان کے پس منظر میں کی جارہی ہو یا افغانستان کے حوالے سے ، بحث ہندوستان کے اقتصادی
او رمعاشی ڈھانچے کی ہو یا سیاسی اور سماجی حالات کی ، ان کا قلم علما کو دوچار صلواتیں
سنا کر ہی دم لیتا ہے، اس میدان میں یہ صاحب تنہا نہیں ہیں، بعض لوگ اور بھی ہیں جو
ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں ،کوئی ان لوگوں
سے پوچھے کہ آخر علما نے ان کا کیا بگاڑ ا ہے؟ کیا دینی رہ نمائی کا فرض انجام دینا
اس قدر خراب کام ہے کہ انہیں حقیر سمجھا جائے؟ کیا مدرسے قائم کرنا، مدرسے چلانا اور
ان میں قرآن وحدیث کی تعلیم دینا کوئی غیر اخلاقی یا غیر قانونی حرکت ہے، اگر ان تمام
سوالات کا جواب نفی میں ہے تو آخر وہ کون سی وجہ ہے جس کی بنا پر رات دن علما پرگالیاں
پڑتی ہیں اور انہیں بر ا بھلا کہا جاتا ہے۔
جہاں تک علما کا تعلق ہے معاشرے
میں دین کی اشاعت اور اس کی بقا واستحکام
کے لیے ان کی وجود ناگزیر ہے، یہ لوگ ہیں جو انسانی معاشرے کو خیر کی طرف لانے اور
شر سے بچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، دور صحابہ سے لے کر ہمارے زمانے تک یہ جماعت
موجود رہی ہے، اور آئندہ بھی موجود رہے گی، یہ وہ جماعت ہے جس کے بارے میں قرآن کریم
میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :‘‘ اور تم میں ایک ایسی جماعت کا ہونا ضروری ہے جو
خیر کی طرف بلاتی ہو اور اچھے کاموں کا حکم دیتی ہو اور برے کاموں سے روکتی ہو اور
یہی جماعت کا میاب ہے’’(آل عمران :104)
یہ کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ
ہم اس جماعت کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں جو خدا کا دین اس کے بندوں تک پھیلا رہی
ہے اور جس کے ذریعے کتاب وسنت کے احکام لوگوں تک پہنچ رہے ہیں، حکیم الامت حضرت مولانا
اشرف علی تھانوی نے ایک وعظ کے دوران ایسے ہی لوگو ں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا :‘‘
میں پوچھتا ہوں کہ آیا علما کا قوم کے لئے ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو
قائل ہونا پڑے گا کہ پھر اسلام کی بھی ضرور نہیں ، کیوں کہ بدون علما کے اسلام قائم نہیں رہ سکتا ، کیوں کہ کوئی پیشہ بدون ا سکے ماہر ین کے چل نہیں
سکتا ،یہ اور بات ہے کہ تھوڑی بہت معلومات
دینی سب کو ہوجائیں اور اس کے وہ محدود وقت تک کچھ ضرورت رفع کریں مگر اس سے مقدارضرورت
کا بقا نہیں ہوسکتا ،بقاشئی کا ہمیشہ اس کے ماہرین سے ہوتا ہے تو ماہرین علما کی ضرورت
پڑی ۔( مواعظ دعوت عہدیت طریق النجاۃ ج:12،ص :53)
یہ ماہرین کہاں پیدا ہوں گے،
ظاہر ہے مدرسوں میں؟ اس سےثابت ہوا کہ دین کے لئے مدرسوں کا قیام بھی ضروری ہے حکیم
الامت حضرت تھانوی نے ایک مرتبہ فرمایا : اس میں ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت علوم دینیہ
کے مدارس کا وجود مسلمانوں کےلیے ایک ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے فوق (زائد) متصور نہیں
، دنیا میں اگر اسلام کے بقا کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں، کیو نکہ اسلام نام ہے
خاص عقائد واعمال کا جس میں دیانات ، معاملات ومعاشرت اور اخلاق سب داخل ہیں اور ظاہر
ہے کہ عمل موقوف ہے علم پر اور علوم دینیہ کا بقا ہر چند کے فی نفسہ مدارس پر موقوف
نہیں مگر حالات وقت کے اعتبار سے ضرور مدارس پر موقوف ہے۔ (حقوق العلم ص: 84،تجدید
تعلیم وتبلیغ ص: 66)
ایک او رموقع پرفرمایا : جیسے
جیسے آزادی اور لحاد وبے دینی پھیلتی جارہی ہے اسی طرح میرے خیال میں مدارس دینیہ
کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ۔(حکیم الامت ص:101) ایک مرتبہ یہ بھی فرمایا: یہ شبہ نہ ہوکہ
جب انبیا علیہم السلام نے مدرسہ نہیں بنایا تو یہ مدرسے بیکار ہیں، یہ بیکار نہیں ہیں
یہ نماز کے لیے بمنز لہ وضو کے ہیں جس طریقے
سے نماز کے لیے وضو ضروری ہے اسی طرح تبلیغ واشاعت کے لیے مدارس کا وجود ضروری ہے۔ (التبلیغ ج:20،ص:23)
علما کا مذاق اڑانے والے اور
انہیں ہدف ملامت بنانے والے وہ لوگ ہیں جو نہ دین سے واقف ہیں اور نہ علم دین سے، وہ
مسلمان تو ہیں مگر نام کے ، انہوں نے اسلام کو مکمل نظام زندگی اور جامع دستور حیات
کی حثییت سے اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنایا، اگر وہ اسلام کو اس حیثیت سے قبول کرتے
کہ وہ فرد کی اجتماعی زندگی کو بھی محیط ہے اور انفرادی زندگی کو بھی ، وہ انسان کی
معاشی، سماجی، سیاسی، تمدنی ہر طرح کی مشکلات کا حل بھی پیش کرتا ہے اور اس کی اخروی
فلاح کا ضامن بھی ہے، اگر وہ اسلام کو محدود سمجھنے کے بجائے اس کے وسیع تر مفہوم اور
تقاضوں کی روشنی میں سمجھنے کی کو شش کرتے تو یہ بھی محسوس کرتے کہ معاشرے میں ایسے
لوگ بھی ہونے چاہئیں جو اس نظام کے مختلف پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے ہوں، جنہیں معاشرے
میں ان نظام کی عملی تطبیق کے لیے جد وجہد کرنے کی صلاحیت حاصل ہو اور جن پر اس نظام
کی اشاعت اور اس کی بقا وتحفظ کی ذمہ داری ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر
آخر الزماں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم
کو اپنا آخری دین دے کر مبعوث فرمایا، آپ تشریف لائے اور امت کو اللہ کی آخری کتاب
پہنچائی اور اپنی تئیس سالہ مکی ومدنی حیات طیبہ میں اللہ کی شریعت کے ایک ایک جز کو اس کے بندو ں تک پہنچا دیا، کارنبوت کی
تکمیل کے بعد اس کے تحفظ کی ذمہ داری علما کرام پرعائد ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علما امت کو وارثین انبیا قرار دیاہے، یہ وراثت مال ودولت
کی نہیں ہے بلکہ انبیا کرام کے علوم کی وراثت ہے، سابقہ امتوں کے علما کی طرح اس امت
کے علما بھی علوم محمد یہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کے وارث اور امین ہیں۔
قران وحدیث میں علم او راہل
علم کے بے شمار فضائل وار د ہیں اور اس پرتمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جہاں کہیں بھی
قرآن وحدیث میں علم کا ذکر آیا ہے وہاں علم سے علم دین مرا ہے، ایک آیت میں علم
کو اللہ تعالیٰ کا فضل قرار دیا گیا ہے فرمایا:‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوباتیں سکھلائیں
جن کو آپ جانتے نہیں تھے اور اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے’’۔(النسا :113)
ایک جگہ علم و حکمت کو خیر
کثیر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ چیز ہر شخص کو نہیں ملتی بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے
اس عظیم دولت سے نواز تا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم رکھتا ہے فرمایا: ‘‘اللہ
تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں علم وحکمت کے دولت عطا کرتے ہیں اور جسے یہ دولت مل گئی اسے
خیر کثیر حاصل ہوگیا’(البقرۃ :169)۔ ایک آیت میں عالم اور جاہل کا تقابل ان الفاظ
میں فرمایا گیا ‘‘آپ فرمادیجئے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہوسکتے
ہیں’’( الزمر :9)۔
ایک جگہ ارشاد فرمایا :‘‘
اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند فرمائے کا ’’ (المجادلۃ
:11)۔
تفسیر روح المعانی کے مصنف
علامہ الوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کے عام مؤمنین سے حرف عطف کے ذریعے
اہل علم ایمان والوں کو الگ سے بیان کرنے کا مقصد اہل علم کا عظمت کا اظہار ہے ،حضرت
عبدا للہ ابن مسعور رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے علما
کی جو خصوصیت بیان فرمائی ہیں پورے قرآن کریم میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔
ایک رو ایت میں سرکار دوعالم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت کے مقابلے میں
زیادہ ہے(جمع الفوائد حدیث 179)ایک اور حدیث میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس فضیلت کو اس تمثیل کے ذریعہ واضح فرمایا کے عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے
میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ شخص پر (ترمذی :5/50، رقم الحدیث :2685)۔سرکار دوعالم صلی
اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز عمل سے بھی یہی ثابت فرمایا ہے کہ عابدین کے مقابلے میں
وہ لوگ زیادہ بہتر ہیں جو علم سے اشتغال رکھتے ہیں، چنانچہ روایات میں ہے آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لائے آپ نے دو جماعتیں دیکھیں ایک علم سیکھنے
سکھلانے میں مصروف تھی اور دوسری ذکر ودعا میں مشغول تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : دونوں بھلائی پر ہیں، یہ جماعت اللہ کی یاد میں مشغول ہے اور یہ جماعت
علم سیکھنے سکھلانے میں لگی ہوئی ہے، یہی جماعت افضل ہے کیونکہ میرا مقصد بعثت بھی
تعلیم ہے۔‘‘ انما بعثت معلما’’ ( ابن ماجہ
:1/83 ، رقم الحدیث 229) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جماعت کے ساتھ بیٹھ گئے۔
آج جو لوگ علما کی قیادت
کے مضحکہ اڑاتے ہیں ان کے پیش نظر یہ حدیث پاک نہیں ہے فرمایا: زمین پر علما کی مثال
ایسی ہے جیسے آسمان پر ستارے بحر وبر کی تاریکیوں میں انہی ستاروں سے رونمائی حاصل
کی جاتی ہے، اگر ستارے ڈوب جائیں تو ممکن ہے کہ راہ چلنے والے راستہ بھٹک جائیں (مسند
احمد بن حنبل حدیث :2189) اس سے بڑھ کر علما کی عظمت پر اور کیا دلیل ہوگی کہ انہیں
آسمان کے ستاروں سے تشبیہ دی گئی جن کی روشنی میں راستے طے کئے جاتے ہیں۔ یہ علما
ہی ہیں جو گم کردہ راہ لوگوں کو ان کی منزل تک پہنچاتے ہیں اور ضلالت کی تاریکیوں میں
ہدایت کے چراغ روشن کرتے ہیں، اگر ہم نے انہیں چراغوں کو بجھانے کی کوشش کی تو اندھیرے
کس طرح دور ہوں گے؟
علما کرام پر لعنت ملامت کرنے
والے اور ان کا مذاق اڑانے والے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک
ضرور ملحوظ رکھیں کہ تین آدمیوں کا مذاق منافق کے سوا کون اڑاسکتا ہے ، بوڑھے مسلمان
کا، عالم کا اور عادل امام کا (جمع الفوائد :حدیث 200) ۔ایک روایت میں جو حضرت ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس سے بھی زیادہ
سخت وعید ہے ان لوگوں کے لیے جو اہل علم سے بغض وعناد رکھتے ہیں، سرکار دوعالم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ تم علم سکھلانے والے بنو یا علم حاصل کرنےوالے
بنو، یا علم کی باتیں سننے والے بنو یا علم والوں سے محبت کرنے والے بنو اور پانچویں
نہ بنو ورنہ ہلاک ہوجاؤ(جمع الفوائد حدیث 199)پانچواں کون ہوسکتا ہے وہ شخص جسے اہل
علم سے محبت نہیں ہوتی بلکہ ان سے نفرت اور کدورت ہوتی ہے، یہ حدیث ان لوگوں کے لیے
ایک آئینہ ہے جو بات بے بات علما پر الزامات لگاتے رہتے ہیں ،معاشرے کی تمام برائیوں
کا سبب انہیں قرار دیتے ہیں اور دنیا کی ہر خرابی کو ان کے سر منڈ ھ دیتے ہیں ۔
علما بھی آپ کی او رہماری طرح انسان ہوتے ہیں، ان سے
بھی کوتاہیاں ہوسکتی ہیں، اول تو کسی ایک شخص کی غلطی اس کے طبقے سے تعلق رکھنے والے
تمام انسانوں کی غلطی قرار نہیں دی جاسکتی ،جو لوگ کسی ایک عالم کے طور طریقوں پر تمام
علما کو قیاس کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں، کیا کسی ایک ڈاکٹر وکیل یا انجنیئر کی غلطی کو اس پیشے سے منسلک تمام لوگوں
کی غلطی قرار دی جائے گی او رکیا ایک ڈاکٹر کی کوتاہی کی بنا پر یہ کہا جائے گا کہ
تمام ڈاکٹر نااہل ،نکمے ، ناکارہ اور انسانیت دشمن ہیں، کیا کسی ایک انجینئر کی نا
اہلی کی وجہ سے تمام انجنیئر ناہل اور بے صلاحیت قرار دیئے جاتے ہیں، پھر آخر علما
کے ساتھ ہی یہ دوہرا معیار کیوں ہے، مانا کہ کچھ اہل علم اداروں میں اختلاف کا سبب
بن جاتے ہیں ،یہ بھی صحیح ہے کہ کبھی کوئی عالم غیر اخلاقی حرکت کر بیٹھتا ہے لیکن
کسی ایک یادو یاچند افراد پر قیاس کر کے تمام علما کو مطعون کرنا کہاں کا انصاف ہے
یہ تو سخت گناہ کی بات ہے ،حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
کی رائے یہ ہے کہ ‘‘مولویوں کو برا بھلا کہنے میں بعض اوقات معصیت بھی ہوجاتی ہے او رعوام پر بھی اس کا برااثر ہوتا ہے وہ سب سے بدگمان
ہوجاتے ہیں اگر کسی صاحب کو باطل کے شر سے بچانا ہی ضروری ہو تو تہذیب کے ساتھ اطلاع کردینا کافی ہے اور جس طرح خود اس میں مشغول
ہونا مضر ہے، اسی طرح دوسرے مشغول کے ساتھ شریک ہوجانا یعنی کسی دوسرے شکایت کرنے والے
سے مولویوں کی شکایت سن لینا بھی ایسا ہی مضر ہے’’۔( وعظ حقو ق العلم ص: 96)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی
نے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ دوملفوظ اسی سلسلے میں نقل کئے ہیں
نافذ ین اہل علم کو ٹھنڈے دل کے ساتھ ان ملفوظات کی روشنی میں اپنے طرز عمل پر غور
کرنا چاہئے ،فرماتے ہیں ‘‘دینی مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ علما کی نصرت کرنی چاہئے اگر
چہ وہ بد عمل بھی ہوں ،اگر عوام کے قلب سے علما کی وقعت گئی تو دین کا خاتمہ ہوجائے
گا ،کیوں کہ پھر وہ سب ہی علما سے بد گمان ہوکر کسی بات پر دھیان بھی نہ دیں گے (مجالس
حکیم الامت ص 131) یہ بھی فرمایا ‘‘جب کوئی عام آدمی علما پر اعتراض کرتا ہے تو اگر
وہ اعتراض صحیح بھی ہو جب بھی یہ جی چاہتا
ہے کہ علما کی نصرت کروں۔ جو بہ ظاہر عصبیت ہے مگر میری نیت درحقیقت یہ ہوتی ہے کہ
عوام علما سے غیر معتقد نہ ہوں ورنہ ان کے دین وایمان کا کہیں ٹھکانہ نہیں (مجالس حکیم
الامت ص :166)حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے
تو یہاں تک لکھا ہے کہ بے عمل عالم بھی قابل احترام ہے فرماتے ہیں ‘‘عام لوگ علمائے
بے عمل کی تحقرواہانت نہ کریں بلکہ ان کو مثل بد پرہیز طبیب کے سمجھیں کہ طبیب اگر
پرہیز نہیں کرے گا تو اپنے آپ مرے گا مگر مریض کو تو اس کے بتلانے کے موافق ہی عمل
کرنا چاہئے اگر مریض نےاس کی تدبیر کے موافق عمل کرلیا تو اس کو ضرور شفا ہوجائے گی،طبیب
ہرحالت میں قابل تعظیم ہی ہے، نیز عالم بے عمل اس وکیل سرکاری کے مانند ہے جو خود قانون
کی خلاف ورزی کا بد نیتجہ دیکھے گا مگر کیوں کہ وہ قانون سے واقف ہے اس لیے مقدمات
میں اس کی رائے لینے سے فائدہ ہی ہوگا۔( آدب المتعلمین بحوالہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ
اللہ علیہ ص :111)
یہ چند معروضات انتہائی دل
سوزی کے ساتھ ان لوگوں کی خدمت میں پیش ہیں جنہوں نے علما کا گوشت اپنے اوپر حلال کررکھا
ہے، اس طرح وہ خود بھی غیبت اور بہتان جیسے گناہوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور دین کی
طرف آنے والے لوگوں کو بھی بدگمان کررہے ہیں ،کیا ہی اچھا ہوکہ ہم میں سے ہر شخص دوسروں
کی زندگی میں جھانکنے کے بجائے اپنی آخرت کی فکر کرے۔
بشکریہ : اخبار مشرق ، نئی
دہلی