مولانا ندیم الواجدی
30اپریل، 2012
مئی کی پہلی تاریخ کو لیبرڈے
یعنی مزدوروں کا دن منایا جاتا ہے ،دنیا کے بہت کم ملک ایسے ہوں گے جہاں یہ دن نہ منایا
جاتا ہو، اس روز عام تعطیل کردی جاتی ہے، سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقریبات کاا
نعقاد عمل میں آتا ہے ،مزدوروں کی تنظیمیں ریلیاں منعقد کرتی ہیں، سرخ جھنڈوں کے پوری
فضا آتشیں ہوجاتی ہے، سیاسی لیڈر اپنی تقریروں میں اس مزید دو آتشہ اور سہ آتشہ
بناد یتے ہیں ، مزدوروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں، ان کی عظمت کو سلام کرتے ہیں
اور ان کے مسائل حل کرانے کا وعدہ کرتے ہیں ، یہ منظر ہر سال دیکھا جاسکتا ہے، نئے
دور کی جن رسموں نے ہمارے معاشرے کو اپنی گرفت میں لیا ہے ان میں سے ایک مختلف عنوانات
پر ڈیز منانے کی رسم بھی ہے، سال کے کسی ایک دن کو کسی ایک عنوان کے ساتھ خاص کر کے
کچھ رسمی کارروائیاں کرلی جاتی ہیں اور یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں ہماری جو ذمہ داریاں تھیں
وہ ہم ادا کرچکے ہیں ، خواتین کا دن ، بچوں کا دن ، بوڑھوں کا دن ،باپ کا دن، ماں کا
دن، یہ اور اسی طرح کے بے شمار دن ہیں جن میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی دن منایا
جاتا ہے ،ان ہی دنوں میں سے ایک دن مزدوروں کا دن بھی ہے، سنجیدہ لوگ ڈے کلچر کو مسائل
حل کرنے کی کوشش کے بجائے ان پر پردہ ڈالنے کی سعی سے تعبیر کرتے ہیں، یہ ایک ایسی
حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، ہم 23مارچ کو عورتوں کا دن مناتے ہیں ، لیکن
جس رفتار کے ساتھ ہم ان کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اسی رفتار کے ساتھ ان کے حقوق
پامال بھی کرتے ہیں ،والدین کے احترام میں
مئی کے دوسرے اتوار کو تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ،مگر پوری دنیا میں خاص طور پر
مغرب میں والدین کی جو درگت بن رہی ہے وہ کسی
سے پوشیدہ نہیں ہے، ماں باپ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے نہیں انہیں اولڈ ایج ہوم
میں اس طرح پھینک دیا جاتا ہے جس طرح ہم فالتو سامان کو اپنے کباڑ خانے میں پھینک دیتے
ہیں، وہ ماں باپ بڑے خوش نصیب سمجھے جاتے ہیں جن کے بچے مدرڈے یا فادر ڈے پر پھولوں
کا گلدستہ لے کر خود آجاتے ہیں ،یا کورئیر سروس کے ذریعے یہ فرض ادا کردیتے ہیں،یہی
حال مزدوروں کے دن کا ہے، یہ وہ طبقہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں پہلے بھی پستارہا
اور آج بھی پس رہا ہے، ان کے حقوق کے تحفظ کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں، ان دعووں
پر عمل کبھی نہیں ہوتا، آج بھی کارخانے کا ایک مزدور اپنے جھریوں بھرے چہرے، نحیف
ونزار جسم ،میلے ہاتھ او رکمزور چال سے فوراً پہچان لیا جاتا ہے، دوسری طرف ان محنت
کشوں کے خون پسینے کی کمائی پر عیش کرنے والے مل مالکان کی حرص وطمع ان کے جسم کے حدود
اربعہ کی طرح مسلسل وسعت پذیر رہتی ہے۔
اسلام میں کوئی لیبر ڈے نہیں
ہے ، نہ کوئی فادر ڈے ہے، نہ مدرڈے ، ڈے کلچر منانے کا رجحان وہاں پیدا ہوا ہے جہاں
انسانیت کے ان محترم طبقات کے ساتھ ناانصافی ہورہی تھی ، اسلامی تعلیمات ہر طبقے کے
لیے پہلے بھی انصافی کی ضمانت تھیں اور آج بھی انصاف کی ضمانت ہیں، شرط یہ ہے کہ ان
تعلیمات پر خلوص دل کے ساتھ عمل کیا جائے۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ
اسلام آیا تو طبقہ محنت کش کی حالتِ زار کیا تھی ،انسانیت کےدوسرے طبقوں کی طرح یہ
طبقہ بھی شرف انسانیت سمیت اپنے تمام حقوق سے محروم تھا ، اسلام نے جس طرح ہر دبے کچلے
طبقے کو اوپر اٹھایا اسی طرح محنت کشوں کے طبقوں کو بھی اس کے حقیقی مرتبہ ومقام سے
آشنا کیا، اگر یہ دیکھنا ہوکہ عہد نبوت سے پہلے اس وقت کا متمدن اقوام میں مزدوروں
کی حالت کیا تھا تو ہمیں چھٹی ساتویں صدی عیسوی کی دنیا میں واپس جانا ہوگا، اس وقت
دنیا بڑی مختصر تھی، بہت سے وہ علاقے جو آج موجود ہیں دریافت بھی نہیں ہوئے تھے، آسٹریلیا
اور امریکہ کے دونوں براعظموں کا کوئی وجود نہ تھا، افریقہ کابڑا حصہ گمنامی کی تاریکیوں
میں ڈوبا ہوا تھا، ایشیا اور یورپ کے بہت سے
علاقے بھی انسان کی پہنچ سے باہر تھے، البتہ عرب ، چین ،ہندوستان ،وسط ایشیا، مغرب
اقصیٰ اور جنوبی یورپ کے کچھ ممالک تھے جنہیں اس وقت کے تمدن کا گہوارہ کہہ سکتے ہیں،ان
میں بھی چند ممالک روم، فارس، ہندوستان اور چین زیادہ بااثر اور طاقتور سمجھے جاتے
تھے یا عرب کے قبائل تھے جو اپنی بہادر ی اور جفا کشی کی وجہ سے ان بڑے ممالک کے زیر
مانگیں بن کر رہنے کے بجائے آزاد قبائلی نظام کے تحت زندگی گزاررہے تھے، سلطنت روما
جس کا آغاز پہلی صدی عیسوی کو ہوا پانچویں صدی تک آتے آتے اپنے ظلم واستبداد اور مطلق العنان طرز حکومت کے باعث زوال
کی انتہا ئی پستیوں تک پہنچ گئی تھی، رومیوں کے قلمرو میں اصل حقوق واختیارات بادشا
ہوں اور ان کے گھرانوں کے ارکان کو حاصل تھے، باقی قوم ان کی اطاعت پر مجبور تھی، ان
ہی میں وہ طبقہ بھی تھا جسے ہم آج کی اصطلاح میں مزدور کہتے ہیں، دووقت کی روٹی کے
لیے یہ طبقہ سارا سارا دن جانوروں کی طرح عمائد ین سلطنت اور ان کے ارکان خاندان کے
خدمت میں لگا رہتا ، فارس کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا، اس میں بھی شخصی اور موروثی
حکومت ہوتی تھی، اس کا م کے لیے ایک خاص گھرانہ متعین تھا، عام خیال بلکہ عام عقیدہ
یہ تھا کہ صرف اسی گھرانے کے لوگ تخت وتاج کے وارث ، ورسلطنت واقتدار کے اہل ہوتے ہیں،
ان مٹھی بھر لوگوں کے علاوہ باقی تمام مردوزن انتہائی تکلیف وہ ماحول میں سانس لیا
کرتے تھے، سب سے زیادہ برا حال مزدوروں کا تھا جن کے گلے میں غلامی کا طوق لٹکا کر
ان کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا، ظلم وتشدد کا کوئی
حربہ ایسا نہ تھا جو ان بے زبانوں پر آزمایا
نہ جاتا ہو، ہندوستان کی حالت بھی روم اور فارس سے کسی طرح کم نہ تھی، پورا
ملک چھوٹے چھوٹے راج گھرانوں میں تقسیم تھا ، طوائف الملوکی کا بول بالا تھا، تمام
راجے مہاراجے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے تھے، اس لڑائی سے وقت بچتا تو مظلوم اور
فاقہ کشی عوام ظلم و استبداد کا نشانہ بنتے ،غلامی اپنے عروج پر تھی ،طبقہ اسرافیہ
کے لوگ اپنے سے کمتر کسی بھی ذات کے کسی بھی فرد کو پکڑتے اور اسے غلام بنالیتے ، پھر
وہ کھیت کھلیانوں سے لیکر محل سراؤں تک خدمت کرتے کرتے مرکھپ جاتے، یہی ان کی زندگی
تھی ،چین بھی آمریت میں باقی اقوام سے کسی
طرح کم نہ تھا، اس ملک کے چپے چپے پر بھی ظلم و استبداد وحشت و بربریت کی کہانیاں بکھری
ہوئی تھیں،ویسے بھی چین میں بادشاہ کا تصور آسمانی فرزند کا تھا، جہاں مطلق العنان
بادشاہوں کو الوہیت کا درجہ بھی حاصل ہو ان کی مطلق العنانیت کا کیا حال ہوا اسی سے
اس بات کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے، سب سے برُا حال عربوں کا تھا، اگر چہ عرب تہذیب
وتمدن کا دائرہ بڑے وسیع رقبے میں پھیلا ہواتھا مگر زبان اور بعض تہذیبی خصوصیات کے
علاوہ ان میں کوئی چیز مشترک نہ تھی، پورے علاقہ عرب میں چھوٹی چھوٹی مملکتیں اور ہر
مملکت میں سینکڑوں خود مختار قبائل آبا دتھے
جو ہر وقت جنگ وجدال پر کمر بستہ رہتے
تھے، ہر قیبلے کا سردار اپنی سلطنت کے دائرے میں رہنے والے تمام افراد کی تقدیر کا
مالک سمجھا جاتا تھا ،طبقاتی کشمکش پوری طرح عیاں تھی، کمزوروں کو زیادہ سے زیادہ دبایا
جاتا تھا اور ان کا پوری طرح استحصال کیا جاتا تھا، غلامی کا دور دورہ تھا، مرد بازاروں
، کھیتوں ،باغوں میں محنت مزدوری کرتے اور تمام کام کرتے جو ایک مرد کرسکتا ہے جبکہ
ان کی عورتیں جو باندی اور کنیز کہلاتی تھیں خواب گاہوں کی زینت بنتیں اور ان سے پیدا
ہونے والے بچے غلاموں کی تعداد میں اضافے کا سبب قرار پاتے، مزدوروں اور غلاموں پر
ان کےدلوں میں رحم و مروّت کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی، انسانوں سے زیادہ عربوں کو اونٹ
عزیز تھے جن کو قیمتی متاع ِ حیات سمجھا جاتا تھا، جن کو شاعری کا موضو ع بنایا جاتا
تھا، مزدور باندی او رغلام کیڑے مکوڑوں سے زائد حیثیت کے مالک نہیں تھے،جب چاہا پاؤں
سے کچل کر آگے بڑھ گئے ،اس وقت کی تمام متمدن اقوام کا یہی حال تھا، حدیث کی کتابوں
میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قصہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، وہ اصفہان کے رہنے
والے تھے، ایک کاشتکار کے بیٹے ،بڑے ہوئے تو
مجوسیت کے دائرۂ اثر سے باہر نکلے اور تلاش حق کے لیے نکل پڑے، تلاش حق کے اس سفر
میں انہوں نے کتنی تکلیفیں جھلیں اور کتنے دکھ اٹھائے اس کا اندازہ اس جملے سے ہوتا ہے جو خود ان کی زبان سے ادا ہوا ہے۔ فرماتے
ہیں لوگوں نے مجھے ظلماً غلام بنایا تھا اور میں (اسلام تک پہنچنے تک) دس مالکوں کے
پاس دست بہ دست منتقل ہوتا رہا( صحیح البخاری :1/562) حضرت بلال رضی اللہ عنہ کاقصہ
بھی کچھ کم اندوہناک نہیں وہ حبشی النسل تھے
، کسی طرح امیہ بن خلف کے غلام بن گئے ،یہ شخص ان سے سخت مشقت سے کام لیتا ، اللہ نے
حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر حق منکشف کیا تو
ا ن کا مالک اور زیادہ دشمنی پر آمادہ ہوگیا، اس کے ظلم وستم کی انتہا یہ تھی کہ ٹھیک
دوپہر کے وقت تپتی دھوپ میں آگ کی طرح تپتے ہوئے پتھروں پر ان کو ننگے بدن لٹا دیا جاتا اور ان کے سینے
پر پتھر کی سل رکھ دی جاتی تاکہ جنبش نہ کرسکیں، کبھی گائے کی کھال میں لپیٹ او رکبھی
لوہے کی زر پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھا دیا جاتا ( سیرۃ ابن ہشام 1/109) یہ اسلام ہے
جس نے حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ ،فارس کے سلمان رضی اللہ عنہ ،روم کے صہیب رضی اللہ
عنہ اور نبط کے خباب رضی اللہ عنہ کو گلے سے لگایا اور ان کی زندگی کو صحیح سمت سفر
عطا کی۔
اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ
یہ ہے کہ اس نے انسان کو اس کے شرفِ انسانیت سے آگاہ کیا اور اس کو انسانیت کے اس
مقام تک پہنچایا جس کا وہ بحیثیت انسان مستحق تھا،محنت مزدوری کوئی عیب نہیں ہے، کارخانوں
میں بیٹھ کر آگ سے کھیلنا ،کھیتوں میں تپتی
ہوئی دھوپ کے اندر پسینہ بہانا یا کسی کی خدمت میں اس طرح مصروف ہونا کہ وہ خدمت اپنے
سے خالق کی یاد اور خود اپنے نفس کے حقوق اور اپنے ر نگیں افراد کی ذمہ داریوں سے غافل
نہ کرے کوئی عیب نہیں ہے، ان میں سے کوئی کام بھی انسان کو اس کے مرتبے سے محروم نہیں
کرتا ،عیب اگر کوئی چیز ہے تو وہ بیکاری او ربے عملی ہے، اسلام کی نظر میں عمل یعنی
کام کی اہمیت کا اندازہ کرنا ہوتو یہ آیت پڑھ لیجئے اس میں کام کو ایک ایسی نعمت سے
تعبیر کیا گیا ہے جو ہر حال میں لائق شکر ہے،
فرمایا: (یٰسٓ:35) اس آیت میں انسان کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اپنی محنت او رکسب سے
رزق حاصل کرے ، چاہے یہ محنت کھیتی کی ہو جس کی طرف لفظ ثمرہ سے اشارہ کیا گیا ہے خواہ
دستکاری ،تجارت یا جسمانی محنت ومشقت سے ہو جس کی طرف یدیھم سے اشارہ کیا گیا ہے۔
جہاد کو ہر دور میں بڑی عبادت
تصور کیا گیا ہے، حقیقت میں یہ ہے بھی بڑی عبادت ،کیونکہ اس میں جان جیسی قیمتی چیز
ہتھیلی پررکھ کر لے جانی پڑتی ہے، اسی عبادت کی وجہ سے انسان موت کو گلے لگا کر شہید
کہلاتا ہے او رموت کو شکست دے کرواپس آنے کے بعد غازی کہلاتا ہے ، دونوں طرح کے مجاہدین کے بڑے فضائل اور مناقب
ہیں اس کے باوجود محنت کش ان سے بازی لے جاتا ہے ، واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک ہٹا کٹا نوجوان تیزی کے ساتھ آلات کسب لے کر سامنے سے
گزرگیا، کسی نے کہا کہ کاش یہ جوان اللہ کے راستے میں بھی اسی طرح کی تیز رفتار ی کا مظاہرہ کرتا، یہ سن کر سرکار
دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا مت کہو ، یہ شخص اگر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش کے لیے
جد وجہد کررہا ہے تو یہ بھی اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والوں کی طرح ہے، اگر اپنے
ضعیف او ربوڑھے والدین کے لیے جارہا ہے تب بھی اللہ کے راستے میں ہے اور اگر وہ حرام
رزق سے بچنے کی خاطر اپنی ذات کے لیے سعی کررہا ہے تب بھی اللہ کے راستے میں ہے، ہاں
اگر ریا کاری اور جوانی کے زعم میں اس کے یہ قدم اٹھ رہے ہیں تب یہ شخص شیطان کے راستے
میں ہے ( المعجم الکبیر للطبرانی :13/491)
پیغمبروں کے بارے میں قرآن
کریم ہمیں یہ بتلا تا ہے کہ وہ محنت کی کمائی کھاتے تھے، حضرت داؤد علیہ السلام زرہ
کے کاریگر تھے اور لوہے سے زر ہیں تیار کرتے تھے، حضرت موسیٰ کا قصہ تو مشہور ہے ہی
کہ انہو ں نے آٹھ یادس بر س تک اپنی ہونے والی بیوی کا مہر ادا کرنے کے لیے ان کے
والد حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر مزودوری کی، اسلام نے مزدوری کو اس حد تک اہمیت
دی ہے کہ اسے کفارۂ سیأت تک قرار دیا ہے، ایک حدیث میں ہے: ‘‘جس نے اپنے کام سے تھک
کر رات گزاری اس نے دامن مغفرت میں رات گزاری ’’
(صحیح وضعیف الجامع الصغیر :24/298، رقم الحدیث 11798)ایک حدیث میں ہے ، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانا انسان کے لیے سب
سے بہتر ہے، اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام
اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے’’ (صحیح البخاری :7/235، رقم الحدیث
1930)ایک حدیث میں ہے سرکار دوعالم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر مسلمان کے لیے صدقہ کرنا ضروری ہے، کسی نے عرض کیا
کہ اگر کسی کےپاس صدقہ کرنے کےلیے کوئی چیز نہ ہوتو وہ کیا کرے، فرمایا وہ اپنے ہاتھ
سے کام کرے ،خود نفع اٹھائے اور صدقہ کرے، صدقہ یہی نہیں ہے کہ کسی بھوکے کو کھانا
کھلا دیا جائے، کسی ننگے کاتن ڈھانپ دیا جائے، کسی تنگدست کی مدد کردی جائے، کسی ضرورت
مند کی ضرورت پوری کردی جائے ، صدقہ وہ عمل بھی ہے جس سے کوئی انسان یا کوئی حیوان
بھی نفع اٹھالے ، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان درخت
لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہےاور اس کا پھل یا دانہ کوئی پرندہ ، کوئی انسان یا کوئی جانور
کھا لیتا ہے وہ بھی اس مسلمان کے لیے صدقہ ہے(صحیح البخاری :8/118،رقم الحدیث
:2152) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے
ہوئے فرمایا کہ تمہارے لیے یہ بات کہ تم اپنی رسیّ لو، لکڑی کا گٹھر کمر پر باندھ کر
لاؤ اور اسے فروخت کر کے آبرو کے ساتھ گزر بسر کر و اس سے بہتر ہے کہ تم لوگوں کے
سامنے دست سوال دراز کرو وہ چاہیں تو دیدیں
اور چاہیں تو منع کردیں( صحیح البخاری :8/196، رقم الحدیث2200)ایک مرتبہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے ،ہتھوڑا چلاتے چلاتے
ان کے ہاتھوں میں گٹھے پڑگئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہارے
ہاتھ پر کچھ لکھا ہوا ہے، انہوں نے عرض کیا نہیں میں پتھر پر ہتھوڑا چلاتا ہوں اور
اس سے اپنے بیوی بچوں کی روزی کماتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ چوم
لئے ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ کثرت محنت کی وجہ سے ایک شخص کے ہاتھوں پر ورم آگیا
آپ نے اس کے ہاتھ دیکھ کر فرمایا یہ وہ ہاتھ ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم محبوب رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں
کہ بندہ محض عبادت میں لگا رہے اور گھر بار سے لاتعلق ہوکر رہبانیت اختیار کرلے، اللہ
تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ عبادت سے فارغ ہوکر تلاش معاش کے
لیے زمین میں پھیل جائیں، فرمایا : ‘‘ جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور
اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرنے میں لگ جاؤ (الجمعۃ :10)
یہ ہے وہ فضائل جو محنت کشوں
او راپنے بیوی بچوں اور دوسرے افراد خاندان کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو عظمت عطا کرتے
ہیں، یہ فضائل اس وقت بیان کئے جارہے ہیں جب محنت کشوں کو کوئی توقیر حاصل نہ تھی،
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اس نے زندگی کے تمام گوشوں کا احاطہ کیا ہے، ان گوشوں
میں سے ایک گوشہ محنت کش بھی ہے ، اسلام نے اس کی ترغیب بھی دی اور اس کے لیے ضابطے بھی وضع کئے جو ایک طرف تو محنت کش کے
حق کا تحفظ کرتے ہیں، دوسری طرف اسے اخلاقیات کا پابند بھی بناتے ہیں ، تیسری جانب
محنت کرانے والوں کو بھی یہ بتلا تے ہیں کہ
انہیں محنت کشوں اور مزدوروں کے ساتھ کس طرح
پیش آنا چاہئے ، جہاں اس تیسرے پہلو کا تعلق ہے وہ یوں بھی بہت واضح ہے کہ جتنے فضائل
محنت کش مزور کے بیان کئے گئے ہیں ان کی موجودگی میں کوئی صاحب ایمان ان ضابطوں سے
باہر نکلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا ، اس کے باوجود اسلام نے ایک ایک ضابطہ کھول کھول
کر بیان کردیا، محنت آدمی اس لیے کرتا ہے یا کسی دوسرے فرد کی خدمت پر اپنے نفس کو
اس لیے آمادہ کرتا ہے تاکہ اسے پوری اجرت ملے اور وقت پر ملے اور آبرو مندانہ طریقے پر ملے، اسلام نے ان تینوں امور کے
تعلق سے ہدایات دی ہیں، جو لوگ اجرت طے کرنے کے بعد دینے میں پس وپیش کرتے ہیں ان کے
سلسلے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘ تین آدمی ایسے ہیں قیامت کے دن میں خود ان سے مخاصمہ کروں
گا ان میں سے ایک وہ شخص جس نے کسی کو اجرت پرحاصل کیا، پھر اس سے بھر پور کام لیا
اور اس کو اس کی (پوری) اجرت نہیں دی’’ (صحیح البخاری :7:471، رقم الحدیث 2075)وقت
پر اجرت دینے سے متعلق بھی روایات موجود ہیں، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ
خشک ہونے سے پہلے دے دو’’ ( ابن ماجہ: 7/294، رقم الحدیث :2434)اس زریں ہدایت کی روشنی
میں کیا کسی کو یہ جرأت ہوسکتی ہے کہ وہ مزدوری ادا کرنے میں لمحہ بھر کے لیے بھی
تاخیر سے کام لے ،جہاں تک مزدوروں کے ساتھ حسن معاملت کا تعلق ہے وہ بھی شریعت کی نظر
سے اوجھل نہیں ہے، ایک حدیث میں ہے ‘‘ اپنی اولاد کی طرح ان کی عزت بڑھاؤ اور انہیں
وہ کھلاؤ جو تم خود کھاتے ہو’’(مسند احمد بن حنبل :1/74،رقم الحدیث :71)مزدور کے لیے
اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا اعزاز نہیں ہوسکتا کہ مالک اس کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرے،
ایک حدیث میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ یہ مزدور تمہارے بھائی
ہیں جنہیں اللہ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے، جس کا بھائی اس کا ماتحت ہو اس کو چاہئے
کہ وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے اور ایسا لباس پہنائے جیسا وہ خود پہنتا ہے’’
(صحیح البخاری :1/52، رقم الحدیث :29)بہت سے لوگ مزدوروں سے ان کی طاقت اور وسعت سے
زیادہ کام لیتے ہیں یہ طریقہ بھی پسندیدہ نہیں ہے، اس سلسلے میں اسلام کی ہدایت یہ
ہے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :‘‘ ان کی وسعت اور طاقت سے زیادہ
ان کو کسی کام کا مکلّف مت بناؤ اور اگر مکلّف کر تو ( اس کا م میں ) ان کی مدد بھی
کیا کرو ۔(صحیح البخاری :1/52، رقم الحدیث :29)عاملین یعنی محنت کشوں کے لیے بھی اسلام
نے لائحۂ عمل متعین کیا ہے، یہ نہیں کہ انہیں
آزاد چھوڑ دیا ہو جو چاہیں کریں اور جس طرح چاہیں کریں، ان کے لیے سب سے پہلی ہدایت
تو یہی ہے کہ وہ اپنے کام میں لگ کر اللہ کے ذکر سے غافل نہ ہوجائیں ،یہ ہدایت تو عام
ہے کہ أجیر کیا مستأجر سب اس کے پابند ہیں ، فرمایا :‘‘ اے ایمان والو! تمہیں تمہارے
اموال اور تمہاری اولاد اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں’’( المنافقون :9) یہ نہایت جامع
آیت ہے جو دنیا میں لگ کر آخرت کو بھول جانے والوں کے لیے ایک تنازیانہ ہے، خاص محنت
کشوں کو ہدایت دی گئی کہ تمہارا کوئی عمل بھی اس احساس سے عاری نہ ہونا چاہئے کہ اللہ
تمہیں دیکھ رہا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو تمہیں ایمانداری کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اپنے
کام میں لگائے رکھے گی:‘‘ اور آپ فرمادیجئے لوگو عمل کیا کرو کیو نکہ اللہ تمہارے
اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے’’( النوبۃ :105)محنت کش کے لیے سب سے بڑی چیز ایمانداری
اور اخلاص ہے اور یہ بھی کہ وہ جس کام کو ہاتھ لگا نے والا ہے اس کے اندر اس کام کی
جسمانی و ذہنی اہلیت اور توانائی موجود ہے یا نہیں، یہ دونوں باتیں ہمیں حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے قصے سے معلوم ہوتی ہیں، حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی نے اپنے والدین
کی خدمت میں نو وارد نوجوان کو اجرت پررکھنے کی سفارش کرتے ہوئے عرض کیا تھا، ‘‘ان
دونوں میں سے ایک لڑکی نے کہا ابا جان ان کو اجرت پررکھ لیجئے اس لیے کہ اجرت پررکھے
جانے میں بہتر وہ شخص ہوتا ہے جو مضبوط ہو اور ایماندار ہو’’( القصص : 26) امانت کی تلقین ہمیں اس آیت سے بھی ملتی ہے : ‘اور یہ لوگ
وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدد پیمان کی پاسداری کرتے ہیں’’( المؤ منون
:8)
لیبر ڈے کے موقع پر ہم یہی
پیغام دے سکتے ہیں کہ شریعت نے محنت کرنے والے محنت پر رکھنے والوں کے لیے جو ہدایات
قرآن و حدیث میں دی ہیں اور جنہیں فقہا نے
فقہی کتابوں میں مرتب و مدون کردیا ہے، ان کو سامنے رکھنا اور ان پر عمل کرنا ہی اس
دن کی کامیابی ہے، اگردونوں طبقے اپنی اپنی ذمہ داری سے عہد بر آمد ہوتے ہیں تو دنیا
کو کسی لیبر ڈے منانے کی ضرورت نہیں ۔
بشکریہ :روز نامہ صحافت ،
نئی دہلی
URL: