مولانا ندیم الواجدی
16 جولائی ،2012
ماحولیات کا لفظ بڑا وسیع
ہے، اس کا تعلق ہمارے ارد گرد کے ماحول سے نہیں ہے بلکہ اس پوری کائنات سے ہے جسے ہم
دنیا کہتے ہیں ، ایک صحت مند ، اور آرام دہ زندگی کے لیے دنیا کے ماحولیات کی حفاظت
بہت ضروری ہے ، دنیا جس تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کررہی ہے اس سے اگرچہ انسان کی آسائش
و آرام کی بے شمار چیزیں وجود میں آرہی ہیں مگر ان کے پہلو سے انسان کی زندگی اور
اس کی صحت کو نقصان پہنچانے والے بے شمار مسائل بھی جنم لے رہے ہیں،اگر ہم ان مسائل
کو کسی ایک لفظ میں سمیٹنا چاہیں تو وہ کثافت
اور آلودگی ہے، گویا ہمارے دور کا سب سے اہم مسئلہ اس آلودگی اور کثافت پر قابو پانا
ہے،اسی کے بعد انسانی زندگی کو مادی راحت و آرام کے ساتھ جسمانی صحت اور روحانی سکون
کی نعمتوں سے بھی مالا مال کرسکتے ہیں۔
کثافت اور آلودگی بھی مختلف
طریقوں سے پھیل رہی ہے، پانی کی آلودگی، ہوا کی آلودگی ، شعاعی آلودگی، صوتی آلودگی
، ان تمام آلودگیوں نے مل کر انسان کا جینا حرام کررکھا ہے ، اس کے لئے کسی کو مورد
الزمام ٹھہرانا غلط ہے ، خود انسان اپنے لیے گڑھا کھود رہا ہے، خود ہی اس میں اوندھے
منھ گررہا ہے اور خود ہی اٹھنے کے لیے ہاتھ پاؤں بھی مارہا ہے ، مغربی قومیں اس غلط
فہمی میں مبتلا ہیں کہ ماحولیات کے تحفظ کا تصوران کے ذہن کا اختراع ہے، یہ بڑی غلط
فہمی ہے، آج سے چودہ سوسال پہلے قرآن کریم نے ہمیں بتلا دیا تھا کہ دنیا کو ہرا عتبارسے
محفوظ بنانے کےلئے انسان کو کیا اقدامات کرنے چاہئیں ، مغربی تو صرف مادی نقطہ ٔ نظر کی بات کرتا ہے
جب کہ قرآن کی نظر دنیا کی روحانی او معنوی آلودگی پر بھی ہے، بلکہ ثانی الذ کر آلودگی
زیادہ اہم ہے کیوں کہ وہ زیادہ تباہ کن ہے، دنیا کو اس آلودگی سے بچانے کی فکر و اہتمام
زیادہ ہونا چاہئے ۔
قرآن کریم میں غور کرنے کے بعد
یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کم وبیش دوسو آیات ماحولیات سے متعلق ہیں، ان میں زمین
، پانی ، ہوا ، زندہ اور مردہ مخلوقات ،شجر ، حجر ، پہاڑ ، سمندر اور وہ سب عجائبات
عالم زیر بحث آئے ہیں جن کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کی گواہی دیتی ہے ،
اور زبان حال سے پکار پکار کر یہ اعلان کرتے ہیں، صُنْعَ اُللَّہِ اُلَّذِی أَتْقَنَ
کُلَّ شَیْءٍ (نمل: 88) ‘‘ اللہ کی کاری گر ی ہے جس نے ہر چیز کو مضبوطی کے ساتھ بنایا
ہے۔’’ اللہ نے ان چیزوں کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ انسانوں کو یہ دعوت بھی دی کہ وہ
ان کو دیکھے ، ان پر غور کرے ، اور ان کے ذریعے خالق کی عظمت اور قدرت کا ادراک کرے،
سورہ نمل کی آیت پانچ سے آیت چودہ تک مسلسل ان نعمتوں کو شمار کرایا گیا ہے جو اللہ
نے انسانوں کو عطا کی ہیں، اور جن پر غور و
فکر کر نے کی ضرورت ہے ، تاکہ ان نعمتوں کے حوالے سے ہم اس ہستی کو پہچانیں ، اس کی
عظمت کے گن گائیں اور اس کا شکر ادا کریں جس نے یہ نعمتیں پیدا کیں اور جن سے ہمیں
مستفید ہونے کا موقع بخشا ۔
اس کائنات کا محور انسان ہے، کیو
نکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار مخلوقات میں سے یہ واحد مخلوق ہے جسے دنیا کی خلافت عطا
کی گئی ہے، یعنی اسے یہ صلاحیت بخشی گئی ہے
کہ وہ دنیا میں آکر اس کو آباد کرے ، اس کا نظام چلائے، اس کی نعمتوں سے مستفید ہو،
اور دوسری مخلوقات میں مخفی خدا کی قدرت کے اسرار کی حقیقت تک پہنچے ، اللہ تعالیٰ
یہ کام کسی اور مخلوق کے بھی سپرد کرسکتا تھا، لیکن اس نے انسان کو ترجیح دی جو اس
کے لیے اعزاز بھی ہے، ابتلاء اور آزمائش بھی، قرآن کریم میں خلافت ارضی کے حوالے
سے فرمایا گیا: ‘‘ او ریاد کرو جب اللہ نے ارشاد فرمایا فرشتوں سے کہ میں زمین میں
ایک نائب بنانے والا ہوں۔ ’’ (البقرۃ:30)‘‘وہی ہے جس نے تم کو زمین میں صاحب اختیار
بنایا’’۔(الانعام :165) اللہ نے انسان کو زمین میں بھیج کر اس کے حقوق و فرائض بھی
متعین کردئے، فرض تو صرف ایک ہے، باقی تمام فرائض کا تعلق اسی ایک فرض کی تکمیل سے
ہے، فرمایا، ‘‘اور میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے’’( الذاریات:
56) یہی حال حقوق کا ہے، اگر ہم ایک جملے میں ان حقوق کی وضاحت کرنا چاہیں تو اس طرح
کہہ سکتے کہ اللہ نے پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر کے اس کے تابع بنادیا ہے،
وہ جائز حدود میں رہ کر جس طرح چاہے اس سے فائدہ اٹھائے ، قرآن کریم کی بہت سی آیات
میں تسخیر کائنات کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے، مثال کے طور پر ایک جگہ انسان کو مخاطب
کرتے ہوئے فرمایا گیا : ‘‘اور اللہ نے تمہارے لیے رات دن کو ا ور سورج چاند کو مسخر
کیا ہے ۔’’(النحل :12) پھرفرمایا : ‘‘ کیا تو یہ نہیں دیکھتا کہ وہی ہے جس نے تمہارے
لیے زمین کی تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے۔’’ (الحج :65)۔
خلافت ارضی او رتسخیر کائنات
گویا اللہ کی وہ عظیم نعمتیں ہیں جو انسان کو بن مانگے عطا کی گئی ہیں، اب یہ خود انسان
کا فرض ہے کہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرے اور
ان کا حق ادا کرے، ان نعمتوں کی قدر اور حق کی ادائیگی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس
کائنات کی حسن نظام کی حفاظت کی جائے، انسان کی جہالت ، نادانی یا سرکشی یہ ہے کہ وہ
اس کائنات کو جسے اللہ نے اس کے لیے مسخر کیا ہے خود اپنے ہاتھوں تباہ و برباد کررہا
ہے، آئیے دیکھیں یہ کائنات انسان کے ذریعے
کس طرح برباد ہورہی ہے۔ کائنات کی تباہی کی
بنیادی وجہ کثافت ہے، اس میں شک نہیں کہ بعض
کثافتیں تو قدرت نے خود ہی پیدا کی ہیں، اور
بعض انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں، حالانکہ جو کثافتیں قدرت کی پیدا کردہ ہیں ان پر قدرت کے بتلائے طریقے
پر عمل کر کے قابو پایا جاسکتا ہے، اور جو کثافتیں خود پیدا کی جارہی ہیں ان پرقابو پانے کے لئے بھی
موثر تدبیر یں اختیار کی جاسکتی ہیں، لیکن فطرت سے بغاوت کا جو عنصر انسان کی طبیعت
میں ہے اس نے مشکلات پیدا کردی ہیں، اس لیے کثافت پر قابو پانے کا مسئلہ انتہائی اہمیت
حاصل کرچکا ہے۔
اس مسئلےکی سنگینی کو دیکھتے ہوئے
ماہرین ارضیات اور ارباب بست و کشاد وقتاً فوقتاً سر جوڑ کر بیٹھتے رہتے ہیں، تدبیریں
سوچتے ہیں ، تجویزیں پاس کرتے ہیں ، مگر عمل نہیں کراپاتے ، 1992 میں اقوام متحدہ نے
برازیل کے دارالحکومت میں دوسری عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں تیس
ہزار افراد نے شرکت کی، تقریباً سو عالمی لیڈر بھی اپنے اپنے ملکوں کے ارضیاتی ماہرین اور جغرافیائی سائنس دانوں کے ساتھ شریک
رہے، اس کا نفرنس میں ماحولیاتی نظام کی بربادی کی جو تباہ کن تصویر سامنے آئی وہ
کچھ اس طرح تھی، (1) گزشتہ پچیس سالوں کے دوران افریقی ملکوں میں اناج کی پیداوار اٹھائیں
فیصد کم ہوگئی ہے، (2) اتھوپیا نے 1900ء کے
بعد سے اب تک اپنے جنگلات کا نوے فیصد حصہ کھودیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کی زمینیں
بنجر ہوچکی ہیں، (3) آسٹریلیا میں حیوانات مسلسل کم ہورہے ہیں ، حالیہ برسوں میں ان
کی تعداد میں اٹھائیس فیصد تک کمی واقع ہوچکی ہے، (4) آسٹریلیاں ہی جیسی صورت حال
پوری دنیا میں ہے، اعداد وشمار بتلاتے ہیں کہ صرف ایک سال کے عرصے میں حیوانات کی چھتیس
نسلیں ، او رپرندوں کی چورانوے نسلیں دنیا سے ناپید ہوگئی ہیں ، جب کہ تین سو گیارہ
نسلوں کو خطرات لاحق ہیں، (5) فضائی آلودگی کی وجہ سے جنگلات کا رقبہ دو فیصد سالانہ
کے اعتبار سے گھٹتا جارہا ہے، ہر دہائی میں خشک زمین کا سات فیصد رقبہ گھٹ رہاہے،
(6) خلیجی جنگ کے دوران لاکھوں بیرل تیل خلیج عرب کے پانیوں میں مل گیا، جس سے سمندر ی زندگی کے لئے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، صورت حال پر
قابو پانے کے لیے ایک سو اسی برس درکار ہوں گے،(7) یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ
2025ء تک فضائی کثافت ایک خوفناک بحران کی شکل اختیار کر جائے گی، ہوا میں کاربن اکسائڈ کی مقدار میں چار گنا اضافہ ہو جائے
گا ، اور ا سکے نتیجے میں حیاتیاتی اجناس کو پچیس فیصد تک خسارہ اٹھانا پڑے گا(8) یہ
بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ مشرقی ملکوں کے مقابلے میں مغربی ممالک بیس گنا زیادہ پانی
برباد کرتے ہیں اور بیس گنا زیادہ کثافت پھیلاتے ہیں ، ایک امریکی شہری تیسری دنیا
کے شہری کے مقابلے میں بیس سے لے کر سو گنا تک کثافت پھیلانے کا سبب بنتا ہے، جب کہ
ایک امریکی پانی جیسے قدرتی وسائل تین جاپانی، چھ میکسیکن ، تیرہ چینی، پینتیس ہندوستانی
، ایک سو ترپن بنگلا دیشی ، اور چار سو ننانوے ایتھو ییائی شہری کے برابر استعمال کر
کے ضائع کرتاہے، (9) صنعتی او رمشینی ترقیات
کے نتیجے میں خارج ہونے والی گیسیز ،دھویں، فضلات او ردوسری کثافتوں کی وجہ سے اوزون
گیس کی پرت میں شگاف پڑگیا ہے جس کی وجہ سے سورج کی مضر شعائیں زمین تک بلا روک ٹوک پہنچنے لگی ہیں، اور کینسر جیسی
جسمانی بیماریوں کا سبب بن ر ہی ہیں ، (10) دنیا میں جتنے دریا او رنہریں وغیرہ ہیں
ان میں سے دس فیصد آبی وسائل انسانی جسم کے فضلات ، گھروں سے نکلنے والی نجاستوں اور
فیکٹریوں او رکارخانوں کے فضلات کی وجہ سے نہ صرف گندے ہوچکے ہیں بلکہ ان کا پانی بھی
زہریلا ہوگیا ہے۔
بلاشبہ ماحولیات آلودگی کا
مسئلہ عالمی سطح کا مسئلہ ہے تنہا کسی علاقے ، کسی ملک، کسی قوم یا کسی مذہب کا مسئلہ
نہیں ہے، سب کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا چاہئے، اس سلسلے میں سب سے زیادہ مؤثر
مذہبی تعلیمات ہوسکتی ہیں بشر طیکہ ان پرکان دھرا جائے ، اور ان سے استفادہ کیا جائے،
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے اس مسئلے کی اہمیت کو اس وقت سمجھا جب دنیا ماحولیاتی
آلودگی کے نام سے بھی واقف نہیں تھی، چہ جائے کہ اس کے تباہ کن اثرات سے واقف ہوتی،
اس وقت قرآن کریم نے نسل انسانی کی صحت مند بقا کے لیے بہت سی چیزوں کی نشاندہی کی، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد
ات مبارکہ کے ذریعے انسان کو محفوظ زندگی گزارنے کے طریقے سکھلائے ، یہ انسان کی بدقسمتی
ہے کہ اس نے ان ارشادات کو دل کے کانوں سے نہیں سنا ، آج اس کا نتیجہ سامنے ہے، قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے اور انہیں اپنی
مرضی سے استعمال کرنے کی انسانی ہوس نے دنیا کے چھ ارب باشندوں کو ہلاکت کی کگار پر
لا کھڑا کردیا ہے، اب خدا ہی انہیں تباہ ہونے سے بچا سکتا ہے ، کم از کم انسان کے بس
میں تو نہیں کہ وہ اس بحران سے نکلنے کی کوئی راہ تلاش کرسکے۔
اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا
کی، اس میں انسان کے لیے بے شمار فائدے رکھے، مثلاً یہ کہ اسے انسانی رہائش کے قابل
بنایا، اس کے سینے میں معدنیات کی دولت رکھی، اس کے اندر پھل ، پھول ، غلّے او رمیوے پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا فرمائی ، کہیں
ا س کوٹھوس بنایا اور کہیں نرم رکھا تاکہ انسان اس کے نرم حصّے پرکھیتیاں اگا سکے،
درخت لگا سکے، پانی نکال سکے، اسے ا س قابل
بنایا کہ آسمان سے جو بارش برسے وہ اس پر ٹھہر سکے، اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحت
رکھی، نہریں ، دریا، چشمے ، او رپانی کے دوسرے ذخیرے پیدا کئے ، اس میں مختلف شکل و
صورت کے جانور پیدا کئے، جن میں سے بعض کا گوشت کھایا جاتا ہے، بعض سواری او ربار برداری کے کام آتے ہیں، بعض جانوروں کے
اون سے پوشاکیں تیار کی جاتی ہیں بعض جانوروں کو دیکھنے اور ان کی آوازیں سننے سے
دل و دماغ کو سکون ملتا ہے ، یہ اور اس طرح کے بے شمار فوائد کی حامل یہ زمین قدرت
کا بے مثال تحفہ ہے ، اب اگر ہم اس تحفے کی قدر نہ کریں اور اس کی صورت مسخ کر کے اسے
تمام صلاحیتوں سے محروم کر کے خود بھی اس کے فوائد سے محروم ہوجائیں تو اس سے بڑھ کر
ہماری بد قسمتی او رکیا ہوگی۔ (جاری)
16 جولائی ، 2012 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam-protection-environment-/d/8050