New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 01:50 PM

Urdu Section ( 10 Jul 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Honour Killing, Religion and Society آنر کلنگ ،مذہب اور سماج

Maulana Nadeemul Wajidi writes that incidents of honour killings are on the rise. Despite the strict stand of the courts the incidents of honour killing could not be controlled. Legal experts have claimed that over 1000 youth are killed in the name of honour every year. In traditional societies, this barbaric practice is not only considered fair but a matter of pride. Most of the cases of honour killing occur in Haryana, Punjab and western UP. According to an estimate, about nine hundred couples have been killed by their own close relatives in the current year for marrying outside their caste or religion. In most cases the killers could not be arrested. In some cases, though arrests were made but the local panchayats and leaders came out in their defence. It is understood that the honour killing accused will not be brought to book. Probably they will go scot free due to insufficient evidence or non pursuance of the cases by the victims’ kin. Full article in Urdu below:

Source: Hamara Samaj, New Delhi

URL: https://newageislam.com/urdu-section/honour-killing,-religion-society-/d/3127

 

مولانا ندیم الواجدی

ناموس کی خاطر قتل کے معاملات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ، عدالتوں کے سخت اقدامات کے باوجود آنر کلنگ کے واقعات میں کمی نہیں ہوپارہی ہے، ماہرین قانون نے دعوی کیا ہے کہ ہر سال ہندوستان میں خاندانی عزت وناموس کے نام پر ایک ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، روایتی معاشروں میں اس طرح کے وحشیانہ سلوک کو اچھا ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان پر فخر بھی کیا جاتا ہے، آنرکلنگ کے زیادہ تر واقعات ہر یانہ، پنجاب اور مغربی یوپی کے علاقوں میں پیش آتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق سال رواں میں تقریباً نوسو جوڑو ں کو غیر ذات یا دوسرے مذہب میں شادی کرنے کے جرم میں خود ان کے قریبی عزیزوں نے قتل کردیا، اکثر معاملات میں قاتل گرفتار نہیں کئے جاسکے ،بعض جگہوں پر گرفتار یاں بھی ہوئیں لیکن مجرموں کی پشت پناہی اور دفاع کیلئے مقامی پنچایتیں اور علاقائی لیڈر سرگرم عمل ہوگئے ۔ خیال کیا جارہا ہے کہ آنر کلنگ کے مجرم کبھی بھی اپنے جرم کی سزا نہیں بھگت سکیں گے، ہوسکتا ہے عدالتی شواہد کی عدم دستیابی یا مقتولین کے عزیز واقارب کی طرف سے پیروی نہ کرنے کے باعث باعزت رہا ہوجائیں ، اب تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ آنر کلنگ میں ہمارا جاہل اور غیر مہذب سماج ہی مبتلا ہے، لیکن حال ہی میں قومی راجدھانی دہلی کے پوش علاقے میں اس طرح کے کئ قتل کئے گئے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صرف گاؤں دیہات کے غیر تعلیم یافتہ سماج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دہلی جیسے شہر کے تعلیم یافتہ لوگ بھی عزت وناموس کی خاطر کسی کی جان لینے میں پیچھے نہیں ہیں ابھی حال ہی میں قتل کی ایک وارادات کے بعد دہلی کے تعلیم یافتہ اور خوشحال گھرانوں کے جو تین نوجوان گرفتار کئے گئے ہیں انہیں اپنے فعل پر کسی طرح کی کوئی ندامت نہیں ہے انہوں نے برملا اپنے جرم کا اعتراف کیا ور اس کا دفاع بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہی گوتر کے لڑکے اور لڑکی کے درمیان شادی کسی بھی حال میں برداشت نہیں کی جائے گی اور اگر ایسی صورت میں کسی کو قتل کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے ایک گوتر کے لوگ آپس میں بہن بھا ئی ہوتے ہیں جن میں شادی نہیں ہوسکتی اس طرح کی شادی کرنے والوں کو قتل کردینا ضروری ہے۔

آنر کلنگ کے واقعات نے بین  الاقوامی سطح پر ہلچل مچادی ہے،لند ن میٹرو پولیٹن یونیورسٹی نے خاص اس موضوع پر سیمینار کیا۔ سماجی اور قانونی امور کے ماہرین نے اعداد وشمار کے روشنی میں بتلایا کہ آنر کلنگ کے واقعات صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی پیش آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کا بھی نام لیا گیا ہے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کےمطابق ہر سال پوری دنیا میں تقریباً پانچ ہزار لوگ آنر کلنگ کے نام پر زندگی سے محروم کئے جارہے ہیں، ہمارے ملک کی حکومت ا س خطرناک رجحان پر قابو پانے کیلئے سخت ترین دفعات پر مشتمل ایک بل پارلیمنٹ کے ذریعے منظور کرانے کی تیاری کررہی ہے ،لیکن اس کا  امکان کم ہی ہے کہ یہ بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا، اگر پیش ہوبھی گیا تو خواتین بل کی طرح اس کی منظوری بھی آسان نہیں ہوگی اور اگر کسی طرح منظور بھی ہوگیا تو اس پر عمل کرنے کے امکانات معدوم ہی نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آنر کلنگ کسی ایک گاؤں ،کسی ایک علاقے اور برادری یا خاندان کا معاملہ نہیں ہے، پوراپنجاب ، ہریانہ، مغربی اتر پردیش اور راجستھان اس میں مبتلا ہے۔ یہ ملک کا بہت بڑا علاقہ ہے جہاں سے بڑی تعداد میں ممبران منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اگر ان ممبران کو دوبارہ کامیاب ہونا ہے یا اپنے حلقوں میں سیاست کرنی ہے تو وہ لوگ عوامی خواہشات کے احترام پر مجبور ہیں۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بھوپندر سنگھ ہڈا ایک گوتر کی شادی کے مخالف ہیں اور وہ کھلے طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں۔ ہر یانہ ہی سے کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ نوین جندل بھی ایسی شادیوں کی مخالفت کررہے ہیں ان حالات میں یہ بات کیسے کہی جاسکتی ہے کہ عدالتیں انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی یا حکومت سخت قانون بنانے کے اپنے ادارے کوعملی جامہ پہناسکے گی۔

حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان واقعات میں صرف ہندو اور سکھ ہی نہیں بلکہ مسلمان بھی ملوث ہورہے ہیں ۔ جبکہ اسلام میں شادی بیاہ کے معاملات میں حرام اور جائز رشتوں کی تفصیلات پہلےسے طے شدہ ہیں ۔ اس کے باوجود اگر کوئی جوڑا اسلامی تعلیمات سے انحراف کر کے شادی کرتا ہے تو کسی فرد یاجماعت کو اس کے خلاف قتل جیسی انتہائی سزا دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے، جلاوطنی ،قید و بند اور قتل جیسی تعزیری سزائیں حکومت کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں اور کسی کو بھی خواہ وہ کتنا ہی بااثر اور طاقت ور کیوں نہ ہوا پنے دائرۂ اختیار سے تجاوز کرنے کا حق نہیں ہے اگر کچھ مسلم گھرانے روایتی اقدار پر یقین رکھتے ہوئے اس طرح کی حرکتوں میں مبتلا ہورہے ہیں تو یہ بڑے افسوس کی بات ہے ۔ اس لئے ذمہ دار علما اور جماعتوں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو اس طرح کی حرکتوں سے باز رکھنے کے لئے پوری قوت کے ساتھ آگے آئیں کچھ حلقے یہ غلط فہمی پھیلارہے ہیں کہ مسلم ملکوں میں اس طرح کے قتل کو حکومتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔2008میں سعودی عرب کے ایک شیخ نے اپنی بیٹی کو صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا کیونکہ وہ کمر شل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اجنبی مردوں کے ساتھ چیٹنگ کررہی تھی ، اردن ، سیریا اور مراکش میں آنر کلنگ کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان اور خلیج کے بعض دوسرے ممالک میں اس اقدام کو قانونی منظوری تو حاصل نہیں ہے، لیکن سماجی طور پر اسے برانہیں سمجھا جاتا ۔ میرے خیال سے مسلم ملکوں کے خلاف یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔ پاکستان کے بارے میں جہاں بعض علاقوں میں قبائلی سسٹم مضبوط  ہے اور روایتی اقدار کے سامنے حکومتی قانون بھی نے بس نظر آتا ہے آنر کلنگ موجود ہے، لیکن دوسرے مسلم ملکوں کے سماجی پہلوؤں کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان ملکوں میں آنر کلنگ کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ مسئلہ صرف ہندوستان کا ہے اور ہندوستان میں بھی ان علاقوں کا جو مذہب پرستی اور سیاست دونوں میں انتہا پسندی کا شکار ہیں یہ مانا کہ ہندو دھرم شاستروں میں ایک گوتر کے لوگ بہن بھائی مانے جاتے ہیں اور اسی لیے ان کی شادی ممنوع ہے اور جو لو گ اس طرح کے ممنوع کا موں میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے لیے دھرم شاستروں میں سماجی بائیکاٹ اورقتل جیسی سزا ئیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ کھاپ پنچایتوں کا دعوی ہے کہ وہ یہ سزائیں دے کر اپنے دھرم کا پالن کررہے ہیں ۔ 1955تک ایک گوتر کی شادی قانونی طور پر ممنوع تھی اور شاید ہی کوئی جوڑا ایک گوتر میں شادی کی جرأت کرپاتا ہو لیکن ہندو میرج ایکٹ کے ذریعے تمام روایتی قوانین تبدیلی کردیئے گئے کئی طرح کی شادیوں کی اجازت دے دی گئی اور کئی طرح کی شادیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ مثال کے طور پر نابالغ لڑکی کی شادی غلط ٹھہرادی گئی۔ جبکہ اس سے پہلے اس طرح کی شادی جائز تھی ، اس طرح شادی شدہ مرد یا عورت کو طلاق کے بغیر دوسری شادی کا اختیار بھی ختم کردیا گیا۔ بھائی ، بہن ، چچا ،بھتیجی ، چچی ، بھتیجہ ،بھائیوں اور بہنوں کے بچے اسی طرح کے دوسرے قریبی رشتوں میں شادی کرنے سے روک دیا گیا مگر اس قانون میں گوتر کوممنوع قرار نہیں دیا پہلے دبے دبے انداز میں اس پر احتجاج کیا جاتا تھا کیونکہ اس طرح کے واقعات بہت کمی کے ساتھ پیش آتے تھے ۔مغربی تہذیب کی نقالی ، بڑھتی ہوئی بے راہ روی او ربے روک ٹوک آزادی نے رشتوں کا تقدس ختم کردیا ہے اور اب نوجوان لڑکے لڑکیاں مذہب اور سماج کو نظر انداز کر کے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں جبکہ پرانے لوگ اس رجحان کے خلاف ہیں اس لیے وہ سراپا احتجاج بن گئے ہیں اور اب یہ احتجاج سماجی انتشار کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے او رلوگ قانون ہاتھ میں لینے لگے ہیں۔

ایک گوتر میں شادی کی ممانعت اگر ہندؤں کا مذہبی معاملہ ہے تو حکومت کو اسے قانونی تحفظ فراہم کرنا چاہئے اس طرح لوگ قانون کو ہاتھ میں لینے سے باز رہ سکتے ہیں ۔مذہب کا معاملہ بڑا نازک اور حساس ہوتا ہے کوئی بھی قوم خاص طور پر مشرقی اقوام مذہب کو نظر انداز کر کے نہیں چل سکتیں اگر ہندو ایک گوتر کی شادی کو برا سمجھتے ہیں تو حکومت اسے جائز کرنے پر کیوں تلی ہوئی ہے۔ آنر کلنگ پر قانون کے ذریعے قابو نہیں پایا جاسکتا ۔ اس سلسلے میں عدالتیں بھی کچھ نہیں کرسکتیں ،سیاست اور سماج کے ٹھیکیداروں اور مذہب پسند طبقات متحد ہوجائیں تو عدالت حکومت اور قانون سب بے بس ہوجاتے ہیں فی الحال ایسا ہی ہورہا ہے اور جب تک حکومت ہندو سماج کی خواہشات کے مطابق ہندو میرج ایکٹ میں ترمیم کر کے ایک گوتر کی شادی کو ممنوع شادیوں کی فہرست میں شامل نہیں کرے گی ایسا ہی ہوتا رہے گا اور نوجوان جوڑوں کو ایک دوسرے سے جدا ہونے پر مجبور کیا جاتا رہے گا  اگر انہوں نے کھاپ پنچایتوں کی حکم عدولی کی تو انہیں سماجی بائیکاٹ یا قتل جیسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے انہیں جان بچا نے کی خاطر ترک وطن بھی کرنا پڑجائے ۔ یہ بھی ممکن ہے آنر کلنگ کا بھوت زندگی کی آخری سانس تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے۔

جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے اسلام میں ناموس کی خاطر قتل کی کوئی تعلیم نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں جن عورتوں سے شادی جائز ہے اور جن عورتوں سے شادی حرام ہے شریعت میں ان کی تعیین کردی گئی ہے ان عورتوں سے ہٹ کر نکاح کرنے والوں کا نکاح ہوتا ہی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو حرام کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت ہوتو انہیں اسلامی قانون کے مطابق سزا ملے گی، لیکن ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اسلامی قانون نافذ نہیں ہے اس لیے کسی کو قتل جیسی سزا دینے کا اختیار نہیں ہے البتہ ایسے جوڑوں سے  اس طرح نفرت کی جانی چاہئے جیسے ایک مہذب سماج زانیوں سے نفرت کرتا ہے اور ان سے اس طرح دور رہنا چاہئے جس طرح لوگ جرائم پیشہ لوگوں سےدوررہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو آنر کلنگ جیسے خطرناک رجحان پر قابو پانے کے لئے مذہبی تعلیمات کو عام کرنے کی اور بچوں کی صحیح اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/honour-killing,-religion-society-/d/3127

Loading..

Loading..