جو کچھ بھی ایک مسلمان مذہبی
عالم یا ایک صحافی اردو پریس میں لکھتے ہیں، اس میں اسلام فوقیت اور دیگر مذہب کے لئے
نفرت کی بو آنا ضروری ہے اور جو اپنے و ساتھ ہی ساتھ دیگر مذاہب
کی علم اور افہام و تفہیم کی کمی کی بنیادوں کے سبب ہے۔ ہمارے نام نہاد علماء
کافر بنانے والی فیکٹریوں سے آتے ہیں جہاں اسلام کے اندر مختلف مکتب فکر، اہل کتاب اور غیر مسلمانوں کے خیالات
و نظریات کا احترام کرنا نہیں سکھایا جاتا ہے۔
انہیں اپنے محدود نظریہ کے مقابلے میں دوسرے خیالات کے کسی نظام کی تربیت نہیں
دی جاتی ہے۔ ایسے میں دوسروں کے احترام کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ علم سب سے پہلے آتا ہے۔
پھر کیوں نیو ایج اسلام اردو
پریس کے علماء اور صحافیوں کے مضامین پوسٹ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے اور یہاں تک کہ انہیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کرانے
کی کوشش اور اخراجات کو بر داشت کرتا ہے؟ کچھ قارئین کی حیرانی بجا ہے۔ ایک، اسلام فوقیت پرستی اور دیگر اہل کتاب سے نفرت کو بے نقاب
کرنا اپنے آپ میں ہمارے کام کا لازمی حصہ
ہے۔ اور مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آئین میثاق مدینہ کے مطابق
یہ اہل کتاب مسلم امت کا حصہ تھے۔ اسلام
فوقیت پرستی کے رجحانات تقریبا ہر عالم، طالب
اور اردو صحافی (چند مستثنیات کے ساتھ) کے
ذہن میں اس قدر پختہ ہیں کہ
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ جہاں کہیں سے
بھی اور جو بھی موضوع اٹھا لو آپ کو نفرت کی بو ضرور ملے گی۔ دوسرے، کیونکہ وہ اسلامی
نظریے کے موضوعات پر بات کرتے ہیں۔ اس معاملہ میں اسلام مکمل طور پر ہر طرح کی خود
کشی کے خلاف ہے‑ اور اس کے لئے ہمیں خود ہمارے علم دین کے ان بہترین
نکات سے آگاہ ہونا ضروری ہے، ہم اس لٹریچر کو اس میں شامل اسلام فوقیت پرست خیالات
کو نظر انداز کر پڑھ سکتے ہیں۔ ایڈیٹر،
نیو ایج اسلام
----------------------------------------
مولانا ندیم الواجدی
خود کشی بھی اس دور کے سماجی
مسائل پر سر فہرست ہے، آج ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں لوگ خودکشی کررہے
ہیں، اور جان جیسی بیش قیمتی چیز خود اپنے ہاتھوں ضائع کررہے ہیں، اگر ہم ہندوستان
کی بات کریں تو یہ مسئلہ یہاں کچھ زیادہ ہی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے ، ابھی تک ارباب
حل وعقداس کی سنگینی کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے ، آنے والے وقت میں یہ مسئلہ پوری شدت
کے ساتھ ابھرے گا،اور اس وقت حکومت کو کوئی نہ کوئی سخت قدم اٹھانا ہی پڑے گا، ادائیگی
قرض کی کوئی سبیل نہ نکل پانے کی صورت میں خود کشی کرنے والوں کی بڑھتی تعداد نے حکومت
کے ضمیر کو جھنجھور ا تو ہے ، اور مہاراشٹر کے دوربھ علاقے میں خودکشی کرنے والے کسانوں
کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے حکومت نے کچھ رقم مختص بھی کی ہے، لیکن یہ رقم متاثر ین
کو مل رہی ہے یا نہیں اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا یوں بھی یہاں
کا نوکر شاہی نظام سرکاری رقوم کو صحیح جگہ تک نہ پہنچنے دینے میں ماہر سمجھا جاتا
ہے، اس لئے توقع یہ ہے کہ ابھی تک حکومت اپنے اعلان کے مطابق مقروض اور مایوس کاشت
کاروں کی کوئی مدد نہیں کر پائی ہے۔ ہندوستان میں خود کشی کے اسباب و عوامل اور محرکات
دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ہیں، ان میں سے بعض اسباب تو ایسے ہیں جو صرف
اسی ملک میں پائے جاتے ہیں، جب تک خود کشی کے صحیح اسبا ب کا پتہ لگا کراس کا تدارک
نہیں کیا جائے گا اور مرض کو جڑسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اس وقت تک خود
کشی کے واقعات پر قابو پانا بے حد مشکل ہے، ہندوستان میں ابھی تک نیا اقتصادی نظام
پوری طرح متعارف نہیں ہوسکا ہے، آج بھی قصباب اور دیہات میں غریب لوگ اپنی معاشی مجبوریوں
کی وجہ سے مہاجنی نظام کے پنجۂ استبداد میں جکڑے نظر آتے ہیں، یہ نظام یہاں صدیوں سے
چلا آرہا ہے اور اس ملک کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا ہے، ایک شخص آج بھی اپنی موروثی
زمین پر سر چھپانے کے لئے گھر بنوانے کیا خاطر سود خوروں سے اونچی شرح سود پر قرض لینے
کے لئے مجبور ہے، یہ شرح سود اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بیٹی خود صاحب اولاد ہوجاتی ہے،
ماں باپ کی ہڈیوں کو راکھ ہوئے سالو ں گزر جاتے ہیں اور سرچھپانے کے لئے بنایا گیا
کچا پکا گھر تیز تندہوا یا طوفان بارش کی زد میں آکر زمین بوس ہوجاتا ہے ، لیکن قرض
لینے والے کا قرض تو کیا کا سود بھی ادا نہیں ہوپاتا ، وہ یا تو زمین گنوادیتا ہے یا
قرض مع سود اپنی نسلوں کے لئے بہ طور وراثت چھوڑ دیتا ہے ، اب حکومت نے کم شرح سود
والے گرامین بینک کھولے ہیں اور ان سے قرض لینے کی ترغیب جاری ہے ، لوگ قرضے حاصل بھی
کررہے ہیں اول تو ان بینکوں سے ہر ضرورت مند گھبرا کر ارادہ ہی ملتوی کردیتا ہے ، اور
اگر وہ کسی طرح قرض منظور بھی کرالیتا ہے تو اسے رشوتوں میں اتنی رقم متعلقہ افسروں
کو دینی پڑتی ہے کہ قرض سے حاصل ہونے والی رقم کا ایک معقول حصہ اس کے ہاتھ سے نکل
جاتا ہے، بہت سے لوگ قرض لیتے ہیں لیکن جس مقصد کے لئے وہ قرض لیتے ہیں اس میں ناکام
رہ جاتے ہیں ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قرض کی ادائیگی نہیں کرپاتے، ہمارے ملک میں خود
کشی کرنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کسی مہاجن یا کسی بینک سے لیا
ہوا قرض ادا نہیں کرپاتے اور مایوس ہوکر خودکشی کاراستہ اپنا لیتے ہیں۔
ہندوستان میں ذات پات کانظام ہر
چیز پر حاوی ہے، یہی وجہ ہے اگر وہ مختلف ذاتوں اور برادریوں کے لڑکے لڑکی میں عشق
ہوجائے اور وہ شادی کر کے ایک ساتھ زندگی گزارنا چاہیں تو ان کے والدین ، سرپرست ،
گاؤں کے مکھیا اور سماج کے کرتا دھرتا انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے، اگر ان کے
پاس وسائل ہوتے ہیں یا ہمت ہوتی ہے تو وہ گھر سے فرار ہوکر رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوجاتے
ہیں ، ورنہ مایوس ہوکر زہر کھالیتے ہیں ، یا ریل کے نیچے آکر اپنی زندگی ختم کرلیتے
ہیں ، یا گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال کر چھت کے پنکھے میں یا کسی درخت کی شاخ پر جھول
جاتے ہیں۔
خود کشی کے من جملہ اسباب میں سے
ایک بڑا سبب گھریلو مسائل بھی ہیں عام طور پر عورتیں جہیز کے نام پر ستائی جارہی ہیں
، اور ان کے والدین کا استحصال کیا جارہا ہے، بعض اوقات کم جہیز لانے والی خواتین کو
زندہ جلادیا جاتا ہے ، اور کبھی وہ اس قدر مجبور ہوجاتی ہیں کہ ان کے سامنے خودکشی
کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا، جہیز کے نام پر خواتین کو ہراساں کرنے کی کوشش
ہندوستان تہذیب کی پیشانی پر بدنما داغ بن چکا ہے، اخبارات کے صفحے کے صفحے اذیت رسانی
کی خبروں سے بھرے رہتے ہیں ، شرح خواندگی میں اضافے کے باوجود ابھی تک ہندوستانی سماج
جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
تعلیم کامعیار بڑھ رہا ہے ، اور
اس سے زیادہ زندگی کا معیار بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے ، خاندان کو ابھرنے کے لئے
پیسے کی ضرورت ہہے، جو کسی اچھی ملازمت یا وسیع تجارت کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتا ہے،
زندگی کی دوڑ میں برپا اس مسابقت نے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے، والدین سے تعلیمی
میدان میں اعلا کار کردگی کی توقع کرتے ہیں، بسا اوقات بچے ان کی توقعات پر پورا نہیں
اتر پاتے ان میں سے کچھ بچے حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور کچھ کم حوصلہ بچے ہمت
ہار بیٹھتے ہیں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں ، خود کشی کا یہ رجحان تازہ ہے
اور تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے اسباب ہیں جو آدمی کو خود کشی
کی طرف لے جاتے ہیں ، معاشی اور اقتصادی ترقی کی وجہ سے اگرچہ خوش حالی بڑھی ہے مگر
ملک کا ہر شہری خوش حال ہوگیا ہوایسا نہیں ہے، آج بھی ایک بڑی آبادی معاشی ترقی کے
فوائد وثمرات سے اسی طرح محروم ہے جس طرح ساٹھ برس پہلے تھی جب ملک آزاد ہوا تھا ،
جو لوگ ابھی تک غریب ہیں، یا متواسط طبقے میں شمار کئے جاتے ہیں وہ ترقی کی چکاچوند
میں اپنا مستقبل تلاش کرتے ہیں اور جب انہیں مایوسی ہاتھ لگتی ہے تو بہت سے کم ہمت
لوگ حالات سے نبرد آزما ہونے کے بہ جائے موت کی آغوش میں چلے جانے کو ترجیح دیتے ہیں،
انسان کی گھریلو الجھنیں بڑھ رہی ہیں ، اس میں امیر و غریب کی بھی تخصیص نہیں ہے، امیر
کی پریشانیاں دوسری نوعیت کی ہیں، غریب کی مشکلات کسی اور طرح کی ہیں خود کشی کے جو
واقعات پیش آتے ہیں ان میں دس فیصد کے پیچھے گھریلو مسائل ہوتے ہیں، او ر اب لوگوں
نے اظہار عقیدت و محبت کے لئے بھی خود کشی کرنی شروع کردی ہے، اب ایک نیا رجحان یہ
پیدا ہوا ہے کہ بعض لوگ سرکاری حکام کی بددیانتیوں کے خلاف بہ طور احتجاج اپنے آٖ کو
آگ کے حوالے کررہے ہیں بہ حیثیت مجموعی ہمارے ملک میں خود کشی کے واقعات بڑھتے جارہے
ہیں ، ایک جائزے کے مطابق ہندوستان میں خود کشی کے ذریعے مرنے والوں کی سالانہ تعداد
سات لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، اس میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں اور بچے بھی ، یہ
تعداد لگاتار بڑھ رہی ہے ، اور آنے والے سالوں میں اس رجحان کے ختم ہونے کے کوئی آثار
نہیں ہیں۔ان حالات میں ضروری ہے کہ خودکشی کے پیچھے موجودحقیقی سبب کا پتہ لگایا جائے
اور اس کے تدارک کی کوشش کی جائے ، جہاں تک اخبارات وغیرہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے
خود کشی کے واقعات مسلمانوں سے زیادہ ہم وطنوں میں پاے جارہے ہیں،( یہاں خود کش حملوں
کی بات رہنے دیجئے ، یہ موضوع ایک الک بحث کا متقاضی ہے)ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہم وطن
بھائی انسانی جان کی قدر وقیمت سے صحیح طور پر واقف نہیں ہیں، انہیں یہ بھی پتہ نہیں
کہ زندگی خدا کی دی ہوئی امانت ہے، ہمیں اسے ختم کرنے کا کوئی حق نہیں، انہیں یہ بھی
معلوم نہیں کہ مرنے کے بعد بھی ایک زندگی ہے جو دائمی اور ابدی ہے، جہاں انسان کو اس
کے کئے کا پھل ملے گا، وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ مایوسی انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے
، صحیح معنی میں انسان وہی ہے جو بلند حوصلہ رکھتا ہو، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، اور کسی بھی حالت میں مایوس نہ ہوتا ہو، حالات کتنے ہی مخالف
کیوں نہ ہوں صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتا ہو،ایسا لگتا ہے کہ اسلام ہی ایک
ایسا مذہب ہے جو انسان کو عزم وہمت اور صبر وبرداشت کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے،
ضرورت ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو اپنے ہم وطن بھائیوں سے روشناس کرائیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا
اور اسے شرف وفضیلت عطا فرمائی ، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’اور ہم نے عزت دی ہے
آدم کی اولات کو اور سواری دی ان کو جنگل اور دریا میں اور روزی دی ان کو پاکیزہ چیزوں
سے ، اور فضیلت دی ان میں سے بہتو ں پر جن ہم نے پیدا کیا‘‘(بنی اسرائیل:۷۰)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ
نے اکثر مخلوقات پر انسان کی فضلیت کا ذکر فرمایا ہے یہ فضیلت ان خصوصیات کی وجہ سے
ہے جو صرف انسان میں پائی جاتی ہیں اس کے علاوہ دوسری مخلوقات میں نہیں پائی جاتیں،
مثلاً یہ کہ اسے حسن صورت ، اعتدال جسم اعتدال قدو قامت اور اعتدال مزاج عطا کیا گیا،
سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے عقل وشعور بخشا گیا، جس کے ذریعے وہ کائنات میں پھیلی ہوئی
دوسری مخلوقات سے اپنے کام نکالتا ہے، بعض مخلوقات کو وہ اپنی سواری کے لئے استعمال
کرتا ہے، بعض مخلوقات کے ذریعہ وہ اپنی غذا اور لباس تیار کرتا ہے، اسے عقل وشعور کے
ساتھ نطق اور گویائی بھی عطا کی تاکہ اپنا مافی الضمیردوسروں تک پہنچا سکے، اور دوسروں
کے خیالات آسانی کے ساتھ سمجھ سکے،یہ امتیازات وخصوصیات ہیں جن میں انسان کا کوئی شریک
وسہیم نہیں ہے، کیا یہ دانش مندی ہوگی کہ اس قدر بیش قیمت جسم اور اتنی خصوصیات کا
حامل و جو د ختم کرلیا جائے ، اور اسے موت کے حوالے کردیا جائے ، یہ صحیح ہے کہ موت
ایک اٹل حقیقت ہے، اور ایک دن ہر زندہ وجود کو موت کی آغوش میں جانا ہے، لیکن یہ اختیارات
صرف خدا تعالیٰ کو ہے ، اسی نے پیدا کیا ہے اور وہی موت دے گا ، انسان کو صرف جینے
کا اختیار دیا گیا ہے ، موت کا اختیار نہیں دیا گیا ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خود کشی
کو حرام قرار دیا ہے اور علمائے کرام نے اس کی حرمت کی وجہ سے اسے کبیرہ گناہوں میں
شمار کیا ہے، کبیرہ گناہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ جامع اور
مکمل تعریف یہ ہے کہ جس گناہ پر کوئی وعید ، یا حد، یا لعنت بیان کی گئی ہو، یا وہ
گناہ کسی ایسے گناہ کے برابر ہو جس پر کوئی وعیدیا لعنت آئی ہو، حضرت عبداللہ بن عباسؓ
فرماتے ہیں کہ جس گناہ پر اللہ تعالیٰ نے دوزخ کے عذاب کی دھمکی دی ہو یا اسے اپنے
غضب اور لعنت کا اظہار فرمایا ہو کبیرہ ہے، علامہ ابن قیم کا خیال ہے کہ جو گناہ بہ
ذات خود ممنوع ہوں اور کبیرہ ہیں اور جن سے اس لئے منع کیا گیا ہو کہ وہ کسی برائی
کا سبب بنتے ہیں وہ صغیر ہ ہیں،بہر حال کبیرہ گناہوں پر بڑی وعیدیں وارد ہیں، اور ان
کے مرتکبین کو سخت ترین سزاؤں کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ قادر
مطلق ہے وہ چاہے تو بڑا سے بڑا گناہ اپنے فضل وکرم سے معاف کرسکتا ہے ، اور چاہے تو
چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر گرفت کرسکتا ہے، لیکن قرآن و سنت کے کبائر کے سلسلے میں جو
کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کبیرہ گناہ یا تو کفارات (حدود وقصاص) کے ذریعہ معاف
ہوتے ہیں یا توبہ کے ذریعہ ، اس روشنی میں دیکھاجائے تو خود کشی ایسا گناہ ہے کہ اس
کے مرتکب پر کوئی حد وغیرہ جاری نہیں ہوسکتی اور نہ وہ توبہ کرسکتا ہے، کیوں کہ خود
کشی کرنے کے بعد وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ اس پر تعزیری کاروائی کی جاسکے یا وہ توبہ
کر کے اپنا گناہ معاف کراسکے۔قرآن کریم کی مندرجہ ذیل دوآیتوں سے خود کشی کی حرمت پر
روشنی پڑتی ہے ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا:’’اور تم اپنے آپ کو قتل کرو، بلاشبہ اللہ
تعالیٰ تم پر مہربان ہیں ، اور جو شخص ظلم وجور سے ایسا کرے گا تو ہم اسے ضرور آگ میں
ڈالیں گے‘‘(النساء :۲۹۔۳۰)۔
اس آیت میں باتفاق مفسرین خودکشی
بھی داخل ہے، اسلام نے ہر طرح کی خو ں ریزی کو حرام قرار دیا ہے، چاہے خود کو قتل کرنا
ہو یا دوسرے کو قتل کرنا ہو، اور اس کی یہ سزا بھی متعین فرمادی ہے کہ ہم اسے آخرت
میں دوزخ کے عذاب کی دورد ناک سزادیں گے۔ ایک آیت میں فرمایا گیا :وَلَا تُلْقوْ ابِِِِِایدیکم
الی التہلکۃ (البقرۃ:۱۹۵)’’اور
اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت کر ڈالو‘‘۔ اس آیت کو مفسرین نے عام معنی پر
محمول کیا ہے یعنی وہ تمام اختیاری صورتیں ناجائز ہیں جو تباہی ، بربادی اور ہلاکت
کی طرف پہنچانے والی ہوں ، فضل خرچی ہتھیار کے بغیر میدان جہاد میں کود پڑنا ، دریا
میں ڈوب کر، آگ لگاکر ، زہر کھاکر ، چاقو مار کر یا دوسرے طریقوں سے خود کو ہلاک کرنا
یعنی خود کشی کرنا ، جن علاقوں میں وبائی امراض پھیل رہے ہوں وہاں جانا وغیرہ ، قرآن
کریم میں خود کو ہلاک کرنے کی قطعی طور پر ممانعت ہے، اس ممانعت کا حدیث سے بھی ثبوت
ملتا ہے، اس کے پہلے جو آیت ذکر کی گئی ہے صحابۂ کرام اس سے یہی مفہوم مراد لیتے تھے،
چنانچہ حضرت عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ غزوۂ ذات السلاسل کے دوران ایک نہایت سردرات
میں مجھے غسل کیا تو میں سردی کی شدت سے مرجاؤں گا، یہ سوچ کر میں نے تیمم کرلیا اور
رفقاء کے ساتھ صبح کی نماز میں شریک ہوگیا، بعد میں میں نے یہ واقعہ سرکاردوعالم ﷺ
کی خدمت میں عرض کیا ، آپ نے فرمایا کیا تم نے ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھ لی ، میں
نے عرض کیا کہ غسل کے بجائے میں نے تیمم کرلیا تھا کیوں کے میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ
ارشاد سنا ہے لا تقتلو اانفسکم یہ سن کر آپ ﷺ مسکرائے اورکچھ نہ فرمایا ، حافظ شمس
الدین ذہبیؒ نے کتاب الکبائر میں لکھا ہے کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر
وبن العاصؓ نے لفظ ’’قتل نفس‘‘ سے خود کشی مراد لی ہے اور آپ نے اس پر کوئی نکیر بھی
نہیں فرمائی، اس کتاب میں علامہ ذہبی نے خود کشی کی مذمت میں متعدد روایات نقل کی ہیں
جن میں سے چند یہاں درج ہیں:
حضرت جندب بن عبداللہؓ روایت کرتے
ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا کہ نبی اسرائیل میں ایک شخص کے (ہاتھ میں) کوئی زخم
ہوگیا تھا وہ شخص اس کی تکلیف سے اس قدر پریشان ہوا کہ چھری لے کر اس نے اپنا ہاتھ
کاٹ ڈالا جس میں زخم تھا، کٹے ہوئے ہاتھ سے اس قدر خون بہا کہ وہ شخص مرگیا، اللہ تعالیٰ
نے فرمایا! میرے بندے نے اپنی جان کے سلسلے میں جلدی کی (اب) اس پر جنت حرام ہے ایک
حدیث میں ہے کہ کسی شخص نے زخموں کی شدت سے بے چین ہوکر خود کو تلوار سے ہلاک کرلیا،
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص جہنمی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ مومن پر لعنت کرنا ایسا
ہے جیسے اسے قتل کردیا جائے ،اگر کوئی شخص خودکشی کرے گا تو جس چیز سے اس نے خ ود کشی
کی ہے اسی چیز سے اسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا ، اس سلسلے میں کچھ تفصیل دوسری
حدیث میں ہے فرمایا!جس شخص نے اپنے آپ کو تلوار سے ہلاک کیا اسے دوزخ میں تلواردی جائے
گا کہ وہ اسے اپنے پیٹ پر مارتارہے ، جس شخص نے زہر کھا کر خودکشی کی اسے جہنم میں
زہر دے دیا جائے گا کہ وہ اسے کھاتا رہے اور جس شخص نے پہاڑ سے کود کر خود کو ہلاک
کیا اسے جہنم میں پہاڑ کے اوپر سے گاریا جاتا رہے گا ۔ آدمی خود کشی کیوں کرتا ہے ؟
اس کا جواب صرف یہ ہے کہ وہ حالات کے سامنے حوصلہ ہار دیتا ہے ، اور مشکلات ومصائب
سے گھبرا کر راہ فرار اختیار کرنے لگتا ہے، اسلام نے ایک طرف خودکشی کی مذمت کر کے
لوگوں کو یہ بتلایا کہ زندگی جینے کے لئے ہوتی ہے، ختم کرنے یا ضائع کرنے کے لئے نہیں
ہوتی، دوسری طرف اس دنیا کو دار الا متحان اور دارالعمل قرار دیا گیا ہے،دارالامتحان
اس معنی میں ہر انسان آزمائشوں کی کٹھن گھڑی سے گذرتا ہے، اگر اس مرحلے سے کامیابی
کے ساتھ گزرگیا تو اس نے اپنی زندگی بامراد بنالی ورنہ ناکام رہا، دارالعمل اس معنی
میں کہ یہ زندگی صرف عمل کے لئے ہیں ، دارالجزاء یا دارالمکافأت وہ دوسرا جہاں ہے جو
مرنے کے بعد ہمارے سامنے آنے والا ہے، اچھے اعمال ہوں گے تو اچھا صلہ ملے گا، اور برے
اعمال ہوں گے تو برے نتائج سانے آئیں گے ، اچھے اعمال کے لئے ضروری ہے کہ آدمی اللہ
تعالیٰ کی بخشی ہوئی زندگی اس کے حکم کے مطابق اور اس کی رضا کے لئے جیئے ۔ جہاں تک
مصائب اور مشکلات کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو اپنی حکمت کے تحت مصیبتوں
اور پریشانیوں میں مبتلا کرتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی گھبرا جائے، مایوس
ہوجائے، اور زندگی سے راہ فرار اختیار کر کے موت کی آغوش میں چلا جائے ۔ قرآن کریم
نے مصائب کے وقت صبر کی تلقین کی ہے، صبر ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ذریعے انسان بڑی
سے بڑی مصیبت کو زیر کرسکتا ہے اور بڑی سے بڑی مشکل پر قابو پاسکتا ہے۔ ارشاد فرمایا
:’’ہم ضرورتمہاری آزمائش کریں گے کسی قدر خوف میں، اور مال وجان اورپھلوں کے نقصان
میں مبتلا کر کے، آپ خود خبری سنا دیجئے ایسے صبر کرنے والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت
پڑتی ہے تو وہ کہتے ہیں ک ہم اللہ کے ہیں اور اللہ کی طرف ہمیں واپس جانا ہے‘‘(البقرۃ:۱۵۵۔۱۵۶) ۔قرآن کریم میں نوے جگہوں
پر صبر کا ذکر آیا ہے اور سولہ طریقوں سے اس کی تلقین کی گئی ہے، جس سے اس کی اہمیت
کا اندازہ ہوتا ہے، یہ آیت جو ابھی آپ نے پڑھی آزمائش اور صبر کیا دو حقیقتوں کو منکشف
کرتی ہے، ایک طرف تو اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے
آزمائش میں مبتلا کریں گے، کسی کو دہشت اور خوف میں مبتلا کریں گے، کسی کو جانی ومالی
نقصانات کی آزمائش سے گزاریں گے ، کسی کوکھیتوں اور باغوں میں پیداوار کی کمی کی مصیبت
کا سامنا کرنا پڑے گا ، دوسری طرف یہ ارشاد ہے کہ کامیاب وہی ہوں گے جو صبر کریں گے،
ہر مصیبت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ کر راضی بہ رضا ر ہیں گے، ایسے ہی لوگوں کے
لئے رحمتیں ہیں، ہدایت اور مغفرت ہے، صبر کو کامیابی کی کنجی قرار دیا گیا ہے، اس کے
بغیر آدمی کسی مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا ، صبر سے مصیبت ہلکی پڑجاتی ہے ، صبر کے
واجب ہونے پر اجماع امت ہے، ایک حدیث میں صبر کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے ۔بخاری
شریف کی ایک حدیث میں ہے:
سئیِلَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم عن الا یمان فقال الصبر والسماحۃ( مسندابی یعلی :۳/۳۸۰/،رقم الحدیث:۱۸۵۴) ’’سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ایمان کیا ہے، فرمایا صبر اور سخاوت‘‘۔
اس حدیث کو جو امع الکلم میں سے
قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ اس میں ایمان کی حقیقت بہت ہی جامعیت اور اختصار کے ساتھ
واضح کی گئی ہے، آدمی کے نفس پر دوہی چیزوں کی پابندی ہوسکتی ہے ، ایک توجہ کہ جو کچھ
اس سے مانگا جائے اس کو پیش کردے اور جس چیز سے منع کیا جائے اس سے رک جائے۔بہر حال
صبر ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ آدمی زندگی میں پیش آنے والی بڑی سے بڑی مصیبت
کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکتا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ مصائب و شدائد کے مقابلے صبر
کرنے میں تین چیزیں معاون ثابت ہوسکتی ہے ، ایک یہ کہ آدمی کو آخرت کی بہتر جزاء کا
یقین ہو، یہ یقین جتنا بڑھے گا اسی قدر مصیبتوں کو برداشت کرنا آسان ہوجائے گا، دوسرے
یہ کہ اس کے اندر اتنا حوصلہ ہونا چاہئے کہ وہ مصائب کے خاتمے اور راحت وکشاد گی حاصل
ہونے کا انتظار کرسکتا ہو، انتظار جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر صبر کرنے میں لذت حاصل
ہوگی ، تیسرے یہ کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا استحضار ہو، اور
وہ سوچے کہ اگر کچھ مصائب اس کی تقدیر میں ہیں تو کیا ہوا بے شمارنعمتیں بھی میسر ہیں،
یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مصیبتیں ہی مصیبتیں ہوتیں راحتوں کا نام ونشان بھی نہ ہوتا، اگر
آدمی صبر کرے اور یہ تدبیریں اختیار کرے تو امید ہی نہیں یقین ہے کہ وہ خودکشی کا راستہ
اپنانے کے بجائے زندگی کے حسن و جمال سے لطف اندوز ہونا زیادہ پسند کرے گا۔
English
Translation by New Age Islam Edit Desk available at: http://newageislam.com/islamic-sharia-laws/growing-trend-of-suicides--how-and-why-islam-totally-prohibits-suicides-/d/5261
URL: