New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 07:27 PM

Urdu Section ( 22 May 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Significance of Harmain Sharifain حرمین کی فضیلت

مولانا ندیم الواجدی

21مئی 2012

حرم مکی او رحرم مدنی کے بے شمار فضائل ہیں،یہ دونوں شہر اللہ کے نزدیک بے حد مکرم اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں بہت زیادہ محبوب ہیں، قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے مکہ مکرمہ کی قسم کھائی ہے جو بہ ذات خود اس کی عظمت اور تقدس کی دلیل ہے ، فرمایا ،وَ اُ لتِّینِ وَ اُ لزَّ یًتُونِ وَطُورِ سِینِینَ وَھَٰذا اُ لًبَلَدِ اُ لاَ مِینِ (التین 1تا 3) ‘‘قسم ہے انجیر کی ،زیتون کی اور طور سنیین کی اور بلدامین کی ’’ یہاں بلد امین سے مکہ شہر مراد ہے ، ایک جگہ ارشاد فرمایا :أَ وَ لَمً یَرَ وْ ا أَ نَّا جَعَلْنَا حَرَماً ا مِناً(العنکبوت :67)‘‘کیا وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہم نے ( مکہ کو) امن ولا حرم بنایا ہے’’حَرَم آمِنیہی شہر مقدس ہے، اس شہر مقدس میں اللہ کا گھر ہے ، جو تمام مسلمانوں کا قبلہ بھی ہے، اور فریضۂ حج کی ادائیگی کا مرکز بھی، اس شہر کے لیے اور ا س شہر کے رہنے والوں کے لیے اللہ کے محبوب پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے بے شمار دعائیں مانگی ہیں: رَبِّ اجْعل ھٰذا بَلَدااٰمِنا (البقرۃ :166)‘‘اے اللہ ! اس کو ایک پرُ امن شہر بنا دیجئے ’’ فَاْ جًعلْ أَ فْدۃً مِّنَ اُلنَّاس ِ نَھًوِی اِلَیْھِمْ وَاُ رْ زُ قْھُم مِّن َ اُلثَّمَرَتِ(البراہیم :37)‘‘آپ کچھ لوگوں کے قلوب ان کی طرف مائل کردیجئے اور ان کو پھل کھانے کو دیجئے’’۔ یہ شہر اللہ کے آخر ی رسول حضرت محمد مصطفی ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش بھی ہے، اور مقام تربیت بھی ہے، آپ اسی کی پرُکیف اور جاں فزا وادیوں میں پل کرجواں ہوئے، اسی شہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرپہلی وحی نازل ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس شہر سے بے پناہ محبت تھی، جب آپ ہجرت کے ارادہ سے پابہ سفر ہوئے تو مکہ کے بازار میں کھڑے ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بخدا ! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر جگہ ہے، اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے،اگر مجھے اس سرزمین سے نہ نکالا جاتا تو میں ہر گز نہ نکلتا (مسند احمد ابن حنبل :38/157، رقم الحدیث :17968)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : اے مکہ تو میرے لیے کس قدر پاکیزہ اور محبوب شہر ہے ، خدا کی قسم اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں کبھی کسی دوسری جگہ قیام پذیر نہ ہوتا (سنن الترمذی: 12/435، رقم :3861)مکہ وہ شہر ہے جس میں میقاتی کے لیے احرام پہن کر داخل ہونا لازم ہے، اس شہر کے درخت کا ٹنا ، پتّے توڑنا شکار کرنا تک حرام ہے، حدود حرم میں کسی مشرک کا داخل ہونا حد یہ ہے کہ اس کی حدود سے گزرنا بھی جائز نہیں ، اس شہر کی عظمت کا کیا ٹھکانہ دنیا بھر میں جہاں جہاں نمازیں پڑھی جاتی ہیں، مسلمانوں کا رُخ اسی کی طرف ہوتا ہے، مسلمانوں کے لیے اللہ کاگھرجو اس سرزمین پر قائم ہے اس قدر لائق احترام ہے کہ قضا ئے حاجت کے وقت اس کی طرف منہ کر کے بیٹھنا بھی ناجائز ہے، مسجد حرام میں ادا کی گئی نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ، فقہا احناف ،شوافع، حنا بلہ سب کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ  مکہ دنیا کے تمام شہر وں سے افضل ومکرم ہے۔ مدینہ منورہ آپ کا مقام ہجرت بھی ہے، اور آخری آرام گاہ بھی، زمین کا وہ ٹکڑا جو آپ کے جسد اطہر کو مس کئے ہوئے ہیں وہ  عرش الہٰی سے بھی افضل قرار دیا گیا ہے، اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ بے حد عزیز تھا، آپ  ا س شہر کے لیے یہ دعا فرمایا کرتے تھے ، ‘‘اے اللہ تیرے خلیل ، تیرے رسول اور تیرے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تجھ سے اہل مکہ کے لیے دعائیں مانگی ہیں، میں تیرا بندہ اور تیرا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے اہل مدینہ کیلئے وہی دعائیں مانگتا ہوں جو حضرت ابراہیم نے اہل مکہ کے لیے مانگی ہیں، ہم دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! اہل مدینہ کے صاع او رمُد (دوپیمانے ) میں اور پھلوں میں برکت عطا فرما، اے اللہ جس طرح تو نے ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت پیدا فرمائی ہے، اسی طرح مدینہ کی محبت بھی پیدا فرما، (سنن ابن ماجہ :9/259، رقم الحدیث 3104) ایک حدیث میں ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری  جان ہے مدینہ میں کوئی جگہ ،کوئی گھاٹی کوئی کھوہ ایسا نہیں ہے جس پر حفاظت کے لیے دوفرشتے مامور نہ ہوں’’(صحیح مسلم : 7/114، رقم : 2439) حضرت عبادۃ ابن الصامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ پر ظلم کرنے والوں کے لئے یہ بد دعا فرمائی، اے اللہ جو شخص مدینہ پر ظلم کرے اور انہیں خوف میں مبتلا کرے اس پر اللہ کی ،فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو’’ ( المعجم الکبیر لطبرانی : 6/271)۔

مکہ اور مدینہ منورہ کے فضائل میں سے یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ان دونوں شہروں کے بعض اجزا جنت کے حصے میں ،حجراسود کے بارے میں مروی ہے کہ ‘‘حجر اسود جنت سے اتارا گیا پتھر ہے  ، یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا انسانوں کے گناہوں نے اس کارنگ سیاہ کردیا ہے’’(سنن الترمذی :3/420، رقم  :803)ایک حدیث میں ہے’’ رکن اور مقام دونوں جنت کے دوموتی ہیں، اللہ نے ان کے نور کو چھپا دی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو اُن کی روشنی سے مغرب و مشرق روشن ہوجاتے ’’ (سنن التر مذی :3/421، رقم 804)مسجدنبوی میں واقع ایک قطعۂ ارضی کے بارے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ۔‘‘ میرے گھر او رمیرے منبر کے درمیان جو جگہ ہے وہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے ، اور میرا منبر میرے حوض (کوثر) پر ہوگا’’ (صحیح البخاری :4/385)۔

یہ دونوں شہر اہل ایمان کے لیے ہمیشہ سے مرکز عقیدت ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے، ان دونوں شہروں سے مسلمانوں کا رشتہ محبت اور عشق کا ہے، عقیدت واحترام کا ہے، یہ رشتہ کبھی کمزور نہیں پڑسکتا ، ایک بے عمل مسلمان کا دل بھی مکہ او رمدینہ کا نام آتے ہی فرطِ محبت سے دھڑکنے لگتا ہے،ان دونوں شہروں سے مسلمانوں کا لازوال تعلق ساری دنیا پر آشکار ا ہے، اور دشمنوں کے دلوں میں خار کی طرح کھٹکتا ہے، امریکہ سے جو خبریں آئی ہیں انہیں اسی پہلوسے دیکھنے کی ضرورت ہے، امریکہ کیا، کوئی بھی اسلام دشمن ملک یا قوم یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان ان دونوں شہروں سے وابستہ رہیں ، اسی لیے امریکہ نے اپنے نصاب میں اپنے اس ناپاک منصوبے کو شامل کیا ہے، یہ نصاب پڑھایا جارہا تھا، اور اس منصوبے پر عمل کرنے کے لیے ذہن سازی کب سے ہورہی تھی،اور کب سے اس کی عملی تربیت دی جارہی تھی، ہر روز نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں، مجموعی طور پر یہ بات واضح ہوکر سامنے آگئی ہے کہ امریکہ خود کو رواداری کا پیغام بر کہتا ہے مگر درحقیقت یہ اس کا ظاہر ی چہرہ ہے حقیقت حال اس منصوبے کی تفصیل سے عیاں ہیں۔

یہ نصاب جو امریکی فوجوں کو پڑھا یا جارہا ہے امریکہ کی تنگ ذہنیت کا غماز ہے، اس کی ایک سلائڈ میں امریکی فوج کے ایک افسر کونل میتھیو ڈولی اپنے فوجیوں کو بتلارہا ہے کہ جب وہ مسلمانوں کا سامنا کریں تو جنیوا کنونشن کے تمام اصول و ضوابطہ بلائے طاق رکھدیں ، اس ہدایت پر کس طرح عمل ہورہا ہے،یہ بتلانے کی ضرورت نہیں ہے، اسی افسر نے فوجیوں کی تربیتی کلاس کے لیے So Want Can we doکے نام سے اکتیس صفحات پر مشتمل جو نصاب وضح کیا ہے اس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پوری طرح زہر اُگلا گیا ہے ، اسلام اور مسلمانوں پر یہ الزام عائد کرنے کے بعد کہ انہوں نے مغرب اور بہ طور خاص امریکہ کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے، یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یہ حالات انسانی آبادیوں تک جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کی طرف داعی ہیں ، اور جس طرح ڈریسدین ، ٹوکیو، ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں (بمباری کے )واقعات رونما ہوئے اسی طرح کے واقعات مکہ او رمدینہ میں بھی ہونے چاہئیں ۔

اسلام کے خلاف مکمل جنگ او رمکہ ومدینہ پر ایٹمی حملہ کی تعلیم او رعملی تربیت صرف امریکی فوج ہی  کو نہیں دی جارہی ہے بلکہ ایک خاص حکمت عملی کے تحت تمام سیکورٹی فورسیز کو اسی طرح کی تربیت دی جارہی ہے اور یہ عمل آج سے نہیں بلکہ 1988سے جاری ہے، امریکی حکومت کا یہ مصوعبہ کوئی نئی بات نہیں ہےاور نہ یہ کوئی انتہائی خفیہ پلان ہے،1988سے جاری اس منصوبے کو نہ صرف پنٹاگن نے باقاعدہ منظوری دی  بلکہ اس وقت کے صدر کے دستخطوں سے اس کام کا آغاز ہوا، البتہ ہوم لینڈ سیکورٹی میٹرو پولٹیین پولیس ،ایف بی آئی اور دوسرے اداروں میں اسلام مخالف تربیت اور ذہن سازی کا عمل 9/11کے فوراً بعد شروع کیا گیا اور اس مقصد کی خاطر امریکہ باقاعدہ تنظیمیں اور تھنک ٹینکس بھی بنائے گئے جن میں اسرائیل اور امریکہ کی دوہری شہریت رکھنے والوں کو بہ طور خاص اس میں شامل کیا گیا، اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پنٹاگون، امریکی وزارت دفاع ،وائٹ ہاؤس اور سی آئی اے 1988سے ہی اس منصوبے کے ساتھ منسلک ہیں اور اب تفصیلات منظر عام پر آجانے کے بعد پنٹا گون خود کو اس سے بچا نے کی کوشش کررہا ہے، حالانکہ اب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ امریکی ادارے قرآن کریم ، مکہ اور مدینہ سے مسلمانوں کا تعلق ختم کرنے کے منصوبے پر عرصہ دراز سے کام کررہے ہیں ایک معروف امریکی تھنک ٹینکس سے وابستہ رہنے والے شخص نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ امریکی تھنک ٹینکس میں ہی یہ امر مستقل بحث کا عنوان ہے کہ مسلمان کا رشتہ قرآن او ر شریعت سے کس طرح ختم کیا جائے، اس شخص کے بہ قول دنیا بھر میں جاری توہین قرآن اور توہین رسالت کی مہم بھی امریکی جنگی حکمت عملی سے الگ نہیں  بلکہ اسی تھنک ٹینکس کی ریسرچ کے نتیجے پر شروع کیا گیا نفسیاتی حربہ ہے تاکہ بار بار کی توہین سے مسلمانوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی توہین برداشت کرنے کا عادی بنادیا جائے اور اس سے اگلے مرحلے میں حرمین کو نعوذ باللہ ختم کر کے پوری دنیا سے اسلام کو مٹادیا جائے ( بہ حوالہ رٰوز نامہ امت کراچی اتوار 13/مئی 2012)

کعبہ مشرفہ کے خلاف عیسائیوں کے ناپاک عزائم کا سر اہمیں چودہ سوسال پہلے کے واقعات میں تلاش کرنا چاہئے،جب ابھی اسلام کا آغاز  بھی نہیں ہوا تھا ، یہ وہ چنگاری ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے دلوں میں شعلہ آتش بن کر بھڑک رہی ہے، حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے ابرہہ کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ‘‘اس واقعے میں اس جانب اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام قوموں میں سب سے زیادہ عیسائیوں کو ہی اس بیت اللہ ‘‘کعبہ’’ کے ساتھ عداوت رہے گی، اور وہ اپنے غیر متمدن ہر زمانے میں اس کے خلاف اپنی عداوت کا اظہار کرتے رہیں گے، او رہمیشہ اس مرکز توحید کے درپے رہیں گے، چنانچہ تاریخ ماضی اس کی شاہد ہے کہ جب کبھی نصاریٰ کو اس کا موقع میسر آیا، انہوں نے عملاً اپنی عداوت کا اظہار کئے بغیر نہ چھورا اور اگرچہ خدائے تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہمیشہ ان کے ارادوں کو نام رکھا مگر وہ بہر حال اپنے قلبی بغض وحسد کا ثبوت دئے بغیر نہیں رہے (قصص القرآن :3/397)۔

گویا خانہ کعبہ کے خلاف یہ پرانی دشمنی ہے، جس کا آغاز سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے ٹھیک چالیس یا پچاس دن قبل پیش آیا ،قرآن کریم نے اس واقعے کی جزئیات تو بیان نہیں کیں لیکن اس واقعے کا جو اہم حصہ ہے وہ ایک مختصر سورت میں اس طرح بیان فرما دیا کہ خانہ کعبہ کی حفاظت کا پورا واقعہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے ، اس سورت کا نام ‘‘الفیل’’ ہے عربی میں فیل ہاتھی کو کہتے ہیں ، کیوں کہ اس واقعے میں ہاتھی کا بڑا کردار ہے اس لیے اس کو عنوان بنایا گیا، اس سورت میں پانچ چھوٹی چھوٹی آیتیں ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے :‘‘کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا، کیا ان کے فریب کو ناکارہ نہیں بنادیا ،اور ان پرپرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئے ، وہ ان پر سنگریز ے پھینکتے تھے ،پھر انہوں نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کردیا’’(سورہ الفیل :1تا 5) پوری تفصیل حدیث ،سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہے، علما نے اس واقعے کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک قسم کا معجزہ قرار دیا ہے، دعوائے نبوت سے پہلے بلکہ نبی کی ولادت سے بھی پہلے حق تعالیٰ بعض اوقات دنیا میں ایسے واقعات اور نشانیاں ظاہر فرماتے ہیں جو خرق عادت ہونے میں معجزات کی طرح ہوتے ہیں ، بہ قول حضرت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے قبل جو نشان ظہور میں آئے اور صبح سعادت کے لیے آثار وعلامات کے بہ طور دکھلائے گئے ان ہی میں سے اصحاب فیل کا واقعہ بھی ایک زبردست نشان اور عظیم المرتبت علامت ہے(قصص القرآن :3/394)

عربوں میں واقعہ فیل اس درجے اہمیت کا حامل تھا کہ اس سال کا نام جس میں یہ واقعہ پیش آیا انہو ں نے عام الفیل (ہاتھیوں والا سال) رکھ دیا، اسی حوالے سے وہ لوگ اپنے تاریخی واقعات کاذکر کرتے تھے، جس وقت مکہ مکرمہ میں یہ سورت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے یہود اور نصاریٰ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تکذیب میں ایک دوسرے کے ہم نوا تھے مگر کسی کو بھی اس واقعے کی تردید یا تکذیب کی جرأت نہ ہوئی کیو نکہ اس وقت بھی ہزاروں لوگ اس واقعے کے عینی شاہد کے طور پر زندہ تھے۔اس واقعے کا اصل کردار ابرہہ نامی شخص ہے جو 525عیسوی کے آس پاس یمن کا بادشاہ تھا، ابرہہ ابراہیم کا حبشی تلفظ ہے، یہ شخص عیسائیت کی تبلیغ میں نہایت پرُ جوش تھا ، اس شخص نے پورے ملک میں بے شمار گرجا گھر تعمیر کرائے، اور جگہ جگہ مبلغین اور پادریوں کی تقرری کی ، ایک بہت بڑا گرجاگھر یمن کے دارالسلطنت صنعا میں بنایا ،مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ کلیسا فن تعمیر کے لحاظ سے اپنی نظیر میں آپ تھا،اس تعمیرسے فارغ ہونے کے بعد ابرہہ نے نجاشی کو لکھا کہ میں نے ایسا شاندار کلیساں تعمیر کرایا ہے کہ اس سے پہلے تاریخ میں ایسا کلیسا کسی نے نہ دیکھا ہوگا،اب میری تمنا ہے کہ جو عرب مکہ میں کعبہ کاحج کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں ان سب کو رخ کلیسا کی جانب پھیر دوں اور تمام عربوں کے لیے ہی کلیساں مقام حج بن جائے، اس اعلان سے عربوں میں غم وغصہ پھیل گیا ، اور یہ غصہ کلیسا سے نفرت میں بدل گیا، صنعا میں مقیم کسی حجازی النسل شخص نے اپنی کسی حرکت سے کلیساں کا تقدس پامال کیا تو ابرہہ غصے سے پاگل ہوگیا اور اس نے طے کیا کہ وہ کعبہ ابراہیمی کو تباہ وبرباد کئے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گا، اپنے اس ناپاک ارادے پرعمل کرنے کے لیے ابرہہ نے ایک بڑے لشکر اور ہاتھیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مکہ کا رُخ کیا، یہ خبر تمام عرب قبائل پر بجلی بن کر گری ، اس لیے کہ کعبہ تمام عرب کے نزدیک واجب الاحترام تھا، چنانچہ یمن ہی سے ابرہہ کی مخالفت شروع ہوگئی، سب سے پہلے یمن ہی کے ایک امیر ذونضر نے مختلف قبائل کے ساتھ مل کر ابرہہ کے لشکر سے مزاحمت کی، مگرناکامی ہاتھ لگی ، اس کے بعد قبیلہ بنی خثعم کے ساتھ مقابلہ ہوا،اس کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، مختلف مزاحمتوں کا سامنا کرتا ہوا ابرہہ اپنے لشکر کے ساتھ مکہ کے باہر وادی مغمسّ میں فرد کش ہوگیا ، وہاں سے اس نے اپنے افسروں کو چھاپہ ماری کے لیے مکہ کی طرف بھیجا ،مکہ کے لوگ یا تو بے خبر تھے یا پھر حد درجہ مطمئن جس وقت یہ فوج مکہ کے قریب پہنچی تو قریش مکہ کے اونٹ او ربکریں چراگاہوں میں چررہے تھے، ان لوگوں نے اہل مکہ کو دہشت زدہ کرنے کے لیے یہ سارے جانور پکڑ لیے اور اپنی قیام گاہ تک لے گئے ، اس زمانے میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب قریش کے سردار تھے ، ابرہہ کا ایک قاصد اُن سے ملاقات کے لیے آیا اور ان تک اپنے سردار کا یہ پیغام پہنچایا کہ ہمارا ارادہ آپ لوگوں کو نقصان پہنچانے کا نہیں ہے اور نہ ہم آپ سے جنگ کرنا چاہتے ہیں ہم تو اس گھر (بیت اللہ) کو ڈھانے کے لیے آئے ہیں اگر آپ کا ارادہ مقابلہ کرنے کا ہے تو آپ جانیں  لیکن اگر آپ کا ارادہ جنگ کا نہیں ہے تو ہمارا بادشاہ آپ سے ملاقات کرنا چاہتاہے،عبدالمطلب نے جواب دیا ‘‘ہمارا ارادہ جنگ کرنے کا نہیں ہے، اورنہ ہم اس کی طاقت رکھتے ہیں، یہ اللہ کا گھر ہے اور اس کے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے، اگر اللہ اس کی حفاظت کرنا چاہے گا تو وہ کرے گا اور نہ کرنا  چاہے گا تو ہم اس کی بالکل طاقت نہیں ہے’’اس گفتگو کے بعد عبدالمطلب ابرہہ سے ملنے اس کے لشکر پہنچے ،کیو نکہ حضرت عبدالمطلب پرکشش شخصیت کے حامل تھے، ابرہہ انہیں دیکھ کر مرعوب ہوا، انہیں اپنے قریب بٹھلا یا ، ان کی گفتگو سے بے حد متاثر ہوا ، ابرہہ کا خیال تھا کہ عبدالمطلب اس سے واپسی کی درخواست کریں گے، او ربیت اللہ کو ڈھانے سے باز رہنے کے لئے مال وزر کی پیش کش کریں گے، اس کے بجائے عبدالمطلب نےان اونٹوں اور بکریوں کی بات کی جو ابرہہ کے لوگ زبردستی اٹھالائے تھے،یہ سن کر ابرہہ حیران رہ گیا ،اس نے کہا بھی کہ میں تو سخت متعجب ہوں، تمہیں معلوم ہے کہ میں اس کعبے کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں جو تمہاری نگاہ میں سب سے زیادہ محترم او رمقدس ہے ،لیکن تم نے اس کے متعلق ایک لفظ تک نہ کہا، اور اونٹوں کی بات لے کر بیٹھ گئے جو خانہ کعبہ کے مقابلے میں نہایت معمولی اور حقیر ہے، حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ کعبہ میرا گھر نہیں ہے خدا کا گھر ہے ، وہ خود اس کی حفاظت کرےگا، میں کون ہوں جو اس کی سفارش کروں، البتہ اونٹ میرے ہیں، ابرہہ نے غرور کے نشے میں چور ہوکر کہا کہ اس گھر کو اب میرے ہاتھ سےکوئی نہیں بچا سکتا، عبدالمطلب نے کہا تم  جانو او رکعبے والا جانے ، یہ کہہ کر عبدالمطلب واپس چلے آئے او راہل مکہ کو کسی محفوظ پہاڑی پر چلے جانا چاہئے تاکہ اس منظر کواپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکیں، روایات میں آتا ہے کہ عبدالمطلب اپنے لوگوں کے ساتھ مکہ سے نکل کر کسی پہاڑی کی طرف جانے لگے تو کعبۃ اللہ میں حاضر ہوئے اور انہو ں نے زنجیر در کعبہ پکڑ کر یہ الفاظ کہے‘‘ اے اللہ! جب ہم اپنے ساز وسامان کی حفاظت نہ کرسکے تو تیرے گھر کی حفاظت کس طرح کرتے ، تجھے اپنے گھر کی حفاظت خود کرنی ہے، تیری تدبیر پر نہ صلیب کی طاقت غالب آسکتی ہے اور نہ اہل صلیب کی کوئی تدبیر، ہاں اگر تو ہی چاہتا ہے کہ وہ تیرے مقدس کو برباد کردیں تو پھر تیرا جوجی چاہے ہو کر ‘‘ یہ کہہ کر عبدالمطلب خانہ کعبہ سے نکل آئے۔

ادھر ابرہہ نے اپنالشکر مکہ کی جانب بڑھایا ، آگے سیاہ بادلوں کی طرح ہاتھیوں کےدل تھے اور ان کے پیچھے پیادہ پا اور گھڑ سوار فوجی، ابھی یہ لشکر مکہ تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ اچانک سمندر کی طرف سے پرندوں کے غول کے غول نمودار ہوئے اور لشکر کے اوپر چھاگئے ، ان کی چونچوں اور پنچوں میں سنگر یز ے دبے ہوئے تھے ، پرندوں نے یہ سنگریز ے لشکر پر پھینکنا شروع کئے ، جس شخص کے بھی اور جس ہاتھی کے بھی یہ سنگریز ے لگتے تھے بدن پھوڑ کر باہر نکل آتے، اس کے اعضا گلنے شروع ہوجاتے او رگل سڑ کر گرنے لگتے ،نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑی دیر میں سارا لشکر فنا کے گھاٹ اتر گیا ،کچھ لوگ جن میں ابرہہ بھی تھا مقام عبرت بننے کے لیے زندہ بچ گئے جو اس حال میں یمن پہنچے کہ ان کے اعضا جسم سے کٹ کٹ کر گررہے تھے، سب کے سب اسی حال میں مرگئے ، (تاریخ ابن کثیر بہ حوالہ معارف القرآن 8/817، قصص القرآن :3/345ملخصا ) اس واقعے کی تفصیل بیان کرنے کے بعد حضرت مولانا حفظ الرحمن سیو ہاروی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے وہی اس واقعے کی عصری معنویت ہے،وہ لکھتے ہیں ‘‘ آج نہ اصحاب الفیل کانام ونشان باقی ہے، اور نہ القلیس صنعا کا ، اور نہ وہ قریش مکہ ہی باقی ہیں جن کی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا تھا ، لیکن قبلہ توحید اور مرکز صداقت کعبۃ اللہ اسی طرح اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ قائم  دائم ہے اور آج بھی قرآن عزیز اسی کی رفعت شان کا بہ نانگ دہل یہ اعلان کردہا ہے:اِنَّ أَوَّل َ بَیْتِِ وُ ضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ مُبَا رَکاً وَ ھُدًی لِّلْعَلَمِینَ (آل عمران : 96)‘‘بے شک سب سے قدیم وہ گھر جو انسان کی خدا پرستی کے لیے بنایا گیا یقیناً وہ ہے جو مکہ میں ہے جو سرتاسر مبارک او رجہانوں کے لیے مرکز ہدایت ہے’’ (قصص القرآن :3/392)

ہمیں پورا یقین ہے کہ نئے دور کا ابرہہ بھی اسی بدترین انجام سے دو چار ہوگا جس سے اُس دور کا ابرہہ دوچار ہوا تھا، اگر اس نے اپنے ارادوں کو (خاکم بہ دہن) عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی، یہ اللہ کا گھر ہے ، وہی گھر ہے جو پہلے تھا، وہی خدا ہے جو پہلے تھا، وہی بے دست وپا او ربے بس اہل ایمان ہیں جو پہلے تھے، وہی سرکش اور متکبر انسانوں کی فوج ہے جو پہلے تھی، ان کا انجام بھی وہی ہونا چاہئے جو پہلے ہوا، اسی یقین او راعتماد کے ساتھ ہمیں امریکی منصوبہ بندیوں پر نظر رکھنی ہے ، سورہ فیل کا یہی پیغام ہے۔

21مئی 2012  بشکریہ:   ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی 

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-the-west/maulana-nadeem-ul-wajidi/america-will-meet-the-fate-of-abraha-of-the-jahiliya,-if-it-dares-to-attack-mecca,-says-deoband-cleric/d/7415

URL: https://newageislam.com/urdu-section/significance-harmain-sharifain-/d/7416

Loading..

Loading..