مولانا ندیم الواجدی
8 اکتوبر،2021
قیدیوں کیساتھ سلوک پر
مشورہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
سامنے دونوں طرح کے موقف آگئے، آپؐ کچھ دیر خاموش رہے، اس کے بعد آپؐ نے حضرت
ابوبکرؓ کی رائے کے مطابق فیصلہ کیا کہ جنگی قیدیوں کو زرفدیہ لے کر چھوڑ دیا
جائے۔ظاہر ہے زرفدیہ کی وصولی میں وقت لگتا اس لئے آپؐ نے ان تمام ستر قیدیوں کو
مختلف صحابہؓ کے حوالے کردیا کہ وہ انہیں اپنے گھر لے جائیں اور ان کی اچھی طرح
دیکھ بھال کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے کے بعد کہ قیدیوںکو زر
فدیہ لے کر رہا کردیا جائے، یہ آیت نازل ہوئی:
’’ ’’یہ بات کسی نبی کے شایانِ شان نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی
رہیں، جب تک وہ زمین میں (دشمنوں کا) خون اچھی طرح نہ بہاچکا ہو، (جس سے ان کا رعب
پوری طرح ٹوٹ جائے) تم دنیا کا ساز و سامان چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لئے) آخرت
(کی بھلائی) چاہتا ہے اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔‘‘(الانفال:۶۷) اس آیت کی تفسیر کرتے
ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ اکثر صحابہؓ کی رائے یہی تھی کہ ان قیدیوں کو فدیہ لے
کر چھوڑ دیا جائے، فدیہ اس مال کو کہتے ہیں جو کسی جنگی قیدی کو چھوڑنے کے عوض طلب
کیا جائے۔
بہرحال فدیہ لینے کا
فیصلہ ہوچکا تھا، اس پر عمل بھی ہوا، فدیہ لینے پر یہ ناراضگی بھی وقتی تھی اور اس
مصلحت کی وجہ سے تھی جو بیان کی گئی، بعد میں جنگی قیدیوں کے بدلے میں فدیہ لینے
کی اجازت دے دی گئی، جیسا کہ سورہ محمد کی آیت (۴) میں ہے۔ بعد کی جنگوں میں فدیہ لینے کی اجازت دے دی گئی اور
فدیہ لئے بغیر محض احسان کے طور پر رہا کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمادی گئی۔
(تفسیر طبری، ۱۴؍۵۸، ۶۲، تفسیر بغوی ۳؍۳۷۴، ۳۷۶)
اسلام رحمت و شفقت، عدل و
انصاف، ہمدردی اور غم گساری کا مذہب ہے، اور پیغمبر اسلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم رحمۃ للعالمین ہیں، آپؐ کی ہر تعلیم اور آپؐ کے ہر عمل میں صفت رحمت پنہاں
ہے، یہی وجہ ہے کہ بدر سے جو قیدی یہاں مدینے لائے گئے ان کو فرار ہونے سے تو روکا
گیا، لیکن ان پر بے جا ظلم و تشدد روا نہ رکھا گیا، بعثت نبوی سے قبل اسیرانِ جنگ
کے ساتھ نہایت برا سلوک کیا جاتا تھا، جوانوں کو قتل کردیا جاتا یا انہیں اپاہج
اورمعذو بنا دیا جاتا، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو غلام بنا کر ان سے بیگار لی
جاتی تھی اور ان پر تشدد کیا جاتا تھا، آج بھی نام نہاد متمدن قوموں کا یہی وطیرہ
ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اسیرانِ جنگ کے ساتھ جو حسن سلوک کیا اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی،
مدینے تشریف لانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو صحابہؓ کے حوالے
کردیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی حیثیت اور گنجائش کے مطابق دو-دو، چار-چار
قیدی اپنے گھر لے جائیں اور ان کیساتھ اچھا سلوک کریں۔ (البدایہ والنہایہ، ۳؍۳۰۶) یہ حکم مسلمانوں کے اس
وصف کی عملی تفسیر تھی جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے:’’اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر
مسکینوں،یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘ (الدھر:۸)
ایک قیدی ہیں، ان کا نام
ابوعزیربن عمیر ہے، حضرت مصعب بن عمیرؓ کے بھائی ہیں، وہ ایک انصاری صحابی کے گھر
میں قید رکھے گئے تھے، کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کے
بعد کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا میری میزبانی کا یہ حال تھا کہ وہ خود تو
کھجوروں پر گزارا کرتے اور مجھے گیہوں کی روٹی کھلاتے۔ (معجم الزوائد، ۶؍۸۶، المعجم الکبیر
للطبرانی، ۱۶؍۲۴۸، رقم الحدیث ۲۴۸) ابوالعاص بن ربیعؓ بھی
یہی کہتے ہیں کہ ہمیں صبح و شام کے کھانے میں روٹی ملتی تھی اور وہ لوگ خود کھجور
سے پیٹ بھرا کرتے تھے، ولید بن المغیرہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ ہمیں اٹھا کر
باہر لے جاتے اور ہمیں ٹہلاتے بھی تھے۔ (کتاب المغازی، للواقدی، ۱؍۱۱۹)
اس حسن سلوک کا نتیجہ یہ
نکلا کہ بعض قیدیوں نے قید کے دوران ہی اسلام قبول کرلیا، جیسے ابوعزیرؓ نے اپنے
میزبان کی مہمان نوازی سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھا، سائب بن عبیدؓ نے فدیہ ادا کرکے
رہائی پائی، مگر وہ اپنے گھر والوں کے پاس واپس نہیں گئے بلکہ مسلمان ہوکر وہیں رہ
گئے۔
حضرت عباسؓ کا فدیہ
قریش نے اپنے اپنے
متعلقین کا فدیہ روانہ کیا، بہت سے لوگ رہا ہو کر چلے گئے، رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباسؓ سے بھی فدیہ دینے کے لئے کہا، انہوں نے عرض کیا:
یارسولؐ اللہ! میں تومسلمان ہوچکا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: آپ کے ایمان کا حال تو
اللہ ہی جانتاہے اور اگر ایساہی ہے تو اللہ آپ کو اس کی جزا دے گا۔ بظاہر تو ایسا
معلوم نہیں ہوتا کہ آپ مسلمان ہیں، آپ اپنا فدیہ دیں اور اپنے دو بھتیجوں نوفل
بن الحارث بن عبدالمطلب اور عقیل بن ابی طالب بن عبدالمطلب اور اپنے حلیف عتبہ بن
عمرو کا فدیہ بھی دیں۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میرے پاس
اتنامال کہاں ہے؟ میں توغریب آدمی ہوں۔ آپ نے فرمایا: اچھا وہ سونا کہاں ہے جو
آپ اپنی بیویؐ ام الفضل کو دے کر آئے ہیں کہ اگر میں واپس نہ آسکوں تو یہ سونا
میرے بیٹوں عبداللہ، عبیداللہ، قاسم اور
فضل وغیرہ پر خرچ کردینا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ بات
سن کر حضرت عباسؓ حیرت زدہ رہ گئے، کیوںکہ اس بات کا علم انہیں تھا یا ان کی اہلیہ
ام الفضل کو، کسی تیسرے کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی بیوی کو سونا دے کر آئے
ہیں۔ وہ بے ساختہ پکار اٹھے یارسول اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ اللہ کے رسول
ہیں۔ حضرت عبدالمطلب کی والدہ یعنی حضرت عباس کی دادی انصار مدینہ میں سے تھیں، اس
رشتے سے وہ انصار کے بھانجے تھے، چنانچہ اس رشتے کے حوالے سے انصار نے عرض کیا کہ
عباس ہمارے بھانجے ہیں، آپ اپنے چچا کی حیثیت سے نہیں بلکہ ہمارا بھانجا ہونے کی
وجہ سے ان کا فدیہ معاف کردیجئے، مگر آپ اس پر راضی نہیں ہوئے، بلکہ ان پر
سواوقیہ فدیہ لگایا۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔عقیل اور نوفل پر اسّی اسّی
درہم لگائے۔ حضرت عباسؓ نے عرض کیا کہ آپ نے مجھ پر بیس اوقیہ زیادہ رکھے ہیں،
رشتہ داری کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ کم رکھتے یا کم از کم برابر ہی رکھتے، اس پر
قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: ’’اے نبی! آپ ان قیدیوں سے جو آپ کے قبضے میں
ہیں کہہ دیجئے کہ (تم اس فدئیے پر کچھ افسوس نہ کرو) اگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں
میں کچھ بھلائی دیکھے گا تو جو تم سے لیا گیا ہے اس سے کہیں زائد اور بہتر مال تم
کو عطا کردے گا۔‘‘ (الانفال:۷۰)
بعد میں حضرت عباسؓ
فرمایا کرتے تھے کہ کاش مجھ سے اور زیادہ فدیہ لے لیا گیا ہوتا، اس لئے کہ اللہ نے
مجھے اس سے کہیں زیادہ اور بہتر مال عطا فرمایا، سو اوقیہ کے بدلے میری ملکیت میں
سو غلام آئے، جو سب کے سب تجارت میں لگے ہوئے تھے اور مال کما کر مجھے دیتے تھے۔
(فتح الباری، ۷؍۳۲۱،مسند احمد، ۷؍۱۷۳، رقم الحدیث ۳۱۴)
حضورؐ کے داماد کا معاملہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی صاحب زادی حضرت زینبؓ مکہ مکرمہ ہی میں رہ گئی تھیں، انہیں ان کے شوہر
ابوالعاص بن الربیع نے اپنے پاس ہی روک لیا تھا، حالاںکہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں
ہوئے تھے، مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بھی نہیں تھے،کبھی نہیں سنا
گیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کوئی نازیبا بات
کہی ہو، یا کسی مسلمان کو برا کہا ہو، یا اسلام مخالف مشوروں میں حصہ لیا ہو، جنگ
بدر میں شریک ہوئے، کیوں کہ قوم کا دباو تھا، مگر انہوں نے
جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا، نہ ان کی آواز سنی گئی، نہ ان کی کوئی رائے
سامنے آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد کی حیثیت سے ان کی شخصیت اہمیت
کی حامل تھی، لیکن انہوں نے خودکو نمایاں نہیں کیا، گرفتار
ہونے والوں میں یہ بھی تھے، ان سے بھی زر فدیہ طلب کیا گیا۔
حضرت زینبؓ نے ان کو قید
سے چھڑانے کے لئے اپنا ہار بھیج دیا،یہ وہ ہار تھا جو ان کی والدہ مرحومہ ام
المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے شادی کے موقع پر ان کو دیا تھا، یہ ایک قیمتی ہار
تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ ہار پیش ہوا تو آپؐ کا دل بھر آیا، آپ کو رفیقۂ حیات حضرت
خدیجہؓ یاد آگئیں، ان کی طویل رفاقت اور اس دوران ان کی بے مثال قربانیاں نگاہوں
کے سامنے آگئیں، پھر یہ ہار عزیز از جان بیٹی زینبؓ کا تھا، جو اس وقت اپنے مشفق
والد سے سیکڑوں میل دور دیار کفر میں ایک مشرک کے گھر میں زندگی بسر کر رہی تھیں،
یہ سب واقعات آپ کو بے قرار کر گئے، آنکھوںمیں پانی بھر آیا، دوسری طرف عدل کا
تقاضا یہ تھا کہ سب قیدیوں کے ساتھ برابری کا معاملہ ہو، قرابت داری کی وجہ سے کسی
کے ساتھ خصوصی برتاو نہ کیا جائے، اگرچہ آپؐ
کو مکمل اختیار تھا اور آپ اپنے اس اختیار سے کام لے کر بغیر فدیہ لئے
اپنے داماد کو رہا بھی کر سکتے تھے، مگر آپؐ نے ایسا نہیں کیا بلکہ صحابہ سے
فرمایا: اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کے قیدی کو چھوڑ دو اور اس کا ہار بھی واپس
کردو، صحابہؓ نے عرض یارسول اللہ! آپؐ
جیسا چاہیں، ہم تو آپؐ کی خوشی سے خوش ہیں۔ (سنن ابی دائود، ۷؍۳۰۶، رقم الحدیث۷؍۲۳)
ابوالعاص رہا کردئیے گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ زینبؓ کو مدینے بھیج دیں گے
، انہوں
نے وعدہ کیا، ابوالعاص کی روانگی کے ٹھیک ایک ماہ بعد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ اور ان کے ساتھ ایک انصاری کو
مکہ کی جانب بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ بطنِ یأجَجْ میں جا کر ٹھہریں، زینبؓ
وہاں آئیں گی، ان کو لے کر یہاں آنا، یہ دونوں حضرات سفر پر روانہ ہوگئے، اُدھر
ابوالعاص نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت زینبؓ سے کہا کہ تمہیں اپنے ابا جان کے پاس
مدینے جانا ہے، تیاری کرو، مقررہ وقت پر ابوالعاص کے بھائی کنانۃ بن الربیع ایک
اونٹ لے کر آئے اور حضرت زینبؓ کو لے کر روانہ ہوئے، اہل مکہ ابھی تک اپنی حرکتوں
سے باز نہیں آئے تھے، انہیں جیسے ہی یہ پتہ چلا کہ
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی مدینے جارہی ہیں، چند لوگ جن میں ہبار بن الاسود
پیش پیش تھا، تعاقب میں روانہ ہوئے، ہبار نے ایک تیر مارا، جو حضرت زینبؓ کے ہودج
پر لگا، وہ حمل سے تھیں، خوف اور صدمے سے ان کا حمل ضائع ہوگیا، کنانہ نے ان لوگوں
کو پیچھے آتے ہوئے دیکھا تو وہ تیر کمان سنبھال کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا کہ
اگر کوئی آگے بڑھا تو میں تیر چلادوں گا، اتنے میں ابوسفیان وہاں آگیا، اس نے
قریش کو سمجھایا اور کنانہ سے بھی کہا کہ بدر کا زخم ابھی تازہ ہے،تم علی الاعلان
زینب کو لے کر نکلے ہو، ابھی واپس چلو، کسی دن خاموشی کے ساتھ نکلنا، کنانہ کے بات
سمجھ میں آگئی، اس وقت تو وہ زینب کو لے کر واپس ہوگیا، مگر چند روز بعد رات میں
وہ زینب کو لے کر روانہ ہوا اور انہیں بطن یأجج میں حضرت زید بن حارثہ کے سپرد
کردیا۔
سیرت کی کتابوں میں لکھا
ہے کہ ابوالعاص چھ سال تک مکہ مکرمہ میں رہے، اس دوران اُن میں اور حضرت زینبؓ میں
کوئی رابطہ نہیں رہا۔ بعد میںمسلمان ہوگئے، حضرت زینب کے ساتھ ان کا نکاح برقرار
رہا۔ (سنن ابی دائود، ۷؍۳۰۶، رقم ۲۳۱۷، دلائل النبوۃ للبیہقی، ۳؍۱۶۶، رقم الحدیث ۴۰۱۷)
ابوالبختری کی ہلاکت
جنگ کے آغاز ہی میں رسول
اللہ ﷺ نے یہ اعلان فرمادیا تھا کہ بنی ہاشم کو قتل مت کرنا، کیوں کہ
یہ لوگ اپنی مرضی سے لڑنے نہیں آئے ہیں بلکہ زبردستی لائے گئے ہیں، اسی طرح یہ
بھی اعلان فرمایا تھا کہ ابوالبختری کو قتل نہ کیا جائے،یہ شخص اگرچہ مشرک تھا مگر
اس نے کبھی اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت نہیں کی، نہ کبھی رسولؐ اللہ کو تکلیف
پہنچانے کی کوشش کی، بلکہ اس نے آپ کی مدد بھی کی، اس کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے
کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ تمام بنوہاشم شعب ابی طالب
میں محصور تھے تو اس نے غلہ وغیرہ پہنچانے میں لوگوں کی مدد کی تھی، مقاطعے کا جو
تحریری معاہدہ قریش نے آپس میں کیا تھا وہ خانہ کعبہ کے اندر آویزاں تھا، اس
معاہدے کو کالعدم قرار دینے کے لئے جن چار لوگوں نے کوشش کی ان میں ایک ابوالبختری
بھی تھا، اس لئے آپ نے بطور خاص یہ ہدایت دی کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔
اس ہدایت کے باوجود وہ
قتل ہوگیا، مگر اس میں صحابہ کی کوئی غلطی نہیں تھی، واقعہ یہ پیش آیا کہ جنگ کے
دوران یا بعد میں کسی وقت ابوالبختری کا سامنا حضرت مجذر بن زیاد البُلویٰ سے
ہوگیا، انہوں نے کہا کہ رسولؐ اللہ ہمیں تمہارے قتل
سے منع فرمایا ہے، ابوالبختری اس وقت اونٹ پر سوار تھا اور اس کے پیچھے جَنَادَہ
بن مَلِیحہ بنت زہیر بن الحارث بیٹھا ہوا تھا، اس نے مجذر سے دریافت کیا کہ میرے
اس ساتھی کا کیا ہوگا، انہوں نے کہا اسے ہم نہیں چھوڑیں گے، ابوالبختری کی غیرت نے یہ
گوارا نہیں کیا کہ اس کا ہم نشیں مارا جائے اور وہ خود محفوظ رہے،دونوں طرف سے
تلواریں چلیں، بالآخر ابوالبختری اور جنادہ دونوں مارے گئے۔ (البدایہ والنہایہ، ۳؍۳۱۲، سیرت ابن ہشام، ۱؍۶۳۰) (جاری)
8 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism