New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 02:42 PM

Urdu Section ( 24 Apr 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Maulana Muhammad Yunus Jonpuri was Against Sectarian Bias مولانا محمد یونس جونپوری مسلکی تعصب کے خلاف تھے

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

24 اپریل 2025

مولانا محمد یونس جونپوری ( 1937- 2017)   جب شعور کو پہنچے ہوں گے تو آپ نے ہندوستان کی حریت کی پوری داستان کا مشاہدہ کیا ہوگا کیوں کہ یہی وہ دور تھا جب آزادی کی تحریک شباب پر تھی، افسوس!  ملک میں فرقہ وارانہ فسادات نے آزادی کے بعد مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچایا یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔یہ  حقائق تاریخ کے صفحات سے کبھی بھی معدوم نہیں کیے جاسکتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے جو جتن کیے وہ بڑے اہم اور تاریخ کا زریں باب ہے اس کے باجود آج ہندوستان میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور ان کی تاریخ کو نہ صرف خرد برد کیا جارہا ہے بلکہ انہیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جارہا ہے جو ہندوستان جیسے تکثیری معاشرے کے لیے مناسب  نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی ملک سے وفاداری  کے ثبوت مانگنا غیر منطقی اور تعصب پر مبنی رویہ ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ باہمی یگانگت کو برقرار رکھنے اور ہندوستان کی تنوع پسند اقدار کو قائم رکھا جائے اور ان روایات کو فروغ  دیا جائے کہ جن سے سماج پر امن رہ سکے ۔

مولانا محمد یونس جونپوری

-----------

یہ ایک صداقت ہے کہ علمی و فکری اور نظریاتی طور پر عالمی افق پر مولانا  محمد یونس جونپوری کی جملہ علمی مساعی کو یاد رکھا جائے گا آپ ہندوستان کے ایک ممتاز اور جید عالم دین تھے۔ مولانا  محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے علم و فضل اور تحقیق و تدوین سے معاشرے کو علمی و فکری طور پر مکمل سیراب کیا ۔ آپ نے ہندوستان کے  معروف دینی ادارہ مظاہر علوم جدید سہارنپور میں تدریس کا فریضہ انجام دیا ۔ درس و تدریس سے وابستہ رہتے ہوئے آپ نے تدوین و تصنیف کا بھی گراں قدر سرمایہ مرتب کیا ۔ آپ کا اختصاص  علم حدیث تھا لیکن دیگر علوم پر بھی آپ کو مکمل دستگاہ حاصل تھی ۔ جب ہم مولانا محمد یونس جونپوری کے علمی و فکری ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں توسع اور اعتدال نظر آتا ہے ، مسلکی عصبیت اور فکری جمود سے پاک ہے۔ در اصل توسع اور وسعت نظر ہی وہ پہلو ہے جس سے ہم اپنے علمی و فکری سطح میں پیہم اضافہ کرسکتے ہیں اور علم و تحقیق کی دنیا میں اپنی شناخت قائم کرسکتے ہیں ، اگر ہم کسی فکر اور نظریہ کے اسیر ہوجائیں تو پھر ہمارے ذہن میں وہ استحکام نہیں آتا ہے جو آنا چاہیے ۔ ضمنا یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسلک و مشرب کے تابع ہونے کا یہ مقصد قطعی نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی وجہ سے حق بات کو پس پشت ڈال دیا جائے اور اپنے مسلک کے مطابق چیزوں کی تعبیر و تشریح پیش کی جائے ۔ مسلکی عدم عصبیت کا ایک علمی گوشہ یہ بھی ہے کہ آپ کسی فکر و نظر اور فقہی مسلک سے وابستہ ہوتے ہوئے حق بات کا اعتراف کریں اگر چہ وہ رائے یا بات آپ کی عقیدت پر  نقد کرتی ہے ۔ اس تناظر میں جب ہم مولانا محمد یونس جونپوری کی  ملفوظات اور تحریری ادب کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں  نے فقہ حنفی کی اتباع کرتے ہوئے حقائق و معارف کا اعتراف کیا ہے چنانچہ محمود حسن حسنی ندوی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

"  جہاں تک حضرة الشیخ مولانا محمد یونس  جونپوری کا تعلق ہے ، فقہ سے اور اصول سے اول اشتغال اور پھر مسلسل پچاس سال سے زائد حدیث شریف سے غیر معمولی شغف اور اشتغال تام نے جس میں ان کی قوت یادداشت  اور سرعت ذہن اور پھر خشیت ربانی اور تقویٰ وانابت کی صفت نے ان کو نہ صرف فقہیات بلکہ کلامی مسائل میں بھی اجتہاد کے مقام پر فائز کر دیا تھا جس میں ان کے وسعت مطالعہ ، تبحر علمی ، اور زمانے کے تقاضوں اور حالات کو بھی دخل تھا ، لیکن وہ ان کی کمال احتیاط کی بات تھی ، کہ وہ نصوص پر گہری نظر رکھ کر بھی دوسروں کو ان مسالک پر عمل پیرا رہنے کی تلقین فرماتے جن کے متعلق وہ لوگ ہوتے البتہ خود اقرب الی القرآن والسنہ کو اختیار کرتے اور اس سلسلہ میں اپنی جو رائے مناسب سمجھتے بیان کردیتے ۔ رسوخ فی العلم رکھنے والے کا یہی انصاف اور امانت کی ادائیگی کا حق ہے"

(  حسنی ، محمود حسن حسنی ندوی ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری ، سید احمد شہید اکیڈمی ، 2019، صفحہ 142-143)

آج ہمیں معاشرے سے مسلکی عصبیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ علم و فضل اور ایک انصاف پسند محقق و مصنف کی یہ شناخت ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحقیق اور رسوخ کی بنیاد پر کوئی تجزیہ یا تحلیل کرتا ہے، کسی خاص فکر سے وابستہ ہوکر یا کسی مسلک کی عینک لگا کر جب چیزوں کا تجزیہ و تحلیل کیا جاتا ہے تو اس کے اندر آفاقیت نہیں آتی ہے ۔ علمی تشنگی باقی رہتی ہے ۔ شرح صدر نہ قاری کو ہوتا ہے اور نہ خود محقق کو، لہذا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم کسی نتیجہ پر دلائل و براہین کی مدد سے پہنچیں ، کسی بھی مسئلہ پر ہماری تحقیق دو دو چار کی طرف واضح ہو ۔ یہ کام وہی لوگ انجام دیتے ہیں جو اپنے علمی سفر کو آگے بڑھانے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ تحقیق و جستجو میں اپنے اوقات کو صرف کرتے ہیں ۔ مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ کی علمی و تحقیقی مساعی سے ہمیں یا مسلکی متعصبین کو سبق لینے کی بے حد ضرورت ہے۔ مسلکی  توسع کی ایک اور مثال پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں مولانا عبد السلام ندوی بھٹکلی لکھتے ہیں:

" حدیث سے خصوصی تعلق اور اس کے مطالعہ نے آپ میں وسعت علمی کے ساتھ توسع عملی بھی پیدا کردیا تھا ، ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنا علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ سے حاصل کیا ہے ، نہ میں شافعی ہوں نہ کوئی اور "

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ نے حنفی ماحول میں پرورش پائی تھی ، حنفی فقہ پڑھی ، فقہ حنفی واصول فقہ حنفی پڑھی بھی ہیں ، اور پڑھائی بھی ، لیکن یہ سب باتیں حضرت والا کے لیے  بہت اہمیت کی حامل نہیں تھی کہ مسلک کی  تعیین کرکے حرف بحرف اس پر عمل کیا جائے اور اس پر سختی کی جائے بلکہ آپ کا مسلک بقول آپ ہی کے " میں خاندانی حنفی ہوں لیکن جوال سیال ہوں" ( ایضاً ، صفحہ 152)

متذکرہ اقتباس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ علم و فضل اور تحقیق کی بنیاد پر اگر توسع علمی و عملی پیدا نہ ہوسکے تو پھر اس کا بہت زیادہ فائدہ معاشرے کو نہیں ہوپاتا ہے ۔ شیخ یونس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مطالعہ اور علمی بصیرت و گہرائی سے جو فکر پیش کی اس میں علمی و فکری ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ سماجی اور مسلکی بقائے باہم کا عنصر بھی شامل ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہماری ناقص فہم و فراست ، محدود فکر اور  ناقص علم کی بنیاد پر مسلکی و فرقہ وارانہ کشیدگی پروان چڑھ رہی ہے اور ہمارا طبقہ اسی کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دے رہا ہے ۔ تصور کیجیے! اتنے متبحر عالم دین جنہوں نے اپنی زندگی درس و تدریس اور مطالعہ کتب میں صرف کردی وہ تمام حد بندیوں اور رکاوٹوں سے باہر آکر گفتگو کرتے ہیں اور مسلکی کشیدگی یا سختی کے سخت ترین مخالف ہیں ۔ یہ بات ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ معاشرتی ہم آہنگی اور فکری و نظریاتی توازن کی اس وقت جو ضرورت ہے وہ کسی  سے مخفی نہیں ہے ۔ معاشرے میں انتشار کی جہاں دیگر بہت ساری وجوہات ہیں ان میں ایک بنیادی وجہ ہمارا مسلکی اختلاف ہے  اس میں تشدد اختیار کرنے سے عالمی سطح پر مسلمانوں کی تصویر بہت ہی خراب ہوتی ہے ۔ اس لیے امن و امان اور اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے نیز علمی روایتوں کے فروغ کے لیے لازمی طور ہمیں محدود مفادات اور خود ساختہ مصلحتوں سے باہر آنا ہوگا تبھی جاکر ہم اسلامی اقدار و روایات ہر مبنی سماج کی تشکیل کرپائیں گے ۔

 رکھ کر اپنے علمی سفر کو جاری رکھا جائے تو یقیناً اس سے معاشرے میں  مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ہمارے مدارس کو اس جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ علم و فضل اور درس و تدریس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ جو شیخ نے فرمایا دیا وہی حرفِ آخر ہے بلکہ ایک علم کے متلاشی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر طرح سے اس کی چھان پھٹک کرے ۔

شیخ محمد یونس جونپوری رحمۃ اللہ علیہ نے جو تصور اور فلسفہ حصول علم  کے لیے پیش کیا ہے اس میں توازن اور اعتدال ہے، سماجی و عصری تقاضوں کی رعایت ہے اور تحقیق و تدوین کے شائقین کے لیے مشعل راہ ہے ۔ بناء بریں اب ضرورت ہے کہ ہم معاشرے کو پر امن بنانے کے لیے وہ جتن کریں جن کی واقعی ضرورت ہے ۔ علم و تحقیق کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی طرح کی عصبیت میں ملوث نہ ہوا جائے اور حقائق و معارف کا اتباع کیا جائے اگر یہ رویہ اور رجحان ارباب علم کا بن جائے گا تو لازمی طور پر سماج میں یکجہتی قائم ہوسکے گی ۔

-----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-muhammad-yunus-jonpuri-against-sectarian/d/135290

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..