غلام رسول دہلوی، نیو ایج
اسلام
11 مئی 2024
مولانا صرف ایک انقلابی اور
دور اندیش قوم پرست مفکر ہی نہیں تھے۔ بلکہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اور قومی یکجہتی
کے سب سے بڑے علمبردار بھی تھے، اور اسی لیے انہوں نے تمام محاذوں پر فرقہ واریت کی
مذمت کی۔
اہم نکات:
1. ہندوستان کے ممتاز صوفی، اردو اور فارسی شاعر، مسلم مجاہد آزادی،
اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عملی تصویر، مولانا حسرت موہانی، ہند و اسلامی تاریخ میں
ایک منفرد نام ہے!
2. ہندوستان کے مسلم صوفیاء، اردو شاعر، روحانی مفکرین، اور مولانا
حسرت موہانی جیسے فلسفیوں کو ،آج ایسے وقت میں ضرور یاد کیا جانا چاہیے، کہ جب ملک
میں فرقہ وارانہ انتشار اور سیاسی پولرائزیشن عروج پرہے۔
3. ان کے تکثیریت پسند پیغامات کو ہندوستان میں دوبارہ زندہ کیا جانا
چاہئے، ایک ایسا ماحول بنانے کے مقصد سے، کہ جس میں محبت اور ہم آہنگی ہی ایک واحد
دھرم ہو۔
------
درویشی و انقلاب مسلک ہے میرا
صوفی مومن ہوں،اشترکی مسلم
~ حسرت موہانی
ایک عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم اور ساتھ ہی ساتھ ایک کرشن بھکت، معروف ہندوستانی مسلم اسکالر، اردو شاعر اور
مجاہد آزادی - مولانا حسرت موہانی، جن کا اصل نام سید فضل الحسن ہے - ہند و اسلامی
تاریخ کی کا ایک نادر و نایاب کردار ہے۔ مولانا کو ان صوفیاء کی فہرست میں شامل کیا
جا سکتا ہے، جنہوں نے ہم ہندوستانی مسلمانوں کو سکھایا، کہ اسلام میں محبت الہی اور
ہم آہنگ عقیدت سے کس طرح لطف اندوز ہوا جائے۔ 1875 میں اتر پردیش میں لکھنؤ کے قریب
اناؤ کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہونے والے ، مولانا حسرت موہانی نے اپنے مضامین
اور اردو شاعری میں برطانوی راج پر شدید تنقید کی، اور انقلابی، استعماریت مخالف، اردو
نعرہ انقلاب زندہ باد ایجاد کرنے کے جرم میں، پس زنداں ڈالے گئے!
تاہم، مولانا صرف ایک انقلابی
اور دور اندیش قوم پرست مفکر ہی نہیں تھے۔ بلکہ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اور قومی
یکجہتی کے سب سے بڑے علمبردار بھی تھے، اور اسی لیے انہوں نے تمام محاذوں پر فرقہ واریت
کی مذمت کی۔ وہ بال گنگا دھر تلک کے’سوراج‘ (خود حکمرانی) کے تصور جیسے بنیاد پرست
نظریات کے سخت مخالف تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے ایک مخلص حامی، اور دل سے ایک تکثیریت
پسند، مولانا حسرت موہانی نے، عوامی طور پر اپنے موقف کا اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ
محسوس نہیں کی، حتیٰ کہ اپنے ان قریبی دوستوں کے خلاف بھی، جو ان کے مطابق، ملک کے
مفادات کے خلاف تھے۔
مثال کے طور پر - کانگریس
کے لیڈر ہونے کے ناطے بھی، مولانا موہانی کو اپنے دوست شیخ عبداللہ، کو آرٹیکل 370
کے نام پر دی جانے والی مراعات پر بھی سخت اعتراض تھا۔ اس شق کو مسودے میں آرٹیکل A
306 کے
طور پر درج کیاگیا، اور بعد میں آئین ہند میں ترمیم کر کے آرٹیکل 370 کے نام سے شامل
کیا گیا۔ مولانا نے، جو خود ایک زبردست محب کشمیر ہیں، جنہوں نے کشمیر کی خوبصورتی
کی تعریف میں اردو اشعار لکھے، آرٹیکل 370 پر ایک کھرا سوال پوچھا: "جموں و کشمیر
کے ہندوستان میں الحاق کے بعد یہ امتیاز کیوں؟" 17 اکتوبر 1949 کو آئین کا مسودہ
تیار کرنے کے لیے، دستور ساز اسمبلی کی بحث میں حصہ لیتے ہوئے، مولانا نے اس اقدام
کے خلاف اپنے ان خیالات کا اظہار کیا۔ مولانا نے کہا:
’’میں نہ تو اپنے دوست شیخ عبداللہ
کو دی جانے والی ان تمام رعایتوں کا مخالف ہوں، نہ میں مہاراجہ کو کشمیر کا حکمران
تسلیم کیے جانے کے خلاف ہوں......لیکن مجھے جس چیز پر اعتراض ہے وہ یہ ہے کہ، اس حکمران
کے متعلق یہ امتیازی قدم کیوں اٹھایاجا رہا ہے؟"
مولانا اپنی آخری سانس تک
اپنی سیاسی زندگی میں اسی موقف پر ثابت قدم رہے۔ ایک بار پھر انہوں نے ہندوستان کی
اسمبلی میں کہا تھا: ’’جب آپ کشمیر کو یہ تمام رعایتیں دے رہے ہیں، تو میں بڑودہ ریاست
کو بمبئی میں ضم ہونے پر مجبور کرنے کے، آپ کے اس من مانی اقدام پر سخت اعتراض ظاہر
کرتا ہوں‘‘۔
یہ مولانا ہی تھے جنہوں نے
انقلابی نعرہ 'انقلاب زندہ باد!' قوم کو دیا، جس کا مقصد ہندوستان کی آزادی کے جذبے
کو بھڑکانا تھا۔ انقلاب کے بارے میں ان کا انقلابی نظریہ، درویشی کے ان کے خوبصورت
تصور سے جڑا ہوا تھا، جسے انہوں نے ہندوستان کی آزادی، اور ہندوستانی عوام کی روحوں
کی آزادی کے لیے، آخری راستہ قرار دیا تھا۔ یہی بات انہوں نے اپنی شاندار اردو کی زبان
میں، اپنے بہت سے سحر انگیز اشعار میں بھی کہی ہے۔
1947 کی تحریک آزادی کے ایک انقلابی نظریہ ساز کے طور پر، مولانا نے
دو مختلف مذہبی برادریوں —ہندوؤں اور مسلمانوں— کو ایک ساتھ لانے کا تصور، 'ہندوستانی
انبیاء' سے، محبت کے اپنے خوبصورت صوفیانہ تصور کے ذریعے پیش کیا، جس میں ان کے مطابق،
شری کرشن بھی شامل تھے۔ انہوں نے انہیں ’’حضرت کرشنا‘‘ کہا، اور ایک نبی، نیک، صالح،
خدا کے پیارے رسول کے طور پر ان کی تعظیم و تکریم کی۔ اور اس کی تائید میں، انہوں نے
مذہبی بنیادیں بھی پیش کیں، جیسا کہ حضرت مظہر جان جاناں جیسے متعدد ہندوستانی صوفیاء
نے بیان کیا ہے، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے، کہ کرشن ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں
کے درمیان اتحاد اور اتفاق کا مصدر و منبع ہیں۔ موہانی نے ہندوستانی مسلمانوں کو نصیحت
کی، کہ وہ پہلے کے انبیاء کو نہ بھولیں، جو قرآن کے مطابق مختلف خطوں میں مبعوث کیے
گئے تھے۔ چنانچہ مولانا کی اردو شاعری محبت، اور حضرت کرشنا کے لیے ان کی گہری عقیدت
کے اظہار سے بھری پڑی ہے، جس میں انہیں خدائی شفقت اور رحمت و محبت کا مجسم قرار دیا
گیا ہے۔ کرشن کی محبت میں موہانی کے اردو دوہے کی ایسی ہی ایک مثال ذیل میں پیش کی
جا رہی ہے:
تو سے لگائی کنہائی پریت
کاہو اور کسوراتی اب آئی کاہے
حسرت تن من دھن سب وار کے
متھرا نگر رامائی چلی دھونی
مولانا نے کرشن کی تعریف میں
یہ اشعار بھی لکھے ہیں:
عرفانِ عشق نام ہے میرے مقام
کا
حامل ہوں کس کے نغمۂ نئے
کے پیام کا
لبریز نور ہے دل حسرت زہے
نصیب
اک حسن مشک فام کے شوق تمام
مولانا موہانی کو یہ بھی معلوم
تھا، کہ انہیں ان کم ظرف مولویوں اور مذہبی جنونیوں کے"فتووں" کا سامنا کرنا
پڑے گا، جو کرشن سے ان کی عقیدت پر تنقید کر سکتے ہیں۔ اس لیے، انہوں نے مندرجہ ذیل
اشعار میں فلسفیانہ طور پر، مذہبی انداز میں، کرشن کے لیے اپنی محبت کاجواز پیش کرنے
کی کوشش کی:
پونا ہوئے نا کپریت کا پاپ
شیام
کوؤ کاہے پشچاتاپ کرت ہے
نیہا کی آگ ماتن-پوپا
جلت راہی چپ چاپ کب لگ
مولانا موہانی نے اردو میں
کئی خوبصورت نعت پاک، یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں نظمیں،منقبت
(صوفیاء کرام کی تعریف میں نظمیں) اور دیگر روحانی دعائیں (مناجات) بھی تحریر کیں۔
موہانی اپنی ایک نعت میں حضور ﷺکو یوں یاد کرتے ہیں:
خیال یار کو دل سے مٹا دو
یا رسول اللہ
خرد کو اپنا دیوانہ بنا دو
یا رسول اللہ
دوسری طرف، وہ پہلے کے ان
انبیاء کو نہیں بھولے جو مختلف خطوں بالخصوص ہندوستان میں بھیجے گئے تھے۔ الفت، نرمی
اور محبت کے مجسم، کرشنا کو بطور نبی کے، مولانا حسرت موہانی کی شاعری میں کافی تعظیم
و تکریم کے یاد کیا گیا ہے۔
تو سے لگائی کنہائی پریت
کاہو اور کسوراتی اب آئی کاہے
حسرت تن من دھن سب وار کے
متھرا نگر رامائی چلی دھونی
عرفانِ عشق نام ہے میرے مقام
کا
حامل ہوں کس کے نغمۂ نئے
کے پیام کا
گوکُل کی سرزمیں بھی عزیزِ
جہاں بنی
کلمہ پڑھا جو اُن کی محبّت
کے نام کا
برندا کا بن بھی روُ کشِ جنّت
بنا کہ تھا
پامالِ ناز اُنھیں کے بہارِ
خرام کا
لبریزِ نور ہے دِلِ حسرت زہے
نصیب
اِک حسنِ مشک فام کے شوقِ
تمام کا
ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستان
میں، اسلام کے ان حقیقی صوفیاء اور روحانی پیشواؤں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ آج انہیں
پہلے سے کہیں زیادہ یاد کیے جانے کی ضرورت ہے، تاکہ اس ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی،
اور سیاسی پولرائزیشن کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔ ہندوستان میں ان کے تکثیریت پسند
پیغامات کو نئے سرے سے زندہ کیا جانا چاہیے، اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے، جس
میں بے لوث خدمت، محبت اور ہم آہنگی ہی، سب کا دھرم ہو۔ مولانا موہانی شری کرشن سے
محبت اور عقیدت کی اپنی لازوال میراث، اپنے انقلاب زندہ باد کے نعرے، اپنےصوفیانہ افکار
و نظریات، اور سب سے بڑھ کر اپنی لازوال اردو غزل کی وجہ سے ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ
ہو گئے، جس میں کہا گیا ہے:
چپکے چپکے رات دن، آنسو بہانہ
یاد ہے۔
English
Article: Maulana Hasrat Mohani—An Aashiq-e-Rasool (the
Prophet’s Lover) And At The Same Time A Krishna-Bhakt (Krishna Devotee)!
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism