ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
22 اپریل 2025
مولانا مناظر احسن گیلانی (1892-1956) ہندوستان کے صوبہ بہار سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کی پیدائش ضلع نالندہ میں ہوئی آپ کے جد امجد محمد احسن جید عالم دین تھے ۔ آپ نے تعلیم دار العلوم دیوبند سے حاصل کی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد میں 1920 ء میں شعبہ دینیات کے استاد کی حیثیت سے تقرر ہوا ، پھر اس فیکلٹی کے ڈین اور شعبہ کے سربراہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں ۔ آپ کی چھوٹی بڑی تصنیفات کی تعداد تقریباً ڈھائی درجن ہے ۔ جن میں تدوین قرآن ، تدوین حدیث ، تدوین فقہ ،سوانح قاسمی ، ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت (دو جلدیں) ، الدین القیم ، اسلام اور ہندو دھرم کی بعض مشترک اقدار متداول ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دیگر تالیفات تحقیقی و علمی معیار سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں ۔
مناظر احسن گیلانی ہندوستان کی ان نمایاں شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی علمی و فکری ، نظریاتی و تحقیقی سرمایہ میں اپنی عالمانہ بصیرت سے اہل علم و فضل اور ارباب ذوق کو تدبر و تفکر کے لیے متوازن اور معتدل پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ مولانا گیلانی کی خدمات کا دائرہ وسیع اور متنوع ہے ۔ قران و حدیث اور فقہ کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسلامی معاشیات و اقتصادیات ، سیر و سوانح ، مطالعہ ادیان و مذاہب پر بھی توجہ مبذول کی ہے ۔ لہذا اس تناظر میں اگر آپ کے علمی و فکری کارناموں کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کی جدید صورت حال اور بھارت کے تکثیری سماج میں اپ کے افکار و نظریات اور علمی و ادبی شہ پاروں کی اہمیت و افادیت بڑھ جاتی ہے ۔ سماجی اصلاح و فلاح اور معاشرتی و سماجی تشدد و تناؤ کے خاتمے نیز انسانی رشتوں اور قومی و بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں بھی مولانا گیلانی کی آراء بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ ہندوستان چونکہ متعدد افکار و خیالات اور ادیان و مذاہب کا شاندار مرکز و محورہے جو تکثیریت اور تعدد پسندی کے لیے عالمی سطح پر اپنی شناخت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے بھی آپ کی تحریریں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ۔ گویا مولانا گیلانی کی تحریروں میں ہندوستانی تہذیب و تمدن اور یہاں کی مشترک اقدار کا کماحقہ خیال رکھا گیا ہے ۔ قومی سلامتی اور معاشرتی امن و امان و رواداری کے تصور کو فروغ دینے کے لیے جس چیز کی بنیادی طور پر ضرورت پڑتی ہے وہ ہے فکری و نظریاتی توازن اور ذہنی و فکری حریت اور سوچ وفکر کا توسع جو اہل علم و نظر ان متذکرہ صفات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں نہ صرف اہل علم کے حلقے میں بلکہ عوامی سطح اور مشترک معاشروں میں بھی ان کی اہمیت کو برقرار رکھا جاتا ہے ۔ مونالا گیلانی نے بھی اپنے فکری توسع کے لیے جانے جاتے ہیں اس لیے بھی ان کا گراں قدر سرمایہ جدید دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔ مولانا گیلانی نے ہندوستانی معاشرے میں رہ کر جس نظریہ کی ترویج و اشاعت کی وہ بین مذہبی مذاکرات ، افہام و تفہیم ، بقائے باہم اور سماجی و معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بھی ضروری ہیں تو وہیں ان کے نظریات جدید صالح اور قدیم نافع کا سنگم ہیں ۔
انہوں نے روایتی درسگاہ اور عصری دانش گاہ دونوں سے استفادہ کیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریروں میں رواداری اور یکجتی کے عناصر بخوبی جھلملاتے ہیں ۔ رواداری اور یکجتی کے اس تصور کی وضاحت مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنے ایک مضمون میں بھی کی ہے ۔
انھوں نے مختلف انبیاء حضرت نوح، حضرت ہود اور حضرت لوط علیہم السلام کی قوم سے بحث کرتے ہوئے یہ لکھا ہے: جب قرآن میں مذکوران پیغمبروں سے ان کی قوم کے عقائد و اعمال اور خیالات و مسلمات قطعی مختلف تھے، اس کے باوجود ان اقوام کا انتساب ان پیغمبران حق کی طرف کیا گیا۔ انھیں قوم نوح، قوم ہود اور قوم لوط سے خطاب کیا گیا۔اس بنیاد پر انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قومی وحدت کے لیے نہ وطنی وحدت کی ضرورت ہے، نہ نسلی اتحاد کی، نہ زبان کی یکسانیت ضروری ہے؛ بلکہ جس خطے میں بھی کسی پیغمبر وقت کو کسی نسلی اکائی کی اصلاح و ارشادکے لیے بھیجا گیا ہے ،وہ سب ایک قوم ہیں۔ لکھتے ہیں:
”پھرقرآن نے کس بنیاد پر ان جماعتوں اور امتوں کو ان مختلف پیغمبروں کی قوم قرار دیا؟ اس کے سوا اور کیا تھا کہ جو پیغمبر انسانوں کی جس جماعت کی اصلاح و احیاء کے لیے کھڑا کیا جاتا تھا، وہی لوگ اس کی قوم قرار دیئےے جاتے تھے۔ اب اگر اسی بنیاد پر ، ہندوستان کے مسلمان، ہندوستان کے ان تمام باشندوں کو جن کی ہدایت و ارشاد، ان کا دینی فریضہ ہے اور جن کو اندھیرے سے روشنی میں لانے کے لیے، مسلمانوں کی ایک جماعت، گنگا اور جمنا کے کنارے، کرشنا اور گوداوریؔ کی وادیوں میں آباد کی گئی۔ ان کے اسلاف اس غرض سے اس ملک میں آئے۔ اگر مسلمان ان ساری جماعتوں کو اپنی قوم قرار دیں، تو قرآن کی اصطلاح سے کیا اس کی توثیق نہیں ہوتی؟ یقینا اس بنیاد پر ہندی مسلمانوں کی قوم، ہندوستان کے قدیم قبائل ڈراوڑیؔ، کولؔ اور بھیلؔ بھی ہیں، آریہ اور راجپوت بھی ہیں، کائستھ اور برہمن بھی ہیں کہ ان ہی لوگوں کے لیے، ان ہی کی اصلاح ودرستی کے لیے اس ملک میں وہ آئے اور ہندوستان میں قیام کیا۔یقینا اسی اصلاح کی بنا پر چینیؔ مسلمانوں کی قوم، چین ہی کے وہ باشندے ہیں جن کی طرف چینؔ کے مسلمان مبعوث تھے اور قسطنطنیہ و تھیرس، بلقان، البانیہ، ہرزی گونیا و بوسنیا کے مسلمانوں کی قوم، یورپ کے وہ باشندے ہیں جو ان ملکوں میں ان کے ساتھ آئے ہیں۔ قازون و سرائے باغچہ کے مسلمانوں کی قوم روس کے وہ باشندے ہیں، جن کے درمیان مسلمانوں کی یہ جماعت آباد ہوگئی ہے۔ مصری مسلمانوں کی قوم ان زمینوں کی رہنے والی ہے جو ارد گرد ممالک میں رہتے ہیں اور جن کو اسلام کی دعوت دینا ان کا قرآنی فریضہ ہے۔“(مضامین مولانا گیلانی، مظفر گیلانی(مرتب) صفحہ 117-118، بہار اردو اکادمی
مولانا کے اس نظریہ اور فکر سے جو تصور ابھرتا ہے اس میں وسعت و پھیلاؤ اور توازن اعتدال ہے ۔ ہندوستانی تناظر میں مولانا گیلانی کے اس تصور قومیت کی بڑی افادیت ہے ۔ دعوتی پہلو سے بھی اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
مولانا گیلانی جس طرح قومی و معاشرتی ہم آہنگی کے قائل و معترف نظر آتے ہیں اسی طرح عصری و دینی علوم و معارف میں ہم آہنگی کے قائل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دینی اور عصری علوم کے نام پر جو تقسیم آج ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے اس کی پر زور انداز میں تردید کرتے ہیں علوم کی دین و دنیا کے نام پر جو تقسیم ہے اس کی عدم اہمیت پر بڑے بے باک انداز میں لکھتے ہیں ۔
" حکومت اور سوسائٹی دونوں میں صرف ان علوم و فنون کی وقعت ہے جن کا دین سے کوئی لینا دینا نہیں ، ایسی حالت میں بآسانی بجائے اس علمی فتنے کے جس کا تماشا دور حاضر میں ہم کررہے ہیں کہ تعلیم کے دو مستقل سلسلے ملک میں ایک ساتھ جاری ہیں ۔ ایک طرف جوامع و کلیات یونیورسٹیوں اور کالجوں کی تعلیم اور ان کے تعلیم یافتہ حضرات ہیں ، اور دوسری طرف دینی مدارس و مکاتب اور ان کے پڑھے ہوئے علماء و فضلاء ہیں ، ہر ایک دوسرے کے علم نقطہ نظر سے ناواقف ہے اور ان کو ناواقف بنا کر رکھا گیا ہے ، لیکن اسی کے ساتھ علم کا دعویٰ دونوں کو ہے ، عوام ان کے ہاتھوں میں فٹ بال کی گیند بنے ہوئے ہیں ، ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش ہے جو جاری ہے ، گویا ایک طبقہ عوام کی گردنیں پکڑ کر آگے کی طرف دھکیل رہا ہے، دوسرا ان ہی بیچاروں کا دامن پکڑ کر پیچھے کی طرف گھسیٹ رہا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ علم کے دونوں نمائندے گھر کی اس منحوس لڑائی میں ذلیل ورسوا ہورہے ہیں ، نہ ان کا اثر قائم ہوتا ہے ، نہ ان کی بات چلتی ہے ، مسلمانوں کو نہ دین پر عمل کرنے کا موقع ملتا ہے ، نہ دنیا میں آگے بڑھنے کی توفیق میسر آتی ہے۔مولا نا کے اس نظریہ اور فکر سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ علوم کی تقسیم دین اور دنیا کے نام پر کرکے نوع انسانی کا بڑا نقصا کیا ہے ۔ اس سے معاشرے میں اجنبیت اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہورہی ہے حالانکہ معاشرے میں یکجہتی اور ہم اہنگی پیدا کی جائے، علوم کی تقسیم دین اور دنیا کے نام پر نہ کرکے نافع اور غیر نافع کے نام پر کی جاتی تو یقیناً اس کے نتائج معاشرے پر اچھے مرتب ہوں گے ۔ مولانا گیلانی صرف اسی بات کے قائل نہیں کہ علومِ کی تقسیم دین اور دنیا کے نام پر نہ کی جائے بلکہ ان کا لٹریچر پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک متحدہ نصاب چاہتے تھے تاکہ معاشرے میں علم و فضل اور تحقیق و ریسرچ کے نام پر انتشار و افتراق کی کیفیت جنم نہ لے سکے ۔ اس تناظر میں اگر ہم موجودہ تعلیمی اداروں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے سماج میں دینی علوم اور دنیوی علوم کے نام پر ایک ایسی خلیج ہے جس کو پاٹنا آسان نہیں ہے ۔ اس سے قومی ترقی اور سماجی بہبود میں لازمی طور پر رکاوٹ آتی ہے ۔ اس کے مایوس کن نتائج صرف یہیں تک محدود نہیں رہتے ہیں بلکہ معاشرے میں بہت سارے فتنے اور اوہام و خرافات پیدا ہوجاتی ہیں جو انسانی حقوق اور قومی سلامتی کو بھی متاثر کرتی ہیں ۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ قومی افتخار اور سماجی و معاشرتی اعتدال و توازن قائم کرنے اور علمی و فکری ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ان خطوط پر عمل کیا جائے جوتکثیری سماج کے لیے مفید و معاون ثابت ہوسکیں ۔مولانا مناظر احسن گیلانی کا امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہندوستانی تہذیب و تمدن اور یہاں کے مذہب و دھرم سے صرف واقفیت ہی پیدا نہیں کی بلکہ باہمی یگانگت و اتحاد ، قومی و بین الاقوامی تعلقات کو خوش گوار بنانے کے لیے باقاعدہ ہندو دھرم اور دیگر ادیان پر بھی خامہ فرسائی کی ہے ۔ اس حوالے سے باقاعدہ اسلام اور ہندو دھرم کی بعض مشترک اقدار اور ہزار برس پہلے کے عنوان سے کتابیں لکھ کر اپنی وسعت فکر کا ثبوت بھی دیا ہے ۔ ہندو متون میں جن مصادر کا کثرت سے مطالعہ کیا ہے وہ مہابھارت ہے ۔ مولانا گیلانی کی کتب کو پڑھنے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ سنسکرت ،عبرانی ، انگریزی اور دیگر زبانوں کے سیکھنے کے پر زور حامی ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت میں اس بات کے شواہد بھی پیش کیے ہیں کہ ہمارے اکابر نے سنسکرت اور عبرانی زبانیں سیکھی ہیں " ہندی علماء میں مجھے ایسے متعدد افراد نظر آتے ہیں ہیں ، جنہوں نے عربی کے تعلیمی مروجہ نصاب کو ختم کرکے ہندوستان کی خاص علمی زبان سنسکرت میں بھی کمال پیدا کیا ہے ۔ مثلآ فاضل شیخ حیدری ان علماء میں ہیں جو باہر سے ہندوستان میں آئے ، ہندو پنڈتوں کے گروہ سے انہوں نے اہل ہند کے علوم سیکھے ، ان کی زبان سیکھی اور مدت تک انہی میں رہے اسی طرح شیخ عنایت اللہ نے بھی سنسکرت زبا ن میں مہارت حاصل کی ۔ (ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت ، جلد اول صفحہ 230)
ان تمام ثبوت و شواہد کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج ہمارے مدارس دینیہ کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ وہ ہندوستان میں بولی جانے والی زبان طلباء کو سکھائیں ۔ مدارس کی بابت اج جو نفرتیں اور ان کے خلاف منظم سازشیں ہورہی ہیں اس کی ایک واحد وجہ یہ ہے کہ مدارسِ دینیہ کا سماج سے رشتہ استوار نہیں ہے ۔ کیوںکہ یمارے زیادہ تر علمی و تحقیقی کارنامے ہیں وہ عربی ، اردو ، یا پھر انگریزی میں ہیں ۔ ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں میں بہت کم دینی سرمایہ ہے، اس لیے برابر دوری بنی ہوئی ہے جس سے معاشرے میں امن و امان اور یکجہتی و ہم آہنگی کے بجائے افتراق و تشدد کی راہ ہموار ہورہی ہے جو ہندوستان جیسے تکثیری سماج کے لیے نقصان دہ ہے ۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-manazir-ahsan-gilani-intellectual-national/d/135262
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism