مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
12 اپریل، 2013
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ داعی کو اپنے مخاطب کے بالمقابل نرم خو ہونا چاہئے ، لب و لہجہ بھی نرم ہو، الفاظ میں بھی مٹھاس ہو، مخاطب کے ساتھ تو قیر و احترام کا معاملہ کیا جائے، اس کو اس کے معیار کے لحاظ سے عزت دی جائے، اس سے ایسی بات نہ کی جائے، جس سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو، جیسے وہ جن باطل معبود وں کو پرستش کرتا ہے، ان کو برا بھلا نہ کہا جائے، لیکن یہ بھی درست نہیں کہ مداہنت کا طریقہ اختیار کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ گذشتہ کتابوں سے دعوت اسلام کی تقویت کے لیے اس طرح استدلال کیا جائے کہ یہ کتابیں گویا قرآن کے ہم پلہ میں یا مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وحدت ادیان کا تصور ابھرنے لگے، کیوں کہ حق کے قبول نہ کرنے کے لیے یہ بہت بڑا ہتھیار ہے، اکثر ہندو مذہبی قائدین قبول حق سے بچنے کے لئے اس با ت کا سہارالیتے ہیں کہ تمام مذاہب ایک ہی ہیں ، راستے الگ الگ ہیں، منزل الگ الگ نہیں، حالانکہ قرآن نے جو تصور پیش کیا ہے، وہ یہ ہے کہ سچا دین صرف ایک ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جو دین اتارا جاتا رہا ، وہ سب ایک ہی دین ہے، جسکی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت پر ہے، اس کے علاوہ جن تصورات کو لوگ ‘‘ دین ’’کہتے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا خالص دین نہیں، اس میں انسانی آمیز شیں اور ملاوٹیں شامل ہیں اور اس لئے وہ آخرت میں نجات کا سبب نہیں بن سکتے، دعوت کو اس سلسلہ میں بالکل واضح ہونا چاہئے اور قرآن مجید کو اصل بناتے ہوئے دوسری مذہبی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
دعوت دین کے میدان میں بہت سے فقہی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں ، ان میں بعض وہ ہیں جو اجتہاد پر مبنی ہیں اور ان میں معتبر فقہاء کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہے، اگر ان میں کوئی رائے مصلحت سے زیادہ قریب ہو اور اس سے کوئی مسئلہ حل ہوسکتا ہو تو علماء کے مشورہ سے اس سے استفادہ کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ دین کی مصلحت ، کسی خاص مسلک او رکسی مخصوص اجتہاد سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، لیکن جن احکام پر فقہاء کا اتفاقہے ، یا کوئی ایسا اختلاف ہے ، جسے اہل علم نے معتبر نہیں مانا ہے، ان کو اختیار کرنا قطعاً مناسب نہیں ، مثلاً : بیوی سے کہا جائے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے کو شوہر کے مسلمان ہونے پر موقوف نہ رکھے، تاکہ کفر کے گناہ سے اسے نجات مل جائے، اگر وہ کسی اور گناہ کی مرتکب بھی ہوتی تو و ہ کفر سے کم تر درجہ کا ہوگا، لیکن یہ کہنا درست نظر نہیں آتا کہ شوہر ہے کتنی مدت تک یا موت تک بھی ایمان نہ لائے، نکاح باقی رہے گا، کیونکہ یہ قرآن و حدیث کی واضح صراحتوں اور امت کے اجماع و اتفاق کے خلاف ہے۔
یہ بات ضرور ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسلام دوسرے مروجہ مذاہب کی طرح موم کی ناک نہیں ہے کہ اس کو جیسے چاہے موڑ دیں، بلکہ ایک مستقل دین اور مستقل تہذیب ہے اور کچھ متعین اعمال و افکار کا مجموعہ ہے، اسلام کو عیسائیت او رہندو مت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ، جس میں مذہب کی تبدیلی سے کچھ معبودؤں کا اضافہ تو ہوجاتا ہے ، لیکن ان کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی ، ان کا رہن سہن ، لوگوں سے تعلقات ، مذہبی تقریبات میں شرکت ، سماجی رسم و رواج یہاں تک کہ پوجا پاٹ ان سب میں کوئی بڑا فرق واقع نہیں ہوتا، اسلام ایسی ہمہ رنگی کو قبول نہیں کرسکتا ، اس لئے ہمیں دعوتی مصالح کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے، مگر اس قدر نہیں کہ اس کی سرحد یں مداہنت سے مل جائیں۔
دعوت دین ایک اہم ترین مذہبی فریضہ ہے ، یہ ہمارے بہت سے قومی و ملی مسائل کا حل بھی ہے اور آخرت میں اس پر بے حد و حساب اجرو ثواب بھی ہے، لیکن یہ کام اسی قدر نازک بھی ہے، جس میں ایک طرف بے طلب مخاطب کی رعایت بھی کرنی ہے، دوسری طرف اپنی فکری و عملی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنی ہے او رکتاب و سنت کے دائرہ سے باہر بھی نہیں جانا ہے، کام کو پھیلانا بھی ہے اور تشبہ سے بچنا بھی ہے ، لوگوں کو کام کی اہمیت اور طریقہ سے واقف بھی کرانا ہے اور اپنے سرمایہ اخلاص کو ریاء و دکھاوے کی دیمک سےبچانا بھی ہے، جہاں ضرورت دامن گیر ہو، وہاں اسلامی افکار کو ثابت کرنے او رمدلل طریقے پر پیش کرنے کے لیے دوسری مذہبی کتابوں سے استفادہ بھی کرنا ہے، لیکن اس بات کو واضح بھی کرنا ہے کہ قرآن مجید گذشتہ کتابوں میں چھپی ہوئی سچائیوں اور انسان آمیز شوں کو پرکھنے کے لئے کسوٹی ہے، وہ وحدت دین کا قائل ہے نہ کہ وحدت ادیان کا، اس کے نزدیک منزل بھی ایک ہے اور راستہ بھی ایک، ........ ان امور کی رعایت کے ساتھ دعوت کا کام کرنا او ربرادران وطن تک اسلامی تعلیمات کا پہنچانا امت کا اہم ترین فریضہ ہے اور یہی اس دور کا اصل جہاد ہے۔
برادران وطن میں کام کرنے والے بعض داعیوں کے یہاں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ دعوت کا کام صرف غیر مسلموں میں ہے مسلمانوں میں نہیں؟ پھر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں نیکی کی طرف بلا نے اور برائی سےروکنے کا جوکام کیا جاتا ہے وہ دعوت نہیں ہے، اس حقیر کا خیال ہےکہ وہ ایک فضول بحث ہے ، اس سے اختلاف کا دروازہ کھلتا ہے اور دین کے ایک اہم شعبہ کی اہمیت کم ہوتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ دعوت کا مقصد اللہ کی طرف بلانا ہے ، جیسا کہ ارشاد ہے ۔ قل ھذہ سبیلی أدعوإلی اللہ علی بصیرۃ أنا ومنم اتبعنی الخ (یوسف :108) ‘‘ وادعواإلی ربک’’ (الحج:67) اب اللہ کی طرف بلانے کی دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں، کفر سے ایمان کی طرف بلایا جائے ، یہ غیر مسلموں میں دعوت ہے ، یا اللہ کی نافرمانی سے اللہ کی اطاعت کی طرف بلایا جائے ، یہ مسلمانوں میں دعوت ہے، دعوت دین کے لئے قرآن مجید میں جو تعبیر سب سے زیادہ اختیار کی گئی ہے ، وہ ہے : ‘‘امر با المعروف ’’ یعنی معروف و بھلائی کا حکم دینا، اور ‘‘ نہی عن المنکر ’ ’یعنی برائی سے روکنا، بھلائی کا سب سے اعلی درجہ ایمان ہے، جس کی طرف غیرمسلموں کو دعوت دینے کی ضرورت زیادہ ہے، لیکن تمام اعمال صالحہ بھی معروف میں داخل ہیں، جن کے مخاطب مسلمان ہیں ، منکر کا انتہائی درجہ شرک درجہ شرک و کفر ہے، لیکن تمام گناہ اور سیئنات ‘‘منکر’’ میں داخل ہیں، جہاں غیر مسلموں کو کفر و شرک سے بچانے کی ضرورت ہے، وہیں مسلمانوں کوگناہوں سے بچانے کی ضرورت بھی کچھ کم نہیں، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کے مخاطب مسلمان بھی ہیں اور غیرمسلم بھی ، قرآن مجید نے پوری وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کو معروف یعنی نیکی کی طرف بلائے ‘‘ المؤمنون و المؤ منات بعضھم أولیا ، بعض یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر ’’ (توبہ 71)...... جس طرح یہ بات درست نہیں ہے کہ غیر مسلموں میں دعوت کے کام کی ضرورت نہیں ، جب مسلمانوں کے اعمال درست ہوجائیں گے تو غیر مسلم حضرات خود بخود دائرہ اسلام میں آجائیں گے، اسی قدر غلط یہ بات بھی ہے کہ دعوت غیر مسلموں کے لئے ہے، مسلمانوں کے لئےنہیں، خاص کر ہندوستان جیسے ملک میں جہا ں لاکھوں مسلمان کفر کی سرحد پرکھڑے ہیں اور فتنہ ارتداد کی چنگاری شعلہ بنتی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مختلف شعبے ہیں، یہ تمام شعبے ایک دوسرے کی تقویت کے لئے ہیں، ان میں سے کسی بھی شعبے کی تحقیر یا اس کی اہمیت کو کم کرنا دین کی تحقیر ہے، صحابہ اور سلف صالحین کے دور میں مختلف لوگ اپنی اپنی صلاحیت او راپنے اپنے ذوق کے مطابق کام کرتے تھے ، کسی پر ایک کام او رکسی پر دوسرے کام کاغلبہ تھا، لیکن ہر شخص اپنے بھائی کے کام کو قدرو قیمت کی نظر سے دیکھتا تھا، بلکہ خیال کرتا تھا کہ ان کا کام میرے کام سے بہتر ہے، لیکن آج کل کم فہمی او رغلو کی وجہ سے صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ اگر اللہ نے کسی کو کسی کام کی توفیق دی تو وہ خیال کرنے لگتا ہے کہ اصل دین یہی ہے اور دوسرے کاموں کو کم نگاہی سے دیکھنے لگتا ہے، اس لئے دین کے کاموں میں تقابل صحیح طریقہ نہیں ہے، اس سے تصادم پیدا ہوتا ہے ، دلوں کے فاصلے بڑھتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان دین کے بعض کاموں کو کم اہم سمجھنے لگتا ہے، حالانکہ دین و شریعت سے ثابت کسی بھی حکم کو خواہ وہ استحباب کے درجہ ہی کاکیوں نہ ہو ، کم تر سمجھنا جائز نہیں، بلکہ دینی اعتبار سے یہ بہت ہی خطرہ کی بات ہے، آدمی اپنے مزاج کے مطابق دین کے کسی شعبے میں کام کرے اور دوسرے کام کرنے والوں کی قدر و منزلت اس کے دل میں ہوتو اس سے محبت پیدا ہوتی ہے اور قربت میں اضافہ ہوتا ہے، خاص کر جو لوگ دعوت اسلام کا کام کررہے ہیں ، ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ وہ امت کے زیادہ سے زیادہ افراد کو اس کام سے جوڑیں ، اور جب اس طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں ، جن سے دوسرے کاموں پر زد پڑتی ہو تو لوگ جڑ نے کے بجائے ٹوٹنے لگتے ہیں ۔
اگر اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو مختلف شعبوں کی شخصیات کے احوال اس دور کے اہل علم نے جمع کئے ہیں، محدثین اور راویان حدیث کے حالات پر تو ضخیم اور وسیع لڑیچر موجود ہے ہی، لیکن ان کے علاوہ مفسرین ، فقہاء ، ادبا ء ، مؤرخین اور حکما ء و مصنفین کے احوال پر بھی کتابیں موجود ہیں ، جن کو عام طور پر طبقات یا تراجم کے نام سے جمع کیا گیا ہے، صوفیاء کے احوال پر عام طور پرابتدائی دور میں کتابیں نہیں ملتیں یا بہت کم ملتی ہیں البتہ بر صغیر میں اس موضوع پر ایک حد تک توجہ دی گئی ہے ، مگر اس کے باوجود کہ دعوت دین اور تبلیغ اسلام ایک بنیادی خدمت ہے اور ایسا فریضہ ہے جس کا قرآن پاک میں بار بار ذکر آیا ہے، دعاۃ و مبلغین کے طبقات و تراجم پرکوئی قابل ذکر کتاب نہیں ملتی، ہندوستان میں ایک مستشرق نے ‘‘ پریچنگ آف اسلام’’ کے نام سے اس موضوع پر قلم اٹھایا تو اس کوایسی محنت کرنی پڑی، جو واقعی چونٹیوں کے منہ سے شکر جمع کرنے کے مترادف تھی، ادھر عالم عرب میں اس موضوع پر بعض کتابیں آئیں ہیں، لیکن وہ بھی بہت مختصر اور تشنہ ہیں۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ..... بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ دعوت دین کا جب بھی کام کیا گیا، کسی تشہیر کے بغیر اخفاء او رشہرت سے دوری اختیار کرتے ہوئے کیا گیا، دعوت کے لئے موزوں طریقہ یہی ہے، مکہ سے جن لوگوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ، ان کی تعداد تین سو سے کچھ زیادہ یا کچھ کم تھی، یہ سب مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ایمام لائے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کے ایمان لانے کی تفصیل نہیں ملتی، اسی طرح مدینہ منورہ میں صلح حدیبیہ تک کم سے کم ڈیڑھ ہزار لوگ مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے، کیونکہ پندرہ سو کے قریب افراد تو اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، فتح مکہ کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار افراد تھے تو یقیناً ایمان لانے والوں کی تعداد اس سے زیادہ رہی ہوگی، اور حجۃ الوداع میں آپ کے رفقاءسفر کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر تھی اور ظاہر ہے کہ اس کے علاوہ بہت سے مسلمان وہ ہوں گے، جو اس حج میں شریک نہیں ہوپائے ہوں گے، لیکن اتنی بڑی تعداد میں شاید دو چار آدمیوں کے قبول اسلام کی تفصیل حدیث وتفسیر میں مل جائے، پھر اسلام کی کرنیں پھیلتی گئیں، پورا یمن، پورا ایران، برصغیر کا بڑا حصہ اور مشرق بعید کے کئی ممالک میں اسلام کی اشاعت ہوئی، تاتاریوں کے مختلف قبائل نے اسلام قبول کیا، ترک دامن اسلام میں آئے افریقہ کے ایک بڑے خطہ میں اسلام اشاعت ہوئی ، اس پوری تاریخ میں قبول اسلام کے دو چار واقعے ہی ایسے ملتے ہیں ، جو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں، خود ہندوستان میں خواجہ معین الدین ا جمیری رحمۃ اللہ علیہ، شاہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ، سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا کرامت علی جونپوری رحمۃ اللہ علیہ اور متعدد صوفیاء اور مشائخ رحمہم اللہ نے بڑے پیمانے پر دعوتِ اسلام کا کیا او رلاکھوں لوگ ان کے ہاتھ پر ایمان لائے ، مگر ان کے اسلام لانے کا باعث کیا ہوا؟ اس سلسلے میں نہ مؤرخین کا بیان ملتاہے نہ تومسلموں کی آپ بیتی، صرف اِکا دُکا واقعات کہیں آگئے ہیں۔
دعوت کی تاریخ کا پردہ خفا میں رہنا اور داعیان حق کے تذکرہ کا تاریخی ریکارڈ دستیاب نہ ہونا دراصل اس بات کی شہادت ہے کہ دعوت کا کام بے حد اخلاص اور اخفاء کے ساتھ کرنے کا کام ہے، یہ مدرسہ نہیں جس کے داخلہ کااعلان اخبارات میں آئے ، یہ خانقاہ نہیں جس کے مراسم کا نظام شائع ہو، یہ ایسی تحریک نہیں کہ جس کی کامیابیوں کا خوب چرچا کیا جائے، کیونکہ مدرسہ و خانقاہ او رمسلمانوں کی ملی تحریک سے غیر مسلموں کا کوئی ٹکراؤ نہیں، مگر دعوت کا معاملہ اس سے مختلف ہے، اس میں تشہیر سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے، یہ گھلنے او رمٹ جانے کا کام ہے، یہ چراغ کی لو نہیں جو نظرآتی ہے، بلکہ یہ اس کا تیل ہے جو پیچھے رہتا ہے، لیکن اس کا ایک ایک قطرہ نذر آتش ہوجاتا ہے، تاکہ اپنے آپ کو پھونک کر زمانہ کو روشنی بخشے۔
مگر ادھر ایک نئی صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ دعوتی کا موں کی بہت تشہیر ہونے لگی ہے، یہ اگر حلقہ تربیت تک محدود ہوتو حرج نہیں ،مگر عوام الناس میں تقریر و تحریر کے ذریعہ کامیابیوں کا بہ کثرت ذکر کیا جاتا ہے، اور جو لوگ دعوت سے متأثر ہوتے ہیں ، وہ بھی اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہیں ، پھر جب مختلف لوگ واسطہ در واسطہ اس طرح کی باتیں بیان کرتے ہیں تو عام طور پر یہ مبالغہ سے خالی نہیں رہ پاتیں ، قلبی واردات اور مبشرات نا ممکن نہیں ہیں، مگر ان کو دین میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے، بعض دفعہ ان کو اس طرح پیش کیا جاتاہے کہ گویا یہ دلیل اور حجت ہیں، اگر چہ خود داعی اس طرح کی بات نہ کرے، لیکن معتقدین اس کو حد تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں ، ایسی باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ، آج کی دنیا واقعات کو تولنے کی دنیا ہے، لہٰذا جب کوئی بات مبالغہ آمیز محسوس ہوتی ہے تو اس سے بدگمانی جنم لیتی ہے ، دوسرا نقصان یہ ہوتاہے کہ اسلام مخالف طاقتیں فتنہ ارتداد کو بڑھا وا دینے لگتی ہیں، اور ان واقعات کو سامنے رکھ کر اپنے لوگوں کو اُکساتی ہیں، چنانچہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ گذشتہ دس بارہ سال میں دعوتی کام میں بھی اضافہ ہوا ہے اور فتنہ ارتداد بھی اسی رفتار سے بڑھا ہے، بلکہ اگر غور کریں تو جن علاقوں میں برادران وطن میں دعوت کے کام کا زیادہ چرچا ہے، اکثر انہیں علاقوں میں ار تداد کے واقعات بھی زیادہ پیش آئے ہیں ، اس سلسلے میں مینا کشی پورم کا تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ تاریخ میں کئی میناکسی پورم واقع ہوچکے تھے ، جہاں لوگوں نے اجتماعی پر اسلام قبول کیا تھا، لیکن ا س واقعہ کو خود مسلم تنظیموں نے بڑی شہرت دی، آخر دعوت اسلام کی لہر تھم گئی، اور فرقہ پرستوں کے کان کھڑے ہوگئے، ہمیں خود اپنے عمل سے اس تاریخ کو دہرانا نہیں چاہئے اور اس کام کو اسی طریق پر کرتے رہنا چاہئے ، جیسا کہ سلف صالحین نے کیا تھا۔
دعوت اسلام کا کام بے حد اہم ہے، جو لوگ اس خدمت میں لگے ہوئے ہیں ، وہ بے حد تحسین و آفرین کے مستحق ہیں او رامت کی طرف سے فرض کفایہ کو ادا کررہے ہیں ، اس سطور کا مقصد ہر گز ان کے کام کی اہمیت کو کم کرنا او ران کی خدمت کی ناقدری کرنا نہیں ہے، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ اتنے عظیم ، اہم اور بہتر کام کو ایسی کوتاہیوں سے آلودہ کرنے سے بچاجائے، جس سے اصل مقصد فوت جائے یا جن سے ایسے مفاسد در آئیں کہ کام کے وسیع ہونے کے بعد ان کی تلافی دشوار ہوجائے ۔ واللہ ھو المستعان۔
12 اپریل، 2013 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL for Urdu article Episode-1
https://newageislam.com/urdu-section/to-religious-preachers-/d/11145
URLfor this article:
https://newageislam.com/urdu-section/to-religious-preachers-part-2/d/11156