مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
31 جنوری، 2014
عربی زبان میں کسی چیز کے باقی رہ جانے والے ایسے وصف یاجزو کو ’’اثر ‘‘کہتے ہیں جس سے اس کی شناخت کی جاسکتی ہے، جیسے کپڑے پر رنگ لگ گیاہو ، اسے دھویا جائے لیکن رنگت ختم نہ ہو، اس کورنگ کا بچاہوااثر کہتے ہیں۔اسی طرح خوشبو کا اثر ، بدبو کااثر وغیرہ تعبیر ات اختیار کی جاتی ہیں۔ کسی قوم کی تہذیب وثقافت یا کسی مذہبی گروہ کے مذہبی تصورات کی جونشانیاں باقی رہ جاتی ہیں، ان کو بھی اثر کہتے ہیں ، جس کی جمع ’’آثار‘‘ ہے،اسی کو اہل لغت نے ’’مخلفات ثقافیۃ لقوم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں تاریخی آثار کوغیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے، اوراس کو کسی بھی ملک یاقوم کے لئے باعث انتخاب سمجھاجاتا ہے؛ اس لئے ہر مذہبی اورتہذیبی گروہ اپنے تاریخی آثار کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے اوربعض تاریخی یادگار یں تو ایسی ہیں کہ ان کو عالمی ورثہ (World Heritage) قرار دے دیاگیا ہے۔ جہاں یہ آثار موجود ہیں ، وہاں کی حکومتیں ان کو محفوظ رکھنے کی پابند ہیں بلکہ بعض مقامات پر تو حقیقی تاریخی ورثہ کو مصنوعی آثار کے ذریعہ زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، جیسے یہودیوں نے ہولوکاسٹ کے مصنوعی میوزیم بنائے ہیں ، یاجاپان میں ایٹم بم کی ہلاکتوں کیلئے علامتی شناخت بنائی گئی ہے۔
اسلام میں بھی تاریخی آثار کو اہمیت دی گئی ہے۔ ان میں بعض آثار وہ ہیں جن سے عبرت و موعظت متعلق ہے، ان کا تعلق ان قوموں سے ہے جن پر عذاب نازل ہوا، جیسے قوم عادوثمو د کے پہاڑوں سے تراشے ہوئے پرشکوہ محلات حجاز سے قریب ہی تھے، مشرکین مکہ کو متوجہ کیاگیاکہ وہ ان آثار سے عبرت حاصل کریں کہ کیسی کیسی طاقتور ، علم وفن سے آگاہ اوراپنے عہد کی غالب وفاتح قومیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اوراس کے بھیجے ہوئے پیغمبر وں کے ساتھ سرتابی وسرکشی کی وجہ سے نیست ونابود کردی گئیں، صفحہ ہستی سے ان کانام و نشان مٹ گیا، اسی طرح قوم لوط پر ایسا عذاب نازل ہوا کہ سطح زمین ان پر پلٹ کررکھ دی گئی، اوراس وقت ان کی بستی پر بے حد نمکین پانی کاایک ایسا بحیرہ موجود ہے، جس کو بحرمردار کہا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارے میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بعد والوں کے لئے ایک نشانی بنا دیا ہے،نشانی سے مراد عزت وسربلندی کی نشانی نہیں ہے ، عبرت وموعظت کی نشانی ہے، غرض کہ وہ آثار جن سے عظمت وتقدیس متعلق ہے ان کی اہمیت تو ہے ہی لیکن جوآثار عبرت ہیں ، ان کو بھی اسلام نے اہمیت دی ہے، اورتلقین کی ہے کہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں۔
جومقامات روحانی اعتبار سے مقدس اور قابل احترام ہیں، ان کی اہمیت تو ظاہر ہے، قرآن و حدیث میں اس کی واضح بنیادیں موجود ہیں۔ مقدس آثار میں اولین ورثہ ’کعبہ ٔ مشرفہ ‘ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت کے ساتھ ساتھ اس کی تاریخی قدامت اورقدیم ترین تاریخی ورثہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کائنات ارضی میں پہلا گھر ہے، جو مکہ مکرمہ میں انسان کے عبادت کرنے کے لئے تعمیر کیاگیا، اوریہ بڑی برکتوں والاہے :ان اول بیت وضع للناس ببکۃ مْبٰرکا وہدی للعٰالمین (آل عمران : 96) اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی آثار برکت وعظمت کے حامل ہیں، اوریہاں اپنے روحانی جذبہ کو فروغ دینے کیلئے لوگوں کاآناجانا اور ان کو محبت واعتقاد کی نظر سے دیکھنا کوئی خلاف شریعت عمل نہیں۔
اگر چہ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ کعبۃ اللہ کی پہلی تعمیر فرشتوں کے ہاتھوں یاحضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھ ہوئی لیکن حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اس عمارت کی تعمیر نو حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہماالسلام کے ذریعہ ہوئی۔ قرآن مجید نے وضاحت اورتفصیل کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے: واذیرفع ابراہیم القواعد من البیت واسمٰعیل۔۔۔ (البقرہ : 127) اس زمانے میں آج کل کی طرح نہ کرین تھے اورنہ غالباً ایسی سیڑھیاں تھیں، جوایک جگہ سے دوسری جگہ بہ آسانی منتقل کی جائیں، اس لئے حضرت ابراہیم علیہماالسلام و حضرت اسمٰعیل علیہماالسلام کو ایک معجزہ عطا فرمایا گیاکہ انہوں نے دیوار کعبہ کی تعمیر میں مدد کے لئے ایک چبوترہ بنایا،یہ چبوترہ تعمیر ی ضرورت کے لحاظ سے بڑھتا اورگھٹتا رہتا تھا اورحضرت ابراہیم علیہماالسلام کے پائے مبارک کا نقش اس پر ثبت ہوگیاتھا۔ یہی نقش ’’ مقام ابراہیم‘‘ کہلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے تین سوسال پہلے تک لوگ حضرت ابراہیم علیہماالسلام کے دینِ صحیح پر قائم تھے، اوراس کو’’ دین حنیف ‘‘کہاکرتے تھے، اس کے بعد عمروبن لحی کے ذریعہ جزیرۃ العرب میں بت پرستی کا رواج ہوا اور آہستہ آہستہ پورے عرب پر یہ تصور ایک سیاہ گھٹاکی طرح چھاگیا لیکن شرک سے آلودہ ہونے کے باوجود اہل عرب حضرت ابراہیم علیہماالسلام سے محبت وعقید ت رکھتے تھے، اور جو مقامات و واقعات ان کی حیات طیبہ سے متعلق تھے ، ان کو اپنے لئے سرمۂ چشم بنایا کرتے تھے ؛ اس لئے انہوں نے مقام ابراہیم کی حفاظت کی، اورجب پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حجاز مقدس میں توحید کی آواز بلند ہوئی تو مسلمانوں کی خواہش ہوئی کہ حضرت ابراہیم علیہماالسلام جیسے معلم توحید کے نقش پاکو خصوصی اہمیت دی جائے اور اسے اپنی نماز گاہ بنایاجائے ؛ چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ کیا ہم اپنے باپ ابراہیم علیہماالسلام کی اس جگہ کو مصلیٰ(نمازگاہ) نہ بنالیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاچونکہ ہر عمل حکم الٰہی کے تحت ہواکرتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھ کو ابھی اس کا حکم نہیں دیاگیا۔ چنانچہ دن گزرا نہیں اورسورج نے اپنا منہ چھپایا نہیں کہ حکمِ خداوندی نازل ہوا:’’ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلّیٰ‘‘ (بقرۃ:125)یعنی مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ۔ (مفاتیح الغیب:4 ۔ 144) ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کایہ حکم حضرت ابراہیم علیہماالسلام کی یاد گار کوزندہ رکھنے اوراس سے شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے برکت حاصل کرنے کا حکم ہے البتہ یہ ضروری ہے کہ جذباتِ محبت احکام الٰہی کے پابند ہوں۔اسی لئے علامہ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ نے قتادہ سے نقل کیا ہے کہ ہمیں مقام ابراہیم کے پاس صرف نماز پڑھنے کاحکم دیا گیاہے، اس پر ہاتھ پھیرنے کاحکم نہیں دیاگیاہے، مگر یہ امت بعض ایسے تکلفات میں مبتلا ہوگئی، گزشتہ امتوں نے بھی جس کا ارتکاب نہیں کیاتھا:۔۔۔ ولقد تکلفت ہذہ الامۃ شیئا ماتکلفتہ الامم قبلہا (ابن کثیر :1۔417)۔
آثار مبارکہ میں سے ایک حجراسود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ پتھر جنت سے اتارا گیا ہے ، یہ دودھ سے زیادہ سفید تھا؛ لیکن بنی آدم کے گناہوں کو جذب کرتے کرتے سیاہ ہوگیا۔ (ترمذی :باب جاء فی فضل ذکر الحجر الاسود: 877، نیز دیکھئے :نسائی:2935،مسند احمد :2796) حجراسود کی تقبیل یااس کے چھونے یااس کی طرف اشارہ کرنے کوطواف جیسی عبادت کاجزوبنادیاگیا۔
آثار مبارکہ ہی میں صفا اورمروہ کوشامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ دوپہاڑیاں ہیں، حضرت ہاجرہ اپنے شیرخوار اورپیارے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل علیہماالسلام کے لئے پانی کی تلاش میں صفا سے مروہ اورمروہ سے صفاکی طرف جاتیں کہ کہیں کوئی قافلہ نظر آجائے اورپانی کی چند بوند میسر آجائیں، جن سے فرزند دلبند کا حلق ترکرسکیں، نیز جب نشیب میں آجاتیں اورحضرت اسماعیل نظر سے اوجھل ہوجاتے توماں کی ممتااوربے قرار ہوجاتی اوراس حصہ سے دوڑ کر گزرتیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کی اس ادا کو اورجن مقامات سے ان کا یہ عمل متعلق تھا، ان مقامات کو کچھ اس طرح یادگار بنایا کہ ہرحاجی اورہر عمرہ کرنے والے پرصفا اورمروہ کی سعی کوواجب قراردے دیاگیا اوراس نشیبی حصہ میں جو سبز روشنی کی علامت لگادیئے جانے کی وجہ سے ’’ میلین اخضرین ‘‘کہلاتا ہے، تیز چلنے کو مسنون قراردے دیا گیا ، نیز ان مقامات کواللہ تعالیٰ کے شعائر میں شمار کیاگیا، ان الصفا ولمروۃ من شعائراللہ فمن حج البیت اواعتمر فلاجناح علیہ ان یطوف بہما(بقر?:158)
اللہ کی قدرت یوں ظاہرہوئی کہ جو اسمٰعیل علیہماالسلام پانی کے ایک قطرے کے لئے بے قرار تھے ، ان کی ایڑیوں کے نیچے سے اللہ کے حکم سے ایسا چشمہ جاری ہوا ، جس سے نکلنے والا آبِ حیات پوری دنیاکو سیراب کررہاہے، اورآج مشرق سے مغرب اورشمال سے جنوب تک دنیا کاکوئی گوشہ نہیں جہاں اس کا فیض نہ پہنچتاہو اورلوگ محبت و عقیدت کے جذبات کے ساتھ اسے سرآنکھوں پر نہ رکھتے ہوں ، یعنی آبِ زم زم۔ یہ بھی یقیناً اللہ کے برگزیدہ بندوں کے آثار میں سے ہے۔ روئے ارض کی مقدس مسجدوں میں مسجد حرام مکہ مکرمہ کے بعد مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے، مسجد حرام کے بعد اس میں نماز پڑھنے کا اجر بمقابلہ دوسری تمام مسجدوں کے زیادہ ہے، بظاہر ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعمیر میں شرکت فرمائی اوریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار میں سے ہے، اسی طرح تیسری افضل ترین مسجد مسجداقصیٰ (بیت المقدس) ہے ، جس کو ہیکل سلیمانی پر تعمیر کیاگیاہے، یعنی سب سے پہلے اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس مسجد کی تعمیر فرمائی ،یہ مسجد مختلف انقلابات کی نذرہوتی رہی ، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بیت المقد س فتح ہوا، اس وقت مسلمانوں نے اس کی تعمیرنو کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن تین مسجدوں کی طرف خصوصی طور پر سفر کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ، ان میں ایک یہ مسجد بھی ہے، یہ اللہ کے نبی حضرت سلیمان کے آثار مبارکہ میں سے ہے۔
قرآنِ مجید میں دو اورآثار کاذکر ملتاہے ، ایک اس تابوت کا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی بچی ہوئی اشیاء تھیں ،بنی اسرائیل ہمیشہ جنگ میں تبرکاً اس تابوت کو اپنے آگے رکھتے اورفتح یاب ہوتے ، مگر پھر ان کی شامت اعمال کی وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ دشمنوں نے اس تابوت پر بھی قبضہ کرلیا، آخر جب حضرت طالوت کواللہ کی طرف سے فرمانروائی پر مامور کیاگیا، اور بنی اسرائیل ان کی حکمرانی تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے تو اللہ کی طرف سے تابوت کی واپسی کوان کے عادل وصادق حکمراں مقرر کئے جانے کی علامت قرار دیاگیا۔پھر کچھ ایسے حالات پیداہوئے کہ دشمنوں نے خو د اس تابوت کو ایک سواری پر رکھ کر اسے بنی اسرائیل کی طرف ہنکادیا (بقرۃ :248) ظاہر ہے یہ انبیاء بنی اسرائیل کے تبرکات وآثار ہی تھے، جس کو بنی اسرائیل حصول برکت کاذریعہ بناتے تھے، قرآن مجید کا اس واقعہ کو ذکر کرنا متبرک آثار کی اہمیت کی واضح دلیل ہے! (جاری)
31 جنوری، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/destruction-heritage-saudi-arabia-islamic/d/35559