مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
24 دسمبر 2021
دہلی کے جنوب میں راجپوت
نومسلموں کی ایک قدیم آبادی تھی ، یہ میو کہلاتے تھے اور اسی مناسبت سے یہ علاقہ
میوات کہلاتا تھا ، شجاعت و بہادری اور جنگ جو یا نہ صلاحیت متوار ثاً ان کے رگ و
ریشہ میں سرایت تھی، مسلمانوں کے عہد حکومت میں دارالسلطنت دہلی پر آئے دن ان کی
طرف سے لوٹ مار ہوتی رہتی تھی اور حکومتوں کو گاہے گاہے ان کی سر کوبی کے لئے باضابطہ
فوج کشی کرنی پڑتی تھی، غالباً اسی وحشت و جہالت کی وجہ سے یہ ایک فراموش کردہ
گروہ تھا ، جو ایمان اور کفر کے درمیان زندگی گزار رہا تھا۔ عیدین، محرم، شب برأ
ت اگر ان کے مسلمان ہونے کی پہچان تھی ، تو غیر مسلم تہوار بھی وہ کم جوش و خروش
سے نہیں مناتے تھے، وہ شادیوں کے لئے تاریخ برہمن سے لیتے اور برہمن اور قاضی
دونوں کے اشتراک سے رسم نکاح انجام دیتے، دھوتی مردوں کا عام لباس تھا اور مسجدیں
ان کی آبادیوں میں خال خال ہوتی تھیں، جو تھیں وہ بھی نمازیوں کے لئے مرثیہ خواں
ہوتی تھیں ۔
تبلیغی جماعت کا دائرہ پوری
دنیا میں پھیلا ہوا ہے ۔ ۔ تصویر: آئی این این
-------
اللہ تعالیٰ نے اس طبقہ
کی اصلاح کا ایک غیبی نظام پیدا فرمایا کہ بستی نظام الدین دہلی میں ( جو اس زمانہ
میں گویا میوات کی سرحد تھی) ایک بزرگ مولانا محمد اسماعیلؒ قیام پزیر ہوئے، انہوں
نے اس بھلائے اور ٹھکرائے ہوئے علاقہ کو اپنی کوششوں کی آماجگاہ بنایا اور اس
علاقے میں ایک مکتب قائم کیا۔ وہاں میوات سے دینی تعلیم کے لئے بچوں کو لانے لگے
اور اس علاقہ میں آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس طرح میواتیوں میں محبت کی
چنگاری جل اُٹھی ۔ انہوں نے سوچا کہ یہ کون ہے جو ٹھکرائے ہوؤں کو گلے لگاتا ہے!
اور اس طرح اس سرکش قوم کا ایک گروہ بارگاہ اسماعیلی میں سرخمیدہ ہونے لگا۔ مولا
نامحمد اسماعیل صاحبؒ کے بعد ان کے بڑے فرزند مولانا محمد صاحبؒ نے اس جگہ کو
سنبھالا اور اپنے والد کے مشن کو آگے بڑھایا۔ محبت کا جو تخم بویا گیا تھا، اس کی
جڑیں کچھ اور مضبوط ہوئیں۔ مولانا محمد صاحب کی وفات کے بعد ایک ایسے شخص نے اس
مسند کو سنبھالا جو محبت کا سودا گر تھا، جس کے رگ و ریشہ میں اُمت کا پیار سمایا
ہوا تھا، جس کا دلِ درد مند ہر لمحہ اُمت کے لے تڑپتا اور پھڑکتا رہتا تھا، اُس کی
آنکھیں انسانیت کے غم میں شب و روز آنسوؤں سے وضو کیا کرتی تھیں، جس کی زبان
لکنت زدہ تھی؛ لیکن اخلاص و ایمان کی حرارت اور درد دل کی گھلاوٹ کی وجہ سے لوہے
کو موم اور شعلہ کو شبنم بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی، وہ شخصیت تھی مولانا محمد
الیاس صاحب کاندھلویؒ کی، جو مولانا محمد اسماعیل کے صاحبزادے اور مولانا محمد کے
برادر خورد تھے ۔
وہ اس وقت مظاہر علوم
سہارن پور میں اچھے خاصے، کامیاب اور مقبول مدرس تھے اور ہر طرح کے بار غم سے
آزاد لیکن خدا نے جس کو غم سہنے اور غم اٹھانے کے لئے پیدا کیا ہو، وہ کیوں کر اس
بوجھ سے آزاد رہ سکتا ہے؟ میواتیوں کی فکر اور ان کی بے دینی کاغم مولانا کو
سہارن پور سے میوات لایا۔ اس وقت مولانا کے پاس سرمایہ زندگی کچھ بھی نہ تھا؛
البتہ اللہ پر توکل کی متاع گراں مایہ ساتھ تھی اور بار ہا ایسا بھی ہوتا تھا ، کہ
آپ فاقہ مستی کی لذتوں سے اپنے آپ کو شاد کام فرماتے تھے ۔ میوات میں مدارس کے
لئے مالی وسائل فراہم کرنا تو دور کی بات ہے، لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے بھی
روادار نہیں تھے، ان حالات میں آپ نے گاؤں گاؤں قیام ِمکاتب کی تحریک چلائی اور
بے شمار مکتب قائم فرمائے؛ لیکن میوات میں جہالت و بد دینی کا جو طوفان تھا ،
مکاتب کے یہ کمزور دِیے ان کو روکنے میں چنداں مؤثر ثابت نہیں ہوئے اور مولانا کی
بے قراری بڑھتی ہی گئی، یہاں تک کہ جب ایک مکتب کا حافظ جذبۂ مسرت و افتخار کے
ساتھ آپ کے سامنے پیش کیا گیا اور آپ نے دیکھا کہ اس کی داڑھی منڈی ہوئی ہے اور
وضع قطع میں کہیں مسلمانیت کا کوئی رنگ نہیں، تو آپ اور بے چین ہوگئے۔ اس واقعہ
نے اُمت کے اسیر غم کو اور بھی گھلانا شروع کر دیا ۔
یہاں تک کہ شوال ۱۳۲۴ھ میں دوسری بار حج کے
لئے روانہ ہوئے، جب مدینہ سے واپسی کا وقت آیا تو مولانا پر ایک عجب اضطرابی
کیفیت طاری تھی، ایسی کہ جیسے ایک غلام نے طے کر لیا ہو کہ اپنے آقا سے دامن مراد
بھرے بغیر چوکھٹ چھوڑے گا نہیں، یہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں دعوت و اصلاح
کا وہ طریقہ ڈالا جو آج تبلیغی تحریک کے نام سے معروف ہے۔مولانا کو خواب میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ ہم تم سے کام لیں
گے، تمہیں ہندوستان واپس جانا چاہئے، ۲۹؍
ذیقعدہ ۱۳۴۸ھ
کو جامع مسجد سہارنپور میں مولانا نے اس سلسلہ کا پہلا خطاب فرمایا، دعوت و تبلیغ
کے کام کے لئے افراد کی تشکیل کی، پھر ان ہی دِنوں میں دعوت کے اُصول مقرر فرمائے۔
ابتداء میں آپ نے دعوت کے مضمون کو اتنی وسعت دی تھی کہ وہ ۶۰؍
تک پہنچ گئے؛ لیکن ظاہرہے کہ مولانا جس طرح اُمت کے ہر طبقہ سے یہ کام لینا چاہتے
تھے، ان کے لئے احکام دین کی اتنی طویل فہرست کو سنبھالنا ممکن نہیں تھا، اس لئے
تجربہ سے مختصر کرتے ہوئے مولانا نے اس تحریک کو چھ نکات پر مرتکز فرمادیا : ایمان
، اخلاص ، نماز ، علم وذکر، تبلیغ اور اکرام مسلم ، یہ ایسی باتیں ہیں ، جن پر
اُمت کے تمام طبقات کا اتفاق ہے اور جس سے کسی مسلمان کیلئے اختلاف کی گنجائش
نہیں۔
قدرت نے انسان کو پانی
فراہم کرنے کے دو ذرائع رکھے ہیں: ایک کنواں اور دریا، جہاں پیاسے خود پہنچتے ہیں،
دوسرے: بادل جو پانی کی کشکول اُٹھائے، در درکا چکر لگاتا ہے اورخود پیاسوں کو
پانی پہنچاتا ہے۔ مولانا چاہتے تھے کہ جیسے مدارس اور خانقاہیں، علم و اصلاح کے سر
چشمے اور سمندر ہیں، ویسے ہی علم کا ایک بادل بھی اُٹھے اور بے طلبوں تک دین کا
آب حیات پہنچائے کہ انبیاء کے یہاں اشاعت دین کے یہ دونوں طریقے موجود تھے، ایک
طرف لوگ دار ارقم (مکہ) اور صفہ ( مدینہ) پہنچ کر انوار نبوت سے اپنے سینے معمور
کرتے تھے، تو دوسری طرف مکہ کی گلیوں، طائف کے بازاروں اور عرب کے دورو دراز قبیلوں
تک خود آفتاب نبوت پہنچتا تھا اور جو لوگ نورِ حقیقت سے ناآشنا تھے ، ان میں اس
کی طلب پیدا کرتا تھا ۔
مولانا کو اس بات پر پورا
یقین تھا کہ دعوت الی اللہ کا جو نہج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار
فرمایا تھا، وہی سادہ طریقہ مفید و کار آمد ہے، اس لئے سادگی اور رسمیات سے آزاد
ہو کر کام کرنے اوراللہ کے سامنے رونے دھونے، گڑگڑانے، مانگنے اور تڑپنے، التجا کا
ہاتھ پھیلانے اور رات کی تنہائیوں کو نالۂ نیم شبی اور آہ سحرگاہی سے آباد
رکھنے کے ذریعہ ہی اس کام کو تقویت حاصل ہو سکتی ہے؛ چنانچہ اسی طریقہ و نہج پر
مولانا نے اس تحریک کو شروع کیا اور زندگی کے آخری لمحہ تک اُمت کے غم میں گُھلتے
اور اس کو آگے بڑھانے کے لئے فکر مند رہے اور اس کے برگ و بار بھی اپنی آنکھوں
سے دیکھے۔ ۲۱؍
رجب ۱۳۶۳ھ
شنبہ کو ٹھیک اذان فجر کے وقت جب صبح صادق طلوع ہو رہا تھا، اصلاحِ اُمت کی فکر
میں اپنے سینہ کو جلانے والا یہ چراغ بجھ گیا اور تحریک کے بزرگوں کے مشورہ سے آپ
کے فرزند ارجمند، داعی الی اللہ مولانا محمد یوسفؒ صاحب کو آپ کا جانشین منتخب
کیا گیا اور آپ کا عمامہ بزرگوں کے ہاتھوں مولانا یوسف صاحب کے زیب سر ہوا ۔
مولانا یوسف صاحب کو
ابتداءًمیں کار دعوت سے کچھ زیادہ اشتغال نہیں تھا؛ لیکن اپنے والد ماجد کی آخری
زندگی میں اس طرف توجہ ہوئی، پھر تو وہ اس تحریک کے لئے یوسف مصر بن کر درخشاں
ہوئے اور ان کے روئے عالمتاب سے مشرق و مغرب تک اس تحریک کی روشنی پہنچی۔ ۲۹؍
ذی قعدہ ۱۳۸۴ھ
کو ایک دعوتی سفر کے دوران آپ کی وفات ہوئی۔ مولانا کو اُمت کا درد اور ان کی فکر
و الد ماجد سے بکمال و تمام میراث میں ملی تھی، انہیں کم مدت ملی؛ لیکن اس پوری
مدت میں وہ ایک ’’ سکوں نا آشنا پارہ ‘‘ کی طرح تڑپتے اور میکدۂ عشق کے دیوانوں
کو تڑپاتے، اگر مولانا الیاس صاحب کو لکنت موسیٰ سے نسبت حاصل تھی تو مولانا محمد
یوسف صاحب نے بلاغت ہارون سے حصہ پایا تھا اور ان کا خطاب دلوں کی دنیا کو زیر و
زبر کر کے رکھ دیتا تھا، مولانا نے اپنے آخری خطاب میں جو فکر انگیز باتیں ارشاد
فرمائیں، ان سے بالکل صرف نظر کر کے گزر جانا طبیعت کو گوارہ نہیں، آپ نے فرمایا
:
’’اُمت کسی ایک قوم اور ایک علاقہ کے رہنے والے کا نام نہیں؛ بلکہ
سیکڑوں، ہزاروں قوموں اور علاقوں سے جڑکر اُمت بنتی ہے، جو کوئی کسی ایک قوم یا
ایک علاقہ کو اپنا سمجھتا ہے اور دوسروں کو غیر سمجھتا ہے، وہ امت کو ذبح کرتا ہے
اور ٹکرے ٹکرے کرتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کی محنتوں پر پانی
پھیرنے کی جرأت کرتا ہے، اُمت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پہلے خود ہم نے ذبح کیا، یہود و
نصاریٰ نے تو اس کے بعد کٹی کٹائی اُمت کو کاٹا، اگر مسلمان اب بھی اُمت بن جائیں
تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کا بال بیکا نہیں کر سکیں گی، ایٹم بم اور
راکٹ ان کو ختم نہیں کر سکیں گے؛ لیکن اگر وہ قومی اور علاقائی عصبیتوں کی وجہ سے
باہم اُمت کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے رہے تو خدا کی قسم! ہتھیار اور تمہاری فوجیں تم کو
نہیں بچا سکیں گی، صرف کلمہ اور تسبیح سے اُمت نہیں بنے گی، اُمت میل ملاپ اور
معاشرت کی اصلاح سے اورسب کا حق ادا کرنے اورسب کا اکرام کرنے سے بنے گی، تب بنے
گی جب دوسروں کے لئے اپنا حق اپنا مفاد قربان کیا جائے گا، حضور ؐ اورحضرت ابو بکر
ؓ اور حضرت عمر ؓ نے اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنے اوپر تکلیفیں جھیل کر اس اُمت
کو اُمت بنایا تھا۔‘‘( سوانح مولانا انعام الحسنؒ : ۱ ؍
۱۵۰)
غور کیجئے ! اور ان الفاظ
میں جھانکئے کہ ان کے ہر بُن مو سے اُمت کی محبت کاکیسا جذبۂ بے پایاں ظاہر ہوتا
ہے !
مولانا کی وفات کے بعد
مولانا محمد انعام الحسن کاندھلویؒ اس تحریک کے تیسرے امیر منتخب ہوئے، مولانا نہ
صرف اس قافلہ کے اولین شرکاء میں تھے؛ بلکہ وہ مولانا الیاس صاحب کے وقت سے ہی
گویا اس تحریک کا دماغ تھے۔ اُنہوں نے مولانا عبید اللہ بلیاویؒ ، مولانا
محمدعمرپالن پوریؒ اور دوسرے رفقاء کے ساتھ اس تحریک کو دنیا کے کونے کونے تک
پہنچایا اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کے عہد میں یہ تحریک دنیا کی سب سے
وسیع الاثر تحریک بن گئی اور اب شاید ہی کوئی ملک ہو جو اس کے فیض سے محروم ہو۔ ۱۰؍محرم
۱۴۱۶ھ کو مولانا کا انتقال ہو
گیا اور اب تحریک نے اجتماعی قیادت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے تحریک کی تین آزمودہ
کار شخصیتوں کو اس کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے منتخب کیا ، ان میں سے مولانا اظہار
الحسن صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو گئے اور اب دو جواں سال اور جواں حوصلہ ذمہ دار
مولانا محمد سعد صاحب اور مولانا محمد زبیر صاحب اس عالمگیر تحریک کی رہنمائی کا
فریضہ انجام دینے لگے۔
مگر کچھ ہی عرصہ بعد ان
میں سے مولانا محمد زبیر الحسن صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے اور اس قافلۂ حق کے ایک
رکن باقی رہ گئے ہیں، جن کی قیادت میں جماعت کا بڑا حصہ دعوتی سفر طے کر رہا ہے۔
افسوس کہ اس وقت جماعت عملاًدو حصوں میں منقسم ہے، ایک حصہ نظامِ امارت کہلاتا ہے
اور دوسرا حصہ نظام شوریٰ۔ اس بکھراؤ نے جماعت کو بے حد نقصان پہنچایا ہے، اور
شہر سے لے کر دیہات تک ہر جگہ کام کرنے والوں منقسم ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس دوری کو
ختم کر دے اور وحدت واتفاق کی کوئی صورت پیدا فرما دے، آمین۔
تبلیغی جماعت نے ہمیشہ سے
اپنی یہ پالیسی رکھی ہے کہ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست سے دور رہتے ہوئے
خالص مذہبی اُمور کی مسلمانوں کو دعوت دی جائے، اللہ کے بندوں کو اللہ کے گھر تک
لایا جائے، ان میں خوف آخرت کے تحت عمل کا جذبہ اُبھارا جائے، اسی لئے اس جماعت
کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ یہاں آسمان کے اوپر یا زمین کے نیچے کی باتیں
ہوتی ہیں ۔
ہندوستان یا ہندوستان کے
باہر یا کسی مسلم ملک میں تبلیغی جماعت کے افراد کبھی کسی دہشت گردانہ کارروائی
میں شامل نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی مہم جوئی سے ہمیشہ دور رکھا؛
بلکہ بعض لوگوں کو تو ان پر اعتراض رہتا ہے کہ وہ عزیمت کے مقابلہ رخصت کا راستہ
اختیار کرتے ہیں۔ اس تنظیم میں نہ کوئی صدر ہے اور نہ سکریٹری، نہ مسجد سے ہٹ کر
دفتر، نہ پریس اور میڈیا سے کوئی تعلق، نہ اخبار، نہ رسالہ، نہ الیکٹرانک ذرائع
ابلاغ سے کوئی رابطہ، بس ایک کام ہے، بندوں کو اُن کے خالق سے جوڑنا اور یہ کام
بڑی عاجزی اور خاموشی کے ساتھ انجام دیا جاتا ہے؛ لیکن اب اس غیر سیاسی اور خالص
مذہبی تنظیم کا رشتہ بھی دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس طرح کی
باتیں ہندوستان کی فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے پہلے بھی آتی تھیں؛ مگر اس کو کسی
نے قابل توجہ نہیں سمجھا؛ کیوں کہ جن لوگوں نے جماعت کو قریب سے دیکھا ہے، وہ ایسی
باتوں پر یقین کر ہی نہیں سکتے؛ مگر عالم عرب کی شاہی حکومتیں اپنے اقتدار کے تحفظ
کے لئے عوام کے ہر چھوٹے بڑے اجتماع کو خطرہ کی نگاہ سے دیکھنے کی عادی ہیں؛ کیوں کہ
انہیں پورا اندازہ ہے کہ اُن کے عوام اُن سے مطمئن نہیں رہتے؛ اس لئے وہ تبلیغی
جماعت کے بارے میں بھی شک وشبہ میں مبتلا ہیں۔ کام کی عمومی اجازت تو پہلے بھی
نہیں تھی، صرف چشم پوشی سے کام لیا جاتا تھا؛ مگر اب باضابطہ سرکاری علماء وخطباء
کے ذریعہ تبلیغی جماعت کے خلاف تقریریں کرائی جا رہی ہیں، اور جو پابندی پہلے سے
موجود تھی، اس کو مزید سخت کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں فرقہ
پرست گروہوں نے تبلیغی جماعت پر پابندی کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے، اللہ
تعالیٰ ان کے شرور سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔
یہ ایک بہت بڑی سازش معلوم
ہوتی ہے جس کا مقصد ایک ایسی تحریک کو نقصان پہنچانا ہے جو پر رونق شہروں سے لے کر
چھوٹے چھوٹے قریوں ، دیہاتوں اور کم آباد صحراؤں اور جنگلوں تک دعوت دین لے کر
پہنچنے اور مسلمانوں میں مذہبی شناخت پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کا نفع ایک
ناقابل تردید حقیقت ہے۔
میں دین کے تمام کاموں کی
دل سے قدر کرتا ہوں اور مختلف تنظیموں اور تحریکوں کے کاموں کو اختلافِ کار کے
بجائے تقسیم کار خیال کرتا ہوں؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ دعوت و تبلیغ کی یہ تحریک
جتنی دور رس اثر کی حامل ہے اور جتنی انقلاب خیز، اثر انگیز اورطریقہ کار کے
اعتبار سے سادہ اور آسان ہے اور جس طرح قدم قدم پر خدا سے لَو لگانے کا عادی
بناتی ہے، وہ ایک نمونہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کا ایک
گروہ بارانِ حق کا امین اور سحاب ِرحمت بن کر بے طلبوں تک پہنچے اور ان میں طلب
اور پیاس پیدا کرے اور یہ تحریک اِس وقت عملاً اِس کام کو انجام دے رہی ہے ۔
24 دسمبر 2021، بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism