مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
31 اگست، 2012
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی رحمتوں ،برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ رخصت ہوچکا
ہے، ہر شخص نےاپنے دامن اور ظرف کے لحاظ سے
ماہِ رمضان کی سعادتوں کو سمیٹا ہے،خدا کی
نعمتوں اور سعادتوں کو حاصل کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے ، حفاظت
سے مراد یہ ہے کہ رمضان المبارک میں خیر کو قبول کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کو
بجالانے کی جو توفیق میسر آئی ہے، وہ دوسرے دنوں میں بھی باقی رہے ، اسی کو قرآن
مجید نے تقویٰ سے تعبیر کیا ہے:
یَأَ یُّھَا اُ لَّذِینَ
ءَ ا مَنُو ا کُتِبَ عَلَیْکُمُ اُ لصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی اُ لَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ
لَعَکُمْ تَتَّقُونَ (البقرہ: 183)
اے وہ لوگوں جو ایمان لا چکے
ہو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جیسا کہ تم
سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ، شاید کہ تم
تقویٰ اختیار کرو۔
تقویٰ کیا ہے ؟اللہ کی نافرمانی
سے اپنے آپ کو بچانا ، یہ نا فرمانی دو طریقوں پر ہوتی ہے : ایک اللہ تعالیٰ کے حکم
کو توڑ کر ، دوسرے بندوں کے ساتھ ظلم کر کے ، اور اس نافرمانی اور ظلم و نا انصافی کا سبب دو چیزیں ہوتی ہیں: بہتر سے بہتر غذا کی
طلب اور نفسیانی خواہشات کی تکمیل کا تقاضہ ، روزہ ان دونوں خواہشات پر روک لگاتا ہے
، صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک روزہ
دار حلال چیزیں بھی نہیں کھا سکتا اور اس پورے وقت وہ اپنی بیوی سے بھی اپنی ضرورت پوری نہیں کرتا،حالانکہ یہ باتیں
عام حالات میں مباح اور جائز ہیں ، پھر اگر کوئی شخص ایک ماہ اپنے آپ کو جائز خواہشات
سےبھی روکنے پر قادر ہوجائے تو باقی گیارہ مہینوں میں کم سے کم وہ اپنے آپ کو حرام
سے تو بچا سکے گا، اگر 30 دن روزہ رکھنے کے باوجود ایک شخص کے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں
ہوتی تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس نے اس فریضہ کو صحیح جذبہ کے ساتھ انجام نہیں دیا۔
آئیے ! ہم خدا سے عہد کریں
کہ عام طور پر ہم سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں اور خدا کے بندوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی
روا رکھی جاتی ہے، کم سے کم ان سے ہم اپنے آپ کو بچا ئیں گے اور اپنی زندگی میں ایک ایسا انقلاب لائیں گے جو صالح انقلاب ہوگا ،جس میں گناہوں
سے نفرت ہوگی، جس میں نفس کی غلامی سے آزادی ہوگی، جس میں کردار و عمل کی پاکیزگی
ہوگی اور جس میں فکر ونظر کی سلامتی ہوگی۔
رمضان المبارک آتا ہے اور
مسجدیں تنگ پڑنے لگتی ہیں، نچلی اور بالائی منزل بھر کر چھتوں پر اور سڑکوں پر نماز
ی ہوتے ہیں ، نماز یوں کی کثرت کے لحاظ سے
ہر نماز میں نماز جمعہ کا گمان ہوتا
ہے ، لیکن ادھر رمضان گذرا اور ادھر مسجد یں
ویران ہوئیں، اب ایک دو صفیں بھی مشکل سے نظر
آتی ہیں ، یہ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ رمضان المبارک میں اپنے مالک و خالق کی ذات کا جو
استحضار تھا اور اس کی خوشنودی ور ضاجوئی کا
جو جذبہ کار فرما تھا اب وہ ختم ہوچکا ہے، محبت کی آگ بجھ گئی ہے اور خشیت کے شعلے
خاکستر ہوگئے ہیں ، اس لیے اس بات کا عزم کیجئے کہ آج بھی آپ اس سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہوسکتے
، اور جس خدا کے خوف نے کل آپ کا سر جھکا یا تھا، آج بھی اس کی ذات پوری جلال و قدرت
کے ساتھ موجود ہے۔
دوسرا جو گناہ سماج میں دن
بہ دن بڑھتا جارہا ہے ، وہ ہے کسب معاش میں حلال و حرام کے احکام سے بے اعتنائی کا ، حالانکہ حرام ذرائع سے حاصل ہونے
والی چیز وں کوکھانا اور استعمال کرنا عبادتوں کو بھی بے اثر کردیتا ہے ، اور انسان
کی دعائیں بھی اس کی وجہ سے رد کردی جاتی ہیں،
اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ سود کے گناہ کے 70 درجات ہیں
اور ان میں سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ برائی کرے ، بینک
میں جو رقم ڈپازٹ کی جاتی ہے اور جمع کی ہوئی رقم سے زیادہ رقم بینک ادا کرتا ہے ،
وہ بھی سود ہی ہے ، اورکتنے ہی لوگ ہیں جو
ایسے سود کو اپنی خوراک بنارہے ہیں ، نیز کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ جب پولیس
فینا نسروں پر دھاوا کرتی ہے تو ان میں زیادہ
تر مسلمان ہی نکلتے ہیں ، جو غریبو ں کو معمولی قرض دے کر بہت زیادہ تناسب کے
ساتھ سود وصول کیا کرتے ہیں ، یہ سودی قرضے
متعدد لوگوں کی خود کشی اور سربرہان خاندان کی خود کشی کی وجہ سے پورے خاندان کی تباہی
کا باعث بنتے ہیں۔
قمار خانوں میں بھی اچھی خاصی
تعداد مسلمان جو ئے بازوں کی ہوتی ہے ، مسلمان محلوں میں شطرنج اور تاش کی لعنت عام
ہے،بہت سے مسلمان مزدور اونچے انعامات کی حرص میں لاٹری پر لاٹری خریدتے جاتے ہیں
اور اس طرح ان کی گاڑھی کمائی جوئے بازو ں کی نذر ہوجاتی ہے ،تجارت میں دھوکہ
دہی ، عیب پوشی اور جھوٹ کی وبا عام ہوچکی ہے،
یہ سب کمانے اور پیسے حاصل کرنے کے ایسے طریقے ہیں جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے،
سود سے، جوئے سے ، اور تجارت میں بد دیانتی
اور دھوکہ دہی سے بچنے کا عزم مصمم
کر لیجئے ، اس سے آپ کی آخرت بھی سنور جائے
گی اور دنیا میں بھی آپ با عزت اور نیک نام ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اسراف اور
فضول خرچی سے منع فرمایا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو اور غسل میں بھی
ضرورت سے زیادہ پانی کے استعمال کو منع فرمایا ہے، چہ جائے کہ بلا ضرورت او ربے مقصد پیسے خرچ کیے جائیں ، لیکن اس وقت فضول خرچی
ہمارے سماج کا کینسر بن چکا ہے اور ہر چیز میں فضول خرچی کا رجحان عام ہوچکا ہے ، مکانات کی تزئیں و
آرائش پر اتنا خرچ کیا جاتا ہے کہ اس میں کئی مکانات
بن سکتے ہیں ، فرنیچر خرید نے اور مختصر عرصہ کے بعد فرنیچر کی تبدیلی پر بے تحاشا رقمیں خرچ کی جاتی ہیں ، معمولی دعوتوں میں بھی حد سے زیادہ تکلف کیا جاتا
ہے ، نواع و اقسام
کے سالن اور میٹھے اور زیادہ مقدار میں کھانے بنائے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ کھانے
کی اچھی خاصی مقدار پھینک دی جاتی ہے، شادی کی
دعوتوں میں جو فضول خرچیاں ہوتی ہیں
وہ تو سب سے سوا ہیں ،حالانکہ ہمارے معاشرہ میں اللہ کےکتنے
ہی محتاج بندے ہیں، جن کے پاس سر چھپانے
کے لئے جھونپڑی تک نہیں ہے ، اور
جنہیں کھانے کے لئے دو روٹی بھی میسر نہیں
ہے، کیا قیامت کے دن اس کے بارے میں پوچھ نہیں ہوگی؟
طے کر لیجئے کہ ایسے اسراف اور فضول خرچی سے بچیں
گے اور ان ہی پیسوں کو اچھے کاموں میں خرچ کریں گے، اگر دین اور قوم کے لئے
خرچ کرنے کی توفیق میسر آجائے تو کیا کہنا
ہے! لیکن اگر دل اس کے لئے تیار نہ ہو تو کم
سے کم اس کو اپنے اور اپنے بال بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے خرچ کیجئے ،بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائیے ،
صنعتیں لگائیے ، دوکانیں
کھولیئے او رکارخانے قائم کیجئے ، تاکہ
ان پیسوں سے آپ کا مستقبل سنور سکے، کچھ غریبوں
کیلئے روزی روٹی کا سامان میسر آئے اور ذلت
و پستی کا طعنہ کھانے والی امت کا سر بھی بلند
ہو۔
انسانوں کے ساتھ ظلم کی جو
صورتیں مروّج ہیں، ان میں دو باتیں خاص طور
پر قابل توجہ ہیں، ایک تو شادی بیاہ کے موقع
سے لین دین ، صرف حیدر آباد شہر میں ہی ہزاروں لڑکیاں ایسی موجود ہیں جن کی عمریں
30 سال سے زیادہ ہوچکی ہیں ، اور ان کی شادی
نہیں ہوئی ہے ، وہ تعلیم یافتہ بھی ہیں، ہنر
مند او ر سلیقہ شعار بھی ہیں، شکل و صورت کی بھی بری نہیں ہیں، ان کا صرف ایک قصور
ہے کہ وہ غریب ہیں، دولت مند نہیں، ان کا دامن مال سے خالی ہے، اس جرم بے گناہی کی سزا انہیں ا س طرح مل رہی ہے کہ ان کی جوانیاں
گذر گئیں یا گذرنے کو ہیں اور ان کے ہاتھ پیلے نہیں ہوسکے۔جب قحبہ گری کے خلاف چھاپے پڑتے ہیں اور جوان لڑکیاں پکڑی جاتی ہیں تو ایسے واقعات پر لعن و طعن کی جاتی ہے ، جب بیرون ملک کے معمر شہریوں سے کمسن لڑکیوں کے نکاح کا واقعہ پیش آتا ہے تو یہ میڈیا کا موضوع
بن جاتا ہے اور کبھی ان معمر مردوں کو اور کبھی
ان کمسن بچیوں کے والدین کو کوسا جاتا ہے ،لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ واقعات کیوں ظہور میں آتے ہیں؟ اس میں جتنا قصور ان لڑکیوں کو یا ان کے والدین کا ہوتا
ہے ، اس سے زیادہ قصور ظالم سماج کا ہے،جس
نے لڑکی والوں سے بے جا مطالبا ت کی رسم کو
تقویت پہنچائی ، ورنہ کون ماں باپ اپنی پھول جیسی بچیوں کو بے رحم مستقبل کے حوالہ
کرنے کو تیار ہوسکتا ہے اور کو ن شریف لڑکی ہے جو باعزت اور آبرو مندانہ زندگی کی
خواہش مند نہیں ہوتی؟ اس لئے نوجوان اس بات
کا ارادہ کریں کہ وہ اپنا نکاح سنت کے مطابق
انجام دیں گے، گھوڑے جوڑے اور جہیز کی بھیک
لینے کے بجائے اپنی قوت بازو بھروسہ پر کریں
گے، اور اپنی محنت سے اسبابِ زندگی
حاصل کریں گے، عمر رسید ہ اور بوڑھے سر پرستان بھی اس بات کا عزم کریں کہ وہ اپنے بچوں
کا نکاح سنت کے مطابق انجام دیں گے اور عمر
کے اس مرحلہ میں ظلم و جور کے اس گناہ سےاپنے دامن کو بچا کر رکھیں گے، جس سے ان کی
آخرت تباہ ہوگی اور جس سے خود ان کی ذات کو کوئی نفع حاصل نہیں ہوگا۔
دوسرا ظلم جو ہمارے معاشرہ میں عام ہے ، وہ لڑکیوں کو میراث سے محروم
کرنا ہے، ہمارے معاشرہ میں یہ بات بھی عام
ہوچکی ہے کہ بھائی ، بہنوں کو میراث میں حصہ
دینے سے محروم رکھتے ہیں، یہا ں تک کہ خودباپ
بھی لڑکیوں کو اپنی جائیداد میں کچھ دینا نہیں
چاہتے اور خیال کرتے ہیں کہ شادی میں جو کچھ ان کو دے دیا ہے، وہی کافی ہے،
یہ قرآن کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے، قرآن
مجید نے عورت کو بحیثیت ماں، بحیثیت بیٹی ،
اور بحیثیت بیوی میراث کا لازمی حقدار قرار
دیا ہے اور بعض صورتوں میں بہنیں اور دوسری رشتہ دار خواتین بھی وارث بنتی ہیں، یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ
نے میراث کا قانون بیان کرنے کے بعد ‘‘ فریضۃ من اللہ’’ کی تعبیر اختیار فرمائی
ہے۔ جو لوگ حقیقی وارث ہوں ان کو حق نہیں دینا اور ان کے حصے کو بھی اپنے تصرف میں
لے آنا کھلے طریقہ پر حرام مال کو کھانا اور
اپنےمال میں حرام کو شامل کرلینا ہے، افسوس کہ بظاہر دیندار نظر آنے و الے حضرات بھی ان
گناہوں میں مبتلا ہیں۔
یہ کچھ نمایاں برائیاں ہیں، جو سماج کا حصہ بن چکی ہیں، تقویٰ کا کم سے کم تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے سماج کو ان
گناہوں سے پاک کریں ، حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ تقویٰ کا کمال یہ ہے کہ انسان ایک رائی کے دانہ
میں بھی خدا کا خوف محسوس کرے اور بعض
حلال چیز وں کوبھی اس ڈر سے چھوڑ دے کہ کہیں حرام نہ ہو،( الدر المنثور:1؍61)
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ کہتے تھے کہ صاحب تقویٰ کو گویا لگام لگی
ہوتی ہے، اس لئے ایسا نہیں ہوتا کہ جو اس کے دل میں آئے وہ اس کو کر گذرے : ‘‘ التقیِ
ملجم لا یفعل کل ما یر ید’’ ۔( شر ح السنہ للبغوی : 14؍341)
اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار
کرنے والوں کےلئے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے، (آل عمران :172) سب سے اہم بات یہ ہے
کہ تقویٰ اختیار کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب
ہوتا ہے : إِنَّ اُ للَّہَ یُحِبُّ اُ لْمُتَّقِینَ (التوبہ: 4)تقویٰ کی وجہ
سے مؤمن اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرفراز ہوتا ہے : وَاُ عْلَمُو ا أَنَّ اُ للَّہَ
مَعَ اُ لْمُتَّقِینَ ، ( التوبہ: 36) اور اللہ کی نگاہ میں سب سے با عزت اور شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے : إِنَّ
أَکْرَ مَکُمُ عِنُدَ اللہِ أَتُقا کُمُ(الحجرات: 31)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خشیت خداوندی کا ایسا غلبہ ہوتا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ
وسلم دعائیں فرماتے تو سینۂ مبارک سے چکی
پیسنے کی سی آواز آتی تھی۔(ابو دادؤد:
904)
اس لئے رمضان المبارک کا اصل
تحفہ ‘‘ تقویٰ’’ ہے ، جو گناہ کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو تھام لیتا ہے، دنیا ایک راہ
گذار ہے ،انسان اس راہ کا ایک مسافر ہے اور اس سفر کے لئے سب سے بہتر توشہ تقویٰ ہے،فَإ
نَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْویٰ، (البقرہ : 197) حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے
کہ ایک صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت
میں آئے اور عرض کناں ہوئے کہ میں سفر پر
جارہا ہوں ، مجھے زادِ سفر عطا فرمادیجئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ
تعالیٰ تقویٰ کو تمہارا زادِ سفر بنادے ‘‘ زادک اللہ التقویٰ ’’( ترمذی
: 3444) اس لئے رمضان المبارک کی بے پناہ برکتوں اور رحمتوں کو اپنے دامن مراد میں محفوظ کیجئے اور تقویٰ کو اپنا توشۂ سفر بنا کر زندگی کا سفر طے کیجئے ،
کہ راستہ پرُ خار ہے او ر منزل تک پہنچنا ضروری اور ناگزیر بھی ہے!
31 اگست ، 2012 بشکریہ : ہندوستان
ایکسپریس ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/demand-taqwa-/d/8523