مولانا کوثر مجتبیٰ نقوی
20 جولائی ، 2016
امام جعفرؑ صادق کا نام نامی جعفر علیہ السلام ابن محمد اور والد ماجد کا نام امام محمد علیہ السلام ابن علی علیہ السلام والدہ ماجدہ کا نام امّ فروہ بنت قاسم تھا آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چھٹے جانشین یعنی کائنات انسانیت کے چھٹے امام اور آٹھویں معصوم تھے آپ اپنے آباؤ اجدادکی طرح معصوم ، اعلم ، اشجع اور افضل و اعلیٰ تھے (علاّمہ ابن حجر ملی ، صواعق محرقہ 120)
آپ نےاپنے دور میں دین اسلام کو فروع عطا کیا اور اسلام کے تمام احکامات کو لوگوں تک پہنچا یا آپ کو تبلیغ دین کے بہترین مواقع بھی میسر ہوئے یہی وجہ تھی کہ آپ کے نام سے فقہ محمدی کو فقہ جعفری کے نام سے مشہور کردیا گیا کیونکہ آپ کی تبلیغ سے لوگ یہ سمجھے کہ شاید یہ بھی کوئی شریعت یا دین وفقہ لائے ہیں جب کہ آپ اسی دین کی تبلیغ کررہے تھے کہ جو رسول خدا نے پہنچایا تھا آپ کی پوری زندگی تبلیغ دین میں بسر ہوئی ۔ مسائل علمیہ کا حق تلاش کرنے والے جب تھک ہار کے مایوس ہوجاتے تھے آپ کے ان کا حل بآسانی بیان کردیتے تھے آپ کے زمانے میں کوئی بھی کسی بھی اعتبار سے آپ سے افضل یا برتر نہیں تھا بڑے بڑے علماء آپ ہی سے کسب فیض کیا کرتے تھے آج بھی بہت سے افراد وہ ہیں جو آپ کے شاگردوں کے مرید ہیں لیکن ان کو یہ معلو م نہیں کہ ہم جن کے مرید ہیں آخر وہ کس کے مرید تھے ؟ مثلاً امام اعظم ابو حنیفہ کو ماننے والے کتنے افراد ہیں جب کہ خود ان ہی کا فرمان ہے کہ لولاالسنتان لھلک النعمان، اگر یہ دو بزرگ ہستیاں (امام محمد ؑ باقراور امام جعفرؑ صادق) نہ ہوتیں تو ( میں ) نعمان ہلاک ہوجاتا ۔( حدائق الحنفیہ 18۔وسیرۃ النعمان 45۔ ومناقب ابو حنیفہ ج ا 174 وغیرہ۔
حضرت امام جعفر ؑ صادق کی خدمت میں آپ کا جانا کسب فیض کی غرض سے لگا رہتا تھا معتبر کتب تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی جناب ابوحنیفہ امام جعفر ؑ صادق کے پاس آتے تو آپ ان سے امتحاناً و مختصر اً کچھ معلوم کرتے پھر اپنے علم کے سمندر سے ان کو سیراب فرماتے چنانچہ ابن خلکان تحریر کرتے ہیں ایک بار جب وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام ششمؑ نے ان سے دریافت کیا کہ اے ابو حنیفہ میں نے سنا ہے کہ تم مسائل دینیہ میں ‘قیاس’ سے کام لیتے ہو کہنے لگے جی ایسا ہی ہے تو آپ نے فرمایا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ‘اوّل من قاس ابلیس’ دین میں سب سے پہلے قیاس ابلیس نے کیا اور یہ اسی کا کام ہے لہٰذا تم اس سے گریز کیا کرو۔
اسی طرح ایک بار آپ نے ان ے دریافت کیا کہ اےابو حنیفہ یہ بتاؤ کے خداوند کریم نے ، آنکھوں میں نمکینی، کانوں میں تلخی، ناک کے نتھنوں میں رطوبت اور لبوں میں شیرینی کیوں رکھی ہے؟انہوں نے بہت سوچا اور غور و خوض کرنے کے بعد کہا یا امام مجھے اسکا علم نہیں آپ ہی بہترین جاننے والوں میں ہیں تو آپ نے فرمایا کہ سنو، خدا نے ان آنکھوں کو چربی کا ڈھیلا بنا یا ہے اگر ان میں شوریت اور نمکینیت نہ ہوتی تو وہ پگھل جاتیں، کانوں میں تلخی اس لئے رکھی کہ اگر اتنی تلخی نہ ہو تو اس میں کیڑے مکوڑے گھس جاتے، ناک میں رطوبت اس لئے ہے کہ سانس کی آمد و رفت میں آسانی و سہولت ہو اور خوشبو و بدبو محسوس ہوسکے، لبوں میں شیرینی اس لئے رکھی کہ کھانے پینے میں لذت محسوس ہو ،
پھر آپ نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کون سا کلمہ ہے جس کا پہلا حصہّ کفر اور دوسرا حصّہ ایمان ہے جب انہوں نے عذر خواہی کی تو آپ نے فرمایا کہ وہ وہی کلمہ ہے جو تم دن و رات پڑھا کرتے ہو ، سنو اور غور کرو ‘لا الہٰ’ کفر اور الااللہ ایمان ہے ابن خلکان نے اس المصائد 202 پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔ ہم اس کو اختصار کے سبب یہیں تک نقل کرکے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ آپ نے علوم و معارف کے اصول و رموز بھی بتائے اور ان کا عملی پیغام بھی دیا جس میں عدل و انصاف پر بڑا زور دیا ہے۔یقیناً دینی ادارے ہوں یا تعلیمی مراکز ، ان کو اس وقت تک فروغ نہیں مل سکتا جب کہ اس کے ذمہ دار اپنی ذمہ داری کو فی سبیل اللہ انصاف سے انجام نہ دیں، بڑے افسوس کی بات ہے کہ جب کہیں زوال اور بربادی آتی ہے تو بیچارے الّو کو قصور وار ٹھہراتے ہیں ۔ اس بارے میں مولانا رومی نے مثنوی میں ایک دلچسپ مگر سبق آموز کہانی ‘‘ طو طا اور اس کی زوجہ مینا’’ کے عنوان سے لکھی ہے۔ کہ ایک دن طوطا نے اپنی زوجہ مینا کو سیر کرائی تو ان کا گذر اک ویران و سنسان جگہ سے ہوا وہ وہاں آرام کرنے کےلئے اک درخت پر بیٹھ گئے تبھی طوطے نے مینا سے کہا اس علاقے کی ویرانی دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں الوؤں نے بسیرا کیا ہوگا یعنی یہ بستی اجڑی ہوئی دکھائی دے رہی ہے ۔ برابر میں اک شاخ پر الو بیٹھا تھا اس نے ان دونوں کی باتیں سن لیں جب یہ جانے لگے تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا اور طوطے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اسے کہاں لے جارہے ہو یہ تو میری زوجہ ہے؟یہ سن کر طوطا پریشان ہوگیا اور بولا یہ تمہاری زوجہ کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ مینا ہے تم الو ہو۔ اس پر الو نے اک وزیر یا سمجھدار انسان کی طرح ٹھنڈے لہجے میں کہا ۔ ہمیں جھگڑے کی ضرور ت نہیں ہے کسی ذمہ دار یا قاضی کے پاس چلتے ہیں وہ جو فیصلہ کردیں وہ ہمیں منظور ہوگا ۔ طوطے کو مجبوراً اس کے ساتھ جانا پڑا۔ قاضی (جج۔ذمہ دار) نے دونوں طرف کے دلائل کو بڑی تفصیل سے اور بغور سنا ۔ اور اس کی بنیاد پر آخر میں فیصلہ سنایا کہ مینا طوطے کی نہیں الو کی ہے۔ یہ سن کر طوطا روتا ہوا اک طرف کو چل پڑا ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ الو نے اسے آواز دی۔ تنہا کہا ں جارہے ہو اپنی زوجہ کو ساتھ لے جاؤ ۔طوطے نے کہا عدالت کے فیصلے کے مطابق اب یہ تمہاری زوجہ ہے میری کیسے؟ تو الو نے بڑی شفقت کے ساتھ کہا یہ میری نہیں تمہاری ہی زوجہ ہے۔ میں تو تمہیں صرف یہی بتانا چاہتا تھا کہ تباہی و بربادی الوؤں کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ جب وہاں سے انصاف اٹھ جایا کرتا ہے اور ذمہ دار اور انصاف کرنے والے نا انصافی پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں تو وہاں بربادی ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا آئندہ کہیں کسی تباہی پر الوؤں کو دوش مت دینا اور انصاف پر غور کرنا ۔ اب ہم اصل موجوع کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ معتبر کتب تواریخ میں آپ کے بے شمار اقوال و احادیث کا وجود ہے لیکن ہم یہا ں صرف چند احادیث کو ہی نقل کررہے ہیں ۔
(1) جو خدا کی دی ہوئی نعمت پر قناعت کرے گا، مستغنی رہے گا۔ (کاش قناعت کو سمجھا جاتا تاکہ مستغنی ہونا نصیب ہوتا) (2) جب کوئی نعمت ملے تو خدا کا بہت زیادہ شکر کرو تاکہ اضافہ ہو۔ (نعمت ملنے پر بجائے شکر کے اکڑ کیوں پیدا ہوجاتی ہے؟) (3) جب روزی تنگ ہوتو استغفار زیادہ کیا کرو تاکہ ابواب رزق کھل جائیں ۔ (استغفار تو کجا گناہوں سے پرہیز نہیں ہو تا) ۔(4) جب حکومت یا غیر حکومت کی طرف سے کوئی رنج پہنچے تو لاحول ولاقوۃ الا باللہ یالعلی العظیم زیادہ کہو تاکہ رنج دور ہو، اور خوشی کا وفور ہو۔ ( کاش لا حول پڑھنے کی طرف توجہ دی جاتی تو یہ زبوں حالی نہ ہوتی ) ۔(5) سعید ‘نیک’ وہ ہے جو تنہائی میں بھی اپنے آپ کو لوگوں سے بے نیاز اور خدا کی طرف جھکا ہوا پائے ۔( بے نیازی کو نہ جانتے ہوئے بھی اپنے کو سعید سمجھنا کتنی بڑی حماقت ہے)۔ (6)عمل خیر اگر نیک نیتی سے انجام دیا جائے تو اسی کا نام اصل سعادت ہے۔ (افسوس کہ عمل خیر تو بہت انجام دئے جارہے ہیں لیکن ان کی نیت نیکی نہیں بلکہ بدی ورنہ ریاکاری پر تو مبنی ہوتی ہی ہے) ۔(7) نیکی کا تکملہ یعنی کمال یہ ہے کہ اس میں جلدی کرو، او راسے کم سمجھو ،نیز اسے چھپا کے رکھو۔ ( جب کہ نیکی کر کے اس کو زیادہ سمجھا او رظاہر کیا جانا عام ہے) ۔( 8) جو شخص کسی برادر مومن کادل خوش کرتاہے، خداوندعلم اس کے لئے اک فرشتہ پیدا کرتا ہے جو اس کی طرف عبادت کرتا ہے اور قبر میں مونس تنہائی ، قیامت میں ثابت قدمی کا باعث، منزل شفاعت میں شفیع اور جنت میں پہنچانے میں رہبر ہوگا۔ (کاش برادر مومن کادل خوش کر کے انتے فوائد کو حاصل کیا جاتا)۔(9) توبہ میں تاخیر کرنا، نفس کا دھوکا ہے۔ (افسوس کہ توبہ ہی میں سب سے زیادہ تاخیر کی جارہی ہے۔) اچھوں سے ملو ، اور برُوں کے قریب نہ جاؤ کیونکہ وہ ایسے پتھر ہیں جن میں جو تک نہیں لگتی ، یعنی ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا ۔ ( جب کہ برُوں سے زیادہ قربت اور اچھوں سے دوری کا رواج ہے) ۔(10) لڑکی رحمت (نیکی) ہے اور لڑکا نعمت ہے، خدا ہرنیکی پر ثواب دیتا ہے اور ہر نعمت پر سوال کرتا ہے۔ (پھر بھی معاشرہ اولاد میں زیادہ تر لڑکے کا ہی خواہش مند نظر آتا ہے ) ۔ (11) جب اپنے کسی بھائی کے یہاں جاؤ تو صدر مجلس میں بیٹھنے کے علاوہ اس کی ہر نیکی خواہش کو مان لو۔ ( کاش اس پر غور کیا جاتا) (12) چغل خوری سے بچو کیونکہ یہ لوگوں کے دلوں میں دشمنی و عداوت کا بیج بوتی ہے ۔ (آج زیادہ تر دشمنی و عداوت صرف اسی بنا پر ہے) ۔(13) حق گوئی کرنی چاہئے ، چاہے وہ اپنے لئے مفید ہو یا مضر ۔(حق گوئی اگر ہے بھی تو صرف اپنے مفاد کی حد تک ) ۔ (14) جو شخص بے وقوفوں سے راہ و رسم رکھے گا، ذلیل ہوگا ۔ اور جو علماء کی صحبت میں بیٹھے گا عزت پائے گا، جو برُی جگہ دیکھا جائے گا، بدنام ہوگا۔ ( علماء کی صحبت میں بیٹھنا تو درکنار اب تو ہر کس ونا کس اپنے آپ ہی کو سب سے بڑا عالم سمجھ رہا ہے ) ۔(15) چار چیزیں ایسی ہیں جن کی قلّت کو کثرت سمجھنا چاہئے (1) آگ (2) دشمنی (3) فقیری (4) مرض ۔ (اگر ان چاروں کی قلّت کو کثرت میں سمجھا جائے تو بڑے بڑے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے)۔(16 جو کسی کے لئے کنواں کھودے گا خود ہی اس میں گرے گا ‘چاہ کن راہ چاہ در پیش ’۔ (صاحبان عقل کے لئے یہ حدیث بڑی ہی عبرت ناک ہے ) ۔ (17) کسی کے ساتھ بیس دن رہنا عزیزداری کے مترادف ہے (یعنی پھر اس کی دوستی مثل رشتہ دار کے ہوجاتی ہے ) (18) شیطان کے غلبہ سے بچنے کے لئے لوگوں پر احسان کرو ۔ ( نہ کہ ان کو نیچا دکھا نے یا کمتر ثابت کرنے کےلئے ورنہ تو شیطان کا غلبہ لازمی ہے ۔ (19)جو بھی تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے تو تم بھی اس کی عزت کرو ، اور جو ذلیل سمجھے اس سے خود داری برتو ۔( اس کا نام تکبر یا غرور نہیں بلکہ رکن اسلام ہے)۔ (20) بخشش سے روکنا خدا سے بدظنی ہے ۔ (بخل سے روکنا چاہئے نہ کہ بخشش سے )۔(21) جو کسی پر ناحق تلوار کھینچے گا تو نتیجہ میں وہ خود ہی مقتول ہوگا ۔ (خدا کی قدرت او راس کی شان سبحان اللہ)۔(22) دنیا میں لوگ اپنے باپ دادا سے متعارف ہوتے ہیں اور آخرت میں صرف اپنے اعمال کے ذریعہ پہچانے جائیں گے ۔( یہ دنیا جائے عمل ہے جس کا نتیجہ آخرت میں ملے گا ) (23)جو کسی دوسرے کو بے پردہ کرنے کی کوشش کرے گا وہ خود ہی عریاں ہوجائے گا ۔ (دوسروں پرکیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئے تاکہ دوسروں کو بے نقاب کرنے کا جذبہ کم ہوجائے )۔(24) انسان کے بال بچے اس کے اسیر و قیدی ہیں نعمت کی وسعت پر انہیں وسعت دینی چاہئے ورنہ زوال نعمت کا اندیشہ ہے۔ (اگر ان پر شفقت و وسعت ہوتی رہے تو نعمت کا زوال نا ممکن ہے ) ۔ (25) جو راضی بر ضائے خدا نہیں وہ خدا پر اتّہام تقدیر لگا رہا ہے ۔ (خدا کی خوشنودی میں ہی خوش رہنا چاہئے ) (26) جو اپنی لغزش کو نظر انداز کرے گا وہ دوسروں کی لغزش کوبھی نظر میں نہ لائے گا۔ (اپنی لغزشیوں کو ہمیشہ نظر میں رکھنا آخرت کےلئے بے حد مفید ہے ) ۔ (27) جو دوسروں کی دولت مندی پر للچائی ہوئی نظریں ڈالے گا ، وہ ہمیشہ فقیر رہے گا ۔ ( اپنے سرماے پر اکتفاء کرنا قناعت ہے اور قناعت سب سے بڑی دولت مندی ہے ) ۔(28)جن چیزوں سے عزت بڑھتی ہے ان میں تین یہ ہیں (1) ظالم سے بدلہ نہ لے (2) اس پر کرم گستری جو مخالف ہو (3)جو اس کا ہمدرد نہ ہو اس کے ساتھ ہمدردی کرے ( ان پر عمل پیرا ہونا بڑا دشوار ہے جب کہ تمام آئمہ معصومین ؑ نے اس پر قائدہ عمل کر کے دکھایا ) ۔(29) مومن وہ ہے جو غصہ میں بھی حق وہ صداقت کے راستے سے نہ ہٹے اور خوشی سے باطل کی پیروی نہ کرے ۔ ( اگر باطل کی پیروی کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار نہ ہو تو مجبور اً پیروی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے) (30) جب روزی تنگ ہو تو استغفار زیادہ کرو ۔ ( استغفار سے روزی میں اضافہ ہوتا ہے اگر صدق دل سے کیا جائے ) ۔ (31) خبر دار چغل خوری اور لگانے بجھانے سے اجتناب کرنا کہ اس سے قلوب رجال میں کلہن پیدا ہوتی ہے۔ ( افسوس کہ چغل خوری کا بازار گرم ہے اور لوگ اسے انجام دے کر اپنے آپ کو دنیوی اعتبار سے عقلمند اور آخروی اعتبار سے مومن سمجھ رہے ہیں ) ۔ (32) ہمیشہ سچ بولو چاہے وہ تمہارےموافق ہو یا مخالف ، چاہے اس سے تمہیں نفع پہنچے یا نقصان ۔ ( نفع کے موقع پر تو سچ بولا جارہا ہے مگر نقصان کے موقع پرنہیں ) ۔(33) جو اپنی غلطیوں کو کم سمجھتا ہے اسے دوسروں کی غلطیاں زیادہ اور بڑی نظر آتی ہیں ۔ ( آج معاشرہ سب سے زیادہ اسی بیماری کا شکار ہے کہ اپنی بڑی سے بڑی کوتاہی اسے نظر ہی نہیں آرہی ہے اور دوسروں کے عیوب ونقائص اس کا بڑا دلچسپ موضوع رہتا ہے ) ۔ (34) جو کچھ خدا نے دے دیا اس پر قناعت کرنے سے زیادہ تو نگری کسی چیز میں نہیں اور جس نے دوسروں کی چیز پر للچائی ہو ئی نظر ڈالی وہ فقیر مرے گا ۔ ( لالچ او ر طمع سے بچنا ہی تو نگری ہے ورنہ لالچی کتنا ہی دولت مند کیوں نہ ہو جائے وہ فقیر ہی مرے گا )۔ (35) جو اس پر قانع و مطمئن نہیں ہے جو خدا نے اسے دیا ہے تو گویا وہ قضائے الہٰی پر الزام لگاتاہے ۔ ( واقعاً خدا کی عطا کردہ نعمت کے بعد اگر دوسروں کی چیزوں کو دیکھ کر یہ کہا جائے کہ خدا نے اسے دولت و ثروت یا عہدہ و حکومت دی ہے او رمجھے نہیں تو یہ اس کی عادلانہ تقسیم پر الزام ہے) نوارالا البصار 132۔ و مطالب السؤل 274تا 275 ونور الابصار، تاریخ ابن خلکان ج ۱ والا علام طبع مصرو ادارۂ معارف القرآن وغیرہ ۔
اسی طرح آپ کے بے پناہ حکیمانہ ارشاد وہدایات ہیں کہ جن کو اگر یکجا کرنے کی سعی کی جائے تو ان کی اک جامع و مبسوط کتاب بن جائے گی مگر یہاں اک مختصر مضمون میں صرف اتنے ہی اقو ال نقل کرنا مناسب ہیں کہ جو قارئین کے لئے بار نہ ہوں۔
افسو س کے اس افضل کائنات او راعلم زمانہ کو امت جفا کار نے سکون سے جینے نہ دیا اور آپ کو متعدِّد بار زہر دغا سے شہید کرنے کی کوشش کی حاکم وقت منصور عباّس نے ہی آپ کو زہر دلوا کر شہید کیا ( دمعہ ساکبہ ۔481۔ج 2۔ کشفا الغمہ 100۔ وجنات الخلو د 28)۔ آپ کو انگور میں زہر دیا گیا (جلاء العیون 268۔) لہٰذا آپ 15 شوال 146ھ بعمر 65 سال اس دار فانی سے رخصت ہوگئے ۔ ارشاد مفید ۔413 ۔ مطالب السؤل 277 ۔ غایۃ الاختصار ۔ 65 صحاح ایلاخبار ۔ 44 آپ کے جنت البقیع میں دفن کیا ۔ علامہ حجر، علامہ سبط ابن جوزی، علامہ شبلنجی ، علامہ طلحہ ابن شافعی تحریر کرتے ہیں کہ امام جعفر ؑ صادق منصور عباسی کے زمانے میں زہر دغا سے شہید کرائے گئے صواعق محرقہ ۔121 تذکرۃ خواص الامۃ ۔ نوارالا بصار 133 ۔ ارحج المطالب 450 ۔ آپ کی مختلف ازواج سے دس اولادیں تھیں جن میں مو سیٰ ابن جعفر آپ کے نائب ہوئے اور وہی امام ہفتم قرار پائے جنہوں نے آپ کے بعد آپ کی اور آپ کی آباؤاجداد کی طرح دین اسلام کی خدمت کی اور اسی طرح شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوئے ۔
20 جولائی، 2016 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، نئی دہلی
URL: