مولانا جلیس احمد قاسمی
1 جنوری، 2015
آئے دنیا میں بہت پاک مکرم بن کر
کوئی آیا نہ مگر رحمت عالم بن کر
وَمَا اَرْسلْنا کَ اِلاَّ رَحَمَۃَّ لِلعَا لَمِیَنَ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔ ساری دنیا کے اندر اگر آپ تلاش کرناچاہیں تو آپ کو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو کلمۂ طیبہ کو سچے دل سے یقین کے ساتھ پڑھنے کے باوجود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض دشمنی رکھتا ہو مگر ایک بات اسی جگہ پر یہ بھی یاد رکھئے کہ صرف خالی محبت کام نہیں دیتی ۔ اس لئے آپ کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ کی لائی ہوئی شریعت کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جائے ۔ صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث ہے جس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقائے نامدار جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں کہ میری کل امت جنت میں داخل ہوگی مگر وہ شخص جو انکار کرے گا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ صحابہ ٔ کرام جو آپ کے ہر ہر عمل پر مٹ جانے والے تھے اور ہر عمل چاہے وہ قول ہو یا فعل، جب تک دریافت نہ کرلیتے تھے تو ان کو چین نہ ملتا تھا، فوراً صحابہ کرام نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے جس نےآپ کا انکار کیا تب آپ نےفرمایا کہ جس نےمیری اطاعت کی وہ تو جنت میں جائے گا اور جس نے میری ( عملاً) نافرمانی کی گویا کہ اس نے میرا انکار کیا اس کو جنت کےاندر داخل ہونےسے روک دیا جائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپ کے حکم کی اطاعت ان دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۔
صحابہ ٔ کرام کو جیسی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی ویسی ہی لائی ہوئی آپ کی شریعت سےبھی تھی اور کما حقہ ( جہاں تک ہوسکتا تھا) اس کے تقاضوں کو پورا فرماتے تھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ سےانگوٹھی نکال کر پھینک دی اس کے بعد فرمایا کیاکوئی شخص جان بوجھ کر آگ کا انگارہ اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھ سکے گا ، ظاہر ہے کہ ایسا کوئی بھی انسان نہیں کرسکے گا پھر اس کےبعد آپ وہاں سےگزر گئے تو بعد میں ایک شخص نے اس سےکہا جس کی انگوٹھی پھینک دی گئی تھی کہ اب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے تم اس کو اٹھا لو اور اس سے فائدہ حاصل کرو، دیکھئے وہ شخص کیا جواب دیتا ہے اس نے کہا جس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھینک دیا اس کو ہر گز نہیں اٹھا سکتا ( بحوالہ صحیح مسلم شریف جلد دوم، 101 ، بیان کتاب اللباس) یہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ پر عمل۔اب اگر آپ بھی اپنے کو عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم عاشق رسول ہیں۔ جو لوگ نعرہ لگاتےہیں کہ حضور کا دامن نہیں چھوڑینگے ، دامن پکڑا بھی ہے پہلے، چھوڑنے کی بات تو بعد کی ہے۔
وضع قطع شریعت کے خلاف ، پائجامہ ٹخنوں سےنیچے کرناحرام ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نماز میں بھی ٹخنوں سے نیچے رہتا ہے اس کی قطعاً فکر نہیں ۔ اگر آپ حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق ہیں تو یاد رکھئے غصہ ، ضد ، اور نفسیات ( دل چاہی و من چاہی زندگی) کو چھوڑ کر اپنی ایمانداری کے ساتھ اس بات کا خالص دل سے غور کرنا اور پھر فیصلہ کرنا کہ سچ کیا ہے، میں آپ سے دولت نہیں مانگتا صرف ایمانداری کے ساتھ انصاف مانگتا ہوں اور وہ بھی آپ کی بھلائی کیلئے کہتا ہوں کہ شریعت پر عمل کرو اور برے کاموں سےبچو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مبارک میں اتنا ہی کہہ دیناکافی ہے کہ اگر خدا کے بعد کوئی ہستی ہے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، تمام انبیاء ورسل سے اللہ نے یہ صاف کہہ دیا کہ تمہاری نبوت اور شریعت اس وقت ختم ہوکر رہ جائے گی جس وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسول بن کر دنیامیں تشریف لےآئیں گے اور تم کو ان کی دی ہوئی شریعت کاپابند ان کا معاون ( مددگار) اور ان کا امتی بن کر رہنا پڑےگا۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نصیحت اور ادب سیکھا نے کےلئے اپنی بیبیوں ( امت کی ماؤں) کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی تھی اور مشہور ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو طلاق دیدی تو سارے صحابہ رورہے تھے اصل میں قصہ کیا تھا صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے اندر سخاوت بہت زیادہ تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جتنا خرچہ دیتے بیویاں تھیں سخی ایک ہی دن میں خیرات کر دیتی تھیں آکر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خرچہ کامطالبہ کرتی تھیں، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھالی صحابۂ کرام میں بڑی مایوسی تھی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ حضور سے کیسے معلوم کریں اس حالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکان پر حاضر ہوکر کُنڈی کھٹکھٹائی آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی، اجازت نہ ملی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اب شبہ ہوا کہ شاید آپ کو خیال ہوا ہوگا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کی سفارش کرنے آئے ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو ان کی سفارش ماننی پڑیگی ۔ اجازت نہیں ملی اس لئے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پکار کر عرض کیا کہ حفصہ رضی اللہ عنہ کی سفارش کرنے نہیں آیا، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرمائیں تو میں حفصہ رضی اللہ عنہ کا سر اتار لاؤں میں صرف واقعہ معلوم کرنے آیا ہوں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آنے کی اجازت دے دی وہ حاضر ہوئے اور سوال کیا ‘‘ ھل طلقت نساءک ’’ کہا آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ قال، لا’’ کہا نہیں ۔ میں نے کوئی طلاق نہیں دی بس پھرکیا تھا عمر رضی اللہ عنہ نےاتنی زور سے نعرہ بلند کیاکہ مسجد میں صحابہ ادھر ادھر رو رہے تھے سب کی مایوسی خوشی میں بدل گئی اور نعرے بلند ہونے لگے ۔29 دن ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فوراً سوال کر دیا کہ 29 دن ہوئے آپ گھر میں کیسے داخل ہوگئے، آپ نے قسم مہینہ کی کھائی تھی، حالانکہ خوش ہوجاتیں کہ حضور آگئے۔بات تو خوشی کی تھی کہ حضور آگئے۔ بات ختم ہوئی لیکن ازواج مطہرات کےلئے دین اہم تھا امت کو دین سمجھانا تھا۔ آج کل کی بیویاں ہوتیں خوش ہو جاتیں چلو خاوند آگئے، بات ختم ہوجاتی مگر وہاں دین افضل تھا شریعت کے احکام پورے ہونگے چاہے نبی کی ذات کیوں نہ ہو ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ تمہارا سوال ٹھیک ہے تم نے بھی دین کے لئے سوال کیا، لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ مہینہ کبھی 29 ( انتیس) کا ہوتا ہے کبھی 30 (تیس) کا ، یہ مہینہ 29 کا تھا۔
محمد نے بھی اپنی قسم پوری کی ہے ۔ وہ صرف قسم تھی جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا فرمایا ۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر دولت خانہ ہیئت ( بناوٹ) پر پڑی تو دیکھا کہ گدے میں کھجور کے پٹھے بھرے ہوئے ہیں اور کچھ چمڑے لٹکے ہوئے تھے، بس یہی کل کائنات تھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان کی، نہ بکس، نہ الماری،نہ میز نہ کرسی نہ بنگلہ نہ کوٹھی نہ اورکوئی سامان ، بس اس حالت کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آنسو جاری ہوگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیصر و کسریٰ ( ایک بادشاہت کا نام) خدا کے دشمن صلیب ( صلیب کو پوجنے والے) پرستی کرنے والے ( عیسائی) ان کے پاس تو ساز و سامان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت! خدا سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر دنیا کی وسعت فرمادیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ادب سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وسعت فرمادیں جیسے کہتے ہیں کہ آپ کے خادموں کو ایسا کردیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات سن کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا ! ‘‘ افی شک انت عمر؟’’اے عمر! تم ابھی تک شک ہی میں ہو ان لوگوں کو تو جو ملنا تھا سب دنیا میں مل گیا، وہاں کچھ نہیں اور ہمارے لئے آخرت کی راحت ہے، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے لیکن ہمارے معاشرے کا حال ذرا دیکھئے کہ کیا معاشرہ ( مل جل کر زندگی بسر کرنا) ہے۔ آج کل کے لوگوں کا خیال ے کہ حدیث مولویوں کی گھڑی ہوتی ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ تمہارے نزدیک تاریخ تو گھڑی ہوئی نہیں ، تاریخ ہی کو دیکھ لیجئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دنیا کم تھی یا زیادہ، سو حدیث بھی ہے اور تاریخ بھی ہے کہ دنیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت کم تھی، یہ حالت تھی کہ بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مہمان آئے ہیں، پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے گھروں سے جواب آیا کہ گھر میں پانی تو ہے اور کچھ نہیں، کیا اس واقعہ سے نہیں معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف دین ہی کیلئے بھیجے گئے تھے ۔ پورا قرآن دیکھ جائیے کہیں دنیا کو مقصود بنا کر ذکر کیا گیا ہے؟
جہاں بھی ذکر ہے بالذات دین ہی کا ہے اسی کے ساتھ کسب حلال ( حلال کمائی) سے منع نہیں کیا جاتا ، حدیث میں ہے، ‘‘کسب الحلال فریضۃ ’’ حلال کمائی کرنا فرض البتہ دنیا سے منع کیا جاتا ہے حدیث شریف میں ہے ‘‘ حب الدنیاراً کل خطئیۃ ’’ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ بہر حال آپ کے اندر بیک وقت تمام تر اوصاف حمیدہ ( اچھے اوصاف) موجود تھے، جو آپ کے علاوہ کسی اور نبی کے اندر موجود نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو کس درجہ ستایا گیا اور کیا سلوک آپ کے ساتھ کیا گیا۔ تاریخ کے اوراق اس کو گواہی دیتے ہیں وہاں آپ کو ملے گا کہ تاجدار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت طائف کی سرزمین میں صداقت و حقانیت کی دعوت کے لئے تشریف لے جاتےہیں او رلوگوں کو غلامی کے راستے سے عزت والے راستے پر بلاتے ہیں اور نفس پرستی سے خدا پرستی ( من چاہی زندگی سے رب چاہی زندگی) کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فرماتے ہیں کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ، مکہ سے چل کر اور سفر کی تمام پریشانیوں کو برداشت کرنے کے بعد تمہارا ناصح ( نصیحت کرنے والا) بن کر تمہارے پاس آیا ہوں اور یہ آنا میرے کسی ذاتی مقصد کے لئے نہیں بلکہ آپ کی خیر خواہی کے لئے ہے یہ تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ (بہترین عادتیں) جس کی مثال اب دنیا میں نہیں مل سکتی ، مگر دنیا کے بدحواس لوگ آپ کے ہمدردی کے جذبہ اور شوق کا یہ صلہ دیتے ہیں کہ آپ کےجسم نازک پر پتھر و ں کی بارش کرتے ہیں اور خون میں آپ کو شرابور ( خون میں لت پت) کردیتےہیں اور اس حد تک آپ کو ستایا جاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں خون سے لبریز ( بھر) ہو جاتی ہیں ۔ جب اللہ کا محبوب بندہ زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتاہے تو بدبخت آکر آپ کے دونوں بازوں کو پکڑتے ہیں ۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ جو عذاب سے چھڑانے آیا تھا اس کو ستایا جارہا ہے، اور جو زخموں سے بچانے آیا تھا الٹا اسی کو زخم دیا جارہا ہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
وہ ابر لطف جس کے سایہ کو گلشن ترستے تھے
یہاں طائف میں اس کے جسم پر پتھر برستے تھے
1 جنوری، 2015 بشکریہ : روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/love-prohet-muhammad-(saw)-our/d/100817