مولانا جعفر مسعود حسنی ندوی
19 مارچ ، 2015
ایک ہی اخبار میں ایک ہی صفحہ پر ایک ہی ملک سےمتعلق دو مختلف خبریں شائع ہوئیں، پہلی خبر بدنام زمانہ سابق فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کے بیان کا وہ حصہ تھی جو پردہ کے متعلق تھا اور نہایت تکلیف دہ تھا، دوسری خبر فرانس ہی کے ایک تحقیقاتی ادارہ کی ایک رپورٹ تھی جو فرانس میں اسلام قبول کرنے والوں کی بڑھتی تعداد کے بارے میں تھی اور یقیناً خوش کن تھی ۔
سر کوزی خواتین کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ آزادی سے وہ کیا مراد لیتے ہیں ، عورت کےبارےمیں ان کے خیالات کتنے پاک اور کتنے ناپاک ہیں؟ اس کا اندازہ ان خبروں سے بخوبی لگایا جاسکتاہے جو ہر کچھ دن کےبعد اخبارات کی زینت بنتی رہی ہیں اور دوران صدارت سرکوزی کی زندگی کے رنگین پہلوؤں سے لوگوں کو واقف کراتی رہتی تھیں ۔
پردہ سے چڑنا، اس کے نام سے نفرت کرنا ، اس کو عورت کےلیے غلامی زنجیر قرار دینا، یہ اس بیمار ذہنیت ، عیاش طبیعت اور شیطانی مزاج کی علامت ہے جو مغربی دنیا کے حکمراں طبقہ میں عام ہے ۔ عورت کو رسوا کرنے والے عناصر ہر دور میں رہے ہیں، آج سے چودہ سو سال پہلے جب نہ تو تعلیم کا رواج تھا ، نہ ملازمتوں کاچلن تھا، نہ شیشہ کی دیواروں سے بنے اور مخملی پردوں سے آراستہ دفاتر تھے کہ ان کےشایان شان کسی خاتون سکریٹری کی ضرورت پڑے ، نہ بلند و بالا ٹاور وں میں ایسے شاپنگ سیٹر تھے کہ ان کی رونق بڑھانے کےلیے حسن و رعنائی سےبھر پور سیلز گرل کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑے ،نہ ایسی ملٹی نیشنل کمپنیاں تھیں کہ ان کو اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے کسی پر کشش نسوانی چہرہ کاسہارا لینا پڑے،لیکن پردہ کی مخالفت اس وقت بھی ہوئی اور شاید آج سےزیادہ شدت کے ساتھ ہوئی ، کیونکہ پردہ کی مخالفت کے اسباب کچھ اورہی تھے، وہ دل کاایک روگ تھا اور آنکھوں کی ایک ہوس تھی جو عورت کے چہرے پر نقاب دیکھنے کی روادارنہ تھی ۔ آج سے چودہ سو سال پہلے مدینہ منورہ میں جہاں مسلمانوں او ریہودیوں کی مشترک آبادی تھی، قریب قریب مکانات تھے ، ایک دوسرے سے معاملات پڑتے تھے، خرید و فروخت کے مواقع پر آمناسامنا ہوتا تھا، جب پردہ کاحکم نازل ہوا تو یہودیوں کے ناپاک خیالات پر ایک کاری ضرب لگی، تفریح او رلطف اندوزی کےمواقع ان کے ہاتھ سے نکلتے محسوس ہوئے، کل تک پاکباز و عفت مآب خواتین کے چہروں پر ناپاک نگاہ ڈال کر ان کے دل میں چھپے جس شیطان کی بانچھیں کھل جایا کرتی تھیں، آج اس شیطان کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا، لیکن شیطان شیطان ہے،کیسے مر سکتا تھا او رکیسے اپنی حرکت سے باز آسکتا تھا؟
بنوقینقاع کے یہودیوں کے بازار میں ایک پردہ نشیں مسلم خاتون کا ایک یہودی جیولر کی دکان پر آنا ہوا، خاتون کے چہرہ پر پڑی نقاب کو دیکھ کر بازار میں موجود یہودیوں کو سخت ناگواری ہوئی ، اسلام کی آمد سے پہلے اس معاشرہ میں یہودیوں کو پوری آزادی حاصل تھی، کوئی پردہ نہیں، کوئی رکاوٹ نہیں اور ان کے ناپاک عزائم کی تکمیل کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ، چنانچہ عادت کے مطابق انہوں نے اس باعزت پردہ نشین خاتون سے چہرہ کھولنے کی فرمائش ظاہر کی ۔ ان کا یہ مطالبہ جب پورا نہ ہوا تو ان کا خون کھول گیا اور کیوں نہ کھولتا، ان کے پاس پیسہ بھی تھا، علم بھی تھا، عقل بھی تھی اور تجارت پرکنٹرول بھی ۔ آخر کار انہوں نے حرکت یہ کی کہ اس خاتون کو غافل پاکر ان کے ڈو پٹہ کا وہ سرا جو ان کی کمر سے لٹک رہا تھا ان کے پچھے دامن میں باندھ دیا ، سامان خرید کر تیزی کےساتھ وہ خاتون جب انہیں دو پٹہ کے کھنچاؤ سے ان کا دامن بھی اٹھ گیا ، جس کا کھلنا تھاکہ یہودی شیطانوں نے ایک قہقہہ لگایا اور شرم و حیا کی اس دیوی کے منھ سے ایک دلدوز چیخ نکلی ۔ قریب ہی ایک دکان میں ایک غیرت مند مسلم نوجوان کھڑا تھا ،لمحہ بھی نہیں گزرا کہ اس کے نیام سے تلوار باہر آئی، لہرائی، چمکی اور اس یہودی جیولر کے سر کو تن سے جدا کر گئی ۔ بازار میں موجود تمام یہودی اس نوجوان پر ٹوٹ پڑے، لڑتے لڑتے آخر کار وہ نوجوان شہید ہوگیا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہودیوں کے ہاتھوں ایک مسلم خاتون کی اہانت کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کا محاصرہ کیا، یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے اپنا سر جھکا دیا ۔ یہ تھا پہلا واقعہ پردہ کی مخالفت کا اور یہ تھی وہ حقیقت جو پردہ کی مخالفت کے پیچھے کار فرماتھی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، شکلیں بدل گئیں، انداز بدل گیا، عنا دین بدل گئے، لیکن سبب وہی ہے اور مقصد بھی وہی۔
لیکن کیا عورتوں پر اس پروپیگنڈہ کا اثر پڑ رہا ہے ؟ کیا خواتین اس فریب کا شکار ہورہی ہیں اور آزادی کے نام پر مردوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال رہی ہیں؟ اس کا جواب سرکوزی کے بیان کے نیچے چھپی خبر سے ہمیں مل جاتاہے، خبر کی سرخی کہتی ہے ‘‘فرانس میں سالانہ اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد دس ہزار پہنچ چکی ہے۔’’ خبر کےنیچے تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں، خبر کی سرخی ہی کافی ہے، لیکن یہاں اتنا بتانا ضروری ہے کہ خبر کےمطابق اسلام قبول کرنے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے،وجہ اس کی یہ ہے کہ مغربی ممالک میں تعلیم یافتہ خواتین ان نعروں کی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہیں، آزادی، عریانیت اور فحاشی کے بھیانک تنائج دیکھ کر وہ اسلام کی چہار دیواری میں آکر زندگی اور اپنا مستقبل محفوظ رکھنا چاہتی ہیں، تبھی تو مغربی خواتین کے اسلام قبول کرنے کے واقعات اتنی تیزی سے سامنے آرہے ہیں اور سرکوزی اور سرکوزی جیسے دوسرے افراد کے منھ پر ایک طمانچہ ثابت ہورہے ہیں ۔
بے پردہ خواتین میں پردہ کا رواج اس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ پردہ کے مخالفین کی نیند حرام ہوتی جارہی ہیں، فلمی ایکٹرس ، ماڈلس ، گلوکاراؤں او رنائٹ کلبوں میں رقص و سرود کی محفلیں سجانے والی خواتین کے تائب ہونے اور شرعی اصول و ضوابط کےمطابق زندگی گزارنے کی خبریں آئے دن اخبارات و رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہاں مشرق کے مسلم نوجوان تعلیم یا ملازمت کی خاطر مشرق کی سر حد پار کرکے جب مغرب کی سرحدوں میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے چہرے داڑھی سے صاف ہوتے ہیں، لیکن جب یہی نوجوان مغربی ماحول میں ایک دو سال چھٹیاں منانے کے لیے اپنے وطن لوٹتے ہیں تو ان کے چہروں پر گھنی او رلمبی داڑھی دیکھ کر ان کو پہچاننا مشکل ہوتاہے ۔ اسی طرح وہ خواتین جو یہاں پردہ کے نام سے چڑتی تھیں اور پردہ کی تلقین کرنے والی خاندان کی بڑھی بوڑھی عورتوں کا کھلم کھلا مذاق اڑاتی تھیں ، حتیٰ کہ ان کےساتھ چلنےپھرنے کو اپنے لیے باعث عار سمجھتی تھیں، وہی خواتین یوروپ جاکر جب واپس آتی ہیں تو ان کے چہرے پر پردہ کا نور ہوتا ہے اور ان کے ہر ہر عمل سے اپنے پردہ پر فخر کا اظہار ہورہا ہوتاہے ۔ اسلام کی حفاظت میں آنے والی نوجوان عورتوں کے انٹر ویو اگر آپ پڑھیں تو ایک بات پر سب متفق ہیں کہ تنہا اسلام وہ مذہب ہے جو عورت کو عزت ، تحفظ او رمردوں کے مساویانہ حقوق دیتا ہے ۔ دوسری طرف پردہ نہ کرنے، مختصر اور تنگ لباس زیب تن کرنے کے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ وہ بھی بےپردہ خواتین کے لیے ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں ۔
بے پردہ خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی یہ چند مہذب قسمیں ہیں ۔ رہیں غیر مہذب قسمیں تو ان کو فہرست بہت طویل ہے ۔ اور ان کی تفصیلات میں جانا بھی غیر مہذب ہونے کی دلیل ہے۔ غلط کو صحیح ثابت کرنےکے لیے غلامان یوروپ کو کتنے پا پڑ بیلنے پڑے، لیکن نیتجہ اس کے بعد بھی صفر ہی رہا، نہ غلط صحیح ہوسکتا ہے او رنہ صحیح غلط ، عورت کااپنا ایک مزاج ہے۔ یوں تو دانشوران یوروپ مزاج، طبیعت اور صلاحیت کی رعایت کرنے پر بڑا زدور دیتے ہیں ، لیکن صنف نازک کےمعاملہ میں وہ اپنے اس نظر یہ کو بالکل فراموش کردیتےہیں اور عورت کو اس کے مزاج کے خلاف زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ اس کا تو صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ایسا موقع ہی نہ آنے دیا جائے کہ جس سے عورت کو ایسی رسوا کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑے، اسلام نے عورتوں کے لیے جو حدود مقرر کردی ہیں، صرف انہی حدود میں رہتے ہوئے اس طرح کے واقعات سےبچا جاسکتا ہے، آج ضرورت انہیں حدود کی پابندی کرنے کی ہے ۔
19 مارچ، 2015 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-islamic-way-protecting-women/d/102007