انصاری مسعود عالم
15دسمبر،2024
’ہندوستان چھوڑ و تحریک‘اپنے عروج پر تھی،ہر ہندوستانی کے دل میں انقلاب زندہ باد کی صدائیں گونج رہی تھی، دوسری عالمی جنگ اپنے شباب پر تھی۔ 8اگست 1942کی شب دیر تک بمبئی میں ایک اجلاس ہوتا رہا، اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد کانگریس کے صدر تھے۔ اسی رات کے آخر ی حصے میں یعنی 9اگست علی الصبح برطانوی حکومت نے تمام سرکردہ رہنماؤں کو نیند کی آغوش سے اٹھا کر حراست میں لے لیا، اور ملک کے مختلف مقامات پر نظر بند کردیا۔ ان رہنماؤں میں مولانا ابولکلام آزاد بھی شامل تھے۔مولانا اور ان کے چند رفقاء کو احمد نگر قلعے میں نظر بند کرکے رکھا گیا۔ مولانا آزاد کی زندگی کاایک بڑا حصہ قید وبند میں گزرا۔ مگر قلعہ احمد نگر اسیری تھوڑا سخت ثابت ہوئی۔ یہاں پر مولانا کو کسی سے بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی اور ناہی خط باہر جاسکتے تھے۔ ایسے وقت میں مولاناآزاد نے اپنے دل کے غبار کونکالنے کیلئے مکتوب نگاری کا سہارا لیا۔جسے مولانا کی جیل سے رہائی کے بعد 1946 میں پہلی بار مولوی اجمل خان نے اسے مرتب کرکے ”غبار خاطر“ کے نام سے شائع کرایا۔ غبار خاطر کے علاوہ ایک اورمولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ”کاروان خیال“ کے نام سے شائع ہوچکاتھا، اس میں شامل مکتوب مختلف لوگوں کو لکھے گئے ہیں، مگر غبار خاطر کے سارے خطوط مولانا حبیب الرحمن شیروانی کے نام لکھے گئے ہیں۔
ایک خط میں مولانا آزاد، شیروانی صاحب کو لکھتے ہیں: ”جانتا ہوں میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکے گی،تاہم طبع نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد شیون کے بغیر نہیں رہ سکتی۔آپ سن رہے ہوں یا نہ سن رہے ہوں میری ذوق مخاطب کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے“۔ مولانا آزاد او رمولانا حبیب الرحمن شیروانی کے تعلقات سے عام طور پر لوگوں کو واقفیت غبار خاطر کی اشاعت کے بعد ہوئی، اس سے قبل بہت کم لوگ واقف تھے۔ ان کی پہلی ملاقات لکھنؤ میں ہوئی تھی، اس وقت مولانا آزاد، النددہ کی مدیری کے سلسلے میں وہاں مقیم تھے۔دونوں کی ملاقات کاذریعہ علامہ شبلی نعمانی تھے جن سے دونوں کو ہی عقیدت تھی۔ اس وقت مولانا شیروانی کی عمر 38 سال تھی جب کہ مولانا آزاد کی عمر محض 17 سال تھی۔ اردو ادب میں غبار خاطر اپنے مخصوص اندازو بیان کی وجہ سے ایک معمہ بن کر ابھرا ہے۔ جہاں اکثریہ موضوع بحث کا باعث بنا رہتاہے کہ غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے یا پھر انشائیوں کا۔ بقول مولوی عبدالحق ”وہ خط جس میں جان بوجھ کر علمیت کی نمائش، انشا ئپردازی کی شان، تکلف کااظہار اور خطابت کا جوش دکھایا جائے، خطوط نہیں مضمون ہے“۔ ایسا کہاجاتاہے کہ خط وہ ہوتاہے جس میں خط لکھنے والابھی نظر آئے اور جسے خط لکھا جارہاہے وہ بھی نظر آئے۔مولانا کا خط یکطرفہ ہے،مطلب یہ کہ بس صرف اپنی بات کہے جارہے ہیں۔ بعض نقاد اسے مولانا کا انشائیوں سے پہلے ”صدیق مکرم‘‘ ٹانک کر اپنا مضمون لکھنا کہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی غبارخاطر کو خطوط کا مجموعہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کیونکہ بیشتر جگہ خط نگاری کی فضاء قائم رہتی ہے۔ایک خط میں مولانا نے اپنی زوجہ زلیخا کی علالت اور اس دارفانی سے کوچ کرجانے کا سانحہ بیان کیا ہے۔
”میری بیوی کی طبیعت کئی سال سے علیل تھی۔1941 میں جب میں نینی جیل میں مقید تھا، تو اس خیال سے کہ میرے لیے تشویش خاطر کاموجب ہوگا مجھے اطلاع نہیں دی گئی لیکن رہائی کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تمام زمانہ کم وبیش علالت کی حالت میں گزرا تھا۔ مجھے قید خانہ میں اس کے خطوط ملتے رہے۔ ان میں ساری باتیں ہوتی تھیں لیکن اپنی بیماری کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔رہائی کے بعد ڈاکٹر وں سے مشورہ کیا گیا تو اس سب کی رائے تبدیل آب وہوا کی ہوئی اور وہ رانچی چلی گئی۔ رانچی کے قیام سے بظاہر فائدہ ہوا تھا۔ جولائی میں واپس آئی تو صحت کی رونق چہرہ پر واپس آرہی تھی“۔
ان خطوط میں مولانا کی انفرادیت نظر آتی ہے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔”جس قید خانے میں صبح ہر روز مسکراتی ہو، جہاں شام ہر روز پردہ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں کبھی قندیلوں سے جگمگا نے لگتی ہو، کبھی چاندنی کی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو، جہاں دوپہر ہرروز چمکے، شفق ہر روز نکھرے، پرند ہر صبح وشام چہکیں، اسے قید خانے ہونے پر بھی عیش ومسرت کے سامانوں سے خالی کیوں سمجھ لیا جائے؟۔فکر وفلسفہ غبار خاطر کے ہر صفحے پر نظر آتاہے، ہر وقت سو چنا او رمسلسل سوچنا مولانا کی عادت رہی، بعض خطوں میں فلسفہ پوری طرح حاوی ہے اور بعض میں ہلکی جھلک دیکھنے کوملتی ہیں۔ ان خطوط میں مولانا نے کچھ سنجیدہ فلسفیانہ سوال اٹھائے ہیں۔ مثلاً زندگی کیا ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انسان کے وجود اور انسانی زندگی میں مذہب کا کیا مقام ومرتبہ ہے؟۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ”اس طلسم ہستی کے معمے پر غور کیجئے جوخود ہمارے اندر او رہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ انسان نے جب سے ہوش وآگہی کی آنکھیں کھولی ہیں، اس معمے کا حل ڈھونڈرہا ہے لیکن اس پرانی کتاب کا پہلا اور آخری ورق اس طرح کھویا گیا ہے کہ نہ تویہی معلوم ہوتا ہے کہ شروع کیسے ہوئی تھی اور نہ اسی کا سراغ ملتاہے کہ ختم کہاں جاکر ہوگی او رکیوں کر ہوگی؟۔
غبار خاطر میں مولانا نے طنز ومزاح کے تیر ونشتر سے بھی خوب کام لیا۔ ظرافت صرف ہنسنے ہنسانے کا نام نہیں بلکہ اس کے اندر اخلاقی نکتہ چینی بھی ہوتی ہے۔ظرافت سے بھرپور مولانا کا یہ خط جس میں باورچی کی تلاش کاذکر ہے۔”جیل کا سپرنٹنڈنٹ آخر ایک باورچی کو ڈھونڈلایا مگر جب پتہ چلا کہ اب باہر جانا ممکن نہیں ہے تو حال یہ ہوا کہ وہ کھانا کیا پکاتا اپنے ہوش وحواس جامسالہ کو ٹنے لگا اور قید خانے میں جو اسے ایک رات دن قید وبند کے توے پر سینکا گیا تو بھوننے تلنے کی ساری ترکیبیں بھول گیا۔ اس احمق کو کیا معلوم تھا کہ ساٹھ روپئے کے عشق میں یہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ اس ابتدائے عشق نے ہی کچومر نکال دیا تھا۔ قلعے تک پہنچتے پہنچتے قلیہ بھی تیار ہوگیا“۔ غبار خاطر کے ہر صفحے پر فارسی آمیز زبان نظر آتی ہے۔ عربی وفارسی پر مولانا کوعبور حاصل تھا، ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔غبار خاطر کاپہلا ہی خط ایک فارسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔
اے غائب ازنظر کہ شدی ہم نشین دل
می بینمت عیاں ودعامی فرستمت
(اے نگاہوں سے مستور مگر میرے دل کی پنہائیوں میں خیمہ زن میرے محبوب،یقین جان کہ تو ہر وقت میری نگاہوں کے سامنے ہے اور میں تجھے نیک خواہشات کی سوغاتیں بھیج رہا ہوں۔)غبار خاطر کے خطوط سے مولانا کی سحر خیزی کے بارے میں معلومات ملتی ہے، مولانا چائے کاذکر بڑے خوبصورت انداز میں کرتے ہیں، لکھتے ہیں۔
چائے چین کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جارہی ہے۔مگروہاں ان کے خوابوں خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جو ہرلطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جائے۔مگر سترہویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی انہوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی اور چونکہ ہندوستان میں چائے کارواج انہی کے ذریعہ ہوا اس لیے یہ بدعت سیہ یہاں بھی پھیل گئی“۔
غبار خاطر کی اصل دلکشی کا راز اس کی طرز تحریر میں ہے۔ بقول خلیل الرحمن اعظمی: ”یہ خطوط نہیں ادبی تخلیق ہیں“۔ تخلیقی نثرکیہ شاہکار صدیوں تک جمال پرستوں کو سرور کی دولت عطا کرتا اور ان کے عوض ان سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔مولانا حسرت موہانی نے فرمایا:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
شعر حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
15 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-azad-gubaar-e-khatir/d/134133
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism