سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
22 فروری 2025
ذیلی عنوان - مولانا ابوالکلام آزاد ایک صاحب بصیرت لیڈر، مجاہد آزادی، اور ہندوستان کے پہلے وزیرِ تعلیم تھے۔ انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کی بات کی، تقسیم کے خلاف تھے، اور ہندوستان کے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ ان کی میراث ان کے بنائے اداروں اور تعلیم، اتحاد اور ترقی میں ان کی خدمات کے ذریعے زندہ ہیں۔
اہم نکات-
1. مولانا آزاد بچپن سے ہی عبقری شخصیت کے مالک تھے، کثیر زبانوں پر عبور رکھتے تھے، اور بچپن سے ہی علمی و فکری سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔
2. الہلال اور البلاغ کے ذریعے انہوں نے برطانوی تسلط کی مزاحمت کی اور ہندو مسلم ہم آہنگی کی بات کی۔
3. کانگریس کے صدر اور گاندھی اور نہرو کے قریبی ساتھی کے طور پر، انہوں نے ہندوستان کی جنگ آزادی میں ایک مرکزی کردار ادا کیا۔
4. ملک کے پہلے وزیر تعلیم کے طور پر، انہوں نے IITs، UGC کی بنیاد رکھی اور مفت تعلیم کی حمایت کی۔
5. انہیں ان کے نام سے منسوب اداروں میں کام اور سالانہ قومی یوم تعلیم کے موقع پر یاد کیا جاتا ہے۔
-
22 فروری مولانا ابوالکلام آزاد کی برسی ہے، جو ہندوستان کی تحریک آزادی کی عظیم شخصیات میں سے ایک، اور ملک کے جدید تعلیمی نظام کے معمار تھے۔ ان کی زندگی، جو فکری کمال، غیر متزلزل حب الوطنی اور قومی اتحاد کا حسین امتزاج تھی، نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔
ابتدائی زندگی اور فکری ترقی
مولانا آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ میں پیدا ہوئے، پھر حکومت عثمانیہ کے دور میں، آزاد کا خاندان ہندوستان چلا آیا اور کلکتہ (اب کولکاتا) میں آباد ہو گیا، اس وقت آزاد بچے تھے۔ ان کے والد مولانا سید خیرالدین شاہ ایک اسلامی اسکالر تھے، اور ان کی والدہ کا تعلق ایک امیر عرب خاندان سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی، جہاں انہوں نے عربی، فارسی، اردو، فلسفہ، جیومیٹری، ریاضی اور اسلامی الہیات کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے بچپنے میں ہی کئی زبانوں پر عبور حاصل کر لیا تھا، اور چھوٹی سی عمر میں ہی ادبی رسالوں کے لیے لکھنا شروع کر دیا تھا۔
اپنی جوانی کے دور میں، مولانا آزاد دانشوروں کے درمیان اپنی ایک مضبوط پہچان بنا چکے تھے۔ عالمی فکر و نظر کے حامل ہونے کی وجہ سے، ان کے اندر مذہبی قدامت پرستی کی مخالفت کرنے، اور اسلام کی آزادانہ تشریح کو فروغ دینے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کی ابتدائی تحریر تعلیم، سماجی اصلاح اور قوم پرستی میں ان کی مضبوط دلچسپی کی عکاس ہے۔
صحافت اور سیاسی بیداری
آزاد نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1912 میں اپنے اردو ہفتہ وار اخبار الہلال کے اجراء سے کیا، جس نے قوم پرستانہ جذبات کو ابھارنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اپنی تحریروں کے ذریعے انہوں نے برطانوی سامراج پر شدید تنقید کی اور ہندو مسلم اتحاد کی وکالت کی۔ تاہم، ان کے انقلابی مواد کی وجہ سے، برطانوی حکومت نے 1914 میں الہلال پر پابندی لگا دی۔ تب آزاد نے ایک اور اخبار البلاغ کا آغاز کیا، اور اس کا بھی 1916 میں یہی انجام ہوا، اور انہیں قید کر دیا گیا۔
جیل کے دوران آزاد کا عزم و حوصلہ مزید مضبوط ہوا۔ ان کے وسیع مطالعہ اور ان کی نگاہِ بصیرت نے، ان کے اس یقین کو تقویت بخشی کہ ہندوستان کی آزادی فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے وابستہ ہے۔ وہ غیر منقسم ہندوستان کے لیے ڈٹے رہے، اور تقسیم کی پرزور انداز میں مخالفت کی۔
جنگ آزادی میں آزاد کا قائدانہ کردار
مولانا آزاد نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور جلد ہی شہرت حاصل کی بلندیوں کو چھو لیا۔ 1923 میں، وہ 35 سال کی عمر میں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر منتخب ہوئے، جس سے ان کی غیر معمولی تقریری صلاحیتوں اور قائدانہ خصوصیات کی عکاسی ہوتی ہے۔ آزاد نے مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو، اور سردار پٹیل کے ساتھ مل کر کام کیا، اور عدم تعاون کی تحریک اور ہندوستان چھوڑو تحریک جیسی مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
مولانا آزاد ہندو مسلم یکجہتی کے زبردست حامی تھے، اور پاکستان کے مطالبے کی سخت مخالفت کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ تقسیم ہندوستان کو کمزور کر دے گی، اور طویل مدتی فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دے گی۔ ان کی کوششوں کے باوجود، 1947 میں ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی، اس فیصلے سے انہیں بہت دکھ ہوا۔ اس کے باوجود، انہوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا، اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے انتھک محنت کی۔
ہندوستان کے تعلیمی نظام کے معمار
1947 سے 1958 تک ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کے طور پر، مولانا آزاد نے ملک کے جدید تعلیمی نظام کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (IITs)، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) اور انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز (ICCR) کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے سائنس اور تکنیکی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا، جبکہ 14 سال کی عمر تک کے بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کو بھی فروغ دیا۔
مولانا آزاد نے ہندوستان کے مستقبل کی تشکیل میں ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی اداروں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی دور اندیشی کی ہی بدولت، ایسے اداروں کا قیام عمل میں آیا جو آج ہندوستان کی علمی اور تکنیکی کامیابیوں کے ستون ہیں۔
ادبی خدمات اور نظریاتی میراث
سیاست کے علاوہ آزاد ایک قابل ادیب اور مفکر بھی تھے۔ ان کی سوانح عمری، انڈیا وِنز فریڈم، میں ان کے نقطہ نظر سے جنگ آزادی کی روداد بیان کی گئی ہے۔ ان کی ایک اور قابل ذکر تصنیف غبارِ خاطر ہے، جو کہ فلسفہ، مذہب اور معاشرت سے متعلق ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ معنویت اور فکری گہرائی و گیرائی کی وجہ سے آج تک ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
مولانا آزاد کی تقاریر اور تحریروں میں ہندوستان کی جامع ثقافت پر مسلسل زور دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندوستان کی ترقی کے لیے مذہبی تکثیریت اور سیکولرازم ضروری ہیں۔ ان کا اتحاد کا پیغام عصر حاضر میں بھی افادیت سے خالی نہیں، کیوں کہ ہندوستان ابھی بھی پیچیدہ سماجی اور مذہبی مسائل سے جوجھ رہا ہے۔
آزاد کا اعزاز: خراج تحسین اور یادگاریں
مولانا آزاد کی خدمات کو ہر سال ان کی یوم پیدائش، 11 نومبر کو یاد کیا جاتا ہے، جسے ہندوستان میں قومی یوم تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ 2024 میں اس دن، وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کے تعلیمی نظام کی تشکیل میں، مولانا آزاد کی بے پناہ خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا تھا۔ اسی طرح، ان کی برسی پر، قومی رہنما ان کی خدمات کو یاد کرتے ہیں، حال ہی میں کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے نے انہیں علم اور قومی سالمیت کا علمبردار کہا تھا۔
ان کے اعزاز میں قائم ادارے
ہندوستان بھر میں کئی تعلیمی ادارے ان کے نام پر قائم کیے گئے ہیں، جن کے ذریعے تعلیم اور قومی یکجہتی کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا پے:
· مولانا آزاد میڈیکل کالج (MAMC)، نئی دہلی – ایک اعلیٰ طبی ادارہ جو حفظان صحت کے اعلیٰ پیشہ ور افراد تیار کرتا ہے۔
· مولانا آزاد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MANIT)، بھوپال – ایک معروف انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی انسٹی ٹیوٹ۔
· مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (MANUU)، حیدرآباد – اردو تعلیم اور تحقیق کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا۔
· مولانا آزاد کالج، کولکاتہ – مغربی بنگال کے سب سے پرانے اور باوقار اداروں میں سے ایک۔
· مولانا ابوالکلام آزاد یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، مغربی بنگال – تکنیکی اور انتظامی تعلیم کا خصوصی انتظام۔
یہ ادارے روشن خیال اور تعلیم یافتہ ہندوستان کے لیے آزاد کے نظریہ کے ٹھوس ثبوت ہیں۔
خلاصہ
مولانا ابوالکلام آزاد صرف ایک مجاہد آزادی ہی نہیں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک ماہر تعلیم، اور ہندو مسلم اتحاد کے علمبردار بھی تھے۔ ایک جامع اور تعلیم یافتہ ہندوستان کے لیے ان کی اٹوٹ لگن نے، آنے والی نسلوں کے لیے ایک ٹھوس بنیاد رکھی۔ اب جبکہ کہ ہم ان کی برسی منا رہے ہیں، یہ ضروری ہے کہ ان کے افکار و نظریات کا مطالعہ کیا جائے، اور اس ہندوستان کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی جائے، جس کا انھوں نے خواب دیکھا تھا، جس کی بنیاد علم، اتحاد اور ترقی پر ہے۔
حوالہ جات
· پنت، وجے پرکاش (2010)۔ "MAULANA ABUL KALAM AZAD: A Critical Analysis Life and Work"۔ انڈین جرنل آف پولیٹیکل سائنس۔ 71 (4): 1311–1323۔
· قیوم، نشاط (2012)۔ "Maulana Azad's Journalistic Crusade Against Colonialism"۔ پروسیڈنگز آف انڈین ہسٹری کانگریس۔ 73: 678–685
· ڈگلس، ایان ہینڈرسن (1993)۔Abul Kalam Azad: An Intellectual and Religious Biography۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
· حمید، سیدہ سیدین (2014) Maulana Azad, Islam and the Indian National Movement۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
· حبیب، ایس عرفان (2023) Maulana Azad: A Life۔ ایلیف بک کمپنی
-
English Article: Maulana Azad’s Enduring Impact: From India’s Freedom Struggle to Educational Reforms
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-azad-enduring-freedom-india/d/134774
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism