مولانا اسرارالحق قاسمی
20 نومبر، 2015
بلا شبہ ہمارا دین حنیف رواداری کا علمبردار ہے اور اس کی تعلیمات عفوو درگزر پرمبنی ہیں ۔ ہمارے مذہب نے مکارمِ اخلاق کی تاکید کی ہے، وسطیت و اعتدال کی بنیاد ڈالی اور اسے مضبوط کیا ہے، حقوق انسانی کو تحفظ فراہم کیا ہے اور اعلیٰ تہذیبی اقدار مثلاً بقائے باہمی ، باہمی عفوو درگزر اور با ہمی کفالت و اعانت کو ان کی ترقی یافتہ اور واضح شکلوں میں پھیلایا ہے، چنانچہ اسلام کی شکل میں دنیا والوں کو عطا کردہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ آخری اوردائمی پیغام ساری نوع انسانیت کے لئے رحمت و سلامتی کا ضامن ہے، اللہ تعالیٰ اپنے نبی کے بارے میں فرماتا ہے : ‘‘ ہم نے آپ کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔’’ ( الانبیاء: 107)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ‘‘ میں اللہ کی جانب سے عطا کردہ رحمت ہوں ۔’’ ( الدارمی) شریعت اسلامی نے بقائے باہمی کے اس بنیادی انسانی تصور کو عام کرنے کی تاکید کی ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : ‘‘ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرے گا ’’۔ (مسلم) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ رحم و کرم کے جذبات بد بخت انسان کے دل سے ہی نکالے جاتے ہیں ’’۔ ( ابوداؤد)
یہ نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ آج بعض گمراہ اور راہِ راست سے منحرف جماعتوں اور افراد کے ذریعے سراپا معافی و درگزر اور روادی پر مبنی تعلیمات او راپنے نبی کی معطر وپاکیزہ سیرت کی شکل و صورت کو مسخ ہوتے ہوئے دیکھ کر ہر مسلمان تکلیف میں ہے۔ بعض نا عاقبت اندیش لوگوں اور جماعتوں کی ہلاکت ناک کارروائیوں کی وجہ سے ساری اسلامی دنیا میں بدامنی و بے اطمینانی کا ماحول برپا ہے۔یہ جماعتیں انتہا پسندی ، غلو اور تشدد کا راستہ اپنا کر اسلام کی کشادہ ظرفی اور در گزر پر مبنی تعلیمات کا مذاق بنا رہی ہیں ۔ یہ جماعتیں ہمارے عقیدے کی پاکیزگی او رہماری شریعت کی شفافیت پر سوالیہ نشان قائم کررہی ہیں ۔ یہ جماعتیں بلا کسی شرعی ممانعت کا لحاظ کئے اور جذبۂ رحمت و انسانیت کو بالائے طا ق رکھ کر معصوم انسانوں کا خون بہاتی ہیں اور اپنے ان مجرمانہ اعمال اور کارروائیوں کو اسلام سے منسوب کرتی ہیں حالانکہ ان کی یہ سرگرمیاں سراسر اسلام کی تعلیمات او راس کی قائم کردہ انسانی اقدار کے خلاف ہیں۔ یہ جماعتیں جس فکر کے تحت اس طرح کی خوں ریزیاں کرتی ہیں ، اس کا خالص اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ انتہا پسندانہ جذبات نے ان کی فکروں کو آلودہ کردیا ہے، ان کی انسانیت مردہ اور ان کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں، اسی وجہ سے وہ کسی بھی اقدار و اصول کی پیروی نہیں کرتیں اور بد ترین کارروائی اور ہلاکت ناک سرگرمیاں دھڑلے سے انجام دیتی ہیں ۔ کوئی بھی ذی ہوش انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کے یہ مجرمانہ اعمال اسلام سے کسی بھی قسم کی وابستگی رکھتے ہیں ۔ موجودہ وقت میں بہت سے لوگ اور گروہ اس تاریک راستے پر گامزن ہیں جو ایسے ایسے خوں ریز واقعات انجام دیتے ہیں کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے ۔یہ بے گناہ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرتے ہیں، لاشوں کو مسخ کرتے ہیں، ناحق خون بہاتے ہیں ، لوگوں کو عزت و آبرو پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور دین و انسانیت کے تمام تر اصول کی دھجیاں اڑاتے ہوئے عورتوں کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ان شرعی نصوص کو کیوں نہیں دیکھتے ، جو ان کے قبیح اعمال کی صریح مذمت کرتی ہیں ۔ انہیں اوسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ نہیں معلوم ، جس میں انہوں نے ایک مشرک پر تلوار اٹھائی تو اس نے کلمۂ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا ، اس کے باوجود اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو قتل کردیا۔ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ‘‘تم نے اسے کیوں قتل کیا؟’’ تو انہوں نے کہا ‘‘اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیفیں پہنچائی تھیں اور اس نے فلاں فلاں مسلمان کو شہید کیا تھا، اسی وجہ سے میں نے اس پر تلوار اٹھائی اور جب اس نے اپنےسر پر تلوار لٹکتی ہوئی دیکھی تو کلمہ پڑھنے لگا ’’ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ اس کےبعد بھی تم نے اسے قتل کردیا؟’’ تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا ‘‘ہاں’’ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ تم قیامت میں اس کے کلمے کا کیا جواب دو گے ؟ ’’ اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا ‘‘ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے لئے مغفرت کی دعا فرما دیجئے ’’ مگر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ تم قیامت میں اس کے کلمے کا کیا جواب دوگے ؟’’ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جملہ مسلسل دوہراتے رہے، یہاں تک کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش میں اس دن سے قبل اسلام ہی نہ لایا ہوتا ’’۔ (متفق علیہ ) دہشت گردی اور انتہا پسندی کے علمبردار افراد اور گروہوں کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نہیں معلوم جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ‘‘مسلمان اس وقت تک اپنےدین کے سایۂ عفو میں رہتا ہے، جب تک کہ اس نے کسی کا ناحق خون نہ کیا ہو۔’’ (بخاری)
شرعی نصوص کا یہ ذخیرہ واضح طور پر انتہا پسندی کی تمام صورتوں کی مذمت کرتا ہے، تاکیدی طور پر یہ بیان کرتا ہےکہ ایسے اعمال اور کارروائیاں دین حنیف کی فطرت اور روح کے منافی ہیں، یہ نصوص اجمالاً و تفصیلات ہر اعتبار سے نہ صرف دہشت گردی اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کو مسترد کرتی ہیں، بلکہ ہر ممکن طریقے سے ان کا مقابلہ کرنے اور ان کے روک تھام کا حکم دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب کہ انتہا پسندانہ افکار خطرناک درجے تک پہنچ چکے ہیں اور انتہا پسندانہ نظریات کے حامل لوگ اور گروہ ادنیٰ اخلاق سے بھی عاری اور بے ضمیر ہوچکے ہیں او رانہیں نصیحت و ہدایت کے ذریعے راہِ راست پر لانا نا ممکن سا ہوچکا ہے ، تو ان کے ساتھ سختی سے پیش آنا ضروری ہے تاکہ مذہب اسلام کو اس غیر اسلامی فکر سے محفوظ رکھا جائے اور بھولے بھالے مسلمانوں کو ایسے گمراہ لوگوں کے شرور ، ان کی وجہ ہونے والے نقصانات اور فساد سے بچایا جائے۔ لہٰذا اس دور میں شرپسندوں کا مقابلہ اور انہیں پست کرنے کی ہر ممکن جد وجہد کرنا شرعی و دینی تقاضا ہے۔
ہمیں اپنے نوجواانوں کو ایسے لوگوں ، جماعتوں سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن تدبیر کرنی چاہئے ، جو اسلام کی غلط نمائندگی کرتی اور اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں ۔ انٹرنیٹ اور دیگر وسائل ابلاغ کے ذریعے دین کے بارے میں فراہم کی جانے والی معلومات پر بھی گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج ہمارے نوجوانوں کا ایک بڑاطبقہ جدید و سائل کا استعمال کررہا ہے اور ان سے حاصل ہونے والے مواد سے متاثر بھی ہورہا ہے۔ جو لوگ دین کی صحیح سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ان کے ذمہداری ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ اور آنے والی نسل کو خالص اسلام سے آگاہ کرنے اور قرآن و سنت کی درست تعلیمات سے بہر ہ ور کرنے کی فکر کریں۔
آج مسلمانوں کو علمی میدان میں آگے آنے اور معاشرے میں پائی جانے والی عملی خرابیوں او ربرائیوں پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔
20 نومبر، 2015 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islam-teaches-forgiveness,-tolerance-moderation/d/105337