مولانا اسرارالحق قاسمی
25 اکتوبر، 2014
اسلام کی آمد سے پہلے انسانی حقوق کے ضیاع کی کوئی حدو انتہا نہیں تھی، خاندان سے لے کر معاشرے تک اور گاؤں محلے سے لے کر ملک کی سطح تک ہر کہیں ظلم و ناانصافی کا دور دورہ تھا ۔ معاشرے کے دبنگ لوگ حق والوں کے حق کو دبا نا گویا اپنی شان کا تقاضا سمجھتے تھے ۔ ان کی نگاہ میں کمزور وں کے لیے کوئی عزت اوراحترام نہیں تھا ۔ حتیٰ کہ وہ ان لوگوں کو بھی ان کے حقوق سے محروم کیے ہوئے تھے ، جو ان کے ساتھ رہتے اور بھائی، بیٹا، باپ بہن ،بیوی اور ماں کی حیثیت سے ان کی زندگیوں کا حصہ ہوتے تھے ۔ اسلام نے اپنی آمد کے ساتھ ہی ظلم و زیادتی اور نا انصافی کے تمام پرانے رواجوں کو مٹا ڈالا۔ اسلام نے اپنی شفاف تعلیمات اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کے ذریعے دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ انسان بحیثیت انسان انتہائی محترم ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی تخلیق ‘‘ احسن ِ تقویم ’’ پر کی ہے او راسے اشرف المخلوقات بنایا ہے، لہٰذا کسی انسان کے لیے ہر گز بھی جائز نہیں ہوسکتا کہ وہ انسان کی شرافت و کرامت کو چیلنج کرے، اسے غلامی کے قعرِ مذلت میں ڈالے ، اس کی آزادی کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کرے اور اسے اس کے حقوق سےمحروم کرنے کی کوشش کرے ۔ اسلام نےاپنی آمد کے ساتھ ہی ببانگ دہل یہ اعلانِ عام کردیا کہ اب ظلم و بدعنوانی اور نا انصافی کا دور ختم ہوگا اور امن و انصاف اور شفافیت کا دور دورہ ہوگا ۔ اسلام نے تفصیل کے ساتھ ہر انسان کے حقوق اور فرائض کا بیان کیا اور ان کے مطابق زندگی گزارنے میں ہی اس کی کامیابی بتائی ۔
قر آنی آیات کے ذریعے مسلمانوں کے لیے جو احکام اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے آتے تھے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تشریح و توضیح زبان کے ذریعے بھی کرتے تھے اور پھر اپنے عمل کے ذریعے بھی ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بار ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ ‘‘ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہو بہو قرآن کی تفسیر تھا ’’ چنانچہ قرآنی احکام کےمطابق ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ بتایا کہ ساری انسانیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے کنبے کی حیثیت رکھتی ہے، لہٰذا سب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہئے ، آپ نے فرمایا کہ تم زمین والوں پر رحم کرو، تم پر آسمان والا رحم کرے گا، آپ نے اپنے تاریخی اور زندگی کے آخری خطبے میں فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت اور برتری حاصل نہیں ہے سوائے تقویٰ او رپر ہیز گاری کے یعنی اسلام کی نظر میں کسی بھی انسان کے بڑا اور محترم ہونے کی دلیل اس کا کسی بڑے خاندان سے ہونانہیں او رنہ ہی اس کامعاشرے میں وجیہہ و شکیل ہونا اس کی وجہ اور دلیل بن سکتا ہے، بلکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک شخص جو کسی بڑے خاندان سے نہ ہو، کسی معمولی خاندان اور معاشرے سے تعلق رکھتا ہو، مگر اسے معرفتِ الہٰی حاصل ہو، تو عنداللہ وہی شخص بڑے مرتبوں والا اور بلند مقام والاہوگا ۔ اسلام کا مساوات انسانی کےتعلق سےیہی عظیم الشان تصور تھا کہ ابولہب ، جس کا چہرہ سیب جیسا لال بلکہ شعلے کی طرح سرخ تھا، وہ ذلت و خواری کی انتہاؤں تک پہنچا دیا گیا، جب کہ حبشہ سے تعلق رکھنے والے بلال، جو شکل و صورت کے اعتبار سے ایک معمولی انسان تھے، وہ اتنے بلند ترین مقام تک پہنچ گئے کہ ایک مرتبہ نبی پا ک صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا کہ جنت میں بلال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آگے چل رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں ۔ اسلام نے ماضی میں اسی مساوات کی تعلیم کے ذریعے بڑی بڑی حکومتوں اور حاکموں کو زیر کیا اور ان کی رعایا کو اپنی محبتوں کا اسیر کیا تھا، قرنِ اول میں مسلمانوں نے جتنی جنگیں لڑیں اور ان کے ذریعے اسلام کی قلمرو میں جتنے ممالک آئے ، ان میں جانوں کا ضیاع بہت کم ہوا اور اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان ملکوں کی رعایا اپنی حکومتوں سے بیزار اور ان کے مظالم اور نا انصافیوں سے تنگ ہوتی تھی اور جب مسلمان ان ملکوں پر قبضہ کرتے تھے، تو اپنی شریعت ، قرآن اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر چلتے ہوئے ان کے ساتھ انتہائی منصفانہ ، محسنانہ اور کریمانہ برتاؤ کرتے تھے، جس سے متاثر ہوئے بغیر وہ قومیں نہیں رہتی تھیں اور وہ اکثر و بیشتر یا تو اسلام قبول کرلیتی تھیں یا اسلامی حکومت کی اطاعت تسلیم کر لیتی تھیں ۔
اسلام نے معاشرتی زندگی میں عورت اور مرد کے تعلقات اور ان کی نوعیتوں پر بھی بھر پور توجہ دی، کیونکہ ماضی کی جتنی تہذیبیں او رمذاہب تھے، سبھوں نے اپنے اپنے طور پر کوششیں کرلی تھیں، مگر وہ مسئلہ زن کی یا حقیقت تک ہی نہیں پہنچ پائے تھے یا اگر پہنچے تھے، تو اسے حل کرنے میں ناکام رہے تھے، اسلام نے عورت کی ہر حیثیت کو واضح کیا اور اسی اعتبار سے اس کے حقوق بھی طے کیے اور اس کی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ کیا، اسلام نے ماں کو انتہائی بلند مقام دیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ ماں کےقدمو ں کے نیچے جنت ہے، اسلام نے بیٹی کو رحمت قرار دیا او رنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنی بیٹی کی بہتر تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور پھر بالغ ہونے کے بعد اس کی اچھی جگہ شادی کردی او راپنی ذمے داری کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی، تو وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا، بیوی کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور زیادہ اہمیت کے ساتھ ہدایتیں دیں اور رہنمائیا ں کیں، تاکہ کوئی مسلمان کسی قسم کی غلط کاری اور غلط فہمی کاشکار نہ رہے اور اپنی ذمے داریوں کو سمجھے اور انہیں ادا کرنے میں سنجیدگی کامظاہرہ کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر انسان وہ ہے، جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ بہتر سلوک کرنا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں مزید رغبت دلانے کے لئے اپنی مثال بھی پیش کی او رفرمایا کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کرتاہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد شادیوں کی ایک اہم وجہ یہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو معاشرتی تعلیم دینا چاہتے تھے اور خاص طور سے عورتوں کے تعلق سے انہیں انتہائی حساس بناناچاہتے تھے ۔
اسلام نے عورتوں پر مرد کو قوام بنایا، مگر اس کامطلب یہ نہیں کہ وہ عورت پر حاکم ہے،بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ مرد عورت کا کفیل اور اس کی ضرورتوں کی تکمیل کاذمے دار ہے، عربی زبان کے قاعدے کے اعتبار سے بھی ‘‘ قوام’’ کا معنی یہی ہے اور شریعت کی مراد بھی یہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام عورتوں کے لیے باہر سے زیادہ گھر کو پسند کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نماز جیسی اہم ترین عبادت اور فرضِ عین کی ادائیگی کے حوالے سے بھی عورتوں سے یہی کہتا ہے کہ تمہارے لیے گھر کا کونہ باہر سے زیادہ بہتر ہے ۔ اسلام عورت کو پردے کا حکم دیتا ہے، اس لیےنہیں کہ اسے آزادی سے محروم رکھناچاہتا او رکھلی فضا سے دور رکھنا چاہتا ہے ، بلکہ اس لیے کہ وہ اسے معاشرے کا گوہر نایاب سمجھتا ہے اور چونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اگر یہ گوہر گراں مایہ کھلے بندوں سامنے آجائے ، تو کوئی بھی اسے اچک لے گا اس لیے وہ حکم دیتا ہے کہ یہ قیمتی ترین چیز پوشیدہ رہے تاکہ کسی غلط نگاہ والے کو اس کی طرف نگاہ اٹھانے اور پھر اسے اچکنے کاموقع ہی نہ ملے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اسلام عورت کو کمانے سے روکتا ہے، اگر ایسا ہوتا تو پھر قرآن کریم میں یہ کیوں کہا جاتاکہ ‘‘ مردوں کے لیے وہ ہے ، جو وہ کمائیں اور عورتوں کے لیے وہ ہے ، جو وہ کمائیں ’’ لہٰذا ضرورت پڑنے پر وہ کام بھی کرسکتی ہے اور پیسے بھی کما سکتی ہے ، پھر ماضی کی تہذیبوں اور اقوام میں پائے جانے والے رواج کی طرح اس کی کمائی اس کے شوہر یا خسر یا کسی او رکی نہیں ہوگی ، وہ اسی کی ہوگی ، مگر ہاں ! اسلام پھر یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ اس کی عفت و عصمت کے آبگینے پر کوئی بال نہ آنے پائے، کیونکہ عفت جیسی لاثانی شئے کی قیمت پر اگر مسلم معاشرے کی کوئی بیٹی چند پیسے کماتی ہے ، تو اسلام کی غیرت کے لیے یہ تازیانہ عبرت سے کم نہیں ہوگا ۔
الغرض اسلام مساوات کا مخالف نہیں، بلکہ اس کا سب سےبڑاعلمبردار ہے،مگر ہاں اس کے اصل معنیٰ و مفہوم میں ، یعنی ہر انسان کو اس کی فطرت ، صلاحیت اور طاقت و قوت کے اعتبار سے حقوق دینا اور فرائض کامکلّف بنانا ۔ اسلام کا تصورِ مساوات اندھا دھند برابری کا قائل نہیں کہ جس کی وجہ سے آج انسانی دنیا روحانی و تہذیبی سطح پر رو بزوال ہے، اسلام ایک فطری مذہب اور تہذیب ہے اور اس کے اصول و ضوابط بھی فطرتِ انسانی کو اپیل کرنے والے ہیں، لہٰذا جو قوم ، معاشرہ اسے مکمل طور پر مانے گا، زبانی بھی اور عمل میں بھی ، وہ کامیاب ہوگا اور جو اسے ٹھکرائے گا ، اسے دیر سویر یہ دنیا بھی ٹھکرا دے گی او رمرنے کے بعد تو خیر اس کی ناکامی یقینی ہے ہی ۔
25 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ ہمارا سماج، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/islam-concept-equality-best-most/d/99732