مولانا اسرارالحق قاسمی
21 اکتوبر، 2014
اس وقت میرے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا وہ بیان ، جس میں انہوں نے ‘ دولت اسلامیہ عراق و شام ’ یعنی داعش کے اُبھرنے کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ 16 اکتوبر کی شام کو امریکی وزارتِ خارجہ واشنگٹن میں عید الا ضحیٰ کے احترام میں منعقد ایک تقریب میں جان کیری نے واضح طور پر خبردار کیا کہ اسرائیل ۔ فلسطین تنازعہ کے جاری رہنے کی وجہ سے داعش جو جنگجو بھرتی کرنے کا جواز مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خطے ( مشرقِ وسطیٰ ) میں لیڈر سے بھی بات کی ہے،اُس نے میرے ساتھ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کا مسئلہ اٹھایا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ سے ہی داعش کو جنگجو بھرتی کرنے کا جواز مل رہاہے۔ لوگوں میں غیظ و غضب پایا جاتاہے اور احتجاج کے موڈ میں ہیں ۔ جان کیری عربوں کو ذلیل کرنے اور ان کے وقار کو مجروح کرنے کے نتیجے میں داعش میں نوجوان شمولیت اختیار کررہے ہیں ۔
جان کیری کے اِس بیان کے کئی پہلو ہیں اور اسی اعتبار سے اس کے متعدد معانی و مفاہیم ہیں ۔ ایک بات جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ کسی امریکی لیڈر نے اتنےبے باک طریقے سے اسرائیل کو عالمِ عرب میں دہشت گردی کے اُبھر نے کاذمہ دار قرار دیا ہے۔ یہ ایسا بیان ہے جس کی اسرائیل کو توقع نہیں تھی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی صہیونی حکومت اس بیان پر تلملا اٹھی ہے اور ردِ عمل کے طور پر نہ صرف یہ کہ اسرائیلی عہدیداروں کے بیان سامنے آچکے ہیں، جس میں کیری کو ‘ نا سمجھی کے ریکارڈ توڑ نے والا’ تک قرار دے دیا گیا بلکہ کیری کے بیان پراپنا احتجاج درج کرانے کے لیے اسرائیلی حکومت کے وزیر دفاع موشے یعلون امریکہ پہنچ چکے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دورے کامقصد کیری کےبیان کےبعد پیدا ہونے والی دو طرفہ کشیدگی کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔
جان کیری کے بیان کا دوسرا پہلو جس سے اتفاق کیا جاسکتا ہے ، یہ ہے کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ذریعہ فلسطینی سربراہ کو ذلیل کرنے اور ان کے وقار کو مجروح کرنے کے نتیجے میں داعش میں نوجوان شمولیت اختیار کررہے ہیں ۔ اس سے قطع ِ نظر کہ ان کے بیان کے اس جز میں سچائی ہے یا نہیں یہ ایک آفاقی سچائی ہے کہ ظلم اور زیادتی کے نتیجے میں ہی پہلے بے اطمینانی ابھرتی ہے اور جب ظلم و زیادتی کی انتہا ہوتی ہے تو یہی بے اطمینانی دہشت گردی اور تشدد کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ یہ ظلم و زیادتی اور نا انصافی خواہ رنگ ، نسل ، مذہب ،علاقہ ، زبان کسی وجہ سے بھی ہو، اپنی کوکھ سے بالآخر تشدد اور انتہا پسند ی کو ہی جنم دیتی ہے۔ دنیا کے جس خطے میں بھی آج بے اطمینانی اور تشدد موجود ہے ، اس کی جڑ میں استحصال اور نا انصافی ہی ملے گی۔
اسرائیل کا خطہ ٔ عرب میں ناجائز وجود ہی بذاتِ خود عربوں کے ساتھ ایک مکمل نا انصافی اور زیادتی تھی لیکن اس پر اکتفا نہیں کیاگیا بلکہ فلسطینیوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کےلیے اُن پر ظلم و زیادتی کے وہ پہاڑ توڑ ے گئے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ اِسی سال 7 جولائی تا 26 اگست یعنی 50 دنوں تک چلنے والی اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار فلسطینی جاں بحق ہوگئے ، جن میں 30 فیصد سے زائد تعداد معصوم بچوں کی تھی ۔ غزہ میں اسرائیلی جنگی جہازوں کی شب و روز کی بمباری میں علاقے کی بیشتر عمارتیں ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوں گئیں اور سیکڑوں بچے زندگی بھر کے لیے اپاہج و معذور بن کر رہ گئے ۔ ظاہر ہے کہ اس ناانصافی اورظلم و بربریت کے نتیجے میں مظلوموں کےدلوں میں اسرائیل اور یہودیوں کے تئیں خیر سگالی کے جذبات تو ابھر نہیں سکتے، نفرت اور انتقام کے جذبات ہی ابھریں گے اور انجام کار اس ظلم و زیادتی کا انتقام لینے یا جواب دینے کے لیے وہ کارروائی تو کریں گے ہی ، خواہ وہ اسرائیلی فوجیوں پر پتھر پھینک کر یا غلیل سے نشانہ بنا کر ہی کیوں نہ ہو۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جب دہشت گردی کے اُبھر نے کے لیے اسرائیل کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے تو اسی وقت اگر وہ اپنی حکومت کا گریبان بھی جھانک کر دیکھ لیتے تو بہتر تھا ۔ اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ امریکہ اسرائیل کی ہر ناجائز حرکت کے اندھی حمایت کرنے کا ذمہ دار ہے تو کہا جاسکتا تھا کہ انہوں نے پورے معاملے کا ایمان دارانہ تجزیہ کیا ہے۔ لیکن انہوں نے یہ بالکل بھی قبول نہیں کیا کہ امریکہ ابھی تک اسرائیل کی ہر غلط حرکت سے چشم پوشی کرتارہا ہے ، اُس کے ہر ناجائز ارادے کو اپنی اندھی حمایت دے کر پایہ تکمیل تک پہنچاتا رہا ہے، اُسے ایک مضبوط حلیف گردانتا رہا ہے اور اس حقیقت سے پہلو تہی کرتا رہا ہے کہ اسرائیل واقعتاً ایک شیطان صفت ملک ہے۔ اگر امریکہ نے انصاف پسندی سے کام لیتے ہوئے اسرائیل کے خلاف اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہوتا تو آج دنیا کو اتنے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا سامنا نہ ہوتا ۔ اب اگر امریکہ نےاحساس کیا ہے کہ اسرائیل فسلطینیوں اور دیگر عربوں کو ذلیل کرنے اور ان کو مجروح کر نے کا شیوہ اختیار کرتارہا ہے ، تو اب بھی وقت ہے کہ وہ اسرائیل کو مزید ظلم و زیادتی کرنے سے سختی کےساتھ روکے اور اس سےبھی زیادہ ضروری ہے کہ امریکہ، جسے دنیا وی طاقت میں برتری بخشی گئی ہے، اپنے مقام و مرتبے کاپاس و لحاظ رکھتے ہوئے پوری دنیا کے معاملات میں انصاف او ر عدل سے کام لے ورنہ آنے والی نسلوں کے لیے دنیا کو ایک محفوظ تر مقام بنانے کے اس کے عزم کو حقیقت سے دور اور کھوکھلا ہی تصور کیا جائے گا۔
بہر حال امریکی وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ داعش کے اُبھر نے کے لیے اسرائیل ذمہ دار ہے ، نصف سچائی کو بیان کرناہے اور نصف سے پہلو تہی کرنا ہے یا دانستہ طور پر اپنا دامن بچانے کی کوشش کرنا ہے۔ دراصل اسرائیل کو موردِ الزام ٹھہرانے سے متعلق جان کیری کا یہ بیان تب سامنے آیا ہے، جب پوری دنیا میں یہ بحث ہورہی ہے اور حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ یہ تنظیم ( داعش ) ا س قدر طاقتور کیسے ہو گئی اور ا س کا خالق آخر کون ہے؟ اس تنظیم کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ کس نے فراہم کرائے؟ جو لڑاکے ہیں ، ان کی تربیت کس نے کی؟ آخر وہ جدید ترین اسلحہ سے لیس کیسے ہوگئے؟ عمومی تاثر یہ ہے کہ القاعدہ کی ہی طرح داعش کا خالق بھی امریکہ ہی ہے، جس کا مقصد اس قسم کی تنظیموں کے توسط سے مسلمانوں میں انتشار پیدا کرنا، انہیں آپس میں مسلک کی بنیاد پر لڑانا ، مسلمانوں کو مجموعی طور پر کمزور کرنا، اسلام اور اس کے ماننے والوں کو بدنام کرنا اور عرب خطے میں اپنے قیام اور فوجی موجودگی کا جواز فراہم کرنا ہے۔
آج اگر امریکہ نے اسرائیل کے ظالمانہ رویے کےتعلق سے حقیقت بیانی جرأت کی ہے تو اسے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے مسلمانوں کے مذکورہ بالا تاثرات کے حوالے سے بھی اپنی پوزیشن ایمان داری و دیانت داری سے واضح کرنے کے لیے سامنے آنا چاہئے ۔دنیا کو دہشت گردی کی لعنت سےپاک کرنے کے لیے دنیا کو آدھی ادھوری نہیں بلکہ پوری حقیقت سے واقف ہونا ضروری ہے ۔ دنیا کے طاقتور ممالک جب تک اپنے مفادات کی خاطر اور اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے اپنی سیاسی مکاریوں اور فتنہ انگیزیوں سے دست بردار نہیں ہوں گے اور بشمول مسلمان جب تک دنیا کی تمام قوموں کے ساتھ انصاف اور احترام پر مبنی معاملہ نہیں کریں گے، اس وقت تک دنیا میں امن کے قیام کا خواب بھی ادھورا ہی رہے گا۔
21 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/america-half-truth-isis-/d/99652