مولانا اسرارالحق قاسمی
4 جنوری ، 2013
لڑکیوں کے ساتھ نار وا سلوک
کی داستان بہت پرانی ہے لیکن حیرت کی بات تو
یہ ہے کہ موجودہ دور میں جب کہ ہر طرف ترقی کا نعرہ دیا جارہا ہے اور عورتوں کے حقوق
کی بات کی جارہی ہے تب بھی لڑکیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک جاری ہے بلکہ اس زمانہ میں
لڑکیوں کو جس طرح کے نازک حالات کا سامنا کرنا
پڑرہا ہے اس کی نظیر ماضی میں بھی نہیں ملتی۔ لڑکیوں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم او رکیا
ہوگا کہ بہت سے مقامات پر ان کو دنیا میں نہ لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج کل الٹراساؤنڈ جیسی مشینیں ایجاد ہوگئی ہیں جن کی مدد سے رحم میں پرورش
پانے والے بچہ کی جنس کے بارے میں معلومات
حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس مشین کا استعمال رحم مادر میں پرورش پانے والے بچے کی حالت اور نشو
نما کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا لیکن لوگوں نے اس سے بچے کی جنس
کے بارےمیں جاننے کی کوششیں شروع کردیں۔ نتیجتاً آج بھی بہت سے شقی القلب اور اولاد
نرینہ کے خواہش مند لوگ ہیں جو رحم مادر میں
لڑکی کی موجودگی کے بارے میں معلوم
ہوتے ہی اسے د نیا میں نہ آنے دینے کی کوشش
کرتے ہیں۔ اس کے لئے اسقاط حمل اور دیگر طریقوں کو اختیار کر کے نہ صرف بچیوں کی جانیں
لی جانے لگیں بلکہ ماؤں کی زندگیوں کو بھی خطرہ میں ڈالا جانے لگا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو
زندہ در گور کیا جاتا تھا مگر اسلام نےاس برسوں پرانی قبیح رسم کا خاتمہ کردیا اور
لڑکیوں کو جینے کاپورا حق دیا بلکہ لڑکیوں پر خصوصی توجہ دینے کی تاکید کی اور اس کے
لئے بڑے اجر کی نشاندہی کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ جو شخص بہترین
طریقے سےلڑکیوں کی سر پرستی کرے ، ان کی تربیت کرے اور اچھا برتاؤ کرے وہ جہنم میں
نہ جائے گا۔’’ (صحیح بخاری جلد دوم) ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: ‘‘جو شخص دو یا تین بہنوں ، یا لڑکیوں کی بہترین طریقے پر تربیت کرے اورکسی
طرح کی زیادتی نہ کرے وہ جنت میں جائے گا۔’’ (ترمذی) اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام
میں لڑکیوں کو کتنے عظیم مقام سے نواز ا گیا ہے ۔ جناب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا : ‘‘ جو شخص دو لڑکیوں کی پرورش کرے ،میں اور وہ جنت میں اتنے قریب ہونگے، جیسے ایک ہاتھ
کی برابر کی دو انگلیاں ’’۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اس دنیا کی
زندگی کے بعد آخرت کی زندگی ہے جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی اور جو کام ہم یہاں کریں
گے، اس کانتیجہ موت کے بعد آخرت کی زندگی میں ہمارے سامنے آئے گا، اگر ہم نے اچھا
کام کیا ہوگا تو ہمیں اس کا اچھا نتیجہ ملے گا اور اگر ہم نے برا کام کیا ہو گا تووہ
بھی ہمارے سامنے آجائے گا۔ وہاں ذرہ ذرہ کا حساب ہوگا۔ باری تعالیٰ سب کے ساتھ انصاف
کریں گے، اس لئے ہمیشہ رہنے والی زندگی کو
اچھا بنانے کے لئے ہمیں یہا ں اچھے کام کرنے چاہئیں ،اپنے پروردگار کی فرمانبرداری کرنی چاہئے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ان
تعلیمات کا یہ اثر سامنے آیا کہ وہ لوگ جو اسلام لانے سے پہلے شقی القلب تھے ، نرم
ہوگئے اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرنے لگے، ان پر جن کے حقوق واجب تھے ان کی ادائیگی کی،
خواہ وہ پڑوسی کے حقوق ہوں یا رشتہ داروں کے ، عورتوں کے حقوق ہوں یا لڑکیوں کے ۔ آج
بھی نوع انساں کو اسی طرح کی تعلیمات کی ضرورت ہے تاکہ سب کو یکساں حقوق ملیں اور سب
کو احترام کی نگاہوں سے دیکھا جائے او رلڑکیوں کو قتل کرنا تو دور کی بات ان پر کسی
بھی طرح کی زیادتی کو روانہ سمجھا جائے ۔
دور حاضر میں چونکہ چہار جانب
مغربیت کا بول بالا ہے، اس لیے انسانی معاشرہ میں طرح طرح کی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
اگر چہ بات عورتوں کی آزادی اور ان کے حقوق
کی کی جاتی ہے لیکن در حقیقت موجودہ دور میں
عورتوں پر انتہائی جبر کیا جاتا ہے اور مختلف طریقوں سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔
یہ دور جدید کا بہت بڑا لمیہ ہے کہ ایک طرف انسان زندگی کے مختلف میدانوں کو سر کر
کے خلاؤں میں پرواز کرنی شروع کردی، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ جیسے آلات ایجاد کر کے
وسیع وعریض دنیا کو گلوبائزیشن کی شکل میں ایک چھوٹا سا گاؤں بنانے میں کامیابی حاصل
کرلی لیکن دوسری طرف انسانیت کے وہ بنیادی مسائل جو صدیوں سے سر اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں،
آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس کے باعث عوام الناس کی بڑی تعداد آج کی تیز رفتار دنیا میں
بھی مختلف النوع مصائب کا بوجھ اٹھا کر زخم خوردہ چیونٹی کی طرح رینگ رہی ہے
۔ خاص طور سے صنف نازک جو انسانی معاشرہ کا اہم ترین ستون ہے اس کی زندگی تو اور زیادہ
کرب و بلا میں ہچکو لے کھارہی ہے ۔ وہ انسان
جو کبھی چاند پرکمنڈیں ڈالتا ہے اور کبھی دیگر سیاروں کو اپنی مٹھی میں لینے کی سعی کرتا ہے وہ صنف نازک کو ان کے مسائل سے نجات نہ
دلا سکا بلکہ الگ الگ طریقوں سےاس کا استحصال کرتا رہا ۔ یہ الگ بات ہے کہ عہد جدید
میں صنف نازک پر ظلم و ستم کے نئے طریقے ڈھونڈ لئے گئے ہیں اور ان کو مسلسل فروغ دیا
جارہا ہے ۔ مثلاً جہیز کی شکل میں خواتین کا استحصال آج بھی جاری ہے ۔ خواتین کے لئےجہیز ایک ایسی مصیبت ہے جس کی
زد میں آکر روزانہ کتنی عورتیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں او رکتنی عورتوں کی زندگی
موت سے بد تر بنی ہوئی ہے۔
اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ
عورتوں کی خرید و فروخت کا ہے۔ خریدی ہوئی عورت کے ساتھ جو سلوک کیا جاتاہے اس کا تصور
کر کے ہی لرزہ طاری ہوتا ہے ۔ اگر چہ خریدی ہوئی عورتوں سے اکثر و بیشتر شادی کرلی
جاتی ہے لیکن شادی سے ان عورتوں کے مصائب کم نہیں ہوتے کیونکہ دلہن بنا لینے کے بعد بھی انہیں خریدی ہوئی
چیز ہی سمجھا جاتا ہے۔ چند سال قبل شائع ہونے والی بعض رپورٹوں سے معلوم ہوا ہے کہ
وہ لڑکیا ں جو زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں ان
کی قیمتیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور وہ لڑکیاں
جو زیادہ خوبصورت دکھائی نہیں دیتیں ان کی قیمت بھی کم لگائی جاتی ہے ۔کبھی کبھی لڑکیوں
کی قیمت کی کمی و زیادتی علاقہ کی بنیاد پر منحصر ہوتی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسام
اور جھارکھنڈ کی لڑکیاں 7 ہزار سے 25 ہزار روپے کے درمیان مل جاتی ہیں۔ لیکن زیادہ
پسند آنے والی ہماچلی لڑکیاں 50 ہزار تک میں آتی ہیں۔ وہ لڑکیاں جن کو فروخت کیا جاتا ہے چاہے انہیں
شادی کے ساتھ فروخت کیا جائے یا بغیر شادی کے ، انہیں بہر دوصورت سخت مصائب و مسائل کا سامنا کرنا پڑتا
ہے ۔ بعض سروے بتاتے ہیں کہ جو لوگ شادی کر کے ان لڑکیوں کو اپنے پاس رکھتے ہیں ، وہ
ان کے ساتھ زر خرید غلاموں جیسا سلوک کرتے
ہیں اور اگر وہ کسی دوسرے کو فروخت کردیتے ہیں
تب ان کے ساتھ اور زیادہ گھناؤنا سلوک کیا جاتا ہے ۔ خریدی ہوئی لڑکیوں کا
انتہائی حد تک جسمانی و جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے اور بعض اوقات نہ صرف شوہر بلکہ
گھر کے دوسرے افراد بھی جسمانی و جنسی استحصال میں پیچھے نہیں رہتے او رچونکہ تشدد
گھر کی چہار دیواری کے اندر ہوتا ہے اس لئے ان بے بس عورتوں کی آہ و بکا اور سسکیوں
کی آواز باہر سنائی نہیں دیتی ۔
عورتوں پرہونے والے مسلسل
مظالم اور لڑکیوں کو رحم مادر میں قتل کئے
جانے کے خطرناک اثرات ظاہر ہورہے ہیں ۔ مثلاً عورتوں کا تناسب گھٹتا جا رہا ہے ۔
1991 کی مردم شماری کے مطابق صوبہ ہر یانہ میں فی ہزار مردوں کےمقابلے میں صرف 865
عورتیں تھیں ۔ 2001 کی مردم شماری کے مطابق یہ تعداد 1000 مردوں کے مقابلے میں مزید
گھٹ کر 820 رہ گئی ۔ جب کسی صوبہ میں لڑکیوں
کا تناسب اس حد تک گھٹ جائے گا اور
لڑکوں کی تعداد بڑھ جائے گی تو پھر ان صوبوں سےجہاں لڑکیوں کا جنسی تناسب زیادہ ہے
یا جن صوبوں میں غربت ہے وہاں سے شادی کر کے لانا ان کی ایک مجبوری بن جائے گی ۔ دوسرے
صوبوں یا علاقوں میں شادی کرنا بھلے ہی فی نفسہ کوئی مسئلہ نہ ہو لیکن علاقائی طور
و طریق میں تفاوت ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ پریشانیاں ضرور لاحق
ہوتی ہیں۔ خاص طور سےاس وقت ان پر یشانیوں میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے جب
کہ شوہر عورت پر ظلم کرتا ہے ۔ اگر بیوی علاقہ ہی کی ہوتی ہے تو اس کے اعزاء و اقربا
ء اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں یا اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرکے شوہر کو قابو
میں رکھتے ہیں چنانچہ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ شوہر اس ڈر سے کہ بیوی کے رشتہ دار
ناراض ہونگے اور بات بگڑ جائے گی، اس طرح کے کسی فعل سے باز رہتے ہیں۔ لیکن وہ بیویاں
جو دیگر صوبوں سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کا
کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، وہ خاموشی سے شوہر وں کے ظلم و ستم کو برداشت کرتی رہتی
ہیں۔ مگر صوبوں یا دور دراز کے علاقوں سے شادی کے بڑھتے چلن کا ایک پہلو یہ بھی ہے
کہ اس طرح علاقوں کی اپنی تہذیب و معاشرت متاثر ہورہی ہے۔ طور وطریق اور روایات کے
الگ الگ ہونے کی وجہ سے ازدواجی زندگیو ں میں کئی طرح کی الجھنیں بھی پیدا ہورہی ہیں ۔ کئی بار لڑکیوں کو علاقائی
منافرت پر مبنی طعنے بھی سننے پڑتے ہیں ۔ اس
کے علاوہ دیگر وہ تمام توازن کی کیفیت پائی جارہی ہے ان پر بھی گہرائی کے ساتھ غور
کیا جانا چاہئے ۔ مردوزن کی تخلیق کا نظام اللہ رب العزت کے ہاتھوں میں ہے اگر انسان
اس میں مداخلت کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ اس کی ہلاکت کا سامان ہوگا ۔
4 جنوری ، 2013 بشکریہ : انقلاب
، نئی دہلی
URL: