ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
9 جون 2025
مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی (1875-1938) مستند مصنف، سوانح گا نگار اور معروف تاریخ نویس ہیں۔ انہوں نے کئی اہم کتب تدوین وترتیب دی ہیں جو آ ج بھی ان کےعلمی رتبہ پر بین ثبوت ہیں۔ ۔ ان کی کچھ تصانیف درج ذیل ہیں:تاریخ اسلام،تاریخ نجیب آباد،جنگ انگورہ،نواب امیر خان،گائے اور اس کی تاریخی عظمت وید اور اس کی قدامت،ہندو اور مسلمانوں کا اتفاق اور آئینہ حقیقت نما وغیرہ وغیرہ۔ اس مضمون میں ان کی ایک اہم کتاب " وید اور اس کی قدامت" پر گفتگو مقصود ہے۔ اس کتاب پر تحشیہ و اضافہ سید حامد علی نے کیا ہے۔ آ خر میں باقاعدہ ایک مقالہ کا بھی اضافہ " وید کیسے وجود میں آ ئے" کتاب کی طرح سید حامد علی کا حاشیہ بھی بیش قیمت اور علمی نکات سے مملو ہے۔ تحشیہ و اضافہ کی ترتیب کے بعد کتاب کی ضخامت 95 صفحات پر مشتمل ہے۔ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی نے اس کتاب کو 1925 میں شائع کیا۔ اسی مطبوعہ نسخہ کو ۔مد نظر رکھ کر سید حامد علی نے اس پر تحشیہ و اضافہ کیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں جوکہ سید حامد علی نے ہی رقم کیاہے۔ تحریر کرتے ہیں " وید اور اس کی قدامت " کا 1925 کا مطبوعہ نسخہ پیش نظر ہے ، راقم الحروف نے نہ صرف یہ کہ طباعت کی غلطیاں درست کیں بلکہ کہیں کہیں ایک آ دھ لفظ کے ردو بدل سے عبارت کا جھول بھی دور کیا ۔ کثرت سے توضیحی ، تائیدی اور تصحیحی حواشی لکھے اور آ خر میں " وید کیسے وجود میں آ ئے" کے عنوان کے تحت 25-26 صفحات کے ایک مقالے کا اضافہ کیا ۔اس طرح کتاب کی ضخامت تقریبا چوگنی ہوگئی۔ افادیت میں جو اضافہ ہوا ، اس کا اندازہ مطالعہ کے بعد ہوسکے گا، اللہ تعالیٰ اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور مصنف اور مرتب کو مغفرت سے نوازے" اس وقت راقم کے سامنے جو نسخہ ہے وہ 1969 کا مطبوعہ ہے۔ اس کی اشاعت ۔ دفتر ادارہ شہادت حق 2003 میں بارہ دری شیر افگن ، بلیماران دہلی سے ہوئی ہے۔
سبب تالیف
مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی نے سبب تالیف کے متعلق لکھا ہے۔ " ہمارے ملک میں آ ریوں کے ایک نو عمر مذہبی فرقے نے اپنے آ پ کو ویدوں کا صحیح اور حقیقی متبع ظاہر کرکے ویدوں کی قدامت اور ازلیت کا دعویٰ نہایت بلند آ ہنگی سے کیا اور گزشتہ صدی سے ہندوستان میں مذہبی مباحثوں اور مناظروں کا بازار گرم کرکے بسا اوقات ہندوستانی قوموں کے امن و سکون میں خلل ڈالا ۔ ویدوں کی قدامت اور ازلیت کے ثابت یارد کرنے کی کوشش میں آ ریوں ، مسلمانوں اور عیسائیوں کی جانب سے بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں ، بہت سے مناظرے ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ، میرا خیال ہیکہ مذہبی تعصب اور بے جا طرف داری سے مجتنب رہ کر علمی اور تحقیقی رنگ میں اس موضوع پر ایک مضمون لکھنے کی گنجائش ابھی باقی ہے۔ 1916 میں، میں نے قدامت وید کے دعاوی کی جانچ پڑتال کے لئے کچھ مواد فراہم کیا تھا ، آ ج اسی کو مرتب کرکے اسے رسالہ کی شکل میں پیش کرتا ہوں"
درج بالا اقتباس کی رو سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ زیر تبصرہ رسالہ آ ریہ سماج کی جانب سے کئے جانے والے ان ا قدامات کا علمی جواب ہے جو انہوں نے اسلام کے حوالے سے کئے تھے۔ یہاں مولانا نے ایک بات بڑی قیمتی فرمائی ہے وہ یہ کہ اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا رد سنجیدگی اور متانت سے دینے کے ساتھ ساتھ علمی طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ جذبات میں آ کر بسا اوقات معاملہ الٹ جاتا ہے۔ اس لیے سنجیدہ اسوہ اور علمی دفاع سے ہی معترضین و معاندین کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ اسی طریقے کو تمام اہل علم نے پسند کیا ہے۔
مباحث کتاب
اس کتاب میں درج ذیل عناوین کے تحت انتھائی جامع اور علمی گفتگو کی گئی ہے۔
پیش لفظ ( یہ اضافہ ہے سید حامد علی کا ) تمہید، قدامت وید کے دعوے پر نظر، آ ریہ لوگ ہندوستان کے قدیم باشندے نہیں ہیں، سنسکرت اور فارسی زبان کا تعلق، قدامت وید کے دعوے کا کوئی موئد نہیں، وید اپنی نسبت کیا کہتے ہیں ؟ کیا ویدوں کی تعلیم ہر زمانہ کے لئے دستور العمل بن سکتی ہیں، وید مجوسیوں کی تعلیمات سے ماخوذ ہیں۔ وید کیسے وجود میں آ ئے ( اس مقالے کا اضافہ سید حامد علی نے کیا ہے)
ہندوستان کے قدیم باشندے
یہ نکتہ بہت ہی اہم ہے اس مسئلہ پر آ ئے دن بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے کون ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ آ ریہ ہندوستان کے قدیم باشندے ہیں بر عکس اس کے بعض دیگر باحثین نے اس بات سے انکار کیا ہے اور ہندوستان کے قدیم باشندے دراوڑی قوم کو بتایا ہے۔ مسلم مفکرین کے علاوہ خود ہندو مصنفین و مورخین نے بھی اس بات سے اتفاق نہیں کیا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے آر یہ ہیں۔ جیسے ڈاکٹر رادھا کرشنن نیز ڈاکٹر ڈبلیو ہنٹر کی تحقیق کے مطابق ہندوستان کے قدیم باشندے آر یہ نہیں۔ چنانچہ اب ہم یہ جاننے کی سعی کریں گے کہ اس بابت مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی کی کیا رائے ہے بایں معنی وہ رقم کرتے ہیں۔
" دنیا بھر کے مورخین میں شاید اس سے بڑھ کر کوئی متواتر اور متفق علیہ مسئلہ نہیں ہے کہ کسی ابتدائی زمانہ میں ایک قوم وسط ایشیا اور دریائے جیحون کے کنارے رہتی تھی۔ اس قوم کا ایک حصہ مشرق کی جانب چلا آ یا اور کوہ ہندوکش کی وادیوں کو طے کرکے ہندوستان میں داخل ہوا، یہاں کے باشندوں کو مفتوح اور مغلوب کرکے سکونت اختیار کی اور آ ریہ کے نام سے موسوم ہوا۔ سیامک ، جس کو ایرانی اپنا ایک پیغمبر مانتے تھے اس کا دوسرا نام پارسا تھا، اس کے نام پر ایران کا نام پارس ہوا، سیامک کے بعد ہوشنگ کو پیغمبری ملی، ہوشنگ کا دوسرا نام ایران شاہ بھی تھا، لہذا فارس کا دوسرا نام ایران مشہور ہوا اور اس ملک کے رہنے والے ایرانی یا ایرین یا آ ریہ مشہور ہوئے۔ دوسری روایت لفظ آ ریہ کی تحقیق میں یہ ہیکہ فرایدون نے اپنے مقبوضہ ممالک کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اپنے تینوں بیٹوں کو اس طرح سپرد کیا کہ شمال و مشرقی حصہ تورج کردیا جہاں تورج اور اس کی اولاد عرصہ دراز تک حکمران رہی ، اس ملک کا نام توران مشہور ہوا۔ مغربی حصہ سلم کو دیا اور درمیانی حصہ جو سب سے زیادہ بہتر اور متبرک حصہ ملک سمجھا جاتا تھا، سب سے چھوٹے بیٹے ایرج کو دیا ، ایرج کے نام سے ایران مشہور ہوا، اور اس ملک کے رہنے والے ایرانی ایرین یا آ ریہ کہلائے۔ تیسری روایت یہ ہیکہ آ ریا مصدر آ ر سے نکلا ہے جس کے معنی قدیم سنسکرت زبان میں ( ہنٹر اور میکس مولر کے قول کے مطابق ) کاشتکاری اور زمین پھاڑنے کے ہیں لہذا آ ریہ کے معنی کاشتکار کے ہوئے۔
آر چمڑا سینے کے اوزار اور بیل ہانکنے کے ڈنڈے کو بھی کہتے ہیں جس کے معنی سرے پر نوکدار کیل لگی ہوتی ہے لہذا آ ریا کے معنی ہوئے چمڑا سینے اور بیل ہانکنے والا ہوئے" متذکرہ بالا شواہد اس بات کی ببانگِ دہل شہادت دے رہے ہیں کہ ہندوستان کے قدیم باشندے آ ریہ نہیں ہیں ۔ فاضل مصنف نے اپنے اس دعویٰ کی تائید میں مشہور مورخ اور ہندوستان کے گزیٹر مرتب کرنے والے ڈاکٹر ڈبلیو ہنٹر کی کتاب" تاریخ اہل ہند" سے ایک اقتباس نقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ہنٹر کوخود آ ریہ سماجی بھی مستند مورخ تسلیم کرتے ہیں۔
" نہایت قدیم زمانے میں ایک اعلی درجہ کی قوم شمال و مغرب کی جانب سے اصلی باشندوں کو زک دیکر ہندوستان میں داخل ہونا شروع ہوئی، یہ قوم آ ریہ نسل سے تھی ، برہمن ، راجپوت اور انگریز اسی ( آریا قوم) کی اولاد ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل میں وسط ایشیاء سے آ ئی تھی اور اسی مرکز، ( وسط ایشیاء) سے چند شاخیں مشرق اور چند مغرب کو روانہ ہوئیں۔ آ ریا نسل کی شاخیں وسط ایشیا کے اصلی مرکز سے، جو ان کا قدیمی گھر تھا ، مشرق کی جانب گئیں اور ان کے زبردست گروہ ہمالیہ کے دروں میں ہوکر پنجاب میں داخل ہوئے اور تمام ہند میں بالتخصیص برہمن اور راجپوت کے نام سے پھیل گئے۔ آ ریا قوم مشرقی نیز مغربی شاخ نے اصل باشندوں کو جو اس سر زمین پر قابض تھے، ماتحت کرلیا اور ہر طرح پر اپنی فضیلت ان پر قائم کی" تصور کی جئے ان حقائق و شواہد کے بعد کوئی یہ دعویٰ یقین سے کرسکتا ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے آ ریا ہیں ۔ مورخین نے ایک نہیں بلکہ سیکڑوں دلائل پیش کئے اور بتایا ہیکہ کہ آ ریوں کی آ مد سے قبل ہندوستان میں ایک اور قوم آ باد و سکونت پذیر تھی۔
ویدوں کی تعلیمات آفاقی ہیں؟
مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی نے اپنی اس کتاب میں ایک انتھائی اہم مسئلہ اٹھایا ہے کہ کیا ویدوں کی تعلیمات پر دور اور زمانہ کے لئے لائق اتباع اور دستور العمل ہیں۔ اس بابت بہت سے ہندوؤں خصوصا آ ریا سماجیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وید ہر زمانے کے لئے آ فاقی اورقابل عمل ہیں۔ اس کے متعلق مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی کی تحقیق ہندوؤں کے اس دعویٰ کا بطلان کرتی ہے ۔ انہوں نے خود علماء ہنود کی آ راء سے اس بات کو ثابت کیا ہے ویدوں کی تعلیمات وارشادات آ فاقی نہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ " اب اس بات کی تحقیق مقصود ہے کہ ویدوں میں ایسی تعلیم موجود ہے یا نہیں ، جو ہر زمانے کے لئے انسانی زندگی کا دستور العمل بن سکے۔ مذہب کی اصل غرض اور اس کا انتھائی باثر جو دنیا میں مشہور و محسوس ہوسکتا ہے وہ تہذیب نفس اور تربیت اخلاق ہے، وہ کتاب جو انسانی زندگی کے لیے دستور العمل ہو، اس میں خدا شناسی، عبادات، معاملات، معاشرت اور تمدن کے اعلی اور پختہ اصول ہونے چاہئے لیکن ویدوں کے ٹٹولنے سے اس قسم کے قوانین جو اس زمانے میں کسی معمولی انسان کی تسکین خاطر کو موجب ہو سکیں دستیاب نہیں ہوتے۔" سید حامد علی نے اس کے ذیل میں جو حاشیہ درج کیا ہے وہ بھی انتھائی اہم ہے۔ انہوں نے ہندو مت کے مشہور مفکر و محقق رادھا کرشنن کی کتاب Religion and Society کے حوالے سے لکھا ہے۔ " ویدوں میں دھرم کی منضبط تفصیلات نہیں ہیں ، وہ آ ئیدیل چیزوں کی طرف اشارہ کرتے اور کچھ اعمال کی نشاندھی کرتے ہیں، ضوابط و احکام سمرتیوں اور دھرم شاستروں میں ۔ جو عملا مترادف ہی پائے جاتے ہیں ، سمرتیوں ان یاد داشتوں کا لفظ بہ لفظ حوالہ دیتی ہیں جو وید کے ماہر علماء سے محفوظ کی گئی ہیں، سمرتی کا وہ ضابطہ ، جس کا ماخذ وید میں مل سکتا ہو، اسے وید کی اتھارٹی حاصل ہوجاتی ہے" اب یہ بات پورے اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ ویدوں کی تعلیمات میں عالمگیریت اور آ فاقیت کا کوئی بھی عنصر نہیں پایا جاتا ہے۔ اس بات کا اعتراف و اقرار خود علماء ہنود نے کیا ہے۔ جیسا کہ ہم نے رادھا کرشنن کے نظریہ کو سمجھا۔
ویدوں کے ماخذ
مولانا نے اپنی اس کتاب میں ایک بحث یہ اٹھائی ہے کہ وید مجوسیوں کی تعلیمات سے ماخوذ و مشتق ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے " قدیم ایرانیوں اور ژ ند و اوستا کے مذہب میں سورج کی بڑی تعظیم ہے ۔ اسی طرح رگ وید کے متعدد مقامات میں سورج بطور دیوتا مانا گیا ہے" اسی طرح انہوں نے اس بات سے بھی استدلال کیا ہے کہ " کوی جس کے معنی سنسکرت زبان میں شاعر کے ہوگئے ہیں، ویدوں میں کاہنوں غیب دانوں اور داناؤں پر بولا گیا ہے۔ ایرانیوں میں بھی اس لفظ کا ایسا ہی استعمال ہوتا تھا اور یہ ان کے مشہور بزرگوں کا خطاب ہوتا تھا " یہ ملاحظہ کی جئے آ گ ( اگنی) پرستش و تعظیم اور اس کو بطور معبود ماننا دونوں جگہ یکساں پایا جاتا ہے۔
"قربانیوں کے طریقے اور عبادت کے وقت کی دعائیں ویدوں اور پارسیوں کی کتابوں میں اس قدر مشابہ اور اس کثرت سے ہیں کہ اگر سب کو اس جگہ نقل کیا جائے تو یہ ایک دفتر بن جائے ، پرستش کے متعلق مجوسیوں کی کتاب میں درج ہے ، میں متر بزرگ کو اپنی طاقت یعنی ہوم کے آ لات اور منتروں کے زور سے ایرانیوں کی خوبئی قسمت اور بہتری کے واسطے سراہتا ہوں ، وہ متر میری مددکرے، وہ متر ہمیں کشایش دے، وہ متر ہمارے دلوں کو مسرت بخشے، وہ متر ہمیں بہت سی بخششیں دے، وہ متر ہمیں تندرستی دے، وہ متر ہم کو ہمارے دشمنوں پر فتح دے" یہی مفہوم رگ وید میں بھی آ یا ہے۔ "میں پاک طاقت والے متر اور دشمنوں کا ناش کرنے والےورن کو جو دونوں مل کر مینھ برساتے ہیں، بلاتاہوں اے عقیل متر اور ورن ، تم دونوں ہمارے یگ کو زیادہ کرو، تم بہت آ دمیوں کے فائدے کے واسطے ںپیدا ہوئے ہو، بہت لوگوں کو تمہارا آ سرا ہے" ان شواہد کی روشنی میں مصنف کا تجزیہ یہ ہے کہ ویدوں کی تعلیمات مجوسیوں کی دینی کتب ژ ند اور آوستا جیسی کتب سے اخذ کی گئی ہیں۔ لہذا وید کی قدامت اور ان کا کلام الٰہی ہونا دونوں دعوے آ ریہ سماجیوں کے دلائل کی رو سے خارج ہوتے پیں۔
وید کیسے وجود میں آ ئے؟
اس عنوان کے تحت ایک مقالے کا اضافہ سید حامد علی نے کیا ۔ انہوں نے اس موضوع پر نہایت تفصلی گفتگو کی۔ اہم بات اس مقالے میں یہ ہے کہ مقالہ نگار نے ہندو علماء اور مفکرین کی کتب سے حوالے دیئے۔ وہ لکھتے ہیں۔ " وید کیسے وجود میں آ ئیے ؟ کون شخص یا کون لوگ اس کے مصنف ہیں ؟ اس کا صحیح اور قطعی جواب دینا آ ج دشوار بلکہ ناممکن ہے" بالائی سطروں سے اس بات کا یقین ہوگیا کہ خود علماء ہنود میں اس حوالے سے متضاد آ راء پائی جاتی ہیں۔ یہاں ان میں سے چند آ راء نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سید حامد علی نے ویدانت درشن کے ادھیائے 1-3 کے 20-39 سوتروں کے حوالے سے لکھا ہے۔ " ایشور نے دنیا کے آ غازمیں ( اپنے) ازلی و ابدی کلام ( وید) کو اس لئے ظاہر کیا کہ اس سے دنیا کے معاملات نہایت خوش اسلوبی سے پورے ہوسکیں اور تمام موجودات کے نام مع ان کی ذات و صفات کے سب وید سے مقرر کئے ۔ اور ایک قوم کے ذاتی اعمال مع ان کے خانگی معاملات اور اسماء کے سب کا اظہار وید سے کیا، اور جن لوگوں نے پہلی دنیا میں جو کام کئے تھے ، اس مرتبہ بھی انہوں نے انہیں کاموں کو پسند کیا اور جس کو پہلی دنیا میں جو جو عادات پڑ چکی تھیں ، چاہے وہ اچھی تھیں یا بری ، انہوں نے دوبارہ پیدا ہوکر بھی اپنی انہی سابقہ عادات کو اختیار کیا اور ہر ایک رشی کا کام مع ان کے ناموں کے ایشور نے قیامت کبریٰ کے بعد ہی ویدوں سے مقرر کردئیے تھے" اس اقتباس کے ضمن میں سید حامد علی نے لکھا ہے کہ معلوم ہوا کہ وید خدائے لایزال ولم یزل کا ازلی و ابدی کلام ہے جسے وہ کائنات کے آ غاز کے وقت معاملات میں اہل دنیا کی رہنما ئی کے لئے نازل فرماتا ہے ۔ االبتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ویدوں کے کلام الٰہی ہونے میں شک خو ہندو علماء کو ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی معروف کتاب ڈسکوری آ ف انڈیا میں ویدوں کو انسانی ذہن کی تخلیق و تصنیع سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری نے باقاعدہ حدوث وید لکھ کر ویدوں کی اندرونی شہادتوں سے یہ ثابت کیا ہے کہ وید نہ ہی قدیم ہیں اور نہ ہی یہ کلام خداوندی ہیں۔
کتاب کی اہمیت
مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی کی اس کتاب کی پہلی خوبی یہ ہیکہ اس کے اندر ویدوں کے متعلق تمام بنیادی نکات کو شامل کیا گیا ہے ۔ کتاب کی ہر بحث اور نکتہ علم و تحقیق کے زیور سے مزین ہے۔ مزید برآں کہ سید حامد علی کے حاشیہ نے کتاب کی اہمیت اہل علم کی نظر میں بڑھا دی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آ بادی نے جن مسائل و مباحث پر گفتگو کی ہے ان کے تمام نکات کو انتھائی سلیس اور سادہ زبان میں سمجھانے کی کاوش کی ہے۔ گویا اگر کسی کو ہندوؤں کے دینی مصادر ویدوں کو سمجھنا ہو تو ایسے تشنگان علوم کے لئے یہ کتاب بہت حد تک اس کی تشنگی بجھانے کا کام کرے گی۔ آ خر میں یہ عرض کردوں کہ ہندو مت میں وید ان کے بنیادی مصادر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ ان کے الہامی ہونے میں اہل علم ہندو مفکرین نے کسی بھی طرح کی وضاحت نہیں کی ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کا مقدس سرمایہ ہے ۔ ضمنا یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا کہ دور جدید کے کئ مصنفین جنہوں نے تقابل ادیان پر کام کیا ہے ۔ وہ بھی کسی حدتک ویدوں کے الہامی ہونے کے قائل ہیں۔ اس بابت راقم کی رائے یہ ہیکہ یہ انتھائی قدیم کتب ہیں مجدد سیرت ڈاکٹر حمیداللہ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ قرآن کریم کی آ یت زبر الاولین سے مراد یہی وید ہیں۔
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/maulana-akbar-shah-khan-najibabadi-religions/d/135817
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism