New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 07:00 AM

Urdu Section ( 1 Jul 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

From The History of The Salaf: The Martyrs for People (Part-2) شہداء علی الناس

 

 مولانا عبدالرزاق

27 جون، 2016

حضرت عثمان نے معزول ہونے سے انکار کردیا اور کہا ۔ ‘‘میں توبہ کرلوں گا۔’’ مصریوں نے جواب دیا ۔‘‘ یہ پہلی غلطی ہوتی تو ہم بخوبی توبہ دانابت مان لیتے ،مگر آپ تو بہ بھی کرتے رہے ہیں ۔ اور توڑتے بھی رہے ہیں، اب ہم ہٹیں گے نہیں، آپ کو معزول یا قتل ہی کر کے دم لینگے آپ کے طرفدار سامنے آئیں گے تو ہم ان سے لڑیں گے۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےجواب دیا ۔ ‘‘ میں نے خلافت سےدست بردار ہوں گا ، نہ کسی کو تم سے لڑنے کا حکم دوں گا۔’’ اس پر شور مچ گیا حضرت علی علیہ السلام نے مصریوں کے تیور بگڑتے دیکھے ، تو انہیں باہر نکال کےخود اپنے گھر چلے گئے۔

تین دن گزر گئے او راموی مشیروں نے کچھ نہ ہونے دیا، اب لوگ آپے سےباہر ہوکر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر چڑھ دوڑے ان کامطالبہ اب صرف یہ تھا ، خلافت سے دستبردار ہوجاؤ ۔ اسی دوران میں مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حمایت میں باہر سے فوجیں آرہی ہیں ۔ یہ سن کر باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر ہلہ بول دیا ۔ خلیفہ کے طرفداروں نے تیر چلا کے ایک مخالف ،صحابی ، کثیر بن الصلت کندی کو مار ڈالا۔ باغیوں کامطالبہ ہواکہ قاتل ان کے حوالےکردیا جائے ۔ مطالبہ نامنظور کیا گیا تو باغی اور زیاد ہ جوش میں آگئے انہوں نے خلیفہ کے دروازے اور ڈیوڑھی میں آگ لگادی۔ دورازہ جل گیا اور ڈیوڑھی گر پڑی۔ باغی گھر میں گھس نا چاہتے تھے ۔ مگر کچھ لوگ مدافعت پر کھڑے تھے آپس میں جھڑپ شروع ہوگئی ۔لیکن کچھ باغی چپکے سے پچھواڑے چلے گئے او ر عمر بن حزم کی چھت پر سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان میں اتر گئے دروازے پر لوگوں کو اس کی اس وقت خبر ہوئی جب یہ اپنا کام کر چکے تھے ۔ ( ذی الحجہ 35 ہجری)

خلیفہ کاقتل اور وہ بھی خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل معمولی واقعہ نہ تھا ، اسی لئے تعجب کیا جاتا ہے کہ ایسا بڑا واقعہ اتنی آسانی سے خود دارالخلافہ میں کیسے پیش آگیا اور وہ بھی باہر کے غوغائیوں کے ہاتھوں سےلیکن تاریخی واقعات پر غور کرنے سے یہ تعجب دور ہوتا ہے ۔ بات یہ ہےکہ مدینہ کی عام آبادی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روٹھ چکی تھی۔ اکابر صحابہ کے بڑی سردار طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سخت مخالف تھے ۔ ستم پر ستم یہ کہ خود بنوامیہ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، انتشار اور خانہ جنگی چاہتے تھے ۔ اسی لیے جب مصر کوفہ او ربصرہ کےشورہ پشتوں نے مدینہ کا رخ کیا تو یہاں کسی نے انہیں روکنا ضروری نہ سمجھا ۔ یہ سر کش آئے اور مدینہ پر چھا گئے ان کی مجموعی تعداد سات یا نو سو تھی۔ سب لڑنے مرنے والے تھے ۔ قابض ہوجانے کے بعد مدینہ والوں کا ان سے مقابلہ کرنا آسان نہ تھا، پھر وہ باغیوں کے ہاتھوں اصلاح کی امید بھی رکھتے تھے۔ یہ واقعہ ہے کہ مدینہ میں اکیلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔ جو آخر تک اصلاح حال کی کوشش کرتے رہے ۔ شورش پسندبھی حضرت کی عزت کرتے تھے، کیونکہ بے غرض یقین کرتے تھے مگر مدینہ پر شورش پسندوں کے قبضے کے بعد اکیلے حضرت علی علیہ السلام ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بچا نہیں سکتے تھے ۔ وہ صرف بنی امیہ تھے، جو اس المیہ کو روک سکتےتھے ۔ بنی امیہ اچھی طرح جانتے تھے کہ جس راہ پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لیے جارہے ہیں۔ قتل پر ختم ہوگی۔ یہ جانتے ہوئے بھی بنی امیہ نے پوری کوشش کی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مسلمانوں سے صفائی سے نہ ہونے پائے ۔ تاریخ بتاتی ہےکہ مدینہ میں لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر معترض ہونا شروع ہی کیا تھا کہ امیر معاویہ ، شام سےآئے اور صحابہ کے ایک مجمع کو جس میں حضرت علی علیہ السلام، طلحہ رضی اللہ عنہ، زبیررضی اللہ عنہ، سعد رضی اللہ عنہ بن وقاص، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف اور عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر موجود تھے اس طرح کامخاطب کیا ۔ ‘‘ میں اپنے بوڑھے بزرگ کے حق میں نیک وصیت کرتا ہوں۔ یا د رکھو ، اگر تمہاری آبادی میں انہیں قتل کرڈالا گیا تو بخدا میں مدینہ کو پیدلوں اور سواریوں سے بھردو ں گا۔

اسی مجلس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے ، مگر حضرت علی علیہ السلام کو دھمکانے کےلئے کہا۔ ‘‘تم نے ایک ایسی آگ سلگائی ہے جو پانی سےنہیں بجھے گی ۔’’ معاویہ ابھی مدینہ ہی میں تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک دن اکابر صحابہ کو جمع کیا ۔ حضرت علی علیہ السلام کو خاص طور سے بلایا گیا او رکہنے لگے ، میرا چچا بھائی معاویہ تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے ، معاو یہ نےاپنی تقریر میں بھی حضرت علی علیہ السلام ہی کو دھمکیاں دیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوکچھ ہوگیا تو قیامت برپا کردو ں گا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ معاویہ نےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ سب کچھ ٹھیک رہے گا اگر علی علیہ السلام ، طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کی گردنیں مار دی جائیں اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ منظور نہ کیا، تو معاویہ نے کہا، میں چار ہزار سپاہی آپ کے حفاظت کے لیے مدینہ بھیج دو ں گا ۔ حضرت نے یہ بھی قبول نہیں کیا تو صلاح دی کہ ان تینوں کو دو ر از سرحدوں پر لڑنے کے لیے بھیج دیا جائے اور یہ بھی نہیں تو مجھے اجازت دیجئے کہ آپ قتل ہوجائیں تو آپ کے خون کادعویٰ کروں ۔’’ ان تصریحات سے صاف ظاہر ہے کہ معاویہ اور دوسرے بنی امیہ اچھی طرح جانتے تھےکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کی راہ پر لیے جارہے ہیں مگر ہ جانتے ہوئے بھی حفاظت کا کوئی بندوبست نہ کیا۔ کیونکہ منصوبہ بھی یہی تھاکہ قتل کاواقعہ پیش آئے او رخانہ جنگی برپا کرنے کاموقع مل جائے۔ بعض روایتوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے محاصرے کےدنوں میں معاویہ سے فوجی مدد طلب کی تھی او رمعاویہ نےایک فوج بھی شام سےروانہ کردی تھی، مگر اس ہدایت کے ساتھ راستے میں ایک جگہ رکی رہے او رنئے حکم کا انتظار کرے ۔ فوج برابر پڑ ی رہی اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ، تو شام کو واپس چلی گئی۔ بہر حال قتل کے بعد لوگ کئی دن حیرت میں رہے، پھر فکر ہوئی کہ کسی کو خلیفہ بنایا جائے ، تین ہی صحابیوں کی طرف نگاہیں اٹھ سکتی تھیں ۔ علی علیہ السلام ، طلحہ رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ ، لیکن واقعہ قتل نے طلحہ رِضی اللہ عنہ کامعاملہ بہت مشتبہ کردیا تھا ۔ اس لیے انہیں آگےبڑھنے کی ہمت نہ ہوئی ، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام آیا تو مخالفت کی جرأت بھی نہ کرسکے۔

بے حد انکار کے بعد امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ خلافت قبول کرنے پر راضی ہوئے۔ مسجد میں اجتماع ہوا اور حضرت نے خطبہ دیا ۔‘‘ یہ معاملہ میں پسند نہیں کرتاتھا ، مگر تمہارا اصرار جاری رہا کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو ،تو سنو ! میری حکومت خود آرائی کی حکومت نہ ہوگی بلکہ تمہارے مشورہ سےچلی گی ۔ بیت المال کی کنجیاں تومیرے پاس رہیں گی مگر ایک پیسہ بھی تمہاری مرضی کے بغیر نہ لوں گا ۔ کیا تم یہ سن کر بھی میری حکومت چاہتے ہو۔؟’’ سب نے جوش سےہامی بھر لی اور بیعت شروع ہوگئی ۔ سب سے پہلے طلحہ رضی اللہ عنہ نے وبیعت کی ۔ ان کا داہنا ہاتھ شل تھا۔ اسی کو بڑھا یا اس پر کسی نے کہا ‘‘ خدا خیر کرے شکون برا ہوا ہے لنجا ہاتھ سب سے پہلے بڑھا ہے۔’’ بیعت کے بعد طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ نے کوفہ اور بصرہ کی گورنر یا ں طلب کیں ۔ حضرت نے انکار کیا، تو مکہ جانے کی اجازت چاہی ۔ حضرت ان کے ارادوں سے واقف تھے، مگر آزادی میں خلل ڈالنا نہیں چاہتے تھے ۔ اجازت دے دی۔ دراصل معاویہ کے خط دونوں کے پاس پہنچ چکے تھے ۔ لکھا تھاکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ کیا جائے۔ حضرت علی علیہ السلام کو خلافت سےبے دخل کردیا جائے اور یہ دونوں باری باری خلیفہ بنیں ۔

 معاویہ نے یقین دلایاتھا کہ ان کی بیعت کرلیں گے اور ہرقسم کی مدد دیں گے یہ بھی معاویہ کا ہی مشورہ تھا کہ مکہ جائیں جہاں یمن کا عثمانی گورنر ملے گا او ر مالی مدد پیش کرے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پہلے سے مکہ میں موجود تھیں اور حضرت علی علیہ السلام سےان کا رنج بہت پراناتھا ۔ معاویہ نے لکھا کہ انہیں بھی ملا لیا جائے ۔ بنی امیہ کے اور لوگ بھی مکہ میں ہیں وہ بھی ساتھ دیں گے۔ پھر سب مل کر عراق جائیں او راس پر قبضہ کرلیں ۔ کہ بہت بڑا اورطاقتور مرکز ہے ۔ معاویہ چاہتے تھے کہ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین سےٹکرا جائیں ۔ فریقین میں سے ایک ختم ہوجائے گا او رجسے فتح ہوگی وہ بھی کمزور پڑ جائے گا او رمعاویہ کو اپنی سلطنت قائم کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ معاویہ کی اسکیم کامیاب رہی ۔ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ اپنی بیعت تو ڑ کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور بہت سےلوگوں کو لے کر بصرے کی طرف چل پڑے۔ امیر المؤمنین بھی مقابلے کےلئےمدینہ سے روانہ ہوئے بصرہ کے سامنے دونوں فوجوں کا سامنا ہوا ۔امیر المؤمنین اب بھی خونریزی نہیں چاہتے تھے ۔ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ سےبات چیت کی ۔ مصالحت کی امید بھی پیدا ہو گئی تھی کہ رات کے پچھلے پہر فوجوں میں خود بخود لڑائی چھڑ گئی ۔ یہ کارروائی قاتلان عثمان کی ہوگی۔ جو مصالحت میں اپنی موت یقین کرتے ، یا پھر دونوں نے لڑائی کی آگ بھڑکا دی ہوگی۔ تاریخ میں یہ لڑائی ،جنگ جمل کے نام سے مشہور ہے،کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اونٹ پر سوار تھیں اور یہ اونٹ علم کا کام دے رہاتھا ۔

 اس لڑائی میں دس ہزار مسلمان کام آئے مقتولوں میں طلحہ رضی اللہ عنہ او رزیر رضی اللہ عنہ بھی تھے، خود اپنی فوج کے ایک تیر کاشکار ہوگئے ۔ اور زبیر رضی اللہ عنہ کوجب وہ لڑائی سے کنارے کرکے مدینہ جارہے تھے ایک آفاقی عرب نے دھوکے سے مار ڈالا ۔ طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ اور بعد میں معاویہ کو امیر المؤمنین سےلڑنے کی کوئی جائز وجہ نہ تھی ۔لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا دعویٰ لےکر اٹھے تھے او رمطالبہ کرتے تھے کہ قاتلین عثمان کو ان کے حوالے کردیا جائے ۔ مگر ان کا دعویٰ غلط تھا او رمطالبہ نا معقول ۔ طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ زبیر رضی اللہ عنہ کےرشتے دار نہ تھے کہ خون کا دعویٰ کرسکتے ۔ معاویہ اموی ضرو ر تھے مگر عثمان کے وارث یہ بھی نہ تھے ۔ ان کے مقابلے میں امیر المؤمنین کا جواب نہایت معقول تھا ۔ فرماتے تھے، مدینہ کے صحابہ اور عام مسلمان مجھے خلیفہ تسلیم کر چکے ہیں ۔ تم بھی میری بیعت و اطاعت قبول کرو۔ پھر قاتلانِ عثمان رضی اللہ عنہ کامقدمہ پیش کرنا ۔ میں شریعت کے مطابق فیصلہ کردو ں گا۔ امیر معاویہ بھی خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبے کی کمزوری سمجھتے تھے ۔

 اسی لیے انہو ں نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ اہل مدینہ کی طرح اہل شام کوبھی خلافت کامعاملہ طے کرنے کاحق ہے یعنی وہی بات جو ہم ضرور شروع میں کہہ آئے ہیں ۔ خلافت کے بارے میں ہم پرانے دستور کو توڑ دینا ۔ امیر المؤمنین علیہ السلام او ر معاویہ میں  کوئی مقابلہ نہ تھا ۔ اسلام میں امیر المؤمنین کا مرتبہ معلوم و مشہور ہے۔ دشمنوں کو بھی انکار کی جرأت نہ تھی لیکن ایک اور چیز بھی تھی ۔ جومعاویہ کے پا س تھی ۔ مگر یامیر المؤمنین کے پاس نہ تھی ۔ وہ ڈپلومیسی تھی ۔ معاویہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے سب کچھ جائز سمجھتے تھے ۔ لیکن امیر المؤمنین حق سے بال برابر ہٹنا بھی روا نہ رکھتے تھے ۔دولت کی بہتات مسلمانوں میں بہت سی خرابیاں پیدا کرچکی تھی ۔ پہلے کی سی استقامت باقی نہ رہی تھی ۔ معاویہ نے شام کے خزانے دنیا پر ستوں کے لئے کھول رکھے تھے اور وہ معاویہ کی طرف کھنچے چلےآتے تھے ۔ ان میں سب سے بڑی شخصیت فاتح مصر عمر و بن العاص کی تھی ۔ جو حضرت عمر وحضرت عثمان کے سب سے بڑے مخالفوں میں سے تھے اور ان کے قتل میں ان کے پروپیگنڈے کا بڑا حصہ تھا مگر اب خانہ جنگی سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے ۔

 انہیں صرف حکومت مصر کی طلب تھی ۔ معاویہ نے دے دینے کاوعدہ کر لیا او ریہ معاویہ کے ہوگئے ۔ معاویہ کی کامیابی میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ڈپلومیسی کا بڑا ہاتھ تھا ۔ جنگ جمل کے بعد امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کو صرف معاویہ سے نپٹنا رہ گیا تھا ۔ جغرافیائی موقعہ کا خیال کرکے حضرت نے مدینہ کے بجائے کوفہ کو اپنا مرکز بنا لیا ۔ اورجنگی تیاریاں مکمل کرکے شام کی سرکوبی کو چل پڑے۔ صفین کے مقام پر رن پڑا، امیر المؤمنین نے معاویہ کو بار بار پیغام بھیجا ، مسلمانوں کی خونریزی کیوں ہورہی ہے ۔ میدان میں نکل آؤ ہم تم لڑکر فیصلہ کرلیں ، معاویہ میں اتنی ہمت کہاں تھی ! جانتے تھے کہ امیر المؤمنین کے ہاتھ میں وہی تلوار موجود ہے ، جو ان کے نانا، ماموں اور بھائی کے سر اڑاچکی ہے۔ صفین کی لڑائی میں جب شامیوں کو اپنی بربادی کا یقین ہوگیا تو انہوں نے فریب سے کام لیا ۔نیز وں پر قرآن لٹکا کر بلند کردیے اور چلنا شروع کیا ۔‘‘ ہمارا تمہار ا فیصلہ کتاب اللہ کردے۔’’ معلوم ہوتا ہےکہ امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کی فوج میں معاویہ کے ایجنٹ موجودتھے اور اپنا کام کررہے تھے ۔ امیر المؤمنین نے ہر چند سمجھایا کہ فتح آنکھوں کے سامنے ہے ،قرآن دیکھ کر دھوکانہ کھاؤ ، مگر بہت سے فوجی سرداروں نے نصیحت ماننے سے صاف انکار کردیا آخر لڑائی موقوف ہوگئی اور یقینی فتح ہاتھ سے نکل گئی ۔ مگر کتاب اللہ کا فیصلہ کیسے معلوم ہو؟ طے پایا کہ فریقین اپنااپنا نمائندہ مقرر کردیں او ر دونوں نمائندے مل کر جو متفقہ فیصلہ کریں اسے مان لیا جائے معاویہ نے عمر و بن العاص کو اپنا نمائندہ تجویز کیا ۔ امیر المؤمنین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مقرر کر نا چاہتے تے مگر کوفہ والے پھر اڑ گئے کہ ابو موسیٰ اشعری کو نمائندہ بنایا جائے۔ ابوموسیٰ امیر المومنین کے مخالف رہ چکے تھے مگر کوفہ والوں کی ضد سے مجبور ہو کر حضرت نے انہی کو مقرر کردیا۔اب امیرالمومنین کا نمائندہ ایسا شخص تھا ، جو اسی قدر نہیں کہ مخالف رہ چکا تھا ،بلکہ از حد سادہ لوح بھی تھا، اس کے مقابلے میں معاویہ کا نمائندہ گرگ باراں دیدہ اور عرب کا مانا ہوا گھاگ تھا ۔

عمر و نے ایک ہی دو ملاقاتو ں میں ابوموسیٰ کو شیشے میں اتا ر لیا ۔ یہ حضرت مان گئے کہ علی اور معاویہ ، دونوں کو معزول کرکے مسلمانوں سےکہہ دیا جائے کہ کسی اور آدمی کو اپنا خلیفہ بنا لیں۔ فیصلہ سننے کے لئے جب مسلمانوں کا اجتماعی ہوا ، تو عمرو نے یہ کہہ کر ابو موسیٰ کو آگے بڑھا دیا کہ بزرگ ہیں اور پہلے بولنے کا انہی کو حق ہے یہ حضرت او ربھی زد میں آگئے اور اعلان کردیا کہ مسلمانوں کی بھلائی ان میں کہ حضرت علی علیہ السلام او رمعاویہ دونوں کو معزول کردیا جائے ۔ لہٰذا میں علی علیہ السلام کو معزو ل کرتاہوں ۔ ابو مو سیٰ کے بعد عمرو نے کہا ۔‘‘ تم سن چکے ہو کہ ابو موسیٰ اپنے آدمی علی علیہ السلام ابن ابی طالب کو معزول کرچکے ہیں ۔ میں بھی علی کو معزول کرتا ہوں لیکن معاویہ کو خلیفہ قرار دیتا ہوں ۔‘‘ فیصلہ’’ محض ڈھکوسلا تھا، سب جان گئے ۔ لیکن امیر المومنین کو اس سے بڑا نقصان پہنچا ۔ جمیعت میں پھوٹ پڑ گئی ۔ وہی لوگ جو کتاب اللہ کا حکم ماننے میں پیش پیش تھے، امیر المؤمنین کے جانی دشمن بن گئے ۔ خارجیوں کا فرقہ انہی سے بنا۔ امیر المؤمنین کوبھی اس فرقے سےلڑنا پڑا اور بعد کی مسلم حکومتوں کو بھی اس فرقے نے بہت پریشان کیا۔ آج بھی وہ فرقہ عمان اور بعض دورسرے مقامات میں موجود ہے۔‘‘فیصلہ’’ تو ڈھونگ ہی تھا۔ مگر صفین کی جنگ ختم ہوگئی ۔ او رمعاویہ حتمی تباہی سے صاف بچ گئے ۔ اب امیر المؤمنین نے کوفہ کا رخ کیا او رمعاویہ پر آخری ضرب لگانے کی تیاریاں کرنے لگے ۔ ساٹھ ہزار فوج آراستہ ہوچکی تھی اور یلغار شروع ہونے والی تھی ۔ کہ ایک خارجی ، عبدالرحمان بن ملجم نے دغا بازی سے حملہ کردیا، امیر المؤمنین شہید ہوگئے ۔ ( رمضان 40 ہجری)

اس ملجم کی تلوار سےحضرت علی علیہ السلام کا کام تمام نہیں کیا بلکہ پوری امت مسلمہ کو قتل کر ڈالا تاریخ کا دھاراہی بدل ڈالا۔ ابن ملجم کی لوارنہ ہوئی ۔ خلافت ،منہاج نبوت پراستوار رہتی اور امت مسلمہ سچ مچ خیر امتہ ہوکر ‘‘ شہداء علی الناس ’’ کے منصب کی مالک بن جاتی ۔ لیکن بدبخت ابن ملجم کی تلوار نے بنی امیہ کی شہنشاہی اور اس کی تمام تخریبوں کے لیے راہ صاف کردی ۔ ابن ملجم کی تلوار سے ‘‘خیرامت ’’ کا خاتمہ ہوگیا ۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔ (ختم شد)

(ابن سعد ، طبری ۔ ابوالفد اء ، یقوبی ، الامۃ وایساسۃ اور دوسری کتب تاریخ کی طرف متوجہ کیجئے )

27 جون، 2016  بشکریہ : روز نامہ صحافت، نئی دہلی

URL for Part-1 https://newageislam.com/urdu-section/from-history-salaf-martyrs-people-part-1/d/107804

URL: https://newageislam.com/urdu-section/from-history-salaf-martyrs-people-part-2/d/107815

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..