مولانا عبدالحمید نعمانی
13جولائی2017
اس بار کالم لکھنے کے لیے
ہمارے سامنے کئی عنوانات وموضوعات تھے،لیکن عالمی اور ملک کے مخصوص حالات میں متعلقہ
موضوع پر کچھ لکھنا مناسب معلوم ہوتاہے۔ اس سلسلہ میں دونوں طرف سے اپنے اپنے مقاصد
کے مدنظر لکھا بولا جارہا ہے ۔ غیر مسلموں کے خلاف محاذ جنگ بنانے کا نام جہاد نہیں
ہے، او رنہ جہاد کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے یہ ضروری ہوجاتاہے کہ کسی بھی ملک
کے دارالاسلام بننے تک جہاد کرنا مذہبی فریضہ ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ پر
امن زندگی گزارنے کا تصور کیسے کیا جاسکتاہے؟ مسئلے کاحل یہی ہے کہ مسلمان اپنے مذہبی
تصورات سے خود کو پوری طرح الگ کرلیں ۔ ان کے مذہبی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیر مسلموں
کے ساتھ امن و اعتماد کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتے ہیں، اس پروپیگنڈے کے بد اثر ات
یہ مرتب ہورہے ہیں کہ جہاں غیر مسلموں میں امت مسلمہ سے متعلق شدید نفرت و عدوات تیزی
سے پروان چڑھ رہی ہے تو وہیں دوسری طرف اس کے افراد میں مایوسی اور غصہ میں گزرتے دنوں
کے ساتھ اضافہ ہوتارہا ہے۔ مزید اضافہ اپنے تخریبی و فسادی عمل کو جہا دکے مقدس نام
سے انجام دینے والے کی حرکتوں سے ہورہا ہے ۔ آج کی تاریخ میں اس کی شدید ضرورت ہے کہ
دونوں طرف کی انتہا پسندی پر مبنی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے راہ اعتدال کو سامنے رکھا
جائے ۔
بیشتر غیر مسلم لکھنے بولنے
والے جہاد جیسے تعمیری عمل کو اس کے شرائط و آداب سے ناواقف و ناآشانا ہوتے ہیں ۔ وہ
ان کو نظر انداز کرکے سیدھے سیدھے کہتے نظر آتے ہیں کہ جہاد کا مطلب بلا تفریق ہر حالت
میں تمام غیر مسلموں سے جنگ اور قتال ہے۔ ان کو پتا نہیں کہ اقتدار میں حصہ داری اور
معاہدہ و صلح کی حالت میں کسی بھی طرح کی جنگ اسلامی شریعت کی رو سے جائز نہیں ہے اور
اسے جہاد کے فضائل بتاتے ہوئے مجاہد کہلانے کا شوق رکھنے والے فسادی بھی نظر انداز
کرتے رہتے ہیں ،تاکہ ان کی سرگرمیوں کے لیے جواز پیدا ہوسکے ۔ اس دو طرفہ ضرب سے امت
مسلمہ کی اکثریت بری طرح مجروح ہورہی ہے اور بے قصور افراد کو ناکردہ گناہوں کی سزا
مل رہی ہے۔ ہمارے یہاں اصول فقہ میں وضاحت سے کہا گیا ہے کہ جہاد فی نفسہ کوئی حسن
اور اچھی چیز نہیں ہے کہ اس میں جان ومال جاتا ہے، بلکہ حسن بغیرہ یعنی خدا کے کلمہ
کو بلند کرنے ، ظلم و زیادتی کو روکنے ، آزادی اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے نیک مقاصد
کے حصول کے پش نظر اس میں حسن اور اچھائی آجاتی ہے۔ایمرجنسی او ربدامنی کی حالت میں
اگر بر سر اقتدار اتھارٹی دفعہ 144نافذ کردے اور مخصوص حالت میں دیکھتے ہی گولی مارنے
کاحکم دے دے تو کیا یہ کہا جائے گا کہ حکومت نے تو گولی مارنے کا آرڈر دے رکھا ہے،
وہ چاہتی ہی نہیں کہ لوگ امن وسکون سے رہیں، اپنے گھر سے کاروبار زندگی جاری رکھنے
کے لئے نکلیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ معنی ومطلب نکالنا اورلوگوں کو بتانا سراسر شرارت اور
دل و دماغ کی خباثت اور کھوٹ کا ثبوت ہے نہ کہ حقیقت کا بیان۔
عالمی سطح پرصیہونیوں سے لے کر ملک کی سطح پر ہندوتووادیوں کے مختلف گروہوں
کی طرف سے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ دیکھو قرآن کہتا ہے کہ مسلمانو!
مشرک تمہیں جہاں بھی ملے قتل کردو، قرآن کی سورۃ توبہ کی آیت نمبر 5میں کہا گیا ہے
کہ پھر جب عزت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو۔ پکڑو اور انہیں
گھیر لو ، ان کی تاک میں ہر جگہ بیٹھو ،درجنوں صیہونیوں و ہندو تووادی ادارے اس آیت
کے حوالے سے لوگوں کو گمراہ اور مشتعل کرکے نفرت و عداوت کی بنیاد پر سماج کو تقسیم
کررہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک کمزور ہونے کے ساتھ اس کی ترقی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی
ہیں۔ آریا سماجیوں کے ساتھ سناتن دھرمیوں کے تعلیمی و تربیتی اداروں میں چھوٹے چھوٹے
بچے بچیوں تک کے ذہن میں نفرت و اشتعال کا زہر بھرا جارہا ہے۔ چند دنوں پہلے ایک اسکول
کا ویڈیو بھی دیکھا، جس میں بچے بچیاں لاٹھی اور دیگر ہتھیار چلا رہے ہیں ۔ بھگوا لباس
پہنے ایک 70-75برس کے استاذ مذکورہ آیت کا ذکر کرتے ہوئے طلبہ و طالبات سے صحت مند
اور ہتھیار چلانے کی تعلیم و تربیت پر زور دے رہا ہے۔ پھر بچوں کے گروپ سر براہ بچہ
ہاتھ میں مذکورہ متعلقہ آیت کے ساتھ جہاد اور جنگ کے متعلق کچھ آیات کے ہندی ترجمے
پر مشتمل ایک پرچی کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ بچوں میں انتہائی اشتعال انگیز تقریر کرتے
ہوئے ان سے کہتا ہے کہ مسلمانوں سے دوستی کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ وہ تو ہماری مونڈی
کاٹنے کی تاک میں ہیں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ نفرت انگیز اشتعال کا ماحول پیدا ہوتا ہے
او ربہت سے لوگ اصل حقیقت کو جانے بغیر غلط پروپیگنڈے کا شکار ہوکر قتل وفساد کی جاری
کارروائیوں میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ آج جو ہم پورے ملک خصوصاً بی جے پی کے اقتدار والی
ریاستوں میں قاتل و فسادی بھیڑ کو مسلم اقلیت کے افراد، مختلف بہانے سے قتل او رمار
پیٹ اور زبردستی جے شری رام ، جے ہنومان کہلوانے کا مظاہرہ کرتے دیکھ رہے ہیں ،اس میں
اس طرح کی شرارت آمیز مذموم تشہیر کا بڑاعمل دخل ہے۔ جس نے قرآن اور اسلامی اصول جنگ
و جہاد کا تھوڑا بھی مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حالت جنگ اور عام حالات کے احکام
و ہدایات الگ الگ ہوتے ہیں ۔
نفرت پھیلانے والوں کو اتنی
چھوٹی سی بات معلوم نہیں ہے کہ جنگ ہو یا جہاد باالقتال سے متعلق جو آیات ہیں ، سب
کامخاطب صاحب اقتدار با اختیار امیر او ر حکومت ہے، نہ کہ اجتماعی یا انفرادی کسی بھی
لحاظ سے عام لوگ ۔ جنگ کا تعلق، جنگ میں شامل مقابل افراد سے ہوتا ہے نہ کہ تمام عام
لوگوں سے ۔ شری کرشن، ارجن سے بار بار جنگ کے لیے ابھارتے ہوئے قتل کے لیے جو کہہ رہے
ہیں، اس کا تعلق میدان جنگ کو کروکیشتر میں مقابل میں جنگ کے لیے کھڑے افراد سے ہے،
نہ کہ اس سے باہر کے سارے لوگوں سے، جس طرح قرآن میں مد مقابل جنگ میں شامل افراد سے
جہاد بالقتال کی بات کہی گئی ہے، اس طرح یہ وید اور گیتا میں بھی ہے۔ اتھر وید
(4,5,8) میں کہا گیا ہے اے بہادرو ، دوڑو ، بھاگو، بڑھو، اپنے راجا کے حکم سے دشمن
کا خاتمہ کردو، جیسا بھیڑیا بھیڑ کو پیس ڈالتا ہے ، تم دشمن کو پیس ڈالو ،وہ مہلک دشمن
تم سے بچ کرنہ جائے اس کی جانوں کواپنے دیس قتل کاٹ ڈالو، اسی کا نڈہ 5کے سکت8کے شلوک
10میں کہا گیاہے، جو رتھ والے ہیں، یا بغیر رتھ کے ہیں، جو گھوڑا پرسوار ہیں یا پیدل
ان سب دشمنوں کو مارو، او ران کے گوشت کو گدھوں کے لیے چھوڑ دو، گیتا ( بات 3 ،شلوک
37) میں کرشن ، ارجن کو ہدایت دیتے ہیں کہ اے ارجن، اگر تم اس جنگ میں مارے گئے تو
سورگ پائے گا اور جیت گیا تو اس زمین پر راج کرے گا، اس لیے لڑنے کا پکا ارادہ کرکے
کھڑا ہوجا، دونوں صورتوں میں تمہاری برتری ہے، ہتو ویرا پسیسی ، سورگم، جتوا، وابھوکیے
مہم، تسماد تتو، کونتیہ ، یدھائے کرت نشچیا ۔ تو کیا اس کامطلب یہ ہے کہ وید گیتا ،
سب کے قتل او ربرباد کردینے کی ہدایات دیتے ہیں؟
جنگ او ر جہاد کے سلسلے میں
چاہے قرآن کی آیت ہو، یا وید، گیتا کے شلوک، سب کا تعلق جنگ میں شامل مقابل کے افراد
سے ہوتا ہے، نہ کہ ان کے قبیلے اور رشتے ناتے کے سارے افراد سے۔ قرآن میں جس آیت میں
مشرکوں کو قتل کرنے کی بات کہی گئی ہے اس کے فوراً بعد کی آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے
کہ اگر تم سے کوئی پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو۔ آج کے تیز رفتار تشہیری نظام میں
، پہلے سے کہیں زیادہ اس کی ضرورت ہے کہ اسلام کی امن و اخلاق پر مبنی تعلیمات و ہدایات
کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کیا جائے اور دونوں طرف سے جو کچھ فسادی عناصر اسلام اور
جہاد کے حوالے سے اس کے مقاصد و منشاء کے خلاف گمراہ کن تعبیرات وتشریحات پیش کرکے
سماج میں نفرت اور خون و خرابے کو بڑھاوا دیتے ہیں، ان کے غلط کام کی چھوت سے عام لوگوں
کو بچایا جائے ۔
13جولائی،2017 بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/an-evil-attempt-spread-hatred/d/111843