معصوم مرادآبادی
16 ستمبر،2021
آج 16 ستمبر ہے۔ آج ہی کے
دن 1857 میں انگریزوں نے ’دہلی اردو اخبار‘ کے ایڈیٹرمولوی محمد باقر کو شہید کیا
تھا۔ جس وقت انہیں توپ کے دہانے پر رکھ کر اڑایا گیا تو ان کی عمر 77 سال تھی۔
قصور یہ تھا کہ انہوں نے پہلی جنگ آزادی میں باغی سپاہ او ربہادر شاہ ظفر کا ساتھ
دیا تھا۔ مولوی محمد باقر ہندوستان کی جنگ آزادی میں شہید ہونے والے پہلے صحافی
ہیں۔یہ ہمارا ہی سرمایہ افتخار ہے کہ ملک کی آزادی کی خاطر اپنی جان قربان کرنے
والاپہلا صحافی بھی اسی اردو زبان نے پیدا کیا جس کی کوکھ سے ’انقلاب‘ زندہ باد‘
کے نعرے نے جنم لیا تھا۔
’دہلی اردو اخبار‘ کے ایڈیٹر مولوی محمد باقر اپنے عہد کے ایک جید
عالم اور مفکر ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے ایک ایسے دور میں صحافت کے مشن کو زندہ
کیا جب سچ بولنا او رلکھنا سب سے بڑی آزمائش کا کام تھا۔ مئی 1857 میں جب دہلی کے
اندر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں آزادی کا صور پھونکا گیا اور انگریز
سامراج کی چولیں ہلنے لگیں تو جن لوگوں نے سپاہیوں کے حوصلوں اور امنگوں کو اپنی
تحریروں سے جلا بخشی ان میں مولوی محمد باقر کا نام نمایاں ہے۔1857کی جنگ کے نام
کام ہوجانے کے بعد انگریزوں نے سب سے پہلے جن سورماؤں کو سولی پر چڑھایا ان میں
مولوی محمد باقر کانام بھی شامل ہے۔ انہیں 77 سال کی پیرانہ سالی میں کوئی مقدمہ
چلائے بغیر سزائے موت دے دی گئی۔ اردو صحافت کے معروف محقق مولانا امداد صابری کے
لفظوں میں: مولانا باقر، میدان جنگ میں دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کے ساتھ باغیانہ
مضمون اپنے اخبار میں چھپواتے تھے۔ چنانچہ 11 مئی،1857 او ردہلی میں مجاہدین نے
انگریزی حکومت کا خاتمہ کرنے والا جو تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا اس کی جو رپورٹ
16 مئی 1857 کے‘دہلی اردو اخبار‘ میں شائع ہوئی، تھی، وہ مولانا باقر کی مرتب کردہ
تھی اور باہمت بنانے والی جو نصیحتیں‘دہلی اردو اخبار‘ میں دوران جنگ چھپی تھیں،
وہ بھی مولانا باقر کی لکھی ہوئی تھیں اور
خاص طور پر وہ اشتہار جو انگریزوں او راس کے حامیوں نے دہلی کی جامع مسجد کی دیوار
اور دیہاتوں کے تھانوں میں مجاہدین کے خلاف جہاد کو غیر شرعی ثابت کرنے کے لئے چسپا
ں کیا تھا اس کی نقل اور اس کا تفصیلی جواب 5 جولائی 1857 کے ’دہلی اردو اخبار‘
میں شائع ہوا تھا،وہ بھی مولانا باقر کے زور قلم کا نتیجہ تھا۔‘
(مولانا امداد صابری: اردو کے اخبار نویس جلد اوّل صفحہ 156)
انقلاب 1857 کے دوران سب
سے زیادہ جری کردا ر ’دہلی اردو اخبار‘ نے ادا کیا۔ انقلاب کا آغاز 10 مئی کو
میرٹھ کے سپاہیوں کی بغاوت سے ہوا۔11 مئی کو یہ سپاہی دہلی پہنچے۔ جس کے بعد
راجدھانی دہلی شورش وہنگامے کے لپیٹ میں آگئی۔ 17 مئی کو ہفتہ وار ’دہلی اردو
اخبار‘ کا شمارہ منظر عام پر آیا تو اس کے صفحات انقلاب کی خبروں سے لبریز تھے۔ یہ
اخبار جو متوازن اور بڑی حد تک محتاط و لہجہ کا حامل تھا، انقلاب کی فضا کے زیر
اثر اس کا احتیاط اور لب و لہجہ کا تواز ن بگڑ گیا او راب یہ مکمل طو رپر ایک بدلا
ہوا اخبار تھا۔ صفحہ اوّل پر انقلاب کی خبر کا عنوان او راس کا ابتدائیہ قرآنی
آیات سے شروع ہوا تھا۔ خبر کا عنوان تھا ”فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي
الْأَبْصَارِ “(عبرت ہے دیکھنے والی آنکھ کے لیے) خبر کے آغاز میں جو قرآنی آیات
درج تھیں او ر بعد ازاں ایڈیٹر نے اپنی زبان میں جو تمہید باندھی تھی، اس میں خدا
کی بزرگی اور برتری کے اعلان اور عزت و ذلت عطا کرنے میں اس کے بے پایاں او رلامحدود
اختیارات کے اعتراف کے بعد انسانوں کی غفلت او رگمراہی کی طرف توجہ دلائی گئی تھی
او رپھر انگریزوں کی حکومت و طاقت کے خلاف ہونے والے عظیم معرکے کو موضوع بنایا
گیا تھا ملاحظہ ہو: ’وہ حکام‘ ظاہر الاستحکام جن کے استقلال حکومت و انتظام کے
زوال کا نہ ان کو خیال تھا او رنہ کسی غفال کو وہم و گمان کبھی آسکتا تھا ایک
طرفتہ العین میں وہ نمایاں ہوگیا‘۔
اس جنگ کی شخصی رپورٹنگ
کرنے کے علاوہ مولوی محمد باقر بہادر شاہ ظفر کے ایک معاون کی حیثیت سے بھی سرگرم
رہے۔ شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ دہلوی نے اپنی تالیف ’تاریخ عروج سلطنت انگلشیہ
ہند‘ میں لکھا ہے کہ ’بہادر شاہ ظفر کے حکم سے وہ مال گزاری کے اس شاہی خزانے کو
کامیابی سے با حفاظت لے کر آئے جو پیدل فوج کی ایک پلٹن چند سواروں کے ساتھ گڑگاؤں
سے دہلی لا رہی تھی اور جس پر راستے میں تین سو میواتیوں سے مڈبھیڑ ہونے کے بعد
لڑا ئی ہورہی تھی۔ اس کے لئے وہ بہادر شاہ کی ہدایت پر امدادی فوی سپاہ کو ساتھ لے
کر گئے تھے۔(امداد صابر ی تاریخ صحافت اردو، جلد اوّل ص 212)
دہلی اردو اخبار نے اپنے
صفحات پر نہایت ولولہ انگیز تقریریں شائع کیں۔ یہ تقریریں مجاہد ین آزادی کے
حوصلوں کو مہمیز کرنے والی تھی۔ ایک ایسی ہی تقریر میں مجاہد ین نے کہا تھا:
’یہ معرکہ تمہارا بھی تواریخ میں یاد رہے گا کہ کس بہادری اور جواں
مردی سے تم نے ایسی اولوالعزم او رمتکبر سلطنت کے تکبر و غرور کو توڑا ہے اور ان
کی نخوت فرعونی اور غرور شدادی کو یکسر خاک میں ملا دیا ہے او ر ہندوستان کی سلطنت
کو جس پر بڑے بڑے بادشاہوں کا دانت تھا اور ان سے (انگریزوں سے) نہ لے سکتے تھے۔
تم نے اون کے قبضہ اقتدار سے نکال لیا اور دعائے ہندوستان کو کہ بلائے ناگہانی میں
آگئی تھی اس مصیبت سے نجات دی‘۔ (دہلی اردو اخبار 21 جون 1857 نمبر 24جلد 19)
1857 میں ’دہلی اردو اخبار‘ کے غیر معمولی کردار کے بارے میں
مولانا امداد صابری رقم طراز ہیں: دہلی میں جب تک جنگ جاری رہی اس وقت تک دہلی
اردو اخبار نے نہ صرف اپنے صفحات آزادی کو کامیاب کرنے کے لئے وقف کررکھے تھے۔
بلکہ اس کے بانی مولوی محمد باقر نے قلم کی جنگ کے علاوہ تلوار سے بھی انگریزوں سے
جنگ لڑی او رجس وقت جنگ ناکام ہوئی اور انگریز دہلی پر قابض ہوگئے تو اخبار بند
ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا محمد باقر انگریزوں کی گولی کا نشانہ بنے او رجام شہادت
نوش کیا۔‘(امداد صابری: روح صحافت مطبوعہ 1668۔ ص۔26061)
مولوی محمد باقر کے
پرنواسے سے آغا محمد باقر (نبیرہ محمد حسین آزاد) نے خاندانی روایت کے حوالے سے
اپنے نانا کے آخری ایام کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے۔’خاندانی روایت یہ ہے کہ
مولانا آزاد(محمد حسین آزاد) کے سردار سکندر سنگھ کے پاس کشمیر ی دروازے چلے آئے
اور سردار بہادر سے بضد منت سماجت التجا کی کہ میں اپنے شفیق باپ کی آخری بار
زیارت کرنا چاہتاہوں۔ سردار بہادر نے جواب دیا۔حالات بہت خطرناک ہیں آپ کا دہلی میں
ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن آزاد نہ مانے آخر سردار صاحب راضی ہوگئے۔ قرار پایا
کہ آزاد ان کے ساتھ سائیں کا لباس پہن کر چلیں۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوگئے اور آزاد
سائیں کے لباس میں ان کے پیچھے بھاگے۔ دہلی دروازے کے پاس میدان میں ایک ہجوم نظر
آیا۔ جو دن کی دھوپ سے نڈھال تھا فوجی پہرے میں وہ اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن
رہے تھے۔ اس ہجوم میں ایک طرف ایک مرد خدا نہایت خشوع و خضوع سے اپنے پروردگار کی
عبادت میں محو تھا۔ وہ آزاد کے شفیق باپ مولوی محمد باقر تھے۔ آزاد گھوڑے کی باگ
تھامے فاصلے پر کھڑے اور منتظر تھے کب آنکھیں چار ہوں۔ مو لوی صاحب نے نماز ختم کر
کے نظر اٹھائی تو سامنے اپنے پیارے بیٹے کو پایا۔ چہرے پر پریشانی کے آثار پیدا
ہوئے اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ادھر یہی حالت بیٹے پر گزری۔ انہوں نے
دعا کے لئے فوراً ہاتھ اٹھائے اور ساتھ ہی اشارہ کیا کہ بس آخری ملاقات ہوچکی۔ اب
رخصت۔ سردار صاحب نے اپنا گھوڑا موڑ لیا او رواپس چلے آئے۔‘(آغا محمد باقر: مولوی
محمد باقر، مطبوعہ ادبی دنیا، لاہور)
آغا محمد باقر کے اس بیان
سے واضح ہوتاہے کہ مولوی محمد باقر کو جنرل ہڈسن نے اس وقت گولی نہیں ماری تھی جب
وہ پرنسپل ٹیلر کا سامان لے کر گئے تھے بلکہ مولوی محمد باقر کی شہادت کا واقعہ
انہیں حراست میں لینے کے بعد کا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ مولوی محمد باقر کو
گرفتار کرنے کے بعد ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں چلا او رنہ ہی انہیں اپنی صفائی
پیش کرنے کا موقع دیا گیا بلکہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے انہیں 77 سال کی کبرسنی
میں نہایت سفاکی سے شہید کردیا گیا۔
16 ستمبر، 2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism