مولانا ندیم الواجدی
4جون ، 2012
بیت المقدس پر یہودیوں کے
غاصبانہ قبضے نے مسلمانوں کو سالہا سال سے بے چین ومضطرب کررکھا تھا کہ اب مسلمانوں
کے قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کے خلاف ان کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں نے ساری دنیا کے مسلمانوں
کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، یہودی چاہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کو شہید کر کے اس کی
جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جائے، اسرائیل نے 7جون 1967کوبیت المقدس کے مشرقی حصے پر
قبضہ کیا تھا، جہاں مسلمانوں کی عظیم مسجد الاقصیٰ واقع ہے ، اب اسرائیل حکومت چاہتی
ہے کہ بیت المقدس کے جسے وہ یروشلم کے قدیم
نام سے پکارتے ہیں،مغربی او رمشرقی حصوں کو ملا کر ایک متحدہ شہر تعمیر کیا جائے جسے
اسرائیل کی راجدھانی بنادیا جائے، فی الحال تل ابیب اسرائیل کی راجدھانی ہے ، اپنے
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسرائیل حکومت بیت المقدس میں بین الاقوامی پابندیوں
کے باوجود نئی نئی کالونیاں تعمیر کررہی ہے اور دور دراز علاقوں سے یہودیوں کو لاکر
یہاں بسایا جارہا ہے تاکہ ان کی تعداد قدیم فلسطینی باشندوں کی تعداد کے مقابلے میں
زیادہ ہوجائے، اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ مسجد اقصیٰ کو جو مسلمانوں کا
قبلہ اوّل بھی ہے ، اور جس کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے یہ نسبت
بھی حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات یہاں تشریف لائے ، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس مسجد میں تحیۃ المسجد ادا فرمائی ، اور تمام انبیا ء کرام علیہم السلام
کی امامت فرمائی جو پہلے سے وہاں موجود تھے او رآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری
کے منتظر تھے، یہود چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عقیدتوں او رمحبتوں کا یہ مرکز روئے زمین
سے نیست ونابود کردیا جائے، اس منصوبے کو بہ روئے کار لانے کے لیے یہودی 1967سے ہی
طرح طرح کی سازشیں کرنے میں مصروف ہیں، کبھی آثار قدیمہ کی تحقیق اور جستجو کے نام
پر مسجد اقصیٰ کی دیوار وں کے نیچے کھدائی کی جاتی ہے اور کبھی آثار قدیمہ کی تحقیق
اور جستجو کے نام پر مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے کھدائی کی جاتی ہے او رکبھی اس
کے صحن میں ، مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ کسی طرح مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کمزور پڑجائیں
او ریہ عظیم مسجد خود بہ خود ز میں بوس ہوجائے،وقفے وقفے سے کھدائی کا یہ سلسلہ لگارتار
جاری ہے، یہودی کہتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کو مسمار کر کے تعمیر کیا گیا
ہے، کھدائی کا یہ سلسلہ اسی ہیکل کی تلاش میں شروع کیا گیا ہے۔
1968میں تو یہودی اہلکاروں نے ٹھیک مسجد اقصیٰ کے نیچے ایک لمبی او
رگہری سرنگ بھی بنالی تھی اور اپنی ایک عبادت گاہ بھی تعمیر کرلی تھی، ساری دنیا یہودیوں
کی اس حرکت سے نالاں ہے، اسلامی ملکوں کا سخت ردّ عمل تو فطری ہے، اقوام متحدہ کے ذیلی
ادارے یونیسکو نے بھی اپنی اٹھارویں بین الاقوامی کانفرنس میں تجویز 3/327کے ذریعہ
اسرائیل کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ کھدائی کے اس سلسلے کو
فوراً موقوف کردے، ا س کی تخریبی سرگرمیوں سے ہزاروں سال پرانے شہر بیت المقدس کی ثقافتی
او رتاریخی تشخص کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ، یہودیوں کو مسجد اقصیٰ سے کس
قدر نفرت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہودیوں نے اس میں آگ لگانے
کی ناپاک کوشش بھی کی اور اس کوشش میں وہ بدبخت جزوی طور پر کامیاب بھی رہے ، مسجد
اقصیٰ میں آگ لگانے کا واقعہ اکیس اگست 1969کو پیش آیا، اس سے ایک دن قبل قابض فوجوں
نے حرم ثالث کی پائپ لائنیں کاٹ دیں اور مسلمانوں کو حرم کی حدود کے قریب آنے سے روک
دیا،اسی دوران ایک شدت پسند یہودی نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگادی ، دیکھتے ہی دیکھتے آگ
کے شعلے بھڑک اُٹھے او راس کی لپٹوں نے مسجد کے اندرونی درو دیوار کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا،آگ مسجد کے جنوبی مسقّف حصے میں پوری طرح پھیل چکی تھی، مجاہد اعظم سلطان صلاح
الدین ایوبی کا بلند قامت منبر بھی آگ کی لپیٹ میں آگیا تھا، اچانک مسلمانوں کا ایک
زبردست ریلا اسرائیلی فوجوں کی مزاحمت کے باوجود مسجد میں داخل ہوا او رانہوں نے آگ
پر قابو پالیا،آگ کے اس اندوہ ناک واقعے کے بعد اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ آگ
شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ، حالانکہ ماہرین نے معائینے کے بعد کہا تھا کہ آگ حادثاتی
نہیں تھی بلکہ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی، بعد میں ایک آسٹریلین یہودی کو گرفتار کیا
گیا ،جسے بعد میں یہ کہہ کر رہا کردیا گیا کہ اس نے پاگل پن میں یہ حرکت کی تھی،
1969میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اکثریت کے ساتھ مذمتی قرار داد منظور کی ،
لیکن اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ، امریکہ اور برطانیہ کی یہ ناجائز اولاد
آج تک اسی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔
مسجد اقصیٰ کی تازہ صورت حال
یہ ہے کہ اسرائیل کی انتہا پسند حکمراں جماعت لیکود پارٹی کی اپیل پر یہودی جتھوں کی
شکل میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہورہے ہیں اور مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے اس کی جگہ ہیکل
سلیمانی کی تعمیر کے اپنے دیرینہ مطالبے کے حق میں نعرے بازی بھی کررہے ہیں ، حرم مسجد
کے اندر غیر قانونی طو رپر داخل ہونے والوں میں اسرائیلی پارلیمنٹ کے ساتھ ممبران بھی
ہیں، اس طرح کی سرگرمیوں سے مسجد اقصیٰ کے اطراف میں حالات انتہا ئی کشیدہ ہیں، نماز
یوں کو مسجد اقصیٰ کے اطراف میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں، نماز یوں کو مسجد میں داخل
نہیں ہونے دیا جارہا ہے ، پورے شہر میں اسرائیل پولیس اور سرحدی گارڈ کے مسلح دستے
گشت کررہے ہیں، حرم شریف کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر بھی سیکورٹی کے افراد موجود
ہیں، یہودیوں کی دیدہ دلیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے صحن مسجدمیں
صیہونی پرچم لہرادیا ہے، جو ان کے ناپاک عزائم کی ترجمانی کرتا ہے، قبلہ اوّل مسجد
اقصیٰ کے خطیب او ر القدس کی سپریم اسلامک کونسل کے سربراہ شیخ عکرمہ صبری نے اسرائیلی
فوج کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے صحن میں صیہونی پرچم لہر ائے جانے پر پرشدید تنقید کرتے
ہوئے کہا ہے کہ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، یہ انتہائی خطرناک اقدام ہے، خطیب محترم نے
اس مقدس مسجد پر اسرائیلی فوج اور آباد کاروں کے پے درپے جارحانہ حملوں کو اس مسجد
کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا،انہوں نے زور دے کر کہاکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں
کی شان ہے اس کی حفاظت تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، اسرائیل مسجد اقصیٰ کے اطراف
میں نقلی یہودی قبریں بنا کر اپنا حق ثابت کرنا چاہتا ہے، قبلہ اوّل کے ارد گرد کے
ماحول کو یہودی ثقافت کا رنگ دینے کے پس پشت مسلمانوں کی اس عبادت گاہ پر قبضہ کرنا
اسرائیل کی نئی سازش ہے،چنانچہ القدس کے بلدیہ نے وزارت سیاحت کے ساتھ مل کر دس لاکھ
ڈالر ز کی لاگت سے مسجد اقصیٰ کے جنوب میں واقع سلون کالونی میں یہودی آباد کاری کا
ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے، اگر ان تمام منصوبوں پر عمل اسی طرح ہوتا رہا ، او رمسلم
دنیا اسی خاموش تماشائی بنی رہی تو وہ دن دور نہیں جب اس سرزمین پر صرف دو حرم باقی
رہ جائیں گے اور تیسرا حرم تاریخ کا حصہ بن کر دلوں میں کسکی پیدا کرتا رہے گا۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا
ہے کہ بیت المقدس او رمسجد اقصیٰ دونوں ایک ہی عمارت کے دو نام ہیں، یہ غلط فہمی ان
تصویروں کے ذریعے پھیلی ہے جن میں سنہرا قبتہ الصخرۃ نظر آتا ہے اور جس کے برابر میں
لکھا رہتا ہے جس میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، اور جس کے صحن میں دل کش قبۃ الصخرہ موجود
ہے، اس کے علاوہ بھی وہاں مسجدیں اور قبّے ہیں، انبیا ء کرام کی قبریں ہیں، اور دوسری
یاد گاریں ہیں، یہ دنیا کا واحد شہر ہے جسے دنیا کے تین بڑے مذہب کے لوگ اپنی اپنی
عقیدت کا مرکز بنائے ہوئے ہیں ، مسلمان اس شہر سے اس لیے عقیدت ومحبت رکھتے ہیں کہ
یہاں ان کا قبلہ اوّل اور حرم ثالث مسجد اقصیٰ موجود ہے ،اس مسجد کی اہمیت اس لیے بھی
ہے کہ معراج کی رات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس مسجد میں تشریف لائے ، یہاں
انبیا کرام کی امامت فرمائی اور یہیں سے معراج کے سفر پر تشریف لے گئے ،عیسائی اس شہر
سے اس لیے عقیدت رکھتے ہیں کہ یہاں سے تقریباً پندرہ کلو میٹر دور واقع تاریخی شہر
بیت اللحم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، ہر وقت دنیا بھر سے عیسائیوں
کے قافلے یہاں آتے جاتے رہتے ہیں ، کہتے ہیں کہ اس شہر میں کھجور کا وہ درخت آج تک
موجود ہے جس کی کھجور یں حضرت مریم علیہا السلام نے وضع حمل سے پہلے یا بعد میں کھائیں
تھیں،اس درخت کاذکر قرآن کریم میں بھی ہے، یہودی اس شہر کو اس لیے مقدس سمجھتے ہیں
کہ یہ شہر حضرت سلیمان علیہ السلام کا دارالخلا فہ رہا ہے ، اور بہ قول ان کے یہاں
ان کا تعمیر کردہ ہیکل موجود تھا جس کو گرا کر مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ تعمیر کی ہے۔
بیت المقدس ہزاروں سال قدیم
شہر ہے،بہت سے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے،جیسے معموری ، آرامی، کنعانی قدیم زمانے
میں اس شہر کو یبوس بھی کہا جاتا تھا،جو کنعان کے قدیم قبائل میں سے ایک قبیلہ کا نام
ہے، ارض فلسطین کو ارض کنعان بھی کہا جاتا ہے ، کیونکہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے
بھی رہ چکے ہیں ، کچھ عرصے کے بعد اسے یورسا لیم کہا جانے لگا جو اب ، یروشلم ہوگیاہے،
او ر یہودی اسے یروشلم ہی کہتے ہیں ،جس وقت افریقی اور رومن نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے
اس وقت اس شہر کا نام ایلیا ء تھا ،حضرت عمرا بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت
میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آیا تو اس کا نام تبدیل کر کے بیت المقدس رکھ دیا
گیا جس کے معنی ہیں پاک گھر ، مبارک ومقدس سرزمین (معجم البلدان :5/661)یہ 16ھجری کی
بات ہے، لگ بھگ پانچ سوسال تک مسلسل یہ شہر مسلمانوں کے پاس رہا، عباسی حکمراں کمزورپڑے
تو صلیبیوں نے 492ہجری میں اس پر قبضہ کرلیا، لگ بھگ نوے سال تک یہ شہر غیر مسلموں
کے پا س رہا ، یہاں تک کہ 583ہجری میں مجاہد اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے دوبارہ
فتح کر کے اسلامی شہروں کی فہرست میں شامل کرلیا، اس وقت سے 1948تک مسلمان ہی اس شہر
پر حکمراں رہے، ارض فلسطین پر جس میں بیت المقدس واقع ہے پہلی عالمی جنگ تک ترکوں کا
قبضہ رہا، 1917میں پہلی مرتبہ برطانوی افواج بیت المقدس میں داخل ہوئیں، اس زمانے میں
ساری دنیا سے یہودی بہ کثرت نقل مکانی کر کے فلسطین میں آبسے تھے،برطانوی وزیر خارجہ
بالفور نے یہودیوں کے لئے مستقل ملک کی تجویز رکھی اور 1948میں اقوام متحدہ نے فلسطین
کو دوحصوں میں تقسیم کردیا، فلسطین کے مغربی حصے پر جو پچیس فیصد علاقے کو محیط ہے۔
یہودی قابض ہوگئے اور انہوں نے
تل ابیب کو اپنا پایہ تخت بنا لیا ، باقی مشرق فلسطین میں عرب رہتے ہیں،1967میں مشرق
فلسطین کا بڑا حصہ بھی یہودیوں نے ہتھیا لیا ہے، پہلے بیت المقدس کا نظام اردن کے ہاتھ
میں تھا، اب اس پربھی یہودی قابض ہیں، یہودیوں کے پاس وقت ارض فلسطین کا بیس ہزار چار
سو مربع کلو میٹر کا رقبہ ہے ، ا س علاقے کی کل آبادی ستر لاکھ ہے، جس میں مسلمانوں
کا تناسب صرف بیس فیصد ہے، پہلے یہ تناسب پچاس فیصد سے زیادہ تھا،فلسطین کے حالات سے
مجبور ہوکر مسلمانوں کی بڑی تعداد ہجرت کر کے آس پاس کے ملکوں میں منتقل ہوگئی ہے جہاں
وہ نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو لوگ فلسطین میں باقی ہیں وہ بھی جان ہتھیلی
پر رکھ کرزندگی بسر کررہے ہیں اگر چہ وہاں 1993میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو خود مختاری
دینے کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں، لیکن عملاً اب بھی وہاں اسرائیل ہی کا حکم چلتا ہے،
بے قصور مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے اور ساری دنیا خاموش تماشائی
بنی ہوئی ہے۔
مسجد اقصیٰ روئے زمین پر تعمیر
کی جانے والی دوسری مسجد ہے، حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں
نے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا یا رسول اللہ ! سب سے
پہلے زمین پرکون سی مسجد تعمیر کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، مسجد
حرام ، میں نے عرض کیا پھر کون سی، فرمایا مسجد اقصیٰ ،میں عرض کیا ،دونوں کی تعمیر
کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے فرمایا : چالیس سال (صیحح البخاری :152/11، رقم
:3115، صحیح مسلم :105/3،رقم :808)اس روایت سے معلوم ہوتاہے کہ مسجد اقصیٰ او رمسجد
حرام دونوں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی گئی سب سے پہلی مساجد ہیں، اگرچہ یہ
بات مشہور ہے کہ مسجداقصیٰ کی تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کرائی ہے، یہ بات اس
اعتبار سے تو صحیح ہے کہ ان کے دور میں اس مسجد کی تعمیر نو ہوئی، لیکن اصل بنیاد اس
کی بھی حضرت آدم علیہ السلام نے ہی رکھی ہے جس طرح انہو ں نے مسجد حرام کی بنیاد رکھی
ہے، حالانکہ بناء کعبہ کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کی جاتی ہے، یہ نسبت
اس اعتبار سے تو صحیح ہے کہ کعبہ کی اصل عمارت جو حضرت آدم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر
ہوئی وہ ختم ہوچکی تھی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان
کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر ان ہی بنیادوں پر کی،جس
طرح مسجد حرام میں تعمیری تجدید ات و تغیرات ہوتی رہی ہیں ، اسی طرح ان کا سلسلہ مسجد
اقصیٰ میں بھی جاری رہا، حضرت آدم علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
دوہزار سال قبل مسیح میں مسجد اقصیٰ کو دبارہ تعمیر کرایا اور اس تعمیر ی مہم میں ان
کے ساتھ کے ان کے بیٹے حضرت اسحٰق اور حضرت یعقوب علیہم السلام نے ان کی مدد کی ، اس
کے ٹھیک ایک ہزار سال کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی تعمیر نو کی، اس لیے
مسجد اقصیٰ کی نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف کی جاتی ہے، امام المفسر ین حضرت
مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ارض کعبہ تمام روئے زمین سے دو ہزار
سال پہلے بنائی ہے اور اس کی بنیادیں ساتوں زمینوں کے اندر تک پہنچی ہوئی ہیں اور مسجد
اقصیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر فرمائی ہے( سنن النسائی :2/34)حافظ ابن حجر
رضی اللہ عنہ ،علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے
یہ اشکال اس طرح رفع کیا ہے کہ اصل تعمیر حضرت آدم علیہ سلام کے ہاتھوں ہوئی، دوسری
تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی اور تیسری تعمیر حضرت سلیمان علیہ السلام نے
کرائی جس میں ان کے ساتھ جنات بھی شریک ہوئے۔(فتح الباری :6/408،تفسیر القرطبی
:4/130) عہد حضرت عمر رضی اللہ عنہ میں بھی مسجد اقصیٰ کی تعمیر ہوئی، موجودہ عمارت
کی تعمیرکا آغاز اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان کے دور میں ہوا اور اس کے بیٹے ولید
بن عبدالملک کے دور حکومت میں 715ء مطابق 94ہجری میں پایہ تکمیل کو پہنچی ، یہ مسجد
فن تعمیر کا نادر ونایاب نمونہ ہے، اس کا مجموعی رقبہ 47ہزار مربع فٹ ہے، لمبائی
262فٹ اور چوڑائی 180فٹ ہے، مسجد میں داخل ہونے کے گیارہ دروازے ہیں، اس مسجد کے اندرونی
حصے میں لگ بھگ پانچ ہزار افراد بہ یک وقت نماز پڑ ھ سکتے ہیں۔
روایات میں ہے کہ جس وقت حضرت
سلیمان علیہ السلام مسجد اقصیٰ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ رب العزت سے
تین چیزوں کی دُعا کی ایک تو یہ کہ ان کے فیصلے اللہ کے فیصلوں کے عین مطابق ہوں، دوسرے
یہ کہ ان کو ایسی بے مثال اور وسیع حکومت عطا کی جائے ان کے بعد کسی کو نہ ملے، تیسرے
یہ کہ جو شخص صرف نماز کے ارادے سے مسجد میں داخل ہو تو وہ گناہوں سے پاک صاف ہوکر
اس حال میں مسجد سے باہر نکلے جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو، سرکار دوعالم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ان میں سے دو چیزیں تو سلیمان علیہ السلام کو عطا کردی
گئی ہیں، امید ہے تیسری بھی عطا کی جائے گی،(سنن ابن ماجہ: 4/326،رقم :498)مسجد اقصیٰ
کے بڑے فضائل ہیں ، اس مسجد کی اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کے واقعہ معراج
کے ضمن میں قرآن کریم نے اس کا ذکر کیا ہے: ارشاد باری تعالیٰ ہے : سُبحَنَ اُلَّذِی
اَ سرَیٰ بَعَبدِہِ لَیلاً مِّنَ اُ لمَسجِدِ اُ لحَرَامِ اِلَی اُلمَسجِدِ اُلاَ قصاَ
اُ لَّذِی بَرَکناَ حَو لَہُ(سورۃ الاسراء:1)’’پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو شب کے
وقت مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکتیں کر رکھی ہیں‘‘۔اس
آیت میں واقعہ معراج کا ذکر ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاخاص امتیاز اور مخصوص
معجزہ ہے، مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو شرعی اصطلاح میں اسراء کہا جاتاہے
، اور مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو شرعی اصطلاع میں اسرکہا جاتا ہے، اور مسجد اقصیٰ سے
جو سفر آسمانوں کا ہوا اس کو معراج کہا جاتا ہے۔
معراج کی تفصیلات حدیث کی کتابوں
میں موجود ہیں، محدثین ومفسرین نے لکھا ہے کہ اسرا ومعراج کی روایات متواتر ہیں، حافظ
ابن کثیر نے پچیس صحابہ کرام کے اسما ء ذکر کئے ہیں جنہو ں نے اسراء ومعراج کی تفصیلات
ذکر فرمائی ہیں، (ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر:6/136)۔قرآن کریم کا یہ ارشاد کہ ’’ ہم
نے اس کے ارد گرد برکتیں رکھی ہیں‘‘ مسجد اقصیٰ کی فضیلت کا ایک بڑا عنوان ہے ، مفسرین
نے یہاں تک برکتوں سے دینی اور دنیوی دونوں طرح کی برکتیں مراد لی ہیں، دنیوی برکات
تو یہ ہیں کہ یہ مسجد تمام انبیا ء سابقین کا قبلہ رہا ہے اور یہ خطّہ جس میں شام ،
لبنان، اردن او رفلسطین واقع ہیں بے شمار انبیا ء کرام کا مسکن اور مدفن ہے، اس کی
دنیوی برکتوں کا کیا ٹھکانہ آج بھی یہ علاقہ مشرقی وسطیٰ کا سب سے زیادہ سر سبز وشاداب
او رزر خیز علاقہ ہے ، قدرتی چشموں، نہروں اور باغات سے مالا مال ہے، ایک روایت میں
ہے کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے
ہیں : اے ملک شام تو تمام شہروں میں ے میرا منتخب خطہ ہے، میں تیری طرف اپنے منتخب
بندے مبعوث کروں گا( تفسیر قرطبی بحوالہ معارف القرآن :5/443)قرآن کریم میں ایک او
رجگہ اس خطے کو بابرکت خطہ کہا گیا ہے، ارشار فرمایا: وَنَجَّینَہُ وَلُو طاً اِلَی
اُ لاَ رضِ اُ لَّتِی بَرَ کنَا فِیہاَ لِلعَلَمِینَ(الا بنیاء:71)’’اور ہم نے ان کو
اور لوط علیہ السلام کو ایسی سرزمین میں محفوظ پہنچایا جس میں ہم نے دوجہاں والوں کے
لیے برکتیں رکھی ہیں۔‘‘حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا:
یا رسول اللہ ! ہمیں بیت المقدس کے بارے میں کچھ بتلائیں ،آپ نے ارشاد فرمایا ،وہ حشر
ونشر کی جگہ ہے، وہاں جاؤ اور نماز پڑھوں (مسند احمد :5/159،رقم :26343، سنن ابن ماجہ
:4/325، رقم :397)
مسجد اقصیٰ ان تین مسجدوں
میں سے ایک ہے جس کی زیارت کے لیے سفر کر کے جانے کی اجازت ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: لا تشد الرحال الا الی ثلانۃ مساجد ، مسجد الحرام ، والمسجد
الاقصیٰ ،ومسجدی (صحیح البخاری :376/4،رقم :1115،صحیح المسلم :159/7، رقم :2475)’’صرف
تین مسجدوں کا سفر کیا جاسکتا ہے، مسجدحرام ، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد( جو مدینہ منورہ
میں واقع ہے) ‘‘ یہ ان چار مساجد میں سے ایک ہے جن میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا مسجد
حرام ،مسجد نبوی، مسجد اقصیٰ اور مسجد طور ( مسنداحمد بن حنبل : بحوالہ معارف القرآن
:444/5)مسجد اقصیٰ کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی مرحلے میں اس کی طرف
رُخ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی، یہ سلسلہ ہجرت کے بعد بھی سولہ سترہ مہینے تک جاری رہا،
یہاں تک کہ آپ کے قلب مبارک میں یہ اشتیاق پیدا ہوا کہ کاش کعبۃ اللہ کو قبلہ قرار
دے دیا جائے ، چنانچہ عین حالت نماز میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے نماز ہی میں قبلے کی سمت تبدیل فرمائی ، صحابہ کرام نے بھی آپ کی اتباع
کی،مسجد اقصیٰ میں دو عظیم اسلامی یاد گار یں اور بھی ہیں جن میں سے ایک اس عظیم واقعے
کی یادگار ہے جسے ہم واقعہ معراج کہتے ہیں، یہ قبۃ الصخرہ کے نام سے موسوم ہے، یہ ایک
گو ل چنا ن ہے جہاں سے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تھے،
حرم مسجد کے عین وسط میں یہ چٹان واقع ہے ، ولید بن عبدالملک بن مروان نے اس پر ایک
خوبصورت اور نادرۂ روزگار گنبد تعمیر کرایاتھا، یہ گنبد زمین سے تقریباً ایک سوبیس
فٹ اونچا ہے، اس گنبد تعمیرکو ایک عظیم واقعہ کی یادگار ضرو ر کہہ سکتے ہیں لیکن اس
کو چھوٹا ، طواف کرنا، اس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنا وغیرہ صحیح نہیں ہے، کیو نکہ
اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
دوسری یاد گار ایک مسجد ہے،
جو مسجد اقصیٰ کی حدود سے باہر تعمیر کی گئی ہے، تاریخ کی کتابوں میں اس کا نام جامع
عمریا مسجد عمر وغیرہ لکھے گئے ہیں، جس وقت حضرت عمر بن الخطاب نے 16ہجری میں بیت المقدس
فتح کیا اور آپ وہاں تشریف لے گئے تو ایک عیسائی راہب نے آپ کو اپنا کنیسہ (عبادت گاہ)
دیکھنے کی دعوت دی، آپ کنیسہ میں تشریف لے گئے، اسی اثنا میں مغرب کی نماز کا وقت آگیا،
راہب نے اصرار کیا کہ آپ کنیسہ سے باہر تشریف لاکر داخلی دروازے کی سیڑھیوں پر نماز
ادا کی، اس کے بعد حضرت عمر کو خیال آیا کہ کہیں بعد والے لوگ میری نماز کے حوالے سے
کنیسہ میں تبدیلی نہ کربیٹھیں اور اسے مسجد نہ بنادیں ، آپ نے اسی وقت کاغذ قلم منگوایا
اور یہ تحریر لکھ کر کنیسہ کے منتظمین کو دی کہ میرے اس عمل کو دیکھ کر مسلمان اس عبادت
گاہ میں تصرف نہ کریں، پادری اور راہب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس غایت احتیاط سے
بے حد متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی عبادت گاہ سے بیس قدم کے فاصلے سے ایک مسجد تعمیر
کرائی جو بعد میں جامع عمر کے نام سے مشہور ہوئی۔ ایک طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی
یہ رواداری ،دوسری طرف یہود ونصاریٰ کا یہ تعصب ،اہل نظر خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ
کیا موجود ہ دور کے یہود ونصاریٰ کا یہ طرز عمل جو و ہ مسجد اقصیٰ کے ساتھ روا رکھے
ہوئے ہیں، عقل وانصاف ، دیانت وامانت ، اور رواداری کے مطابق ہے؟
4 جون 2012 بشکریہ : ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہل
URL of
From the Desk of Editor: http://www.newageislam.com/from-the-desk-of-editor/from-the-desk-of-editor/baitul-muqaddas--why-are-we-muslims-so-obsessed-with-it-as-our-qiibla-e-awwal-contrary-to-qur’anic-teachings?/d/7574
URL
of English translation of this article: http://www.newageislam.com/islam-and-the-west/maulana-nadeem-ul-wajidi,-tr.-new-age-islam/masjid-e-aqusa--historical-status-and-its-importance-in-sharia/d/7573
URL: