سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
13 مئی 2024
دنیا کے تقریباً تمام
مذاہب میں مخفی علوم کا ذکر ملتا ہے۔ ان علوم کو حاصل کرنے والے مافوق الفطرت
صلاحیتیں پیدا کرلیتے ہیں۔ کچھ لوگ ان صلاحیتوں کا استعمال نیک مقاصد کے لئے کرتے
ہیں تو کچھ لوگ برے مقاصد کے لئے۔
مخفی علوم میں جادو ٹونا
، دست شناسی اور تنتر بھی شامل ہے۔ اسلام میں مخفی علوم کی تائید نہیں کی گئی ہے
کیونکہ ان کا استعمال زیادہ تر برے مقاصد کے لئے کیا جاتا ہے یا کیا جاسکتا ہے۔
اسلام میں جادو کو ممنوع
قرار دیا گیا ہے اگرچہ اسلام میں جادو یا سحر کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ایسے لوگ جو
سحر کرتے ہیں ان کو قرآن میں جہنمی کہا گیا ہے کیونکہ سحر کا استعمال انسانوں کی
زندگی کو تباہ کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ قرآن میں کئی سورتوں میں سحر کرنے والوں
پر لعنت ملامت کی گئی ہے۔
قرآن کے سورہ البقرہ آیت
102 میں کہا گیا ہے کہ سحر کا علم بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل
ہوا۔ یہ علم انسانوں کی آزمائش کے لئے نازل کیا گیا۔ یہ فرشتے کسی مرد اور عورت کو
اس کی خواہش پر جادو کا علم اس شرط پر سکھا تے تھے کہ اس کے عذاب کے ذمہ دار وہ
خود ہونگے۔اس علم کا ایک نقصان قرآن میں یہ بتا یا گیا ہے کہ اس سے جادوگر عورتیں
شوہر اوربیوی میں جھگڑا کراکر ان میں علاحدگی کرادیتی تھیں۔ ظاہر ہے سحر سے اور
بھی دوسرے نقصانات پینچائے جاتے ہوں یا ان سے اور بھی دوسرے مصرف لئے جاتے ہوں۔
ہاروت اور ماروت کا ذکر
قرآن میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ضمن میں آیا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ
ہاروت اور ماروت کا نزول حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ہوا۔ حضرت سلیمان
علیہ السلام کا دور دسویں صدی قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ہاروت اور ماروت بابل میں
اتارے گئے تھے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ ہندو تنتر میں بھی ماروت نامی دیوتا کا ذکر
ہے جو مافوق الفطرت قوتیں حاصل کرنے میں معاون ہے۔ناتھ پنتھ کے بانی متسیندرناتھ
نے اپنی تنتر کی کتاب متسیندر سمہتا میں سدھی یعنی روحانی طاقت حاصل کرنے کے لئے
ریاضت کے ذریعے ماروت سے مدد لینے کا مشورہ دیا ہے۔ لہذا، قرآن اور ہندوستانی تنتر
دونوں میں ماروت کا ذکر تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ تنتر کا آغاز
ہندوستان میں ہوا کیونکہ تنتر کی کتابیں ہندوستان میں لکھی گئیں اور بڑے بڑے
تانترک ہندوستان۔میں ہوئے۔لیکن بدھ دھرم کے عالم ایلن ہنٹر اپنی تحقیق کے بعد اس
نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تنتر کا علم ہندوستان میں وجود میں نہیں آیا۔ وہ اپنے ایک
مضمون "چینی بودھ مت اور ویدانت " میں لکھتے ہیں :
۔"یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ قدیم دور سے ہی چین کے لوگ
گہرے ارتکاز کی حالتوں ، اندرونی حرارت اور نفسی قوتوں سمیت خفیہ مراقبے کی
تکنیکوں میں دلچسپی رکھتے تھے۔یہ مشغلہ چین میں ہی ابھرا ہوگا یا پھر بابل میں یا
کسی دوسری جگہ کی قدیم تہذیب میں ممکنہ طور پر وجود میں آیا ہوگا۔ہندوستان۔میں اس
کی پیدائش کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ دوئم، پیلی صدی سے لے کر آٹھویں صدی کے
درمیان دونوں ملکوں کے مابین مذہبی افکار ، متون اور عقائد کا بڑے پیمانے پر
تبادلہ ہوا ۔دیوی پوجا اور تنتر پر خصوصاً آسام اوربنگال کے سرحدی علاقوں میں چینی
اثرات کے شواہد موجود ہیں۔ سوئم ، جزوی طور پر سیاسی عوامل جیسے چین پر منگول
حملوں کے نتیجے میں بھی تانترک تکنیکیں چین کے دور دراز کے سرحدی حصوں سمیت بیشتر
علاقوں میں پھیل گئیں اور,آج بھی رائج ہیں۔"۔
ایلن ہنٹر کی یہ رائے کہ
تنتر کا آغاز بابل میں ہوا ہوگا اس حقیقت پر قائم ہے کہ عہد قدیم سے ہی بابل میں
مافوق الفطرت قوتوں سےمدد لینے کی تکنیکیں اور خفیہ باطنی اعمال رائج تھے۔ چونکہ
ہندو مذہب میں فرشتوں کو ہی دیوی دیوتاؤں کے روپ میں پرستش کی جاتی ہے اس لئے
ماروت نامی فرشتے کو بھی ہندو تنتر میں دیوتا سمجھ کر پوجا جانے لگا اور ماروت کو
ہندو تنتر میں ایک اہم مقام دے دیا گیا۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور
ہے کہ قرآن میں جادو سکھانے والے دو فرشتوں ہاروت اور ماروت کا ذکر ہے لیکن ہندو
تنتر میں صرف ماروت کو قبول کیا گیا۔ غالبا ، ہاروت اور ماروت الگ الگ خفیہ اعمال
سے مخصوص ہونگے۔ہاروت جادو اور سحر کے علم کے لئےمخصوص ہوگا اور ماروت تنتر کے علم
سے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو تنترمیں صرف ماروت کو قبول کیا گیا۔
اس سے ایلن ہنٹر کے اس
دعوے کو تقویت پینچتی ہے کہ تنتر کا آغاز بابل میں ہوا اور وہاں سے تنتر ترقی کرتا
ہوا چین پہنچا اور پھر وہاں سے تہذیبی و ثقافتی اختلاط کے نتیجےمیں ہندوستان میں
رائج ہوگیا۔ گویا ہندوستان میں جو تنتر رائج ہے وہ دراصل بابل میں ہاروت اور ماروت
نامی فرشتوں کے دئیے ہوئے علم کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے اس لئے تنتر کو غیر اسلامی
علم مانا جاتا ہے۔
ہاں ایک بات غورطلب ہے کہ
اگر جادو کا علم حضرت سلیمان کے دور میں ہاروت اور ماروت نامی فرشتے پرنازل ہوا تو
ان سے تقریباً چارسو سال قبل حضرت موسی علیہ السلام کے دور میں مصر میں بڑے بڑے
جادوگروں کا ذکر کیوں ملتا ہے۔حضرت موسی علیہ السلام کا دور حیات 13ویں یا 14 ویں
صدی قبل مسیح تھا۔فرعون کی حکومت کے دو بڑے جادوگروں نے حضرت موسی علیہ السلام کے
معجزوں کوبھی اسی لئے جادو سمجھا تھا کہ اس دور میں جادو عام تھا لیکن بعد میں
انہیں یہ عرفان ہوا کہ موسی علیہ السلام کا عمل جادو نہیں معجزہ تھا۔ غالباً ،
حضرت سلیمان کے دور سے پہلے دنیا میں صرف جادو کا علم رائج تھا۔ ہاروت بالخصوص
ماروت نے انسانوں کو دیگر خفیہ علوم کے ساتھ ساتھ تنتر بھی سکھایا۔یہی وجہ ہے کہ
ماروت کا ذکر قرآن کے ساتھ ساتھ ہندو تنتر میں بھی آتا ہے۔
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism