اصغر علی انجینئر
3 اگست، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
حال ہی میں قانونی امور کی کمیٹی مجلس (ایرانی پارلیمنٹ) نے
پریس کو بتایا کہ وہ ان قوانین کو جو 10سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی سے منع کرتے
ہیں 'غیر اسلامی اور غیر قانونی' مانتی ہے۔
رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں حال ہی میں 10 سال
سے کم عمر کی 75 سے زیادہ بچیوں کو اپنی
عمر سے بہت بڑے مردوں سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ واقعی بہت عجیب بات ہے،
بچوں کی شادی کس طرح اسلامی ہو سکتی
ہے۔آٹھ سال کی نادان عمر میں بچوں کی شادی
کی اجازت نہ دینا کس طرح غیر اسلامی ہو سکتا
ہے؟
شاید یہ مذہبی سے زیادہ ثقافتی بات ہے۔ بہرحال ہر قانون میں ثقافت کی چھاپ ہوتی ہے اور
اسے مکمل طور پر ثقافتی اثرات سے چھٹکارا
حاصل نہیں ہو سکتا ہے۔ گرچہ اسلامی
قوانین بہت ترقی پسند ہیں، اسلامی ممالک میں ثقافتیں اب بھی جاگیردارانہ یا نیم جاگیردارانہ
ہیں۔ اس کے علاوہ، جیسا کہ مجلس کے ترجمان
نے نشاندہی کی کہ علماء کے درمیان بلوغت کی عمر بحث کا موضوع رہا ہے۔ بہت سے علماء کا خیال ہے کہ لڑکیاں 10سال یا
اس سے پہلے سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ یہ عمر 15 سال ہوتی ہے ۔ لیکن زیادہ تر کے نزدیک سن بلوغت کی عمر 10 سال ہے۔
یہ ایران میں ہوا ہے، جہاں
انقلاب میں خواتین کی شراکت اس قدر حقیقی اور حوصلہ افزا رہی ہے کہ خواتین نے
خود رضاکارانہ طور پر اپنے اسلامی تشخص
کی علامت کے طور پر چادر لپیٹ لیا تھا اور
نیویارک ٹائمز کا ایک نامہ نگار 1979 میں سیاہ چادر میں خواتین کے سمندر کو دیکھ
کر حیران تھا کہ ان مائوں کی بیٹیاں جنہوں نے پردہ کرنا چھوڑ دیا تھا وہ دوبارہ کیسے چادر اوڑھ سکتی ہیں۔ اسے شاید
احساس نہیں تھا کہ یہ بیٹیاں اسلامی تشخص کی علامت اور اسلامی انقلاب کے رہنماؤں
کے ساتھ یکجہتی دکھانے کے لئے چادرلپیٹ رہی
ہیں۔
شروعات سے ہی ان کا تجربہ بہت خوشگوار
نہیں تھا اور آزادی کے بعد ان کی توقعات کو پورا نہیں کیا گیا۔ آہستہ آہستہ، اسلامی
حکومت نے خواتین کی آزادی پر اپنی گرفت مضبوط
کرنی شروع کر دی، خاص طور پر امام خمینی کے
انتقال کے بعد، جو ایک عظیم بصیرت والے رہنما
تھے اور جو جبر کے بجائے سمجھا کرقائل کرنے
میں یقین رکھتے تھے۔ امام خمینی کے بعد کی مدت میں انقلابی قیادت نے اقتدار کے لئے جھگڑا کرنا شروع کر دیا اور بدقسمتی
سے قدامت پسند اس میں کامیاب ہوئے۔
اوراسلامی دنیا میں
جب بھی قدامت پسند کامیاب ہوتے ہیں تو سب سے پہلے مسلمان خواتین متاثر ہوتی
ہیں۔ حال ہی میں لیبیا میں جب قذافی کو شکست ہوئی اور ان کے قدامت پسند مخالفین کامیاب ہوئے تو ان کا سب سے پہلا اعلان تعدّد
ازدواج کو قانونی بنانا تھا، گو کہ ان کا انقلاب تعدّد ازدواج کے لیۓ ہی تھا۔
ایران میں بھی خواتین قدامت پسند
مذہبی طبقے کے بڑھتے ہوئے کنٹرول میں
آگئیں ہیں۔ چند سال قبل ایک عورت، جو شادی
شدہ اور بچوں والی تھی
پر بدکاری کا الزام عائد کیا گیا تھا
اور اسے رجم کے ذریعہ موت کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم انسانی حقوق کے سرگرم
کارکنوں کا کہنا تھا کہ اس پر بدکاری کے الزامات ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ اور مبینہ بدکاری میں شامل اس کے ساتھی کو
کوئی سزا نہیں دی گئی تھی۔ بچوں کی شادی کے موضوع پر واپس آتے ہیں، اس میں اسلامی کچھ بھی نہیں ہے، جو بھی ہے وہ غیر اسلامی ہے۔ یہ بخوبی معلوم ہے کہ اسلام میں شادی ایک معاہدہ ہے اور قرآن اسے ایک 'مضبوط عہد (میثاقاً غلیظا (4:21) کہتا
ہے۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے لئے بہت دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس طرح کا عہد اور وہ بھی ایک مضبوط معاہدہ آٹھ سال کی عمر کے بچوں کی طرف سے نہیں کیا جا سکتا
ہے۔ کیونکہ ان بچوں کو
اتنی بھی سمجھ نہیں ہوتی کہ یہ عہدہوتا کیا ہے۔
یہ بھی اچھی طرح سے معلوم
ہے کہ دونوں فریقین، یعنی شوہر اور بیوی ایسے
شرائط مقرر کر سکتے ہیں جسے پوراکئے بغیر شادی
درست نہیں ہوگی۔ کیا بچے شرائط مقرر کر سکتے ہیں؟ شادی ایک عمر بھر کی شراکت داری ہے اور ایک بچے
سے اپنی زندگی کا ساتھی منتخب کرنے کے
تجربے یا دانشورانہ صلاحیت کی توقع
نہیں کی جا سکتی ہے۔ لہٰذا اس طرح بچوں کی کوئی بھی شادی نہ ہی قرآنی اور نہ
ہی اسلامی ہو سکتی ہے۔
تو آخر کار اسلام میں بچوں کی
شادی کی بنیاد کیا ہے؟ یہ صرف ثقافتی
عہدو پیمان ہے جو کہ عربوں کے درمیان غیر معمولی نہیں تھی۔
فقہا اپنی ثقافت اور ثقافتی اقدار کے اثر سے بمشکل ہی بچ سکتے ہیں۔ اگرچہ قرآن نے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔لیکن انہوں نے
اس کی اجازت اس لیۓ دی کیونکہ یہ رسو
م و رواج انکے ارد گرد وسیع پیمانے پر مقبول
تھے ۔اور انہوں نے اسی لیۓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں اس کا
جواز تلاش کرنے کی بھی کوشش کی۔ زیادہ تر مسلمانوں کا یہ یقین ہے
کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی تھی جب وہ صرف سات سال کی تھیں اور شادی کو مکمل تب کیا
جب وہ نو سال کی تھیں۔
پہلی بات یہ ہیکہ حدیثیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے 300 سال
کے بعد سامنے آئی اور اس پر بہت سے
علماء کرام کی عمیق تحقیق سے پتہ چلتا
ہے کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
کی عمر 17 یا 18 سال سے کم نہیں تھی اور شادی کو مکمل کرنے کے وقت وہ تقریباًًًً 19 یا 20 سال کی تھیں۔ میں نے اس تحقیق کو دیکھا ہے اور اس پر یقین کرنے کی بہترین وجوہات ہیں۔
چونکہ اسلام میں شادی ایک
معاہدہ ہے۔ مذہبی یا قرآنی وجوہات کے بجائے
سماجی وجوہات کی بنا ءپر امام ابو حنیفہ نے بچوں کی شادی
کی اجازت دیتے وقت ایک شرط یہ رکھی تھی
کہ لڑکی سن بلوغت یا مناسب فہم و فراست کی عمر
کو پہونچنے کے بعد شادی کو قبول یا
ردّ کر سکتی ہے ۔اور اگر وہ شادی کے لئے تیار
نہیں ہے تو اور اس کے ولی (عام طور پر والد) بھی اسے قبول کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے یہ نظم اس لئے کیا تھا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ بچوں کی شادی کےمعاملے میں والد کو مکمل اختیار نہیں ہوتا ہے۔
مذہب کو ثقافت پر
غالب ہونا چاہئے نہ کہ ثقافت کو مذہب پر ۔
اسی وجہ سے زیادہ تر اسلامی ممالک نے اب شادی کی عمر کو 18 سال مقرر کر دیا ہےاور بچوں کی شادی کو غیر قانونی
بنا دیا ہے۔لہٰذا ایران کے مذہبی لوگوں کو
مشورہ ہے کہ وہ بچوں کی شادی کو قانونی حیثیت
نہ دیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حکومت نے قرآن کے شادی کے مضبوط عہد کے تصور کے
خلاف یہ رجعت پسندانہ قدم اٹھایا تو ایران
کی خواتین کی تنظیمیں اس کی مخالفت کریں گی۔
مصنف، اسلامی سکالر ہیں جو سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم، ممبئی، کے سربراہ ہیں۔
URL
for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/child-marriage-islam/d/8144
URL: