ماریا استھر رومن
21 نومبر 2014
اس کا آغاز 20 سال کی عمر میں اس وقت ہوا جب میں کالج کی طالبہ تھی۔ میں نے اپنے چند نئے مسلم دوستوں سے اسلام کے بارے میں سناتھا۔
یہ پہلا موقع تھا جب مجھے پہلی بار یہ معلوم ہوا تھا کہ واقعی اسلام جیسا کوئی مذہب بھی موجود ہے۔ اسلام کے بارے میں اپنے فطری تجسس کی وجہ سے جب میرے دماغ میں خود اپنے مذہب (کیتھولک) کی موزونیت کے بارے میں سوال اٹھ رہے تھے تبھی میرے ذہن اس نئے مذہب کے بارے میں سوالات پیداہونے شروع ہو گئے تھے۔
میں اپنے مسلم دوستوں سے سوال کرتی اور وہ میرے سوالات کے جوابات فراہم کرتے۔ میں اسلام کے بارے میں جتنا زیادہ جانتی اتنا زیادہ اسلام سے مطمئن ہوتی۔ اس کے چار ماہ بعد ہی فوری طور پر میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن یہ سب آسان نہیں تھا۔ جو میں اپنی پوری زندگی رہی اسے بدلنا بالکل ہی آسان نہیں تھا، اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں یہ نہیں چاہتی تھی، بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں کہ درمیان اب تک میری شناخت یہی تھی ۔ انہیں اس بات پر مطمئن کرنا مشکل تھا کہ اب سب کچھ بدلنے والا ہے۔
میں 14 سال کی بہت چھوٹی عمر سے ہی ماڈلنگ کر رہی تھیں اور کہیں نہ کہیں مجھے اس پیشہ سے لگاؤ بھی تھا۔ مجھے روشنی کی چکا چوندھ، مسابقت، جوش و خروش اور میک اپ سے بہت لگاؤ تھا لیکن تمام تر کامیابیوں کے باوجود مجھے کوئی خلاء محسوس ہوتا تھا لیکن وہ خلاء کس چیز کا تھا مجھے اس کا کبھی ادراک نہ ہو سکا۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میرے اندر ایسے احساسات کیوں پیدا ہوتے تھے۔ لیکن یک بہ یک مجھے میری شناخت سے تکلیف محسوس ہونے لگی۔
میں اپنے گریجویشن کی تقریب میں جبہ اور ٹوپی پہنے ہوئے اندر ہی اندر امکانات کا اندازہ لگا رہی تھی کہ ‘‘اب کیا ہو گا’’؟
لہٰذا، ایک دن میں اپنے ایک دوست کے پاس گئی اور اپنے دل کی ساری کیفیت اس کے سامنے بیان کر دی، اور جب میں اس سے رخصت ہونے لگی تو اس نے کہا کہ ‘‘فکر نہ کرو ماریہ! یہ سوچو کہ تم کس راستے پر ہو اور کس راستے پر جانے والی ہو اور خدا تمہیں ایک قسم کا نور عطا کرنے والا ہے۔"
اس عورت نے جب اپنی بات پوری کر لی تو میں نے رخصت ہونے کے لیے جیسے ہی دروازہ کھولا سورج کی ایک زبر دست شعاع میرے اوپر پڑی۔ میں نے اسے اپنا جواب سمجھ کر اسی لمحہ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
میرے والدین میرے اس فیصلے کو سن کر حیران تھے۔ اور وہ یہ سمجھ نہیں سکے کہ میں نے یہ فیصلہ کیوں لیا تھا۔
میری ماں ہمیشہ مجھ سے یہ پوچھتی تھی کہ "تم کیا کہہ رہی ہو، کیا تم ڈیٹ نہیں کرو گی؟"۔ تاہم، انہوں نے میرے اس فیصلے کو سنجیدگی سے نہ لیکر سکون محسوس کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ: "میں ایک دو مہینوں کا وقت دوں گی اور تم یہ سب چھوڑ دو گی۔"
لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ عمر بھر کی بات ہے۔ اور یہ ایک ایسی چیزہے جو کبھی نہیں بدلے گی۔
لیکن اب گزشتہ چند سالوں سے میرے والدین نے اسے قبول کرنا سیکھ لیا ہے۔ جس دن میرے گھر میں خنزیر کا گوشت بنتا ہے اس دن میری ماں میرے لیے کھانے کا خصوصی انتظام کرنے کی کوشش کرتی ہے، اور جب گھر میں کوئی مہمان آتا ہے تو مجھے اسکارف پہننے کےلیے کہتی ہے۔
اسلام نے خود میرے والدین کے تئیں میرے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا کر دیا ہے۔ اور اب میں اس بات کو سمجھ سکتی ہوں کہ انہیں امریکہ میں پورٹو ریکین کی پہلی نسل ہونے کی وجہ سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا اور میں اس کا احترام کرتی ہوں۔
میرے بہت سے دوستوں نے اس بات کی کوشش کی کہ میں اپنا راستہ چھوڑ دوں لیکن میں ہمیشہ اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو کر راہ حق کی ہدایت اور اس پر استقامت کی توفیق کے لیے دعا گو ہوتی ہوں۔ اور اللہ نے میری دعاؤں کو شرف قبولیت سے بھی نوازا۔ میں نے اپنے لیے جو راستہ اختیار کیا اس پر نہ تو مجھے افسوس ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا۔
میں اپنی زندگی سے تنگ آ گئی تھی، لیکن اب مجھے امن و سکون حاصل ہو ہی گیا۔ الحمد للہ، میرے سامنے ایک راستہ ہے اور میں نے اس کا انتخاب بھی کر لیا ہے۔ اسلام نے مجھے حلم و خاکساری عطا کی ہے۔ اس مذہب پر چلنے میں مجھے نیکی اور طہارت محسوس ہوتی ہے۔
ماخذ:
ttp://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentid=20141121225075
URL fro English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/i-finally-found-peace-islam/d/100157
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/i-finally-found-peace-islam/d/102037