مولانا
ندیم الواجدی
13اگست،2021
غزوۂ بدر
اب آئیے اس جنگ کے ذکر
کی طرف جسے غزوۂ بدر کہتے ہیں، اس کو بدر الکبریٰ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ
واقعتاً نتائج کے لحاظ سے یہ بہت بڑی جنگ تھی، اس جنگ میں مسلمانوں نے محض نصرتِ
الٰہی کی بہ دولت کفارِ مکہ پر غلبہ حاصل کیا، بڑے بڑے سردارانِ قریش چن چن کر
مارے گئے، مکہ مکرمہ کا شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہوگا جہاں کا کوئی نہ کوئی فرد
اس جنگ میں کام نہ آیا ہویا گرفتار نہ کیا گیا ہو، مسلمانوں کے پاس نہ افرادی قوت
تھی اور نہ اسلحہ تھا، نہ گھوڑے اور اونٹ تھے، ان کے مقابلے میں کفار کی تعداد بھی
بہت زیادہ تھی اور ان کے پاس اسلحہ بھی بہت تھا، مگر مسلمان محض اپنے عقیدے کی قوت
اور اللہ و رسول پر اپنے پختہ ایمان کی بہ دولت دشمن پر غالب آگئے۔ شیخ الاسلام
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ترجمہ حضرت شیخ الہند پر اپنے فوائد میں لکھا
ہے:
’’بدر کا معرکہ فی الحقیقت مسلمانوں کے لئے بہت ہی سخت آزمائش اور
عظیم الشان امتحان تھا، وہ تعداد میں تھوڑے تھے، بے سرو سامان تھے، فوجی مقابلے
کیلئے تیار ہو کر نہ نکلے تھے، مقابلے میں ان سے تگنی تعداد کا لشکر تھا، جو پورے
ساز و سامان کے ساتھ کبر و غرور کے نشے میں سرشار ہو کر نکلا تھا، پھر ایسی صورت
پیش آئی کہ کفار نے پہلے سے اچھی جگہ اور پانی پر قبضہ کرلیا، مسلمان نشیب میں تھے،
ریت بہت زیادہ تھی، جس میں چلتے ہوئے پائوں دھنستے تھے، گرد و
غبار نے الگ پریشان کر رکھا تھا، پانی نہ ملنے سے ایک طرف غسل اور وضو کی تکلیف،
دوسری طرف تشنگی ستا رہی تھی، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت ِکاملہ سے زور کا
مینہ برسایا، جس سے میدان کی ریت جم گئی، غسل اور وضو کرنے اور پینے کے پانی کی
افراط ہوگئی، گرد و غبار سے نجات ملی، دشمن کا لشکر جس جگہ تھا وہاں کیچڑ اور
پھسلن سے چلنا پھرنا دشوار ہوگیا، جب یہ ظاہری پریشانیاں دور ہوگئیں تو حق تعالیٰ
نے مسلمانوں پر ایک قسم کی غنودگی طاری کردی، آنکھ کھلی تو دلوں سے سارا خوف و
ہراس جاتا رہا۔‘‘ (فوائد عثمانی، ص:۲۳۶)
Masjid
Areesh
--------
حضرت مولانا ادریس
کاندھلویؒ یوم بدر کے متعلق لکھتے ہیں:
’’یہ غزوہ غزواتِ اسلام
میں سب سے بڑا غزوہ ہے، اس لئے کہ اسلام کی عزت وشوکت کی ابتداء اور علیٰ ہذا کفر
اور شرک کی ذلت و رسوائی کی ابتداء اسی غزوے سے ہوئی۔ اور اللہ جل جلالہٗ کی رحمت
سے اسلام کو بلاظاہری اور مادی اسباب کے محض غیب سے قوت حاصل ہوئی اور کفر و شرک
کے سر پر ایسی کاری ضرب لگی کہ کفر کے دماغ کی ہڈی چور چور ہوگئی، میدانِ بدر جس
کا شاہد عدل اب تک موجود ہے اور اسی وجہ سے حق تعالیٰ نے اس دن کو یوم الفرقان
قرار دیا، یعنی حق اور باطل میں فرق اور امتیاز کا دن، بلکہ یہ مہینہ ہی فرقان
تھا، یعنی رمضان المبارک تھا، جس میں حق جل و عُلا نے قرآن مجید اور فرقانِ حمید
کو نازل فرما کر حق اور باطل نیز ہدایت
اور ضلالت کا فرق واضح فرمایا اور پھر اسی مہینے میں روزے فرض فرمائے تاکہ محبین و
مخلصین، عاشقین و والہین کا امتحان فرمائے کہ کون اس کا محب صادق ہے کہ صبح صادق
سے لے کر غروب آفتاب تک اس کی محبت میں سخت سے سخت گرمی میں شدائد کو برداشت کرتا
ہے اور کون محب کاذب ہے کہ اپنے پیٹ اور جبڑوں کا زر خرید غلام ہے۔ غرض یہ کہ یہ
مہینہ ہی فرقان کا ہے کہ اس میں مختلف حیثیات اور متعدد جہات سے مخلص اور غیرمخلص
کا فرق ظاہر اور نمایاں ہوجاتا ہے۔
(سیرۃ المصطفیٰ، ۲؍۵۸)
مقام بدر
یہ جنگ جس مقام پر لڑی
گئی وہ شروع ہی سے بدر کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بنو کنانہ کا ایک شخص
جس کا نام بدر بن نخلہ تھا اس جگہ آکر رہا، اسی کے نام سے یہ جگہ مشہور ہوگئی۔
عہد جاہلیت میں یہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا، آبادی بھی بڑی مختصر تھی، یہ بھی کہا
جاتا ہے کہ قبیلۂ بنو غفار کے ایک شخص بدر بن قریش نے آنے جانے والوں کے لئے
یہاں ایک کنواں بنوایا تھا، یہ کنواں اسی کے نام سے مشہور ہوگیا، پھر اس کے ارد
گرد آباد ہونے والے گائوں کا نام بھی بدر پڑ گیا۔ مدینہ منورہ سے اس کا فاصلہ ایک
سو پچاس کلو میٹر اور مکہ مکرمہ سے اس کی دوری تین سو بیس کلو میٹر ہے۔ بدر عہد
جاہلیت میں بھی اپنی الگ شناخت رکھتا تھا، کیونکہ شام کی طرف آنے جانے والے
کارواں اس کنویں کی وجہ سے یہاں پر پڑائو ڈالا کرتے تھے، بعد میں یہاں
بازار بھی لگنے لگا، اسلام میں اس جگہ کی اہمیت تاریخی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے
مسلمانوں سے نصرت کا جو وعدہ کیا تھا وہ درحقیقت اسی سرزمین پر پورا ہوا، قرآن
کریم کی سورۂ آل عمران اور سورۂ انفال میں اس بستی کا ذکر اس کے نام کے ساتھ
موجود ہے، جو کم اہم بات نہیں ہے۔ یہ مقام اب جدید طرزِ زندگی کی سہولتوں سے
آراستہ ایک خوب صورت اور بڑا شہر بن چکا ہے مگر نام آج بھی اس کا بدر ہی ہے۔
جنگ کا پس منظر
معرکۂ بدر کا پس منظر یہ
ہے کہ رمضان المبارک ۲ھ
کے ابتدائی دنوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ
خبر ملی کہ قریش کا ایک بڑا تجارتی قافلہ ابوسفیان کی قیادت میں شام
سے مکہ واپس جارہا ہے، یہ وہی قافلہ ہے جس کو روکنے اور واپس مکہ بھیج دینے کے
ارادے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس عُشیرہ کا سفر فرمایا تھا،
جب آپؐ یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ قریش کا تجارتی
قافلہ شام کی طرف جا چکا ہے، آپ واپس مدینے تشریف لے آئے تھے، اب یہی قافلہ
سامان لے کر واپس ہو رہا تھا، اس میں ایک ہزار اونٹ انواع و اقسام کے سامان
سے لدے ہوئے تھے، جس کی مالیت پچاس ہزار دینار سے کم نہیں تھی، مکہ کا شاید ہی
کوئی گھر ایسا ہو جس کا سامان اس قافلے میں موجود نہ ہو، صرف چالیس افراد اس قافلے
کی حفاظت اور نقل و حمل پر مامور تھے۔
اس اطلاع کے بعد رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جمع کرکے اس قافلے کی آمد کے بارے میں
بتلایا اور فرمایا کہ تم لوگ اس قافلے کا پیچھا کرو، شاید اللہ تعالیٰ اس کی دولت
تمہیں دِلا دیں۔ حافظ ابن اسحاقؒ نے یہ الفاظ لکھے ہیں: ’’ھذہ
عیر قریش فیھا اموالھم فاخرجوا الیھا لعل اللّٰہ ینفلکموھا‘‘
یہ قریش کا قافلہ ہے، اس میں ان کے اموال ہیں، تم اس کی طرف نکلو،
شاید اللہ تعالیٰ یہ مال تمہیں دلوادے۔ (السیرۃ النبویہ، ۱؍۴۱۱)
صحابہؓ کا رد عمل اور
روانگی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کی زبانِ مبارک سے صحابہ کرامؓ نے قافلے کی واپسی کی خبر سنی تو وہ پُرجوش
ہوگئے، بڑی عجلت کے ساتھ تیاری ہوئی، کیوں کہ وقت کم تھا، تاخیر کرنے سے یہ
قافلہ گزر بھی سکتا تھا، اس لئے جو شخص جس حال میں تھا اسی حال میں نکل پڑا، رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد حکم کے طور پر بھی نہیں تھا کہ تمام صحابہ
نکلیں بلکہ اختیاری تھا کہ جو نکلنا چاہے وہ نکل پڑے، اس کے باوجود تین سو تیرہ
صحابہؓ ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوگئے، صرف دو گھوڑے تھے، ایک حضرت زبیر بن عوامؓ
کا، اور دوسرا حضرت مقداد بن اسود کندیؓ کا، ستر اونٹ تھے، کسی پر دو آدمی اور
کسی پر تین افراد باری باری سوار ہوا کرتے تھے۔ زید بن حارثہؓ، ان کے بیٹے اُسامہؓ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام کبشہؓ کے حصے میں ایک
اونٹ تھا۔ حضرات ابوبکرؓ و عمرؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ ایک اونٹ پر باری باری
سوار ہوا کرتے تھے۔ رسولؐ اکرم کے ساتھ حضرت ابولبابہؓ اور حضرت علیؓ شریک تھے۔
حضرت ابولبابہؓ اور حضرت علیؓ چاہتے تھے کہ ہم پیدل چلیں اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم اونٹ پرسوار رہیں، مگر آپؐ فرماتے کہ تم مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اورمیں
تم سے زیادہ اجر و ثواب سے بے نیاز نہیں ہوں، ان تیاریوں کے ساتھ یہ قافلہ ۸؍رمضان
المبارک سن ۲؍
ہجری کو اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عدم موجودگی
میں حضرت عبداللہ ابن ام مکتومؓ کو امامت کی ذمہ داری تفویض فرمادی تھی، مگر مدینے
سے ڈیڑھ کلو میٹر دوری طے کرنے کے بعد بئر ابی عنبہ پرٹھہر کر آپؐ نے حضرت
ابولبابہؓ کو مدینے کا حاکم بنا کر واپس کردیا۔ (سیرت بن ہشام، ۱؍۴۱۲)
فوج کا معائنہ
مدینہ منورہ سے نکلنے کے
بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بئر عنبہ کے مقام پر قیام فرمایا اور اپنے
فوجی لشکر کا معائنہ کیا، آپؐ نے اپنے تمام ساتھیوں کو دیکھا، جو کم عمر لڑکے
ساتھ آگئے تھے ان کو واپس کیا، ان بچوںمیں اسامہ بن زید، رافع بن خدیج، براء بن
عازب، زید بن ارقم اور زید بن ثابت شامل تھے۔ انہی میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے
چھوٹے بھائی عمیر بن ابی وقاصؓ بھی تھے، ان کی عمر سولہ برس تھی، وہ لوگوں کی آڑ
میں چھپتے پھر رہے تھے، بڑے بھائی نے اُن کو چھپتے دیکھ کر پوچھا یہ تم کیا کر رہے
ہو؟ انہوں نے کہا مجھے ڈر ہے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قافلے میں دیکھ
کر واپس نہ کردیں، میںاللہ کے راستے میں نکلنا چاہتا ہوں، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ
مجھے شہادت سے نوازدے۔ ان کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا،
آپؐ نے ان کو واپس جانے کا حکم دیا، عمیر رونے لگے، ان کا شوق اور جذبہ دیکھ کر
آپؐ نے انہیں ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد تین سو تیرہ افراد کا یہ
کارواں روانہ ہوا، سفید عَلَم حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھوںمیں تھا،
وہ آگے چل رہے تھے، دو بڑے جھنڈے اور تھے، جن میں سے ایک کا نام عقاب تھا جسے
حضرت علیؓ بن ابی طالب اٹھائے ہوئے تھے۔ دوسرا جھنڈا حضرت سعد بن معاذؓ نے اٹھا
رکھا تھا، اس کا نام الانصار تھا، پسِ کارواں حضرت قیس بن ابی صعصعہؓ چل رہے تھے۔
(سیرت بن ہشام، ۱؍۴۱۳، البدایہ والنہایہ، ۵؍۲۶)
وادیٔ الصُّفراء میں قیام
مختلف جگہوں پر رکتے ہوئے
اور قیام کرتے ہوئے یہ قافلۂ اسلام وادیِ صُفراء تک پہنچ گیا، یہاںآپؐ نے پڑائو
ڈالا اور ابوسفیان کے قافلے کی معلومات لینے کے لئے بَسبَس بن عمرو الجہنیؓ اور
عدی بن ابی الرغباءؓ کو آگے کی طرف روانہ فرمایا، صفراء کے نام سے یہ ایک مشہور
وادی ہے جو مدینہ منورہ کے مغرب میں واقع ہے، اس کا طول لگ بھگ ایک سو بیس کلو
میٹر ہے، بدرسمیت بہت سی تاریخی بستیاں اسی وادی میں و اقع ہیں۔ یہ وادی اپنی ہری بھری
کھیتیوں، سرسبز و شاداب باغات اور پانی کے شیریں چشموں کے لئے بھی شہرت رکھتی ہے۔
(معجم البلدان، ۵؍۱۹۳)
بَسبَسؓ اور عدیؓ کی
واپسی
یہ دونوں حضرات قریش کے
تجارتی قافلے کی سُن گن لینے کے لئے نکلے تھے، بدر کے مشہور کنویں کے پاس انہوں نے
اپنی سواری روکی، کچھ دیر وہاں ٹھہرے، دو عورتیں کنویں سے پانی بھر
رہی تھیں، اور ایک دوسرے سے باتیں بھی کر رہی تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری سے
اپنی رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا، دوسری نے کہا کہ یہاں عنقریب قافلہ پہنچ جائیگا،
میں اس میں کام کرکے تمہارا قرض ادا کردوں گی۔ یہ دونوں حضرات رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو دونوں عورتوں کی
بات چیت سے آگاہ کیا، جس قافلے کا وہ دونوں عورتیں ذکر کر رہی تھیں بہ ظاہر وہ
یہی قافلہ تھا جس کی تلاش میں مسلمان یہاں پہنچے تھے۔ (زادالمعاد، ۳؍۱۳۶، سیرت بن ہشام، ۱؍۴۱۳)۔ (جاری)
13اگست،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism