منصور النقيدان
2 اپریل 2018
1996ء میں فجر کی نماز کے بعد ایک چاقو کے وار سے اے.اے. پر حملہ کر کے قتل کی کوشش میں اے.زیڈ. کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ ریاض کے شمالی شہر حائل میں پیش آیا تھا۔ اس حملے کا شکار ہونے والے ایک مذہبی مبلغ تھے جنہوں نے شرعی علوم میں تربیت حاصل کی تھی۔ قاتل نے انہیں ریاست کا ایک "جاسوس" اور ایک ذلیل مذہبی مبلغ قرار دیا تھا۔
ستمبر 1994 میں درجنوں لوگ صوبہ القصيم کی سب سے بڑی سرکاری عمارت کے سامنے جمع ہوئے۔ اس بھیڑ میں مقامی لوگ اور پورے ملک کے مختلف خطوں سے دیگر لوگ بھی شامل تھے۔ یہ لوگ شیخ سلیمان العودۃ کی گرفتاری کے بعد ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جمع ہوئے تھے ، جو کہ سعودی عرب میں "الصحوۃ (بیداری)" تحریک کے ایک سرگرم کارکن تھے، جنہوں نے کویت پر عراق کے حملے کے بعد اپنے نظریات کی اشاعت کے لئے سعودی عرب کی سرزمین کو زرخیز پایا۔ العودۃ اپنے خطبوں میں نوجوانوں کو اخوان المسلمین میں شامل ہونے اور اس تحریک کے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ترغیب دیتے تھے۔ ان کے پیروکار ایک سیاہ سائے کی شکل اختیار کر چکے تھے جو کئی برسوں تک سعودی عرب پر چھایا رہا۔ صوبہ القصيم کے مظاہرین نے اس سرکاری عمارت کے دروازے کو توڑ دیا تھا۔ اس کے ایک گھنٹے بعد تک پرنس اور ان کے نائب سے مظاہرین کے کسی بھی نمائندے نے ملاقات نہیں کی۔ دو شعلہ بار تقریروں کے بعد پولیس نے مظاہرین کو گھیرا اور کئی درجن افراد گرفتار بھی کر لئے گئے۔
القصیم کے سب سے بڑےسلفی اسکالر ابن العثیمین جو مبینہ طور پر اس صورت حال سے ناخوش تھے ، انہوں نے اس مظاہرے کو سرد کرنے کے لئے کوئی مداخلت نہیں کی۔
اُس وقت سعودی عرب میں یہ واقعہ ہر طرف موضوع گفتگو بنا ہوا تھا۔ لیکن شہ شرخی کے پیچھے کی تفصیلات صرف چند عینی شاہدین کو ہی معلوم تھیں۔ العودۃ کا کہنا یہ تھا کہ ابن عثیمین نہ تو الصحوۃ کے مظاہرین کی حمایت کریں گے اور نہ ہی "سیاسی اسلام" کو غیر قانونی قرار دیں گے۔ ان کے پیروکاروں کے ساتھ ایک نجی میٹنگ میں العودۃ نے کہا تھا کہ ، "تم سے میری گزارش ہے کہ اگر ابن عثیمین تمہارے لئے کچھ بھی کرتے ہیں تو تم میری داڑھی مونڈ دینا۔ ان سے تمہیں صرف مایوس ہی ہاتھ لگے گی۔"
ابن عثیمین یقینا العودۃ کی گرفتاری کے وقت رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ تھے۔ العودۃ کی گرفتاری جس دن ہوئی اس دن لوگوں کی ایک بھیڑ نے ابن عثیمین کو گھیر لیا اور العودۃ کی حمایت میں کھڑے ہونے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا۔ انہوں نے جواب دیا، "تم لوگوں نے اپنی حدیں پار کر دی ہیں۔ تم نے مرکزی حکومتی عمارت کو گھیر لیا اور اس کے دروازے کو توڑ دیا۔ تم نے ریاست کے ناموس کو زد پہنچایا ہے۔ بھیڑ میں سے ایک شخص نے کہا،‘‘تم ایک ذلیل مبلغ ہو’’۔ ایک اور شخص نے کہا، ‘‘تم ایک بزدل انسان ہو’’۔ اس بھیڑ کا ایک رکن اے.زیڈ. بھی تھا –اور یہ وہی نوجوان تھا جو دو سال بعد قتل کی کوشش میں گرفتار کیا جانے والا تھا۔ اس نے العثیمین سے کہا، "ہمیں اپنا مہمان بننے دو۔ اپنے گھر کے دروازے کھولو اور ہمیں اس میں داخل ہونے کی اجازت دو"۔ العثیمین نے اس پر جواب دیا،"ان حالات میں نہیں" ، اور اس کے بعد ابن العثیمین بڑی مشکل سے اپنے گھر میں داخل ہوئے اور دروازے پر تالا لگا دیا۔
اور اسی دور میں ریاض کے مغربی خطے الدرعیۃ میں محمد بن عبدالوہاب مسجد کے امام کو ایک چلتی ہوئی کار سے گولی مار دی گئی تھی اس لئے کہ انہوں نے اپنی مسجد کو چھوڑ دیا تھا۔ وہ الصحوۃ تحریک کے خلاف تھے۔ اور اسی کے ساتھ انہیں کے ہم خیال دوسرے لوگوں کو بھی "هيئة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر،(Committee for the Promotion of Virtue and Prevention of Vice)" نے سخت ذہنی اذیتیں پہنچائی ، جو ایک وقت میں الصحوۃ کے اصولوں سے اختلاف کرنے والے علماء کی نجی معلومات منظر عام پر لایا کرتی تھی۔
ماخذ:
english.alarabiya.net/en/views/news/middle-east/2018/04/02/The-Fate-of-extremists-Too-stubborn-to-recruit.html
URL for English article: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/mansour-alnogaidan/the-fate-of-extremists--too-stubborn-to-recruit/d/114800
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism