مالک اشتر نوگانوی
25 جولائی ،2016
میرے محترم اور معزز ذمہ داران مدارس!
میں ہمیشہ سنتا آیا ہوں کہ آپ ایک بے حد تابناک ماضی کے مالک ہیں اور ظاہر ہے آپ کو اپنی اس عظمت رفتہ پر بجا طور پر فخر ہونا چاہئے۔ میں جب جب دنیا بھر میں مدارس کی تاریخ پڑھتا ہوں تو مجھے ایسے ایسے ذی علم اورعالی دماغ فارغین کی تفصیلات ملتی ہیں جن پر زمانہ فخر کرتا ہے ۔میں اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ علم کے فروغ میں آپ کا حصہ بہت بڑا ہے۔ مجھے جب یہ روشن ماضی دکھائی پڑتا ہے تو آپ سے میری امیدیں اور بڑھ جاتی ہیں ۔ میں آپ کو اسی عظمت کا حامل دیکھنا چاہتا ہوں جو آپ کا حصہ ہوا کرتی تھی ۔ مجھے آپ سے چند گزارشات کرنی ہے اور آپ کی بزرگی و رواداری سے مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ ہر گز برا نہیں مانیں گے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اب تک ایسا عام تاثر کیوں رہا ہے کہ جو بچہ اسکول میں فیل ہو، پڑھنے میں نکھٹو ہو اسے مدرسہ میں ڈال دیا جائے؟ کیوں ہم نے مدارس میں داخلے کو کوئی معیار وضع نہیں کیا اور اگر کیا تو اس پر سختی سے کتنا عمل ہوتا ہے؟ ۔ مدارس میں پڑھنے والے طلبہ کے لئے داخلے کا ایک معیاری ٹیسٹ اور اس کی پاسداری اس لئے بھی ضروری ہے کہ یہاں سے نکلنے والے فارغین ،ملت کے ذمہ دار اور رہنما کا درجہ رکھتے ہیں اس لئے ہر کس و ناکس کو اس طرح مدرسہ میں نہیں بھرا جاناچاہئے ۔
میرے محترم ذمہ داران مدارس ! ذرا غور کیجئے کہ آپ اپنے طلبہ سے ایک نیا پیسہ فیس کے طور پر نہیں لیتے ، ان کی مکمل کفالت کرتے ہیں، انہیں وظیفہ دیتے ہیں ، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں جب کے دنیاوی تعلیمی ادارے اپنے طلبہ سے فیس کے نام پر موٹی رقم وصول کرتے ہیں اور انہیں ایک پیسے کی مدد نہیں کرتے ۔ ذرا انصاف سے بتائیے کہ دنیاوی تعلیمی ادارے اپنے مالی مفادات کو سامنے رکھنے کے باوجود اگر بچوں کو داخلہ دیتے وقت ٹیسٹ لیتے ہیں، کم از کم لیاقت کی شرط لگاتے ہیں تو ہمارے مدارس ایسا کیوں نہیں کرتے؟کیا آپ کو ایسا لگتا ہے کہ اگر داخلہ کا معیاری نظام وضع کیا گیا تو مطلوبہ صلاحیت والے طلبہ نہیں مل سکیں گے؟ مجھے ایسا نہیں لگتا اور اگر ایسا ہے بھی تو کند ذہن جمگھٹ کے مقابلے چند جوہر قابل زیادہ بہتر ہیں۔
میرے معزز ذمہ داران مدارس! داخلے کے بعد طلبہ کو آپ جو نصاب پڑھاتے ہیں وہ نصاب وہ ہے جو گزشتہ ایک صدی سے زیادہ عرصے سے اپڈیٹ نہیں ہوا ۔ کیوں؟ کیا عربی ادب، فارسی، جدید فقہی مسائل جیسے معاملات میں نصاب کواپڈیٹ نہیں کیا جانا چاہئے ؟ آپ نصاب میں تبدیل کےنام پر اتنا کیوں بدک جاتے ہیں؟ کیا آپ کو مل کر ایسی ماہرین کی کمیٹی نہیں تشکیل دینی چاہئے جو مدارس کےنصاب میں وفتاٰ فوقتاً جدید مضامین کو شامل کرسکے۔ اگر آپ اس کام میں کسی اور کی مداخلت نہیں چاہتے تو اندرونی طور پر مدارس میں نصابی کمیٹی تو تشکیل دی ہی جاسکتی ہے۔ میرے عزیز ذمہ داران مدارس! آپ حضرات اپنے طلبہ کو ایک اچھا انسان بھی بنانے کی کوشش کرتےہیں ۔ آپ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ طلبہ میں اخلاقی تعلیمات کو پہنچایا جائے۔دنیاوی ادارے اس اخلاقی تربیت پر اتنی تو جہ نہیں دیتے جتنی آپ دیتے ہیں ، لیکن کیا وجہ ہے کہ آپ کے بعض فارغین مناظرے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور سامنے والے مسلک کو کافر ثابت کرنے میں ساری توانائیاں ضائع کردیتے ہیں؟ کیوں آپ کے بعض فارغین اخلاقیات کا پہلا سبق یعنی لوگوں کے ساتھ احترام کامعاملہ، بھلادیتےہیں ؟ میری ناقص رائے میں آپ کے یہ مناظرہ پسند فارغین ملت کے کسی کام کے نہیں ہیں، آپ کے وسائل ان بے مقصد افراد پر کیوں خرچ ہوں؟میری آپ لوگوں سے ایک اور شکایت ہے ، آپ کہتے ہیں کہ اسلام پر امن بقائے باہم کا پیغام دیتا ہے ، جب اسلام پر الزامات لگتے ہیں تو آپ اسلام کے پر امن ہمہ زیستی کے پیغام کا بار بار حوالہ دیتے ہیں لیکن کیوں یہی پیغام مسلمانوں کے مسالک کے درمیان معنویت کھو رہا ہے؟ آپ اپنے طلبہ کو کیا الگ سے اس بات کی ہدایت اور تربیت دیتے ہیں کہ ملت کو مسلک کے نام پر باٹنے والوں کو ان کے عزائم میں کیسے ناکام کیا جائے؟ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اگر دنیاوی ادارے تقابل ادیان کے شعبے قائم کرسکتے ہیں اور سب کے لئے سب مذاہب او ر مکاتب فکر کی کتابیں اور تعلیمات تک رسائی کا انتظام ہے تو ہمارے مدارس میں دوسرے مسلک کے بارےمیں کیوں نہیں پڑھایا جائے اور اگر پڑھایا جاتا ہے تو صرف ان میں کیڑے ہی کیوں نکالے جائیں؟
میں اس وقت آ پ لوگوں سے مدارس میں جمہوری نظام، مطلق العنانیت کے انسداد او رمالی امور میں شوریٰ کے کردار پر بات کرکے آپ کو بے مزہ نہیں کرنا چاہتا لیکن میں یہ تو جان ہی سکتا ہوں کہ آخر جدید تعلیم کے میدان میں آپ اپنے طلبہ کے لئے کیا انتظامات کررہے ہیں ؟ کیا آپ کے مدارس میں اخبارات اور رسائل پابندی سے آتے ہیں تاکہ طلبہ دنیا بھر کے اتھل پتھل سے باخبر ہوں؟ ۔ کیا آپ اپنے مدارس میں مختلف موضوعات پر توسیعی خطبات کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ طلبہ کو حالات حاضرہ اور دیگر اہم امور پر جانکاریاں مل سکیں؟ کیا آپ کے مدارس کے لائبریوں میں محض اپنے مسلک کا اشتعال انگیز مواد بھرا ہوا ہے یا طلبہ میں ریسرچ کاشوق پیدا کرنے کے لئے آپ نے ان کو دیگر مکاتب فکر کا مواد بھی مہیا کرایا ہے۔ آپ اپنے طلبہ کو علمی مقامات اور ثقافتی یادگاروں کے دورے پر لے جاتے ہیں؟ کیا آپ کے یہاں ہفتے میں ایک دن طلبہ کو جدید علوم ، حالات حاضرہ اور غیر نصابی مضامین پر دو تین منٹ تقریر کرنے کی ٹریننگ دی جاتی ہے؟
محترم ذمہ داران مدارس! آپ مدارس کی آبیاری خلوص نیت سے کرتے ہوں گے، اس میں مجھے ذرہ برابر شک نہیں لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے مدارس میں مہتمم یا مسؤل کے عہدہ کا انتقال کس معیار پر ہوتا ہے؟ کہیں خویش نوازی اور اقرباء پروری تو اس کا معیار نہیں بن گئے ہیں؟۔ اگر ایسا ہے تو آپ کو سو چنے کی ضرورت ہے کہ اسلام شوریٰ کی بات کرتا ہے اور ہم محض موروثی نظام کو اپنے یہاں نافظ کئے ہوئے ہیں ۔
محترم ذمہ داران مدارس! مدارس کا کام کیا ہے؟ کیا محض ایسے افراد کی ایک فو ج تیار کر دینا جو مساجد میں امامت یا مدرسہ میں ٹیچنگ کر سکے؟ کیا ہمارے مدارس کے طلبہ کو اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحانات کا حصہ نہیں بننا چاہئے؟ کیا ہمارے مدارس کی فارغین کی معاشیات کا انحصار ان کے علم دین پر ہونا درست ہے؟ اور اگر درست نہیں ہے تو ہم نے ان کی معاشی کفالت کے بارے میں کیا سوچا ہے؟
میرے محترم ذمہ داران مدارس! مجھے امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کا اچھی طرح احساس ہے۔ آپ مدرسہ کھول کر بچوں کو قرآن حدیث سے شناسا کرنے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ آپ کے ذمہ ملت کے قائدین تیار کرنے کا کام ہے۔ آپ اپنے طلبہ کے ساتھ وہ غفلت نہیں برت سکتے جو دنیاوی تعلیمی ادارے برت بھی لے تو چلے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں اور اس ذمہ داری کی احساسیت کو سمجھیں گے۔
25 جولائی، 2016 بشکریہ : روز نامہ ہندو ستان ایکسپرین ، نئی دہلی
URL: