ریحان احمد خان، نیو ایج اسلام
28 دسمبر 2024
مخدوم علی ماہمی (1431–1372) ممبئی کے ایک مشہور عالم، مفسر قرآن اور صوفی بزرگ تھے۔ تفسیر الرحمن نامی اپنی کتاب کے لیے مشہور، مخدوم ماہمی ہندوستانی کے سب سے اولین مفسر ہیں۔ اپنی فکری اور روحانی خدمات کے لیے معظم و مکرم، ماہمی رحمہ اللہ کی میراث ماہم میں ان کی درگاہ کی شکل میں زندہ و تابندہ ہے، جس کا مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں کے اوپر دیرپا اثر مرتب ہیں۔
اہم نکات
1. مخدوم علی ماہی ایک مشہور و معروف مفسر قرآن اور شافعی مکتب کے ایک عظیم عالم دین تھے۔
2. آپ رحمہ اللہ نے 100 سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں تفسیر الرحمن سب سے مشہور تفسیر ہے۔
3. ماہمی کو سلطان احمد شاہ نے گجرات کا قاضی مقرر کیا تھا۔
4. وہ ایک عظیم صوفی بزرگ تھے جن کی زندگی روحانیت اور انسانیت کے فروغ کے لیے وقف تھی۔
5. ماہم میں ان کی درگاہ تمام مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے عقیدت مندوں کا مرکز عقیدت بنی ہوئی ہے۔
6. ان کی میراث ثقافتی اور روحانی خدمات کے ذریعے جاری ہے، بشمول جے جے فلائی اوور کے، جس کا نام ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔
-----
Wikipedia Common
-----
تعارف
مخدوم علی ماہمی، 1372 عیسوی میں ماہم (موجودہ ممبئی) میں پیدا ہوئے، ایک عظیم صوفی بزرگ، عالم دین، اور ہندوستان میں قرآن کے سب سے پہلے مفسر ہیں۔ ان کی زندگی نے برصغیر پاک و ہند میں ایک انقلابی دور میں نشو نما پائی، جس میں تغلق خاندان اور گجرات کے سلطان احمد شاہ کا دور شامل تھا۔ ایک علمی اور عظیم روحانی شخصیت، مخدوم ماہمی رحمہ اللہ کی میراث کا دائرہ الہیات، فلسفہ اور فقہ میں ان کی خدمات سے کہیں زیادہ وسیع ہے، جس کے مسلم اور ہندو دونوں برادریوں پر دیرپا نقوش ہیں۔
ابتدائی حالات زندگی اور روحانی بیداری
مخدوم علی ماہمی رحمہ اللہ کا تعلق عراق سے آنے والے عرب تارکین وطن کے ایک معزز خاندان سے ہے، جو ماہم کے جزیرے پر آباد ہوئے، جو کہ سات جزیروں میں سے ایک ہے جو بعد میں ممبئی کا شہر بنا۔ ان کے آباؤ اجداد، جن کا تعلق قبیلہ بنو ہاشم کے نوایاث سے تھا، جو نویں صدی میں حجاز کے علاقے سے ظلم و ستم سے تنگ آ کر ہجرت کر کے آئے تھے۔ شیخ امام علامہ علاءالدین علی بن احمد الشافعی الماہمی الکوکانی یعنی مخدوم ماہمی، احمد بن ابراہیم بن اسماعیل اور کریمہ کے بیٹے تھے، اور یہ دونوں زبردست متقی و پرہیزگار تھے۔
چھوٹی عمر سے ہی مخدوم علی کو اسلامی علوم سے آراستہ کر دیا گیا تھا، جس میں قرآنی علوم، حدیث، فقہ اور تفسیر پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔ ان کی ابتدائی تعلیم اپنے والد کی سرپرستی میں ہوئی جو کہ علاقے کے ایک معروف عالم دین تھے۔ تاہم، ان کے والد کی اچانک موت ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوئی، کیونکہ اس وقت آپ کا بچپنا تھا۔ روحانی خسارے کے اس دور میں، ماہمی کے اندر ظاہری علم اور باطنی روحانیت دونوں کے حصول کی تڑپ بڑھ گئی۔
اپنی والدہ کو چھوڑنے سے قاصر، ماہمی نے ظاہری و باطنی علم و حکمت کے حصول کے لیے خلوص دل سے دعا کی، اور آپ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سمندر کے کنارے حضرت خضر سے ملا کرتے تھے، جنہوں نے ماہمی کو ظاہری و باطنی علم و حکمت سے نوازا۔ خضر علیہ السلام سے اس ملاقات کی ہی بدولت مخدوم ماہمی ایک عظیم عالم اور روحانی شخصیت بن کر ابھرے۔
علمی خدمات: پہلا ہندوستانی مفسر
اسلام کی علمی خدمات کے حوالے سے مخدوم ماہمی کا سب سے نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ آپ ہندوستان کے سب سے پہلے مفسر ہیں۔ ان کی تصنیف تفسیر الرحمن ان کی ایک یادگار کتاب ہے، جو قرآن کی وسیع اور جامع تفسیر ہے۔ ان کی تفسیر، سلاست بیانی، فصاحت و بلاغت اور روحانی بصیرت کے لئے مشہور ہے، جس کی بنیاد پر آپ کو پوری اسلامی دنیا میں وسیع پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوئی، اور شاہ ولی اللہ دہلوی جیسے علماء نے بھی آپ کی تعریف کی۔
شافعی مکتب فکر کے ایک عالم کے طور پر، ماہمی نے اسلامی علوم و فنون کی مختلف شاخوں بشمول منطق، فلسفہ اور فقہ کے، طبع آزمائی کی اور اپنی خدمات پیش کیں۔ ان کے علمی کارنامے بہت وسیع ہیں، جن میں 100 سے زیادہ کتابیں آپ سے منسوب ہیں، حالانکہ ان میں سے صرف 21 باقی بچیں، اور صرف 10 ہی ہندوستان بھر کی مختلف لائبریریوں میں دستیاب ہیں۔ ایک عظیم دانشور کے طور پر آپ کی شہرت کی بنا پر آپ کو قطب کوکن کا خطاب ملا، جو کہ خطے میں ان کے بے پناہ روحانی اور علمی قابلیت کا حوالہ ہے۔
روحانیت اور اثر و رسوخ
مخدوم ماہمی کا روحانی سفر روایتی علمیت کی حدود سے ماورا تھا۔ ان کی تعلیمات نے اسلامی عقائد کو انسانی قدروں اور آزاد خیالی کے ساتھ ملا کر پیش کیا، جس کی وجہ سے انہیں حکمت اور ہمدردی کے حامل شخصیت کے طور پر قبول کیا گیا۔ انہیں اکثر ایک صوفی بزرگ کے طور پر جانا جاتا ہے، جن کی زندگی انسان اور معاشرے دونوں کی روحانی ترقی کے لیے وقف تھی۔ ان کی صوفیانہ بصیرت اور سماجی انصاف کے لیے ان کا عزم، ان کی تعلیمات کے اہم اجزاء تھے، جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کے لیے بھی تھے، جو ان کی رواداری اور ہمدردی کے لیے ان کا احترام کرتے تھے۔
اس کا اثر گجرات کے سلطان احمد شاہ کے دربار تک پہنچا، جس نے ماہمی کی فکری صلاحیت کو تسلیم کیا اور آپ کو اپنے شہر کا قاضی مقرر کیا۔ ایک مذہبی اور عدالتی لیڈر کی حیثیت سے عوامی زندگی میں ان کے کردار نے، انہیں قومی اہمیت کی حامل شخصیت کے طور پر، ان کی اہمیت کو مزید مستحکم کیا۔
مخدومِ ماہمی کی درگاہ: بین المذاہب احترام کی میراث
1431 عیسوی میں ان کی وفات کے بعد، مخدوم علی ماہی کا مقبرہ ایک عظیم روحانی اہمیت کا مرکز بن گیا، جہاں سالانہ ہزاروں عقیدت مند حاضر آتے ہیں۔ ماہم، ممبئی میں آپ کی درگاہ مسلم اور ہندو دونوں برادریوں کے لیے ایک مرکز عقیدت بنی ہوئی ہے، جہاں زائرین اس ولی اللہ سے برکت اور ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ مخدوم ماہمی کی مذہبی رواداری اور انسانیت پرستی کی میراث، خاص طور پر سالانہ عرس کی تقریبات میں نمایاں ہوتی ہے، جس میں عظیم الشان جلوس اور عوامی دعائیں ہوتی ہیں۔
مخدوم ماہمی کے مزار اور ممبئی کی پولیس فورس کے درمیان کا تعلق آپ رحمہ اللہ کی میراث کا ایک منفرد پہلو ہے۔ ہر سال، ممبئی پولیس کا ایک نمائندہ عرس کے دوران ان کی قبر پر "چادر" پیش کرتا ہے۔ یہ روایت ایک مشہور قصے سے جنم لیتی ہے، کہ ایک کانسٹیبل نے مخدوم ماہمی کی ان کے آخری لمحات میں مدد کی، انہیں پانی پلایا، جس کے بدلے میں مخدوم ماہمی نے اسمگلروں سے لڑنے میں اس کانسٹیبل کی روحانی طور پر مدد کی۔
ماہم پولیس سٹیشن، جو ان کے روضے کے قریب ہی واقع ہے، وہاں ایک کمرہ ہے جس میں مخدوم علی ماہمی کے باقیات محفوظ رکھے ہوئے ہیں، جن میں ان کی کرسی، سینڈل اور ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا قرآن مقدس بھی شامل ہے۔ یہ آثار و تبرکات عرس کے دوران عوامی نمائش کے لیے نکالے جاتے ہیں، جس سے مخدومِ ماہمی اور مقامی لوگوں کے درمیان گہرے تعلق کو تقویت ملتی ہے۔ آپ کی میراث شہر کی تاریخ میں اس قدر رچی بسی ہے کہ 2005 میں، مہاراشٹر حکومت نے اس خطے پر آپ کے دیرپا اثرات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے، جے جے فلائی اوور کا نام آپ کے نام پر رکھا، جو ہندوستان کا سب سے طویل وایاڈکٹ ہے۔
مخدوم علی ماہمی کی لازوال میراث
حضرت مخدوم علی ماہمی کی وراثت صدیوں سے موجود ہے۔ علمی تحقیقات، روحانی ترقی اور سماجی بہبود کے لیے ان کے عزم نے برصغیر پاک و ہند کے فکری اور روحانی منظرنامے پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی تفسیر قرآن، ایک صوفی کے طور پر ان کا کردار، اور گجرات اور اس سے ماوراء ان کی بصیرت افروز قیادت، اسلامی فکر اور ہندوستانی معاشرے میں ان کی کثیر جہتی خدمات کی عکاسی کرتی ہے۔
نتیجہ
مخدوم علی ماہمی نہ صرف بین الاقوامی شہرت کے حامل عالم دین تھے، بلکہ روحانیت اور فکری ذہانت کا بھی نمونہ تھے۔ ان کی تفسیر قرآن، ان کے انسانیت پسند نظریات، اور مسلم اور ہندو دونوں برادریوں پر ان کا لازوال اثر، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان کی میراث ہندوستان اور پوری دنیا میں آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔
ایک عظیم مفسر قرآن، قابل احترام صوفی بزرگ، اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حامی کے طور پر مخدوم علی ماہمی کی میراث، فکری، روحانی اور ثقافتی تفریق کو ختم کرتی ہے اور انسانیت پر لازوال اثرات چھوڑتی ہے۔
-----
English Article: Makhdoom Ali Mahimi Shafi'i (1372–1431 A.D.): A Visionary Scholar and Saint of Global Repute
URL: https://newageislam.com/urdu-section/makhdoom-mahimi-shafii-scholar-saint-global/d/134257
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism