مجید انور
22 نومبر، 2013
جولائی 2007ء میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں محصور لال مسجد کے رہنما عبدالعزیز غازی نے برقع پہن کر فرار ہونے کی کوشش کی ۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز جن کی اکثریت مسلمان ہے شناختی مقصد کے لیے چہرے سے نقاب ہٹانے کا مطالبہ کرتے وقت کسی ( ثقافت حساسیت) کا اظہار نہیں کیا اور غازی گرفتار کر لیے گئے ۔ اسی سال کے دوران 21/7 دہشت گرد سیل کے ایک رکن یٰسین عمر نے لندن ٹرانسپورٹ سسٹم کو بم سے اڑانے کی کوشش کی تھی ۔ چند روز بعد بر منگھم میں گرفتار ہونے سے قبل برقع میں برطانوی دارالحکومت سے فرار ہوگیا تھا ۔ 2006 ء میں قتل کامشتبہ مستاف جاما ہیتھر و کے راستے برطانیہ سے برقع میں فرار ہوگیا ۔ تو کیا اس پر واقعی کوئی حیرانگی ہوگی کہ دہشت گردی کا مشتبہ محمد احمد محمد مغربی لندن میں ایک مسجد سے باہر آنے کے بعد برقع میں فرار ہوگیا؟ ایسا کوئی بھی کپڑا جو چہرہ چھپادے اور اس کا شناخت نا ممکن ہوجائے وہ جائز نہیں ۔
بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی چہرے کو چھپادینے والے برقع اور پورے جسم کو ڈھانک لینے والے لباس برقع کو دیکھ کر اشتعال پیدا ہوتا ہے ۔ اسے اس طرح بھی کہاجاسکتا ہے کہ میں برقع پر کلی طور پر پابندی میں یقین نہیں رکھتا ۔ تا ہم اس کے بدلے میں دی جانے والی سہولت یہ ہے کہ ایسے وقت جب معاشرہ میں ہر شخص دوسروں سے ان کی شناخت کی توقع رکھتا ہے ۔ تو نقاب پہننے والی ایک خاتون کو اس سے استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا ۔
وقت آگیا ہے کہ ہم حقیقی سیکورٹی تشویش کا خاتمہ کریں اور جدید برطانیہ میں چہرہ چھپانے کے سنگین سماجی اثرات کا ادراک کریں ۔ یہ نہ صرف مناسب ہے بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بینکوں ، ائر پورٹس ، عدالتوں اور اسکولوں جیسے شناخت کے حساس ماحول والے مقامات پر داخل ہونے والوں سے اپنے چہرے سے برقع ہٹانے کے لیے اصرار کریں ۔ قانون طور پر بات کی جائے تو کسی بھی استثنیٰ کے لیے کوئی بھی بنیاد نہیں ہے ۔ تا ہم افسوسناک حقیقت یہ توقعات ہیں جو اس لیے کی جارہی ہیں کہ ہم ایسا کرنے کے لیے کافی حد تک ضعیف الارا دہ ہوگئے ہیں ۔
مجھے اس کی وضاحت کرنے دیں ۔ یہ میرا فرض ہے کہ ایک ایسی پالیسی اختیار کروں کہ پبلک مقامات پر برقع پہننے کی پابندی ہو ۔ یہاں میرا امتحان ہے ۔ جہاں پورے سر اور گردن کو چھپالینے والا ایک اونی ٹوپا ، موٹر سائیکل ہیلمٹ یا چہرے کا ماسک غیر موزوں نظر آتا ہو ، وہاں کیا نقاب ہونا چاہیے؟یہ بہت سادہ حقیقت ہے ۔ ٹیچر ز پہلے ہی اسکول کے گیٹ پر بچوں کو بلا شناخت بالغان کے حوالے نہ کرنے کے پابند ہیں ۔ طالب علموں سے پہلے ہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ کالجوں اور یونیورسٹیز میں داخل ہوتے وقت اپنا شناختی کارڈ دکھائیں ۔ درحقیقت امتحان گاہ میں بیٹھنے والی طالبات کے لیےبھی اپنا فوٹو شناختی کارڈ تمام وقت ڈیکس پر نمایاں کرکے رکھنے کی توقع ہوتی ہے ۔
یہ پہلے سے ایک روایت ہے کہ عدالت میں جب شواہد دیے جاتے ہیں تب جج اور جیوری اس شخص کی شناخت اور چہرے کے تاثرات کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ موٹر سائیکل سواروں سے پہلے ہی توقع ہوتی ہے کہ وہ کسی بینک میں داخل ہوتے وقت اپنا ہیلمٹ اتار لیں۔ ( میری تنظیم کیولیام) کی جانب سے انتہا پسند ی کے خاتمے کے کام پر صومالی دہشت گرد گروپ الشباب کی حالیہ موت کی دھمکیوں کی روشنی میں برقع سے متعلق تمام تر تشویش میرے لیے ذاتی حیثیت سے اختیار کر گئی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ رکن پارلیمنٹ سٹیفن ٹمز کو ایک مسلم انتہا پسند خاتون نے ان کی اپنی سرجری میں چاقو گھونپ دیا ۔ ایک مجوزہ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ مجھے بھی احتیاط کی ضرورت ہوگی ۔
اسی لیے میرے لیے یہ فطری تقاضا ہے کہ اگر میں منتخب ہوجاؤں تو اس امر پر اصرار کروں کہ میری سرجری یا دفتر آنےوالے تمام افراد اپنی شناخت کی تصدیق کرائیں جس کامطلب یہ ہے کہ اپنا چہرہ دکھائیں ۔ ایک نان ۔ ڈیووٹ مسلمان کی حیثیت سےجو کہ اسلامی تعلیمات سے کما حقہ واقف ہو،میں انتہا کی قدامت پسندانہ نقطہ نظر سے آگاہ ہوں کہ مسلم خواتین کو لازمی طور پر اپنے چہرے کو چھپانا چاہتے ۔ حتیٰ کہ اپنے از منہ وسطیٰ کے فریم ورک میں بھی اس کی پابندی کریں، جب وہ گھر سے باہر ہوں ۔ اس لیے یہ دعویٰ غیر مناسب ہوگا کہ نقاب انڈور مثلاً اسکول یا آفس کے ماحول میں بھی ضروری ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام آفاقی طور پر خواتین کو شناخت کے لیے کسی تفریق کے بغیر اپنے چہرے دکھانے کی اجازت دیتا ہے ۔ آخر میں مذہبی لباس پر از منہ وسطیٰ کے مسلم قوانین کسی بھی صورت میں بچوں پر لاگو نہیں ہوتے ۔ اس لیے ایسے اسکول جو بچوں کے ڈریس کوڈ کے طور پر دو پٹہ، چہرہ پر برقع اور برقع کی پابندی کراتے ہیں وہ پستی کی طرف لے جانے کے مجرم ہیں ۔ جس کا اختتام بنیاد پرستوں کی فتح کی صورت ہوگا ۔ تاہم کامن سینس او رمذہبی اتفاق رائے کو ایسا نظر آتا ہے کہ حالیہ برسوں میں کھڑکی سے باہر پھینک دیا گیا ہے۔ کیونکہ بہت سی نوجوان مسلم خواتین اور ان کی انتہائی بائیں بازوں کے حلیف مشین کے خلاف ضبط کی شکل میں برقع کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ۔
بہت سوں کے لیے برقع ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ علامت بن گیا ہے جس کے اطراف کوئی تنازع کاموقع حال کرنے کے لیے چکر لگا سکتا ہے ۔ اسلام فوبیا کے توقع سے زیادہ الزامات جوکہ عام طور پر چہر چھپانے سے متعلقہ حقیقی خدشات کے خاتمے کے لیے قابل فہم اقدامات کی کوشش کے لیے وہ بحث کاموضوع بن جاتے ہیں ۔ بر منگھم میٹرو پولیٹن کالج کی جانب سے کیمپش پر طالب علموں کو اپنے چہرے ڈھانپنے کی پابندی کا منصوبہ واپس لیا جانا اس کیس کا نکتہ ہے ۔ کالج کی جانب سے چہر ہ کو ڈھانپنے پر پابندی کو نہ صرف مسلمانوں بلکہ بہت سےانتہائی بائیں بازو کے طالب علموں نے بھی چیلنج کیا تھا ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک مرد کی حیثیت سے حتیٰ کہ ایک مسلمان مرد کی حیثیت سے مجھے خواتین کے مذہبی لباس پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ تاہم میں ( تقویٰ) کی یقینی سطح پر چلنے کے لیے کسی سے بھی کوئی لیکچر نہیں سنو ں گا جسے میری والدہ ، میری بہن اور میری خواتین دوستوں سے دیکھا جاسکے گا کہ وہ کس طرح غیر مذہبی طور پر لباس پہنتی ہیں ۔
اس کے بر خلاف میں اپنے حق کی مشن آن ائر اور عوامی سطح پر بحث میں لے جاؤں گا اور ا س امر کی نشاندہی کروں گا کہ یہ وہ اشخاص ، انتہائی خطرناک افراد ، درحقیقت برقع میں خواتین کی حیثیت سے ملبوس ہو کر ہماری سیکورٹی سروس کو چوٹ کون لگا رہا ہے ۔ یہ مشکل ہے کہ ہم برقع پہننے والوں کی بجائے کسی بھی شخص کے خلاف امتیازی سلوک کی اجازت دے دیں ۔ ہاں خواتین اس وقت اپنے چہرے ڈھانپنے میں آزاد ہیں ۔جب وہ سڑک پر جارہی ہوں ۔ تا ہم ہمارے اسکولوں ، ہسپتالوں ، ائر پورٹس ، بینکوں اور سول اداروں میں ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ نہ ہی یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ ہم خواتین سے یہ توقع رکھیں کہ وہ اپنا چہرہ نمایاں کردیں، تا کہ ہم سب ان کے چہرے سے ان کے نام کی شناخت کر سکیں ۔
22 نومبر، 2013 بشکریہ : روز نامہ جدید میل، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/serious-social-effects-burqa-new/d/34552